مری لحد پہ نہ رکھا کسی نے لا کے چراغ - میر مونس

حسان خان

لائبریرین
مری لحد پہ نہ رکھا کسی نے لا کے چراغ
جگر کے داغ نے کی روشنی جلا کے چراغ

کچھ اُن کی قدر نہ کی تھے جو مرتضیٰ کے چراغ
جلائے شامیوں نے سب کا خوں بہا کے چراغ

سحر ہے کوچ کی ہاں اے مسافرو ہشیار
کہ جھلملانے لگے اب تو اس سرا کے چراغ

اندھیری قبر میں گذرے گی اُن پہ کیا یا رب
جو رات کو کبھی سوتے نہیں بجھا کے چراغ

بجھے گا یہ دلِ روشن ہماری آہوں سے
کبھی نہ ٹھہرے گا جھونکوں میں اس ہوا کے چراغ

سیاہ بخت ہوں تربت پہ روشنی کیا ہو
ہوا بھی آئی تو یاں سے گئی بجھا کے چراغ

رہے گا تا بہ ابد نورِ چاردہ معصوم
محال ہے کہ بجھیں خانۂ خدا کے چراغ

فروغ دیکھ کے میرے جگر کے داغوں کا
فلک پہ رہ گئے تاروں کے جھلملا کے چراغ

اُسی طرح سے ہے تاریک و تار خانۂ گور
حصول کیا جو رکھا قبر پہ جلا کے چراغ

ہمارے سینے میں کثرت ہے ایسی داغوں کی
کہ جس طرح سے جلیں گھر میں بادشا کے چراغ

ہماری آہوں نے افسردہ کر دیا دل کو
ہزار حیف بجھا ہاتھ سے ہوا کے چراغ

زمانہ ہو گیا تاریک روزِ عاشورا
خموش رن میں ہوئے قبرِ مرتضیٰ کے چراغ

وہ تیرہ بخت ہوں ہرگز نہ روشنی ہو گی
اگر جلائیں مری خاک سے بنا کے چراغ

اخیرِ عمر ہے کیونکر نہ خم ہوں پیری میں
جو کم ہو تیل تو رکھ دیتے ہیں جھکا کے چراغ

ضیائے داغِ غمِ شاہِ دیں جو دکھلاؤں
بجھا دوں مہرِ مبیں کا جلا جلا کے چراغ

ضیا میں کم ہے وہ قندیلِ در سے حضرت کے
خجل سپہر ہے خورشید کا جلا کے چراغ

(قطعہ)
حسین کہتے تھے ہم لوگ نورِ خالق ہیں
نبی و آلِ نبی ہیں رہِ ہُدا کے چراغ

جہاں میں کفر و ضلالت سے اک اندھیرا تھا
ہمیں نے دین کے روشن کیے ہیں آ کے چراغ

لحد تو کیا ہے کریں گے بہشت کو روشن
کہ ہم وہ رکھتے ہیں شبیر کی ولا کے چراغ

پکارتی ہے لحد روز و شب کہ اے غافل
مکانِ تار ہوں ساتھ اپنے لا جلا کے چراغ

پس از فنا بھی بجھیں گے نہ یہ قیامت تک
وہ ہیں چراغِ یداللہ کی ولا کے چراغ

بجھا دیا انہیں اعدا نے واہ رے اندھیر
جو تھے جہان میں پیغمبرِ خدا کے چراغ

تمام ہو گئے ہم یوں تڑپ کے پیری میں
سحر کو بجھتا ہے جس طرح جھلملا کے چراغ

ہماری قبر سے روشن ہے بے کسی مونس
لحد پہ بھی نہ کسی نے رکھا جلا کے چراغ

قضا سے جان کہاں تک بچائیں اے مونس
ٹھہر سکا ہے کہیں سامنے ہوا کے چراغ
(میر مونس)
 
Top