فرحان محمد خان
محفلین
مری لو لگی ہے تجھ سے غمِ زندگی مٹا دے
ترا نام ہے مسیحا مرے درد کی دوا دے
مری پیاس بڑھ رہی ہے مرا دل سلگ رہا ہے
جو نہیں ہے جام ساقی تو نگاہ سے پلا دے
مرا مدعا ہے اتنا تو اگر کرے گوارہ
میں فقیرِ آستاں ہوں مجھے بندگی سکھا دے
مجھے شوقِ بندگی میں یہی ایک آرزو ہے
ترا نقشِ پا جہاں ہو مرا سر وہیں جھکا دے
مجھے دیکھ کر بریشاں کیا کہے گا یہ زمانہ
میں بھٹک رہا ہوں در در مجھے آ کے آسرا دے
ترا جام جامِ کوثر ترا میکدہ ہے جنت
مرے حال پہ کرم کر مری تشنگی بجھا دے
جسے آپ چاہتے تھے وہ فناؔ ہے اب کفن میں
کوئی جا کے آج ان کو ذرا یہ خبر سنا دے
ترا نام ہے مسیحا مرے درد کی دوا دے
مری پیاس بڑھ رہی ہے مرا دل سلگ رہا ہے
جو نہیں ہے جام ساقی تو نگاہ سے پلا دے
مرا مدعا ہے اتنا تو اگر کرے گوارہ
میں فقیرِ آستاں ہوں مجھے بندگی سکھا دے
مجھے شوقِ بندگی میں یہی ایک آرزو ہے
ترا نقشِ پا جہاں ہو مرا سر وہیں جھکا دے
مجھے دیکھ کر بریشاں کیا کہے گا یہ زمانہ
میں بھٹک رہا ہوں در در مجھے آ کے آسرا دے
ترا جام جامِ کوثر ترا میکدہ ہے جنت
مرے حال پہ کرم کر مری تشنگی بجھا دے
جسے آپ چاہتے تھے وہ فناؔ ہے اب کفن میں
کوئی جا کے آج ان کو ذرا یہ خبر سنا دے
فناؔ بلند شہری