مری کہانی کے باب سارے- ایک پرانی غزل تصحیح کے بعد

یہ غزل نوے کی دہائی میں لکھی تھی۔ محفل میں شمولیت کے ابتدائی دنوں میں اصلاح سخن میں پیش کی تو کئی اغلاط سامنے آئیں۔ اب ان کی درستی کرکے یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
محترم الف عین اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر

رفاقتوں کے عذاب سارے ،گئی رتوں کے حساب سارے
تمہارے ہی نام منتسب ہیں مری کہانی کے باب سارے

بجز تمہارے جچا نہ کوئی، تمہی پہ جا کے نگاہ ٹھہری
تمہارے در پر لٹا دیئے ہیں، اداس آنکھوں نے خواب سارے

نہ کچھ بھی کہنا، اداس رہنا، نظر نظر میں کلام کرنا
اسی خموشی سے مل رہے ہیں، سوال سارے، جواب سارے

چھٹا نہیں اس برس بھی موسم مرے نگر سے خزاؤں والا
کِھلے ہیں بے رنگ اس برس بھی مرے چمن کے گلاب سارے

شکؔیل کیسے یہ دل کی بستی ہوئی ہے ویران بستے بستے
مرے نگر میں بدل گئے کیوں محبتوں کے نصاب سارے

 
Top