حسیب احمد حسیب
محفلین
خیام قادری مرحوم کا غیر مطبوعہ مضمون جو طنز و مزاح کی اعلی مثال ہے
اکبر الہ بادی نے کہا تھا
ہوے اسقدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جاکر
ہسپتال اور ہوٹلز سے جب تہذیب کا یہ رشتہ دریافت ہوا تھا ان وقتوں میں صرف گورا صاحب یا اسکا پروردہ کالا صاحب ہی ہوٹل میں زندگی گزارنے کی استطاعت یا استقامت رکھتے تھے ہما شما غریب غرباء کا تو یہ حال تھا کہ سیکنڈوں میں حکیم صاحب کو نبض دکھائی منٹوں میں مرض کی تشخیص ہوئی چند گھنٹے معجون و مرکبات چاٹے اور رات سے پہلے پہلے گھر ہی سے جنت مکانی ہو گئے -
عام لوگوں کے ہسپتال سے دور رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی امراض قلب ، کینسر شوگر اور وی ڈی
بڑے لوگوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں اور تھیں بھی یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے کراچی میں عوام کیلئے امراض قلب کا پہلا مرکز قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تو لوگوں نے اسے دیوانہ کہا کہ یہ شخص غریبوں کیلئے امیروں کی بیماری کا ہسپتال بنانا چاہتا ہے مگر وہ مرد دانا اپنی باطنی آنکھ سے آنے والے کرنسی نوٹوں کے سیلاب اور اسکے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے قلب کے امراض دیکھ رہا تھا سو اس نے یہ کام کر گزرنا ہی مناسب سمجھا اور اچھا ہی کیا کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ہسپتال کالجز اور مفاد عامہ کے معمولی معمولی کاموں پر ضایع کرے وہ تو بہبود آبادی کیلئے بڑے بڑے فوجی سودے کرنے جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ڈیم بنانے اور سرمایہ داروں جاگیرداروں اراکین اسمبلی اور منظور نظر افراد کو بڑے بڑے قرضے دینے اور ان قرضوں کی وصولی کیلئے مزید قرضے دینے میں رات دن جتی ہوئی ہے وزراء کو سر کھجانے کی فرصت نہیں شاید اسی لیے یہ لوگ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اطمنان سے بیٹھ کر کبھی اپنا اور کبھی دوسروں کا سر کھجاتے ہیں-
دیکھا جائے تو حکومت بہت نیکی کا کام کر رہی ہے کیونکہ الله مقروض کے تمام گناہ معاف فرما دیگا سوائے قرض کے سو ان بیچارے مقروضوں کی اس دنیا میں ہی داد رسی نہایت ضروری ہے اور بیمار کا کیا وہ تو اپنی بیماری کے سبب ویسے ہی تمام گناہوں سے پاک ہو گیا ہے اب اسے اس دنیا میں رہنے کی کیا ضرورت بلکہ ایسے شخص کی دنیا کو بھی کوئی ضرورت نہیں پھر اس طرح ہسپتال میں علاج کروانے سے جان سے زیادہ مال کے زیاں کا بھی اندیشہ ہے مطلب کہ جان مریض کی اور مال لواحقین کا کیونکہ انکو وراثت میں ملنے والا ترکہ تو راتوں رات ہسپتال کی انتظامیہ کے بنک اکاونٹ میں منتقل ہو جاتا ہے اور لواحقین کو مرحوم کا سوئم دسواں اور چہلم نہایت دھوم دھام سے قرض لیکر کرنا پڑتا ہے تاکہ مرحوم کی امارت کا جو سکہ مرحوم کی زندگی میں قائم تھا مرنے کے بعد بھی قائم رہے البتہ ہمیں ضمنی فائدہ یہ نظر آیا ہے کہ جب ورثا کو وراثت میں کچھ ملے گا ہی نہیں تو آپس میں اختلاف بھی نہیں ہونگے اور نہ ہی نوبت قطع تعلق تک پہنچے گی کہ یہ گناہ کبیرہ ہے -
بھلے وقتوں میں گھروں میں عمر عزیز کے علاوہ بھی ایک چیز کھاتے پیتے گھرانوں میں کورے مٹکے پر سرخ کپڑا ڈال کر بینڈ باجے کے ساتھ اور کم آمدنی والے گھروں میں ٹین کے اونچے صندوق پر مبارک سلامت کے شور میں جراح کی وساطت سے کٹ جاتی تھی اب وہ بھی ہسپتال میں جاکر کٹتی ہے اور بسا اوقات ہسپتال سے کٹ کر ہی گھر آتی ہے-
گوروں کے ہسپتال آج بھی اٹھارویں صدی کے لگتے ہیں ہسپتال میں صرف مریضوں اور ان کے معالجین کو ہی داخلے کی اجازت ہے ہسپتال پر مکمل خاموشی طاری ہے حتی کہ پرندوں کی آوازوں کے خوف سے اونچے اونچے درخت لگانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے ہسپتال کے کاریڈور کسی آسیب زدہ ویران حویلی کے برآمدے لگتے ہیں عملے کے افراد بھی اتنی خاموشی سے گزر جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ انسان تھا کہ کوئی روح کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ بہت ساری روحیں جو کہ شاید اسی ہسپتال کے ڈاکٹرز کی مدد سے اپنے اپنے اجسام سے آزاد ہوئی تھیں جمع ہو گئی ہیں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہی ہیں لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ زندگی کی قید سے تو آزاد ہو گئیں لیکن ابھی تک ہسپتال کے سحر میں گرفتار ہیں
مغرب میں مریض کو ہسپتال میں داخل کروا دینے کے بعد لواحقین معاملات ڈاکٹر پر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر خدا پر مریضوں سے ملنے کے اوقات میں پھولوں کا کاروبار کرنے والی فرم کے نمائندے مریض کو گلدستے اور لواحقین کی نیک خواہشات پر مبنی کارڈز پہنچا دیتے ہیں ..
گل پاشی کے دو وقفوں کے دوران آنجہانی ہونے والے مریضوں کے پھول اسکی قبر پر رکھ دئیے جاتے ہیں ایک تبدیلی کے ساتھ کہ اب کہ اب گلدستے کے ساتھ نتھی کارڈ پر نیک خواہشات کی بجائے چند دعا یہ کلمات لکھے ہوتے ہیں .....
ہم نہ تو اسطرح علاج کرانے والے ہیں اور نہ ہی اتنی خاموشی سے مرنے والے ہیں یہاں تو مرنے والے کے بیٹوں اور پوتوں کو بھی اس چارپائی کے گرد جگہ نہیں ملتی کیونکہ وہاں ان رشتے داروں کا قبضہ ہوتا ہے جن سے رخصت ہونے والے کے تمام عمر جھگڑے اور تنازعات چلتے رہے بیٹیاں پوتیاں دور ہی سے دم نکلنے کی منتظر رہتی ہیں کہ اپنے حلق کی پوری قوت سے اپنے غم کا اظہار کر سکیں ......
ہمارے یہاں تو کوئی ہسپتال کے نزدیک سے بھی گزر جائے تو یقین آ جاتا ہے کہ یہ ہسپتال ہی ہے ہسپتال کی چار دیواری کے ساتھ فٹ پاتھ پر دور دراز سے آے ہوے مریضوں کے تیمار داروں کا قبضہ ہوتا ہے رنگین دریاں ہاتھ کی بنی ہوئی نفیس چٹا ئیاں کروشیے کے کام سے مزین تکیے رنگین کپڑوں کو جوڑ کر انتہائی مہارت سے تیار کی گئی رلیاں بچھی ہوتی ہیں جنپر شوخ رنگوں کے میلے کپڑے پہنے شہروں کی خود غرض دنیا سے دور رہنے والے لوگ ہاتھ سے شیشے کے کام والے دستی پنکھے جھلتے ہوے اپنے اپنے مریضوں کی ہسپتال سے واپسی کے منتظر ہیں .....
ہسپتال کا مین گیٹ کراس کر کے اگر خوش قسمتی سے لان ہے تو اسمیں اتنے مچھر نہیں ہونگے جتنے لوگ علاحدہ علاحدہ ٹولیوں میں بیٹھے ہونگے سوائے مریض کے دنیا کا ہر موضوع زیر بحث ہوگا آپس کے تنازعات طے ہو رہے ہیں نئے رشتوں پر غور ہو رہا ہے خاندان میں آئندہ ماہ آنے والے بچے کا نام منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا اس دوران ٹین کی چادروں چٹا یوں اور بانس کی مدد سے بنے ہوے قریبی ہوٹل سے چائے ٹھنڈے مشروبات اور گرم گرم تازہ تلے ہوے سموسے بھی آ رہے ہونگے تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹے درخت پر کسی شیر خوار کے پوتڑے بھی سوکھ رہے ہونگے ......
مریضوں سے ملاقات کے اوقات میں بجائے پھولوں کے پھلوں سے لدے ملاقاتی چلے آ رہے ہیں مریض کا بستر پھلوں کی دکان بن گیا ہے تیمار دار پریشان ہیں انہیں کہاں رکھیں مریض الجھن میں کہ اتنے ڈھیر سارے پھل میں کیسے کھاؤںگا اور لانے والا الگ شرمندہ کہ وہ لے کر ہی کیوں آیا ........
مریضوں سے ملاقات کا وقت ختم ہونے تک ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ایک جاتا نہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے ملاقات کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ملاقاتی جانے کا نام نہیں لیتے چوکیدار بار بار آکر تنبیہ کرتا ہے کہ ملاقات کا وقت ختم ہوے بہت دیر ہو گئی ہے خدا خدا کر کے عیادت کیلئے آے ہوے لوگ رخصت ہوے لیکن اب بھی کافی تعداد میں لوگ وارڈ کے باہر برآمدوں میں نظر آ رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو جو باہر لان میں رہنا پسند نہیں کرتے لحاظہ انہوں نے عملے کے افراد کو کچھ دے دلا کر برآمدوں میں رکنے کا انتظام کر لیا ہے ........
آپ ہسپتال کے ایک ایک کمرے میں جھانکتے چلے جائیں ہر کمرے میں ایک نئی دنیا آپ کی منتظر ہوگی .....
اس کمرے میں پنجاب سے آئے ہوے ایک مریض کے تیماردار مقیم ہیں کمرے سے تازہ تازہ مرغ روسٹ اور گرم گرم تندوری نان کی خوشبو پنجاب کے مخصوص جلترن لہجے کی آوازوں کے ساتھ آ رہی ہے ٹھنڈے مشروبات کے کریٹ کینٹین والا خود ہی پہنچا دیتا ہے صبح یہی کمرہ پائے کی خوشبو سے مہک جاتا ہے ........
ایک کمرے سے (TV) کی آوازیں آ رہی ہیں ساتھ والے کمرے میں ایک عورت اور ایک مرد براجمان ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ عورت بیمار ہے یا مرد بیمار ہے لیکن اگر یہ لوگ یہاں موجود ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی بیمار ہوگا .......
یہ پریویٹ کمروں کا علاقہ تھا اگر آپ جنرل وارڈ میں چلے جائیں تو شک ہونے لگے گا کہ یہ کسی ہسپتال کا جنرل وارڈ ہے یا پھر کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں لگایا جانے والا میڈیکل ریلیف کیمپ ، وارڈ کے ایک ایک بیڈ پر مریض موجود ہیں ہسپتال کے تمام اکسٹرا بیڈز برآمدوں اور کونے کھانچوں میں لگا دیے گئے ہیں
حتی کہ راہداریوں میں فرش پر وہ مریض بھی لیٹے ہوتے ہیں جنکو مرض کی شدت کی وجہ سے داخل تو کر لیا گیا ہے مگر آئندہ دو تین ہفتوں میں بیڈ ملنے کا امکان نہیں ہے .........
شہر میں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے تو صورت حال اور بھی ناگفتہ بہ ہو جاتی ہے ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض لیٹے ہیں علاج کے نام پر تسلی کیلئے ہر مریض کو گلوکوز کی بوتل لگا دی جاتی ہے بوتل سے جسم تک محلول کی ترسیل پر معمور نلکیاں آپس میں الجھی ہوئی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ نرس ابھی کس بوتل کی رفتار تیز اور کس کی کم کر کے گئی ہے اکثر مریض شک کرنے لگتے ہیں کہ انکی بوتل سے آب حیات بیڈ پر موجود کسی اور شخص کے جسم میں منتقل ہورہاہے .........
ایسے میں آپ اپنے مریض کی عیادت کیلئے چلے جائیں جس کا بیڈ نمبر آپ کو معلوم نہ ہو تو اس کو تلاش کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہوگا اول تو مریضوں کے غول میں نرس کو تلاش کرنا اور اگر خوش نصیبی سے نرس مل جائے اور مزید خوش نصیبی سے وہ آپ کی بات سننے پر راضی بھی ہو جائے تو جواب ملے گا دیکھ لیں یہیں کہیں ہوگا آپ کا مریض بھی .............
پریویٹ ہسپتالوں میں ایسی صورت حال سے بچنے کیلئے عام طور سے نوٹس بورڈ نما چیز لگا دی جاتی ہے جسپر مریضوں کے نام بیڈ نمبر کے ساتھ لکھ دیے جاتے ہیں تاکہ عیادت کیلئے آنے والوں کو تلاش کرنے میں زحمت نہ ہو مگر ہمیں اس کا بھی کوئی اچھا تجربہ نہ ہوا ......
ہوا کچھ یوں کہ ہم اپنے ایک دوست کی عیادت کیلئے ایک پریویٹ ہسپتال پہنچے نوٹس بورڈ پر اپنے دوست کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن ساتویں نمبر پر پہنچ کر ہم ٹھٹکے یہاں جو محترمہ زیر علاج تھیں انکا نام انگریزی میں مسنر ایشیاء لکھا ہوا تھا ( Mrs. Asia) ہم بہت حیران ہوے مس ایشیاء تو سنا تھا مسٹر ایشیاء بھی ہوتے ہیں مگر یہ کیا ماجرا ہے چونکہ ہماری انگریزی اچھی نہیں ہے اسلئے ہجے کرکے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہ مسنر آسیہ ہوگا اگر کوئی گورا یہ نوٹس بورڈ پڑھ لیتا تو یقینا غش کھا کر گر پڑتا کہ دنیا کی دو تہائی آبادی ایشیاء میں ہے اور ان سب کی مسنر یہاں مقیم ہیں ......
گائنی ورڈ کا الگ سماں ہے لیبر روم کے سامنے بہت ساری خواتین اور مرد بھی فکر مند چہروں کے ساتھ کھڑے یا بیٹھے ہیں نظریں بار بار لیبر روم کے دروازے پر جاکر مایوس لوٹ آتی ہیں لیکن جیسے ہی نومولود کے تولد ہونے کی خبر ملتی ہے موبائل فونز باہر آ جاتے ہیں ڈائل پر انگلیاں تیزی سے چلنا شروع ہو جاتی ہیں منٹوں میں یہ خبر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور نتیجے میں طرح طرح کی رنگ ٹونز بجنی شروع ہو جاتی ہیں .....
مبارک سلامت کا شور ہے کہ تھمنے می ہی نہیں آ رہا گلے مل مل کر مبارک باد دی اور وصولی جا رہی ہے
کوئی بھاگم بھاگ جاکر مٹھائی کے ڈبے لے آیا ہے اور پورے وارڈ میں اصلی گھی کی بنی مٹھائی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیل گئی ہے ......
بعض خاندانوں میں نومولود کی ولادت پر بے انتہا خوشی کا اظہار دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید خاندان کی پچھلی سات پشتوں میں کوئی ولادت نہیں ہوئی کبھی کبھی ایسے موقع پر خوشی سے زیادہ حیرت بھی نظر آئ....
کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے سرجیکل وارڈ میں ہمیں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے بطور تیماردار کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا سرجیکل وارڈ کی عمارت (U) شیپ میں تعمیر کی گئی تھی جسکے اندرونی تین اطراف میں چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنا دی گئی تھیں جن میں سر و سمن کی بجائے خود رو جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں درمیان کے پورے علاقے پر پختہ فرش بچھا دیا گیا تھا جسپر رات کو تیمار دار سوتے جاگتے تھے شام ہوتے ہی ہسپتال کے اندر اور شاید باہر سے بھی نوجوان جوڑے آکر سر و کمر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور رات دیر تک بیٹھے رہتے رش اتنا ہوتا کہ بہت سے جوڑے کھڑے کھڑے وقت گزار کر چلے جاتے
کئی جوڑوں کو ہم نے بھی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مایوس لوٹتے دیکھا ........
" ہمیں اس بات پر یقین ہو گیا کہ ہمارے ہسپتال چھوٹے اور ہماری ضرورت زیادہ ہے "
اسی پختہ فرش پر ہم نے بھی کئی راتیں گزاریں اور ہسپتال کے ایک نئے مصرف سے آگاہ ہوے ....
قصہ کچھ یوں ہے ......
پہلی ہی رات دو نو جوانوں سے دوستی ہو گئی ہم نے انکے اور انہوں نے ہمارے مریض کا حال احوال پوچھا صبح ہوتے ہی دونوں بوریا بستر سمیٹ ایسے رفو چکر ہوے کہ رات کی خبر لائے دو چار روز یہی معمول دیکھا پھر مزید دوستی بڑھنے اور اعتماد ہو جانے پر راز یوں کھلا ہے دونوں دوسرے شہر سے مزدوری کیلئے آئے تھے رہائش مہنگی ہونے کی وجہ سے رات یہاں گزارتے کھانا پینا ہوٹل سے اور ہنگامی حالات یعنی آندھی طوفان اور بارش کیلئے ہسپتال کے احاطے میں موجود مسجد کے پیش امام سے دوستی گانٹھ رکھی تھی اور مسجد میں سونے کی جگہ مل جاتی تھی اس دن سے ہم انسانی ذہن کی جودت طبع کے قائل ہو گئے........................
اس پختہ فرش پر ایک رات ہم پر بڑی کڑی گزری اور ہم پر ہی کیا وارڈ میں موجود تمام مریضوں اور انکے تیمار داروں پر بھی ہم حسب معمول عشاء کے بعد پختہ فرش پر آ گئے ابھی اطمنان سے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وارڈ سے آہ و بکا کا شور بلند ہوا فرش پر موجود تمام چہرے ملول ہو گئے کوئی مریض چل بسا تھا ........
یہ ہسپتال تھا یہاں ایسے واقعات معمول کا حصہ تھے ہم میت و لواحقین کو رخصت کر کے سونے کی کوشش کر رہے تھے کہ یکایک وارڈ سے دوبارہ شور بلند ہوا ایک اور بیڈ خالی ہو گیا تھا اور پھر اس رات تواتر کے ساتھ وقفے وقفے سے بیڈز خالی ہوتے رہے معلوم ہوتا تھا کہ آج عزرا ئیل کو اسی وارڈ پر معمور کر دیا گیا ہے .........
ہم ساری رات لرزتے رہے کہ نہ جانے اب کس کی باری ہے اندر ہماری اہلیہ تھیں اور باہر ہم ہمیں دونوں ہی صورتوں میں نقصان تھا مگر جب اس طویل رات کی صبح ہوئی تو ہمارا یقین اور پختہ ہو گیا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر آئے گی اسکیلئے کسی ہسپتال کے بیڈ یا دالان میں موجودگی شرط نہیں .....
خیام قادری (مرحوم )