مرے دل سے کوئی پوچھے کہ تم ہو اور کیا تم ہو

سیما علی

لائبریرین

مرے دل سے کوئی پوچھے کہ تم ہو اور کیا تم ہو
نصیب دشمناں ہو دشمنوں کا مدعا تم ہو

نہاں ہم سے ہی رہتے ہو وگرنہ جا بجا تم ہو
گلوں میں رنگ آرا غنچوں میں نگہت فزا تم ہو

نہیں جب واسطہ ہم سے تو پھر اغماض کیسے ہیں
کرو اغماض بھی اون سے کہ جن کی آشنا تم ہو

رہا دور جہاں قایم کبھی ہو جائے گا ملنا
ہمارے دم میں دم باقی ہے اور نام خدا تم ہو

گرے جاتے ہو نظروں سے مرے جی سے اترتے ہو
ہر ایک چشم تماشا کا تماشا ہو گیا تم ہو

وفا پر ناز کرتے ہو دکھاؤ کچھ وفا کر کے
اسی بیگانہ واری پر کہیں ہم با وفا تم ہو

ملو گے ہم سے تم آکر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
کرو گے اوس کا دل ٹھنڈا کہ جس کے مبتلا تم ہو

نہ دیتے دل کبھی تم کو اگر پہلے سمجھ لیتے
کہ ایسے بے وفا ہو اور غرض کے آشنا تم ہو

ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر
تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو

نہ نکلے کام جب تم سے تمہاری پھر خوشامد کیوں
جہاں میں اور بھی شاہد ہیں کیا ایک دل ربا تم ہو

صنم بھی تم نہیں بت بھی نہیں جو تم کو ہم پوجیں
تمہارے ناز اٹھائیں کیا خدائی میں خدا تم ہو

تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے
تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو

جب آنکھیں چار ہوتی ہیں کدورت جاتی رہتی ہے
نہیں ہوتے مگر تم صاف وہ کافر ادا تم ہو

زمانہ کو بدلنے دو خدا وہ دن بھی کر دے گا
تماشا دیکھ لینا ہم سے کرتے التجا تم ہو

یہ سب اڑ جائے گی نخوت گلے سے مے اترنے دو
بنا دیں گے تمہیں ہم بھی کہ کیا تھے کیا سے کیا تم ہو

غزل یہ دور جائے گی لکھو اس رنگ سے راقمؔ
کہ ہر انصاف پرور کی زباں پر مرحبا تم ہو
 
Top