ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
( پاکستان سے واپسی پر ۔ ۔ ۔ ۔ فروری ۲۰۰۴ )
مرے شہر ِ ذرّہ نواز کا وہی سرپھرا سا مزاج ہے
کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے
کہیں بے طلب سی نوازشیں ، کہیں بے حساب محاسبے
کبھی محسنوں پہ ملامتیں ، کبھی غاصبوں کو خراج ہے
وہی بے اصول مباحثے ، وہی بے جواز مناقشے
وہی حال زار ہے ہر طرف ، جو روش تھی کل وہی آج ہے
وہی اہلِ حکم کی سازشیں ، وہی نفرتوں کی سیاستیں
نہیں بدلا طرزِ منافقت ، وہی مصلحت کا رواج ہے
کبھی چہرہ پوش ندامتیں ، کبھی سینہ زور بغاوتیں
اک اترتے چڑھتے فشارِ دم کے اثر میں سارا سماج ہے
کوئی درد ہو کوئی زخم ہو ، وہی میٹھے زہر کی گولیاں
کوئی عارضہ ہو کہ سانحہ ، بس اک عارضی سا علاج ہے
سر ِشہر ِ یاراں گئے تھے ہم کہ چُکا کرآئیں گے واجبات
پہ بڑھا کے آگئےقرضِ جاں جو محبتوں کابیاج ہے
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۴
مرے شہر ِ ذرّہ نواز کا وہی سرپھرا سا مزاج ہے
کبھی زیبِ سر ہے غبارِ رہ ، کبھی زیرِ پا کوئی تاج ہے
کہیں بے طلب سی نوازشیں ، کہیں بے حساب محاسبے
کبھی محسنوں پہ ملامتیں ، کبھی غاصبوں کو خراج ہے
وہی بے اصول مباحثے ، وہی بے جواز مناقشے
وہی حال زار ہے ہر طرف ، جو روش تھی کل وہی آج ہے
وہی اہلِ حکم کی سازشیں ، وہی نفرتوں کی سیاستیں
نہیں بدلا طرزِ منافقت ، وہی مصلحت کا رواج ہے
کبھی چہرہ پوش ندامتیں ، کبھی سینہ زور بغاوتیں
اک اترتے چڑھتے فشارِ دم کے اثر میں سارا سماج ہے
کوئی درد ہو کوئی زخم ہو ، وہی میٹھے زہر کی گولیاں
کوئی عارضہ ہو کہ سانحہ ، بس اک عارضی سا علاج ہے
سر ِشہر ِ یاراں گئے تھے ہم کہ چُکا کرآئیں گے واجبات
پہ بڑھا کے آگئےقرضِ جاں جو محبتوں کابیاج ہے
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۴