محمد تابش صدیقی
منتظم
مرے واسطے وہ عدم ہوئے جو صفِ عدو سے نکل گئے
مری محفلوں سے نکل گئے مری گفتگو سے نکل گئے
وہ جو ایک پانی کی بوند تھی ترے بحرِ زہر میں ضم ہوئی
وہ جو قطرہ ہائے شراب تھے تری آب جو سے نکل گئے
جو مقامِ لا پہ کھڑے رہے ، صفِ سرخرو میں کھڑے رہے
جو مقامِ لا سے نکل گئے ، صفِ “سرخ رو “سے نکل گئے
ترے رنگ و بو کو بھی دیکھتے نہ خیال تھا نہ مجال تھی
جو سکت ملی تجھے دیکھنے کی تو رنگ و بو سے نکل گئے
ہمیں صرف تیری تلاش تھی سفر آسماں کا شروع کیا
ابھی سنگِ میل تھا ساتواں تری جستجو سے نکل گئے
تھے جو حکمِ سجدہ پہ معترض کہ شرارِ دہرکا ناز تھے
وہ فصیلِ وقت کو توڑ کر ترے کاخ و کو سے نکل گئے
ادریس آزاد
مری محفلوں سے نکل گئے مری گفتگو سے نکل گئے
وہ جو ایک پانی کی بوند تھی ترے بحرِ زہر میں ضم ہوئی
وہ جو قطرہ ہائے شراب تھے تری آب جو سے نکل گئے
جو مقامِ لا پہ کھڑے رہے ، صفِ سرخرو میں کھڑے رہے
جو مقامِ لا سے نکل گئے ، صفِ “سرخ رو “سے نکل گئے
ترے رنگ و بو کو بھی دیکھتے نہ خیال تھا نہ مجال تھی
جو سکت ملی تجھے دیکھنے کی تو رنگ و بو سے نکل گئے
ہمیں صرف تیری تلاش تھی سفر آسماں کا شروع کیا
ابھی سنگِ میل تھا ساتواں تری جستجو سے نکل گئے
تھے جو حکمِ سجدہ پہ معترض کہ شرارِ دہرکا ناز تھے
وہ فصیلِ وقت کو توڑ کر ترے کاخ و کو سے نکل گئے
ادریس آزاد