مرے چارہ گر۔۔۔۔۔۔!

ملک حبیب

محفلین
نہیں جاؤ یوں مجھے چھوڑ کر مرے چارہ گر
یہاں پِھر رہا ہوں میں در بہ در مرے چارہ گر

ترا نام میری زبان پر رہے دم بہ دم
نہ ہو اپنی ذات کی کچھ خبر مرے چارہ گر

میں ہوں پھر رہا یہاں زندگی کی تلاش میں
کبھی آ کے بن مرا ہمسفر مرے چارہ گر

مری تِشنگی کو قرار دے مجھے پیار دے
مرا ہجر کر دے تُو مختصر مرے چارہ گر

تری آنکھ جس پہ بھی پڑ گئی وہ سنور گیا
کبھی ڈال مجھ پہ بھی وہ نظر مرے چارہ گر

میں تھا زندگی کے شعور سے بھی نا آشنا
ترے عشق نے کیا معتبر مرے چارہ گر

مری عاشقی کو دوام دے مجھے نام دے
مجھے مُرسلِ غَم و درد کر مرے چارہ گر

مجھے اپنے جام سے کر عطا ترا ہو بھلا
رہوں پِھر میں نشے میں عمر بھر مرے چارہ گر

مرے لب پہ اِیک صدا رہی بخدا رہی
مرے چارہ گر، مرے چارہ گر،مرے چارہ گر

ہے حبیب کی یہی آرزو یہی التجا
مری خاک ہو تری رہ گُزر مرے چارہ گر

کلام ملک حبیب
 

الف عین

لائبریرین
عروضی اغلاط تو محسوس نہیں ہو رہی ہیں غزل میں۔البتہ کچھ اشعار بہت ہلکے ہیں کن جو ’گزل بدر‘ کیا جا سکتا ہے۔ پانچ چھ اچھے اشعار غزل میں ہوں تو کافی ہے۔

نہیں جاؤ یوں مجھے چھوڑ کر مرے چارہ گر
یہاں پِھر رہا ہوں میں در بہ در مرے چارہ گر
÷÷مطلع نہ صرف ہلکا ہے بلکہ دو لخت بھی۔ اگر یوں ربط سمجھا جائے کہ محبوب بھی پہلے شاعر کے ساتھ خود بھی در بدر پھر رہا تھا، اور اب چھوڑ کر چلا گیا ہے تو شاعر کو اس کی یاد آ رہی ہے!!

ترا نام میری زبان پر رہے دم بہ دم
نہ ہو اپنی ذات کی کچھ خبر مرے چارہ گر
درست

میں ہوں پھر رہا یہاں زندگی کی تلاش میں
کبھی آ کے بن مرا ہمسفر مرے چارہ گر
÷÷بیانیہ اچھا نہیں لف رہا پہلے مصرع کا
میں ہوں سر گراں
کہا جائے تو؟

مری تِشنگی کو قرار دے مجھے پیار دے
مرا ہجر کر دے تُو مختصر مرے چارہ گر
درست

تری آنکھ جس پہ بھی پڑ گئی وہ سنور گیا
کبھی ڈال مجھ پہ بھی وہ نظر مرے چارہ گر
۔۔آنکھ نہیں پڑا کرتی، نظر پڑتی ہے۔ آنکھ اٹھتی ہے کسی کی جانب۔
’وہ نظر‘ کون سی نظر؟

میں تھا زندگی کے شعور سے بھی نا آشنا
ترے عشق نے کیا معتبر مرے چارہ گر
۔۔نا آشنا میں پہلے الف کا اسقاط جائز ہونے پر بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
؎میں تو زندگی کے شعور سے بھی تھا نا شناس
بہتر ہو گا۔

مری عاشقی کو دوام دے مجھے نام دے
مجھے مُرسلِ غَم و درد کر مرے چارہ گر
۔۔مرسلِ غم و درد عجیب سی ترکیب لگ رہی ہے۔ پہلا مصرع م حض تک بندی ہے۔ اس کو نکال دیں۔

مجھے اپنے جام سے کر عطا ترا ہو بھلا
رہوں پِھر میں نشے میں عمر بھر مرے چارہ گر
۔۔یہ بھی زبردستی کا شعر ہے۔ اس کو بھی غزل نکالا دیا جا سکتا ہے۔

مرے لب پہ اِیک صدا رہی بخدا رہی
مرے چارہ گر، مرے چارہ گر،مرے چارہ گر
۔۔اچھا شعر ہے، ’ایک صدا‘ کی بجائے ’بس یہ صدا‘ ہو تو شاید تاثر بڑھ جائے۔

ہے حبیب کی یہی آرزو یہی التجا
مری خاک ہو تری رہ گُزر مرے چارہ گر
درست، اگرچہ کوئی خاص بات نہیں ہے
 

ملک حبیب

محفلین
بہت شکریہ حضرت آپ نے اپنی ماہرانہ رائے سے نوازا،،،،،، میں کلام اسی لئے پوسٹ کرتا ہوں تا کہ اِصلاح ہوسکے،،،،، آپ کی رہنمائی رہی تو مزید بہتری کی اُمیدکی جاسکتی ہے۔۔۔۔
ایک بار پھرمشکور ہوں،،،،جزاک اللہ خیر
 
Top