مزاحیہ شاعری مگر حقیقت

جی گرو جی

محفلین
کرسی کے لیے


ملت کے دکھو ں کا جو مداوا نہیں کرتے
کرسی کے لیے وہ کام کیا کیا نہیں کرتے

میدان الیکشن میں گیے ہار تو غم کیا
جو مرد ہیں ہمت وہ کبھی ہارا نہیں کرتے

گو ملک کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں لیکن
سر کر کبھی سیٹ کا سودا نہیں کرتے

کچھ لوگوں کی فطرت میں ہے ڈ ھٹائی
وہ ذلت و رسوائی کی پر واہ نہیں کرتے

الله اٹھائے تو اٹھائے الگ بات
بندوں کے اٹھانے سے تو اٹھا نہیں کرتے

سر کار کو درکار ہے قومی خزانہ
سرکار اپنی جیب سے خر چہ نہیں کرتے

جو لوگ ہیں عیار ضرورت سے زیادہ
وہ رقم کو اس ملک میں رکھا نہیں کرتے

یہ اہل سیاست کی روایت ہے پرانی
دعویٰ جو کیا کرتے ہیں پورا نہیں کرتے
 

جی گرو جی

محفلین
حکمران

عام لوگ کیوں نہ بھوکے ننگے ہوں
ملک کے خواص اگر تلنگے ہوں
اس نے بنا لیے ہیں محلات کس طرح
آ میرے گھر کی بے سروسامانیوں سے پوچھ
اس کے نعمت خانےکی ہر چیز ہے منگی ہوئی
منگنےوالا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے صدر و وزیر و مشیر سب گدا
 

جی گرو جی

محفلین
اندازہ ہوگیا تھا

اس حکومت نے بھی کچھ نہیں کرنا اندازہ ہو گیا تھا
مشرف کی طرح امریکہ سے ہی ڈرنا اندازہ ہو گیا تھا

زرداری صاحب بھلا کیسے عدلییہ کو آزاد کر دیتے
افتخار چوہدری نےان کے گریبان کو پکڑنا اندازہ ہو گیا تھا

اب بھی پاکستان میں امریکیوں کا ڈیرہ ہے
میری قوم کا ہر لیڈر اندھا ہے اور بہرہ ہے

جو کل تک چور تھے محلوں میں رہتے ہیں
اور ڈاکٹر عبدالقدیر بیچارے پر اب بھی پہرہ ہے
 

جی گرو جی

محفلین
آج کا سیاست دان

زمانے میں چل رہی ہے مبالغہ آرائی
کوئی بن رہا ہے دشمن کوئی بن رہا ہے بھائی

ایک دوسرے کی جڑوں کو کاٹے ہیں اس طرح
کاٹے ہے جیسے بکرے کو بے رحمی سے قصائی

کس کی سنیں پکار ہر طرف سے ہے یلغار
کوئی بن رہا مشرف کوئی بنے ہے واجپائی
 

جی گرو جی

محفلین
دیر نہ کر اب اٹھا اپنی یہ پلیٹ لے

سمیٹ لے چاہے جتنا سمیٹ لے
ابھی بھی ہے کچھ وقت لپیٹ لے

جانےکب چلی جائے یہ اجارہ داری
دیر نہ کر اب، اٹھا اپنی یہ پلیٹ لے

خود کھا بریانی قورمہ اور تافتان
دوسروں کو کہہ صرف آملیٹ لے

اب جانے کون آئے ٹکٹ ملے نہ ملے
کچھ پڑھ لے اُٹھا تختی سلیٹ لے

ارمان پھر کبھی پورا ہو نہ ہو
بستر پر جا کر جتنا چاہے لیٹ لے
 

جی گرو جی

محفلین
میرے وطن کے لوگ

غم زیست سے بے زار ہیں میرے وطن کے لوگ
مہنگائی کا شکار ہیں میرے وطن کے لوگ
ہیں منتظر کبھئ تو بدلے گا یھ نظام
تا عمر انتظار ہیں میرے وطن کے لوگ
پو چھو تو ان کی داستان غم سے بھری ہوئی
د یکھو تو خوش گوار ہیں میرے وطن کے لوگ
میں ا پنے عہد ہ دارو ں سے بس پو چھتا ہوں یھ
کیوں اس قدر لاچار ہیں میرے وطن کے لوگ
میلی نظر جو ڈالے گا اس سر زمین پر
ا س کے لیے تلوار ہیں میرے وطن کے لوگ
مخلص تمھاری سوچ کی گہرائی د یکھ کر
ملنے کو بے قرار ہیں میرے وطن کے لوگ
 

جی گرو جی

محفلین
ندامت کی کمی ہے

لہجوں میں ابھی بُوئے بغاوت کی کمی ہے
ہے شور بہت،حرف صداقت کی کمی ہے

دل سب کے دھڑکتے نہیں کیوں ایک ہی لے پر
احساس کی دولت نہ محبت کی کمی ہے

مال و زر دنیا سے لبا لب ہے اگرچہ
گنجینئہ شاہی میں ندامت کی کمی ہے

اس عہد حکومت میں ہے بس ایک خرابی
اس عہد حکومت میں حکومت کی کمی ہے

رستہ بھی، بصیرت بھی٬ بصارت بھی میسر
اللہ کی جانب سے ہدایت کی کمی ہے
 

تنویرسعید

محفلین
تضاد نظر آتا ہے

تضاد نظر آتا ہے

پاکستان کا ہر شہری سراپا فریاد نظر آتا ہے
وزیر البتہ پوری طرح سے آباد نظر آتا ہے

سیاست دانوں کے قول و فعل میں تو تضاد تھا ہی
اب تو ملاں کی باتوں میں بھی تضاد نظر آتا ہے

اپنوں سے جنگ ہو یا ڈاکٹر عبدالقدیر کا مسئلہ ہو
ہم کو تو ہر بات میں امریکہ کا ارشاد نظر آتا ہے

بڑا تیز و جارحانہ واشنگٹن کا رویہ رہتا ہے
اس کے مقابل سہما سہما سا اسلام آباد نظر آتا ہے

اک دن عوام ضرور سمجھدار ہو جائے گی عثمان
لوٹے سیاست دانوں کا مسقبل برباد نظر آتا ہے


محمدعثمان
 

تنویرسعید

محفلین
اے وطن تو اکیلا ہے

اے وطن تو اکیلا ہے

جو بھی اپنے وڈیرے ہیں
سب کے سب لٹیرے ہیں

انکی راہیں روشن ہیں
ہمارے لیے اندھیرے ہیں

کھانے پینے اور رہنے کی
سوچیں ہم کو گھیرے ہیں

ہمیں وطن کی مٹی پیاری ہے
ان کے باہر بسیرے ہیں

انصاف کی توقع کریں کس سے
مرضی کے پنچائیت اور ڈیرے ہیں

گھنے چنے ہیں شریف یہاں
کن ٹٹے چار چفیرے ہیں

اے وطن تو اکیلا ہے
اور تجھے کھانے والے بتیرے ہیں

عثمان انکی باتوں میں آنا مت
یہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں

عثمان تارڑ
 

تنویرسعید

محفلین
پہلے بھی تھی اب بھی ہے

عوام کو حکومت سے شکایت پہلے بھی تھی اب بھی ہے
ہر کام میں صدر کی ہدایت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

وزیر خوشحال ہیں سارے غریبوں کی کچھ حالت نہیں
ہم کو اس سسٹم سے بغاوت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

ہر دفعہ نا اعتباروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں کیوں یہ
اس ملک کے لوگوں میں جہالت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

جمہوری حکومت بھی بےگناہوں کو مرنے سے بچا نہ سکی
پاکستان پر امریکی حملوں کی لعنت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

ہمارے ملک میں قانون صرف اور صرف غریبوں کے لئے ہے
آئین توڑ کے بھی مشرف کو راحت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

آئی ایم ایف سے قرضہ لے کے بھی کچھ ہاتھ نہ آیا ہمارے
لنگڑی معیشت کی ابتر حالت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

حق کے لئے آواز اٹھائی ہے اٹھاتے رہیں گے ہمیشہ
عثمان سچ بولنے کی عادت پہلے بھی تھی اب بھی ہے
 

تنویرسعید

محفلین
پہلے بھی تھی اب بھی ہے

پہلے بھی تھی اب بھی ہے


عوام کو حکومت سے شکایت پہلے بھی تھی اب بھی ہے
ہر کام میں صدر کی ہدایت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

وزیر خوشحال ہیں سارے غریبوں کی کچھ حالت نہیں
ہم کو اس سسٹم سے بغاوت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

ہر دفعہ نا اعتباروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں کیوں یہ
اس ملک کے لوگوں میں جہالت پہلے بھی تھی اب بھی ہے


جمہوری حکومت بھی بےگناہوں کو مرنے سے بچا نہ سکی
پاکستان پر امریکی حملوں کی لعنت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

ہمارے ملک میں قانون صرف اور صرف غریبوں کے لئے ہے
آئین توڑ کے بھی مشرف کو راحت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

آئی ایم ایف سے قرضہ لے کے بھی کچھ ہاتھ نہ آیا ہمارے
لنگڑی معیشت کی ابتر حالت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

حق کے لئے آواز اٹھائی ہے اٹھاتے رہیں گے ہمیشہ
عثمان سچ بولنے کی عادت پہلے بھی تھی اب بھی ہے

محمدعثمان
 

جی گرو جی

محفلین
دلال

قوم کی غیرت بیچ کے وہ اب بخت بنائے بیٹھے ہیں
خون کی ہولی کھیل کے وہ اب تخت سجائے بیٹھے ہیں

پہلے وقت کے حاکموں نے بھی ملک تھا بیچا پر تھوڑا تھوڑا
اب کے ظالم اس کی بولی یک لخت لگائے بیٹھے ہیں

اپنے ملک میں اپنے ہی غدار بھی ہیں دلال بھی ہیں
گہری بساط یہود و مرزائی بدبخت بچھائے بیٹھے ہیں



سید ساجد علی
 

تنویرسعید

محفلین
قانون کو فٹ بال بنایا

قانون کو فٹ بال بنایا

قانون کے پاسداروں نے
قانون کو فٹ بال بنایا
پاؤوں میں روندا
ادھر اچھالا، ادھر اچھالا
صاحب حیثیت مجرم ہو تو
این آر او بھی چلتا ہے
وکیل دم دار نہ ہو تو
بے گناہ بھی سولی چڑھتا ہے
کوئی پرسان حال نہیں
اس ملک کا اللہ حافظ ہے
جو حکمران آتا ہے
اپنا ہی قانون چلاتا ہے
پھر وہ وقت بھی آتا ہے
جب اس کو جانا پڑتا ہے
اللہ کے حوالے کر کے
وہ روپوش ہوجاتا ہے
وطن کا حال دیکھنے کو
ودہ قائد اگر ہو جائے
خون کے آنسو روئے
ندیوں نیر بہائے


حفیظ جاوید
 
Top