مزاحیہ غزل : ''کچھ فضا میری بھی تو جاگیر ہو'' از نوید ظفرکیانی

اب ہوا میری بھی تو جاگیر ہو
شیخ چلی کا محل تعمیر ہو

حضرتِ واعظ عجب انسان ہیں
چاہتے ہیں ہرجگہ تقریر ہو

دال کھائے تری محفل میں عدو
میری قسمت میں ہمیشہ کھیر ہو

ہم اُسے لیڈر بنا لیتے ہیں کیوں؟
حضرتِ شیطان جس کا پیر ہو

اتنے ملیٹینٹ سب خُوباں رہیں
آنکھ تیشہ ہو زباں شمشیر ہو

وہ نظر آیا ہے ٹٹو پر لدا
اب جو میرے خواب کی تعبیر ہو

یُوں پڑوسن ہے مرے ہمسائے میں
پہلوئے رانجھا میں جیسے ہیر ہو

جانئے شب دیر سے لوٹا ہوں گھر
سر پہ گومڑ ہو یا منہ پر چیر ہو

دیجئے تھپکی یا جھانپڑ جھاڑئے
دیکھئے جو بھی دوا اکسیر ہو

شوقِ دلہن بھی بجا لیکن اگر
ساتھ میں سسرال بھی تقدیر ہو

امنِ عالم کا تقاضہ ہے ظفر
شعر کہنے پر کوئی تعزیر ہو

نویدظفرکیانی
 
آخری تدوین:
بہت خوبصورت مزاحیہ غزل ہے جناب۔ داد قبول فرمائیے۔ ایک دو جگہ البتہ ٹائیپو ہے۔ مزید یہ کہ ذیل کے دو مصرعوں پر بھی غور فرمائیے۔

کچھ فضا میری بھی تو جاگیر ہو
شیخ چلی کا محل تعمیر ہو

نویدظفرکیانی
پہلے مصرع کو اگر یوں کردیں تو؟؟؟
اب ہَوا میری بھی یوں جاگیر ہو​

امنِ عامہ کا تقاضہ ہے ظفر
شعر کہنے پر کوئی تعزیر ہو

نویدظفرکیانی
امنِ عامہ کے ہجے یوں ہیں امنِ عامّہ لہٰذا اسے تبدیل کرکے امنِ عالم کردیجیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
:)

بہت خوب نوید ظفر صاحب،

محفل میں آپ کم کم نظر آتے ہیں لیکن ہر بار کچھ خاص لے کر آتے ہیں۔

بہت سی داد اس ظریفانہ کلام پر۔:)
 
Top