سید عاصم علی شاہ
محفلین
آج پاکستان اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ دوسری طرف بےروزگاری، غربت،کرپشن ،اختیارات کا غلط استعمال،بد انتظامی اور فرقہ وارانہ مخاصمت اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔زمانے گزر گئے مگرغربت کوکبھی عیب نہیں سمجھا گیا تھا۔ لیکن آج یہ لفظ ندامت اوراحساس کمتری کا باعث ہے۔ امتیاز پسند لوگوں کا پیدا کردہ طبقاتی فرق کبھی نہیں مٹ سکتا ۔سکیورٹی گارڈز غیر معمولی پروٹوکول ، ایلیٹ کلاس کے لیے الگ رہائشی کالونیوں کی تعمیرایسے اقدامات نے دونوں طبقات کے درمیان ایک بلند فصیل حائل کر دی ہے۔ چند ہاتھوں میں سرمایے کا ارتقاز صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے۔
عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس دنیا کے ننانوے فیصد اثاثے ہیں۔ یہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑسے زائد لوگوں کی آمدن قابل ٹیکس ہے مگر صرف پچیس فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔اوسطاًنو لاکھ ڈالر کے اثاثہ جات رکھنے والے ساٹھ فیصدسے زائد ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ہی نہیں دیتے۔ ایک سابق ٹیکس ایڈمنسٹریٹر ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکس سسٹم کے مطابق غریب آدمی امیر وں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجودغریب غربا اشیاء صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ بڑے کاروبار ،صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس بھی نہیں دیتےبلکہ اپنےسیاسی و کاروباری تعلقات بنک سے قرضہ لینے اور معافکرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یوں عام آدمی دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور دوسری طرف امراء کی تعداد اور انکی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک "سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ برائے 2012-13کے مطابق ملک میں قریباً 6 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچےزندگی گزار رہے ہیں۔ صوبائی تقسیم کے لحاظ سے یہ شرح بلوچستان میں 52 فیصد، سندھ میں 33 فیصد، خیبر پختون خواہ میں 32 فیصد اور پنجاب میں 19 فیصد زائدبنتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پچھلے 5 برسوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی بڑھ کر تعداد دوگنی ہو گئی ہے انکے پیش کردہ اعداد شمار کے مطابق54 فیصد پاکستانی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔مگر یہ اعداد و شمار حکومت کی وضع کردہ غربت کی نئی تعریف کے مطابق ہیں۔حکومت نے خط غربت کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ اب یومیہ دو ڈالر یعنی قریباً200 روپےروزانہ (6000 روپے ماہانہ) کمانے والے لوگ خط غربت سے نیچے شمار کیے جاتے ہیں۔ جبکہ عالمی بنک کے مطابق پاکستان کی 60 فیصدسے زائد آبادی کی یومیہ آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ ایک ڈالر یومیہ کمانے والے لوگ بھی 25 فیصد سے زائد ہیںہم یہاں 400 یومیہ کمانے والے کا رونا رو رہے ہیں جو کہ حکومت کی نظر میں غریب شمار ہی نہیں ہوتے۔ اگر تین یا چار ڈالر یومیہ کمانے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 90 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے لحاظ سے 54 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اور اصل تعداد کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مالی سال 2014 میں حکومت نے ایک مزدور کی ماہانہ 12000 تنخواہ مقرر کی ہےاس حساب سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی یومیہ اجرت 400روپے بنتی ہے۔دوسری طرف اگر اخراجات دیکھے جائیں تو یہ اجرت کچھ بھی نہیں۔ایک امریکی سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق ایک عام پاکستانی کی کل آمدنی کا 47.7 فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یعنی 12000 ماہانہ کمانے والے کے 5724 روپے ماہانہ راشن پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 400 دیہاڑی کمانے والے مزدور کے 190 روپے روزانہ کھانے پینے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔حا لانکہ چھوٹی سی فیملی کا تین وقت کے کھانےاور دودھ چائے کاروزانہ خرچ تین سو زیادہ ہے۔ بالفرض امریکی ادارے کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو سوچیئے کہ 190 روپے خوراک پر خرچ کرنے کے بعد اس محنت کش کے گھر کوئی مہمان آ جاتا ہے، یا کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا اسےاچانک کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا پڑجاتا ہے تو کیا باقی بچنے والے 210 روپے اس کے لیے کافی ہونگے۔
اگر اسے بچوںکی سکول فیس جمع کرانی ہو نئی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے کاپیاں ، پنسیلیں یا امدادی کتب خریدنی ہوں یا سردیوں میں معصوم ٹھٹھرتے جسموں کے لیے گرم کپڑے ،سویٹریا جرسی خریدنی ہو تو کیا یہ رقم انکی ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر اتنی ہی دیہاڑی لینے والے مزدور اگر روزانہ 210 روپے بچا کر اپنے چار بچوں کے لیے کسی اچھے سٹور کے بجائے لنڈا بازار سےفی کس ایک سویٹر ایک گرم ٹوپی، جرابیں اور جوتے خریدنے ہوں تو وہ یہ ٹارگٹ کتنے دنوں میں پورا کرے گا۔ فرض کریں اسکےتین میں سے دو بچے سکول جاتے ہیں انکے پاس ہونے پر انہیں فی کس آٹھ کاپیاں اور اتنی ہی امدادی کتب، کلر پنسل، پن اور ڈرائنگ بک لینی پڑے تو یہ سامان خریدنے کے لیے اسے کتنے دن درکار ہوں گے۔ بشرط کہ اس دوران اسکے کام کا ناغہ نہ ہو، اس کے ہاں نہ کوئی مہمان آئے نہ کوئی بیمار ہو نہ اسے کہیں ایمرجنسی سفر کرنا پڑے نہ اسے بچوں کی فرمائش پر گوشت پھل یا مٹھائی لانی پڑے۔ ان سوالات کے ممکنہ جوابات تمام قارئین لیے دعوت فکر ہیں۔
" پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان" کی حالیہ رپورٹ کے مطابق8-2007 سے پاکستان میں مہنگائی سالانہ 10 سے 13 فیصدحساب سے بڑھ رہی ہے۔مثلاً 2008 سے 2014 تک آلو کی قیمت میں 258فیصد، دال 39فیصد، آٹا58فیصد، دہیاور دودھ کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ یہی حال دیگر اشیاء ضروریہ کا ہے۔
ایک عیال دار عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اسکی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہیں۔مثلاًاگرپانچ افراد یعنی میاں بیوی اور دو سے بارہ سال کی عمر تک کے 3بچوں پر مشتمل خاندان کےتین وقت کے کھانے سمیت ایک دن کے خرچ کا بجٹ بنایا جائے تو اعداد و شمار کچھ یوں بنتے ہیں۔
آٹا،سبزی،گھی،دیگر مصالحہ جات وغیرہ 200 روپے
دودھ (ڈیڑھ کلو) 105 روپے (70 روپے فی کلو کے حساب سے)
چینی اور چائے 30 روپے (اوسطاً)
ٹرانسپورٹیشن چارجز (کرایہ،پیٹرول) 40 روپے (اوسطاً)
موبائل بیلنس 30 روپے ( اوسطاً)
بچوں کا جیب خرچ 20 روپے (سکول جانے والے دو بچوں کے لئے)
ٹوٹل چار سو پچیس روپے بنتے ہیں۔ جبکہ مہینے کے بارہ ہزار سات سو پچاس روپے بنتے ہیں۔ ماہانہ بل شامل کریں تو درج ذیل مجموعہ بنتا ہے۔
بجلی کا بل 700 روپے
گیس کا بل 400 روپے (اگر لکڑی کا چولہا ہو تو خرچہ چار گنا بڑھ جاتا ہے)
صابن (نہانے والا) 140 روپے (مہینے بھر کے لئے)
صابن ( برتن دھونے والا) 40 روپے (مہینے بھر کے لئے)
سرف 300 روپے (مہینے بھر کے لئے)
کل پندرہ سو اسی روپے
کل ماہانہ خرچ 12750+1580=14330
اگر یہ خاندان کرایہ دار ہو تو ماہانہ کرایہ تقریباً 3000 روپے
ٹوٹل 14330+3000=17330
اس تخمینے میں اشیاء کے نرخ انتہائی کم رکھے گئے ہیں۔ سستے بازاروں یا عام بازاروں میں ممکنہ طور پر دستیاب سستی سے سستی اشیاء یا دوسرے درجے کی اشیاء کی قیمتیں شمار کی گئی ہیں۔قارئین کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ اصل اخراجات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں تاہم یہ صرف تخمینہ ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین اچھی طرح سمجھ لیں کہ اتنی کم قیمتوں اور اپنی کم سے کم ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا بجٹ بھی دیہاڑی دار مزدور اور نوکری پیشہ غریب آدمی کی ماہانہ آمدن سے30 فیصد زیادہ ہے۔ ابھی اس تخمینے میں گوشت،پھل ،مٹھائی، دوائی، نئے کپڑے، جوتے ، خوشی و غمی،سفر، بیماری،بچوں کی تعلیم ،اپنے بچوں اور قریبی عزیزوں کی شادی وغیرہ میں ہونے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی ماہانہ بچت کا امکان ہی نہیں تو یہ کام کیسے ہوں گے۔ اگر یہ کام بھی ساتھ چلتے رہیں تو انسان کو اپنی دیگر ضروریات کا گلا گھونٹنا پڑے گا اسکے بعد پیدا ہونے والے حالات کی سنگینی کا اندازہ درد دل رکھنے والے لوگ آسانی سے لگا سکتے ہیں۔
کم آمدن، ناقص خوراک، روزگار اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، قرض اور کرایے کی پریشانی،شادی کی منتظر بچیوں کی بڑھتی عمراورحکومتی بے توجہی۔ ایسے حا لات میں لوگ مریض بنتے ہیں یا مجرم۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپشن،رشوت ستانی، اقربا پروری،انصاف کی عدم فراہمی،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بات کی غماز ہے کہ سسٹم چند ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔ چوری، ڈکیتی،خود کشی جیسے رجحانات اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ عنان حکومت نا اہل ، اخلاص سے عاری اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے ورنہ آسمان گواہ ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفۃ المسلیمین بنے تو دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب یمن سے سے کر بلوچستان تک کوئی زکٰوۃ لینے والاڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا لوگ زکٰوۃ لے کر پھرتے تھے مگر ہر جگہ سے یہ جواب ملتا کہ میں حق دار نہیں ہوں۔ یاد رہے آپ نے صرف اڑھائی سال حکومت کی۔اتنے مختصر عرصے میں ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ وہ جانتے تھے کہ اس اقتدار اور اختیار سے متعلق آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونے پڑے گا۔
عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس دنیا کے ننانوے فیصد اثاثے ہیں۔ یہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑسے زائد لوگوں کی آمدن قابل ٹیکس ہے مگر صرف پچیس فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔اوسطاًنو لاکھ ڈالر کے اثاثہ جات رکھنے والے ساٹھ فیصدسے زائد ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ہی نہیں دیتے۔ ایک سابق ٹیکس ایڈمنسٹریٹر ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکس سسٹم کے مطابق غریب آدمی امیر وں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجودغریب غربا اشیاء صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ بڑے کاروبار ،صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس بھی نہیں دیتےبلکہ اپنےسیاسی و کاروباری تعلقات بنک سے قرضہ لینے اور معافکرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یوں عام آدمی دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور دوسری طرف امراء کی تعداد اور انکی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک "سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ برائے 2012-13کے مطابق ملک میں قریباً 6 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچےزندگی گزار رہے ہیں۔ صوبائی تقسیم کے لحاظ سے یہ شرح بلوچستان میں 52 فیصد، سندھ میں 33 فیصد، خیبر پختون خواہ میں 32 فیصد اور پنجاب میں 19 فیصد زائدبنتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پچھلے 5 برسوں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی بڑھ کر تعداد دوگنی ہو گئی ہے انکے پیش کردہ اعداد شمار کے مطابق54 فیصد پاکستانی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔مگر یہ اعداد و شمار حکومت کی وضع کردہ غربت کی نئی تعریف کے مطابق ہیں۔حکومت نے خط غربت کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ اب یومیہ دو ڈالر یعنی قریباً200 روپےروزانہ (6000 روپے ماہانہ) کمانے والے لوگ خط غربت سے نیچے شمار کیے جاتے ہیں۔ جبکہ عالمی بنک کے مطابق پاکستان کی 60 فیصدسے زائد آبادی کی یومیہ آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ ایک ڈالر یومیہ کمانے والے لوگ بھی 25 فیصد سے زائد ہیںہم یہاں 400 یومیہ کمانے والے کا رونا رو رہے ہیں جو کہ حکومت کی نظر میں غریب شمار ہی نہیں ہوتے۔ اگر تین یا چار ڈالر یومیہ کمانے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 90 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے لحاظ سے 54 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اور اصل تعداد کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مالی سال 2014 میں حکومت نے ایک مزدور کی ماہانہ 12000 تنخواہ مقرر کی ہےاس حساب سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی یومیہ اجرت 400روپے بنتی ہے۔دوسری طرف اگر اخراجات دیکھے جائیں تو یہ اجرت کچھ بھی نہیں۔ایک امریکی سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق ایک عام پاکستانی کی کل آمدنی کا 47.7 فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یعنی 12000 ماہانہ کمانے والے کے 5724 روپے ماہانہ راشن پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 400 دیہاڑی کمانے والے مزدور کے 190 روپے روزانہ کھانے پینے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔حا لانکہ چھوٹی سی فیملی کا تین وقت کے کھانےاور دودھ چائے کاروزانہ خرچ تین سو زیادہ ہے۔ بالفرض امریکی ادارے کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو سوچیئے کہ 190 روپے خوراک پر خرچ کرنے کے بعد اس محنت کش کے گھر کوئی مہمان آ جاتا ہے، یا کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا اسےاچانک کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا پڑجاتا ہے تو کیا باقی بچنے والے 210 روپے اس کے لیے کافی ہونگے۔
اگر اسے بچوںکی سکول فیس جمع کرانی ہو نئی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے کاپیاں ، پنسیلیں یا امدادی کتب خریدنی ہوں یا سردیوں میں معصوم ٹھٹھرتے جسموں کے لیے گرم کپڑے ،سویٹریا جرسی خریدنی ہو تو کیا یہ رقم انکی ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر اتنی ہی دیہاڑی لینے والے مزدور اگر روزانہ 210 روپے بچا کر اپنے چار بچوں کے لیے کسی اچھے سٹور کے بجائے لنڈا بازار سےفی کس ایک سویٹر ایک گرم ٹوپی، جرابیں اور جوتے خریدنے ہوں تو وہ یہ ٹارگٹ کتنے دنوں میں پورا کرے گا۔ فرض کریں اسکےتین میں سے دو بچے سکول جاتے ہیں انکے پاس ہونے پر انہیں فی کس آٹھ کاپیاں اور اتنی ہی امدادی کتب، کلر پنسل، پن اور ڈرائنگ بک لینی پڑے تو یہ سامان خریدنے کے لیے اسے کتنے دن درکار ہوں گے۔ بشرط کہ اس دوران اسکے کام کا ناغہ نہ ہو، اس کے ہاں نہ کوئی مہمان آئے نہ کوئی بیمار ہو نہ اسے کہیں ایمرجنسی سفر کرنا پڑے نہ اسے بچوں کی فرمائش پر گوشت پھل یا مٹھائی لانی پڑے۔ ان سوالات کے ممکنہ جوابات تمام قارئین لیے دعوت فکر ہیں۔
" پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان" کی حالیہ رپورٹ کے مطابق8-2007 سے پاکستان میں مہنگائی سالانہ 10 سے 13 فیصدحساب سے بڑھ رہی ہے۔مثلاً 2008 سے 2014 تک آلو کی قیمت میں 258فیصد، دال 39فیصد، آٹا58فیصد، دہیاور دودھ کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ یہی حال دیگر اشیاء ضروریہ کا ہے۔
ایک عیال دار عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اسکی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہیں۔مثلاًاگرپانچ افراد یعنی میاں بیوی اور دو سے بارہ سال کی عمر تک کے 3بچوں پر مشتمل خاندان کےتین وقت کے کھانے سمیت ایک دن کے خرچ کا بجٹ بنایا جائے تو اعداد و شمار کچھ یوں بنتے ہیں۔
آٹا،سبزی،گھی،دیگر مصالحہ جات وغیرہ 200 روپے
دودھ (ڈیڑھ کلو) 105 روپے (70 روپے فی کلو کے حساب سے)
چینی اور چائے 30 روپے (اوسطاً)
ٹرانسپورٹیشن چارجز (کرایہ،پیٹرول) 40 روپے (اوسطاً)
موبائل بیلنس 30 روپے ( اوسطاً)
بچوں کا جیب خرچ 20 روپے (سکول جانے والے دو بچوں کے لئے)
ٹوٹل چار سو پچیس روپے بنتے ہیں۔ جبکہ مہینے کے بارہ ہزار سات سو پچاس روپے بنتے ہیں۔ ماہانہ بل شامل کریں تو درج ذیل مجموعہ بنتا ہے۔
بجلی کا بل 700 روپے
گیس کا بل 400 روپے (اگر لکڑی کا چولہا ہو تو خرچہ چار گنا بڑھ جاتا ہے)
صابن (نہانے والا) 140 روپے (مہینے بھر کے لئے)
صابن ( برتن دھونے والا) 40 روپے (مہینے بھر کے لئے)
سرف 300 روپے (مہینے بھر کے لئے)
کل پندرہ سو اسی روپے
کل ماہانہ خرچ 12750+1580=14330
اگر یہ خاندان کرایہ دار ہو تو ماہانہ کرایہ تقریباً 3000 روپے
ٹوٹل 14330+3000=17330
اس تخمینے میں اشیاء کے نرخ انتہائی کم رکھے گئے ہیں۔ سستے بازاروں یا عام بازاروں میں ممکنہ طور پر دستیاب سستی سے سستی اشیاء یا دوسرے درجے کی اشیاء کی قیمتیں شمار کی گئی ہیں۔قارئین کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ اصل اخراجات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں تاہم یہ صرف تخمینہ ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین اچھی طرح سمجھ لیں کہ اتنی کم قیمتوں اور اپنی کم سے کم ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا بجٹ بھی دیہاڑی دار مزدور اور نوکری پیشہ غریب آدمی کی ماہانہ آمدن سے30 فیصد زیادہ ہے۔ ابھی اس تخمینے میں گوشت،پھل ،مٹھائی، دوائی، نئے کپڑے، جوتے ، خوشی و غمی،سفر، بیماری،بچوں کی تعلیم ،اپنے بچوں اور قریبی عزیزوں کی شادی وغیرہ میں ہونے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی ماہانہ بچت کا امکان ہی نہیں تو یہ کام کیسے ہوں گے۔ اگر یہ کام بھی ساتھ چلتے رہیں تو انسان کو اپنی دیگر ضروریات کا گلا گھونٹنا پڑے گا اسکے بعد پیدا ہونے والے حالات کی سنگینی کا اندازہ درد دل رکھنے والے لوگ آسانی سے لگا سکتے ہیں۔
کم آمدن، ناقص خوراک، روزگار اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، قرض اور کرایے کی پریشانی،شادی کی منتظر بچیوں کی بڑھتی عمراورحکومتی بے توجہی۔ ایسے حا لات میں لوگ مریض بنتے ہیں یا مجرم۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپشن،رشوت ستانی، اقربا پروری،انصاف کی عدم فراہمی،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بات کی غماز ہے کہ سسٹم چند ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔ چوری، ڈکیتی،خود کشی جیسے رجحانات اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ عنان حکومت نا اہل ، اخلاص سے عاری اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے ورنہ آسمان گواہ ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفۃ المسلیمین بنے تو دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب یمن سے سے کر بلوچستان تک کوئی زکٰوۃ لینے والاڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا لوگ زکٰوۃ لے کر پھرتے تھے مگر ہر جگہ سے یہ جواب ملتا کہ میں حق دار نہیں ہوں۔ یاد رہے آپ نے صرف اڑھائی سال حکومت کی۔اتنے مختصر عرصے میں ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ وہ جانتے تھے کہ اس اقتدار اور اختیار سے متعلق آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونے پڑے گا۔