مزہ میتہ - نجیم نوابی (افغانستان)، شبنم ثریا (تاجکستان)

حسان خان

لائبریرین
ای کبکِ زری طرزِ خرامت مزه میته
دم پشتکِ در خندگکایت مزه میته
میری به سویِ دریا و میخنده لبانت
در کنجِ چادر توتهٔ تلخان مزه میته
چشمانِ خماری تو را صدقه شوُم یار
چشمک زدنت سویِ حریفان مزه میته
دریاس چه دریا که خروشنده کنار اس،
استم به کنارش
با موجِ صدف صحبتِ خوبان مزه میته


اے کبکِ دری، تمہاری طرزِ خرام مزہ دیتی ہے
دروازے کی پشت کے پاس تمہارے خندے مزہ دیتے ہیں
تم دریا کی جانب جا رہی ہو اور تمہارے لب مسکرا رہے ہیں
تمہارا کنجِ چادر میں رکھ کر تلخ توت کھانا مزہ دیتا ہے
اے یار میں تمہاری خماری آنکھوں پر صدقہ جاؤں
ہم نشینوں کی جانب تمہاری نظربازی مزہ دیتی ہے
دریا کیسا دریا ہے جس کا کنارہ خروشاں ہے،
میں اُس کے پہلو میں ہوں
موجِ صدف کے ساتھ خوبوں کی صحبت مزہ دیتی ہے

× یہ نغمہ افغان گفتاری فارسی میں ہے۔
× مزه میته = مزه می‌دهد

 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اور خندکگا سے کیا مراد ہے؟
افغان گفتاری فارسی میں 'گک' علامتِ تصغیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ خندگکا، خندگک‌ها کی گفتاری شکل ہے۔ علاماتِ تصغیر کا صرف تحقیراً نہیں، بلکہ تحبیباً اور شفقت آمیزانہ بھی استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہاں دم کا کیا مطلب ہے؟
میں نے اِسے 'دمِ (= لبِ) پشتِ در' یعنی 'دروازے کی پشت کا کنارہ' کے طور پر ترجمہ کیا تھا۔ لیکن ایک زبان شناس تاجک قلمی دوست نے بتایا ہے کہ 'دم پشتکِ در' بسیار نامانوس ہے اور اُس کی نظر میں یہ محض ایک اشتباہ ہے۔ ظاہراً یہاں 'در پشتکِ در' مراد تھی، جسے غلطی سے 'دم پشتکِ در' گایا گیا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ متاسفانہ تاجکستانی نغموں میں کئی بار غلطیاں نظر آتی ہیں۔
'پشتک' کا 'ک' بھی علامتِ تصغیر ہے۔
 
آخری تدوین:
خندگکا، خندگک‌ها کی گفتاری شکل ہے۔

جی اب یاد آیا۔افغان گفتاری لہجے میں حرف "ح" اور "ہ" کو اکثر الف ہی بولا جاتا ہے۔ جیسے خوشی ہا کو ہم اکثر خوشیا کہتے ہیں۔
یہ اغلباََ پشتو کا اثر ہے۔
 
آخری تدوین:
میری به سویِ دریا و میخنده لبانت

میری=مے روی
اسی طرح افعال کے صیغوں میں جہاں جہاں آخر میں حرف "د" آتا ہے،اس کو "ہ" سے بدل دیا جاتاہے۔
جیسے "او مے کند" کو "او مے کنہ"
"بدہد" کو "بتہ"
مذکورہ بالا جملے میں "مے خندہ" دراصل "مے خندد" ہے
 

حسان خان

لائبریرین
افغان گفتاری لہجے میں حرف "ح" اور "ہ" کو اکثر الف ہی بولا جاتا ہے۔ جیسے خوشی ہا کو ہم اکثر خوشیا کہتے ہیں۔
آپ نے درست فرمایا۔ صرف اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ تہرانی گفتاری فارسی میں بھی علامتِ جمع 'ها' کے 'ه' کی آواز عموماً حذف ہو جاتی ہے، یعنی وہاں بھی 'دل‌ها' کی بجائے 'دلا' بولا جاتا ہے۔ مثلاً:
"من و تو با ھمیم اما دلامون خیلی دوره"
ترجمہ: میں اور تم ایک ساتھ ہیں لیکن ہمارے دل بہت دور ہیں۔
دلامون = دل‌هایمان
 
آخری تدوین:
Top