یاز
محفلین
ذیلی اقتباس اس کتاب کے پہلے باب یعنی "تزکِ نادری" سے لیا گیا ہے۔
"بس بس! آگے ہمیں پتا ہے۔" ہم نے اسے ڈانٹا۔
مجبوراََ ہم نے حملے کا حکم دے دیا، لیکن لڑائی کا لطف نہ آیا۔ وہ لوگ فوراََ تتربتر ہو گئے۔ہم شہر کے بڑے دروازے میں داخل ہوئے تو عزیزی محمدشاہ نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ گھوڑے سے اتر کر بغل گیر ہوئے۔ اس کے بعد دو دن تک محمد شاہ کا کوئی پتا نہ چلا۔
دلی میں داخل ہو کر ہم نے اور بندگانِ درگاہ نے خوب دادِ عیش دی کہ شیوہِ سیاحاں ہے۔
عزیزی محمد شاہ سے ذکر کیا۔ وہ بولا کلچر کا تو پتا نہیں ہے۔ آپ نے ایگری کلچر سنا ہو گا۔ وہ البتہ مشہور ہے۔ ہم مُصر ہوئے تو کہنے لگا سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیجئے۔ ویسے ہمارے ہاں چند ایک باتیں واقعی شہرہ آفاق ہیں۔ ایک تو یہی قدیمی دواخانے، جن کے اشتہار آپ چپے چپے پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے قدیم روایات جن کے لئے بھیس بدل کر شہر میں چلنا ہو گا۔ چنانچہ ہم دونوں گئے۔ ایک جگہ ایک شخص (جو کہ مدرس تھا) بھینسوں کے آگے بین بجا رہا تھا اور بھینسیں متوجہ نہیں تھیں۔ ایک سیاسی جلسے میں بہت سے حضرات اپنے سامنے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ رکھے عبادت میں مشغول تھے۔ وہیں ایک شخص باغیرت معلوم ہوتا تھا۔ چلو میں پانی لئے، ناک ڈبونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک جگہ دو حکامِ شہر ایک پرندے کو کھینچ کر سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پرندہ الو تھا۔ ایک نہایت ضعیف بزرگ قبر کے کنارے پاؤں لٹکائے نوجوانوں پر تنقید کر رہے تھے۔ محمد شاہ کے متعلق تو ہم کہہ نہیں سکتے، البتہ ہم ازحد محظوظ ہوئے۔
( مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے اقتباس)
حملہ آوری اور برادر محمد شاہ کی ہماری ذات سے عقیدت
صبح سے محمد شاہ اپنا لشکر لے کر سامنے آیا ہوا تھا، مگر ابھی تک سعادتِ زیارت سے مشرف نہ ہوا تھا۔ دوپہر کو ایک ایلچی رنگین جھنڈا لہراتے ہوئے آیا اور معروض ہوا کہ "محمد شاہ صاحب نے دریافت کیا ہے کہ حملہ کرنے کا کس وقت ارادہ ہے؟" ہم نے پوچھا "ابے حملہ کیسا؟" ایلچی نے عرض کیا "خداوندِ نعمت وہ تو عرصے سے آپ کے حملے کے منتظر ہیں۔ اتنے دنوں سے تیاریاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر حملہ نہ ہوا تو سب کو سخت مایوسی ہو گی۔ کل بارش کی وجہ سے لشکر اکٹھا نہ ہو سکا۔ اور پھر یہ رسم چلی آتی ہے کہ درہ خیبر سے آنے والے۔۔۔""بس بس! آگے ہمیں پتا ہے۔" ہم نے اسے ڈانٹا۔
مجبوراََ ہم نے حملے کا حکم دے دیا، لیکن لڑائی کا لطف نہ آیا۔ وہ لوگ فوراََ تتربتر ہو گئے۔ہم شہر کے بڑے دروازے میں داخل ہوئے تو عزیزی محمدشاہ نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ گھوڑے سے اتر کر بغل گیر ہوئے۔ اس کے بعد دو دن تک محمد شاہ کا کوئی پتا نہ چلا۔
دلی میں داخل ہو کر ہم نے اور بندگانِ درگاہ نے خوب دادِ عیش دی کہ شیوہِ سیاحاں ہے۔
ہنوز دلی دور است
اس فقرے کو ہم نے اہلِ دلی کا تکیہ کلام پایا۔جب ہم خیبر میں تھے تو سنا تھا کہ ہمارے لئے ہنوز دلی دور تھی۔جب لاہور پہنچے تب بھی دور رہی۔ لال قلعے میں پہنچ کر بھی لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ اچھا بھئی چلو دلی دور است۔ بس!ہندی کلچر
ہندی کلچر کی بے حد تعریفیں سنی تھیں۔ چنانچہ دیکھنے کا شوق تھا (حملے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی۔ فرمانبردار خان کو وقت پر سوجھتی نہیں)۔عزیزی محمد شاہ سے ذکر کیا۔ وہ بولا کلچر کا تو پتا نہیں ہے۔ آپ نے ایگری کلچر سنا ہو گا۔ وہ البتہ مشہور ہے۔ ہم مُصر ہوئے تو کہنے لگا سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیجئے۔ ویسے ہمارے ہاں چند ایک باتیں واقعی شہرہ آفاق ہیں۔ ایک تو یہی قدیمی دواخانے، جن کے اشتہار آپ چپے چپے پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے قدیم روایات جن کے لئے بھیس بدل کر شہر میں چلنا ہو گا۔ چنانچہ ہم دونوں گئے۔ ایک جگہ ایک شخص (جو کہ مدرس تھا) بھینسوں کے آگے بین بجا رہا تھا اور بھینسیں متوجہ نہیں تھیں۔ ایک سیاسی جلسے میں بہت سے حضرات اپنے سامنے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ رکھے عبادت میں مشغول تھے۔ وہیں ایک شخص باغیرت معلوم ہوتا تھا۔ چلو میں پانی لئے، ناک ڈبونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک جگہ دو حکامِ شہر ایک پرندے کو کھینچ کر سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پرندہ الو تھا۔ ایک نہایت ضعیف بزرگ قبر کے کنارے پاؤں لٹکائے نوجوانوں پر تنقید کر رہے تھے۔ محمد شاہ کے متعلق تو ہم کہہ نہیں سکتے، البتہ ہم ازحد محظوظ ہوئے۔
( مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے اقتباس)