صلاح الدین خان گورچانی
محفلین
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی
سوال : ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت سے ہماری تشفی فرما دیں۔
جواب : تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایک حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه وهم يختصمون في القدر فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب فقال : بهذا امرتم او لهذا خلقتم ؟ تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الامم قبلكم
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو ؟ (یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“ [ابن ماجه، باب فى القدر : 85، منصف عبدالرزاق : 11/ 216، 20367، مسند احمد 2/ 178]
↰ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا [ 76-الإنسان:3]
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“
✿ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ
’’ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔“ [90-البلد:10]
↰ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھا دیے ہیں اور اسے عقل و شعور عطا کر دیا ہے کہ اپنے لیے دونوں راستوں میں سے جو صحیح ہے اس کو اختیار کر لے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیر و برکت والے راستے کو اختیار کر ے گا تو جنت میں داخل ہو گا اور جہنم کے دردناک عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے گا اور اگر راہ راست کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہو گا تو جہنم کی آگ میں داخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ یا کیا کرے گا ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس لیے اس نے اپنے علم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ کیونکہ اس کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے کمال علم و احاطہ کلی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اس نے ان لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں کہ زانی و شرابی، چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے ؟ کیونکہ ان کے مقدر ہی میں زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اس کی مثال یو ں سمجھ لیجئے کہ ایک استاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور ان کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھی طرح واقف ہے، وہ اپنے علم کی بنا پر کسی ذہین و مخنتی طالب علم کے بارے میں ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب علم اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور کند ذہن طالب علم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گا اور پھر لائق اور کند ذہن کو کلاس میں برابر محنت کروائے اور انہیں اکٹھا سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین طالب علم اچھے نمبر حاصل کر کے اول پوزیشن حاصل کرے اور کند ذہن طالب علم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ لائق طالب علم اس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اول پوزیشن حاصل کر گا اور کند ذہن اس لیے فیل ہوا کہ اس کے متعلق استاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہو گا۔ لہذٰا اس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟ یقیناسمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اس میں استاد کا قصور ہے۔ اس لیے کہ اس میں استاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھاتا رہا کہ امتحان قریب ہے، محنت کرو و گرنہ فیل ہو جاؤ گے۔ استاد کی ہدایت کے مطابق لائق طالب علم نے محنت کی اور نالائق طالب علم اپنی بری عادات میں مشغول رہا، یوں اس نے اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کر دیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا علم بلاشبہ پوری کائنات سے زیادہ اکمل و اتم ہے، اس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اس نے اپنے کامل علم کی بناء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قابل ہی لکھ دیا تھا کہ یہ بدبخت ہو گا یا نیک ؟ جنتی ہو گا یا جہنمی ؟ مگر ان سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اچھے اور برے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد انبیاء کے ورثا ء صالح علماء کے ذریعے کائنات میں انہیں ایمان و اعتقاد اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتا ہے، کفر و شرک، معصیت اور گناہ سے منع کر تا ہے، جہنم کے عذاب اور حساب کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتا ہے۔ ان تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اس کے ان برے اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اور اس کے برعکس نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و ناانصافی ہے۔
سوال : ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت سے ہماری تشفی فرما دیں۔
جواب : تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایک حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه وهم يختصمون في القدر فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب فقال : بهذا امرتم او لهذا خلقتم ؟ تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الامم قبلكم
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو ؟ (یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“ [ابن ماجه، باب فى القدر : 85، منصف عبدالرزاق : 11/ 216، 20367، مسند احمد 2/ 178]
↰ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا [ 76-الإنسان:3]
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“
✿ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ
’’ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔“ [90-البلد:10]
↰ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھا دیے ہیں اور اسے عقل و شعور عطا کر دیا ہے کہ اپنے لیے دونوں راستوں میں سے جو صحیح ہے اس کو اختیار کر لے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیر و برکت والے راستے کو اختیار کر ے گا تو جنت میں داخل ہو گا اور جہنم کے دردناک عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے گا اور اگر راہ راست کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہو گا تو جہنم کی آگ میں داخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ یا کیا کرے گا ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس لیے اس نے اپنے علم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ کیونکہ اس کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے کمال علم و احاطہ کلی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اس نے ان لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں کہ زانی و شرابی، چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے ؟ کیونکہ ان کے مقدر ہی میں زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اس کی مثال یو ں سمجھ لیجئے کہ ایک استاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور ان کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھی طرح واقف ہے، وہ اپنے علم کی بنا پر کسی ذہین و مخنتی طالب علم کے بارے میں ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب علم اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور کند ذہن طالب علم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گا اور پھر لائق اور کند ذہن کو کلاس میں برابر محنت کروائے اور انہیں اکٹھا سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین طالب علم اچھے نمبر حاصل کر کے اول پوزیشن حاصل کرے اور کند ذہن طالب علم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ لائق طالب علم اس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اول پوزیشن حاصل کر گا اور کند ذہن اس لیے فیل ہوا کہ اس کے متعلق استاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہو گا۔ لہذٰا اس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟ یقیناسمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اس میں استاد کا قصور ہے۔ اس لیے کہ اس میں استاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھاتا رہا کہ امتحان قریب ہے، محنت کرو و گرنہ فیل ہو جاؤ گے۔ استاد کی ہدایت کے مطابق لائق طالب علم نے محنت کی اور نالائق طالب علم اپنی بری عادات میں مشغول رہا، یوں اس نے اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کر دیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا علم بلاشبہ پوری کائنات سے زیادہ اکمل و اتم ہے، اس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اس نے اپنے کامل علم کی بناء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قابل ہی لکھ دیا تھا کہ یہ بدبخت ہو گا یا نیک ؟ جنتی ہو گا یا جہنمی ؟ مگر ان سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اچھے اور برے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد انبیاء کے ورثا ء صالح علماء کے ذریعے کائنات میں انہیں ایمان و اعتقاد اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتا ہے، کفر و شرک، معصیت اور گناہ سے منع کر تا ہے، جہنم کے عذاب اور حساب کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتا ہے۔ ان تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اس کے ان برے اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اور اس کے برعکس نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و ناانصافی ہے۔