ام نور العين
معطل
مسئلہ حجاز اور مولانا عطاء اللہ حنیف
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ
(م ۹ دسمبر ۱۹۹۴ء ۔۔۔ ۵ رجب ۱۴۱۵ ھ )
سرزمین حجاز جو مسلمانان عالم کی عقیدت کا مرجع ہے اور جس وقت اغیار و اجانب کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ اس کی انتظامی ابتری و انتشار مسلمانان عالم کے لیے شدید اضطراب کا باعث تھا ۔ اس وقت امیر حجاز نے غیر ملکی اثرات سے سرزمین حجاز کو آزاد و خود مختار بنانے کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا ۔ مگر ایک گروہ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے برطانوی استعمار کی حمایت کر رہا تھا ، اپنے مخصوص ذہنی عقائد کی وجہ سے بھی سلطان کے اس اقدام پر بے حد ناخوش تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان پہلے ہندوستانی رہنما ہیں جنہوں نے سلطان کے اس اقدام کی تعریف کی اور اسے سراہا۔ مولان ظفر علی خان نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء کی ’زمیندار‘ کی اشاعت میں برطانوی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ وہ شریف حسین کی امداد سے باز رہے کیونکہ یہ ایک غیور باہمت اسلامی طاقت اور باغی اسلام بندہ طاغوت کی آویزش ہے ۔ اور فرمایا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سلطانِ نجد کی فتح مندی کی دعا کرے ۔ مگر ہمارے ملک کے خاص گروہ نے سلطان کی مخالفت میں شب وروز ایک کر دئیے اور یہ افسوسناک پراپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے احترام حرم ملحوظ نہیں رکھا ۔ سلطان موصوف نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے مرکزیہ خلافت ہند کو حسب ذیل تار دیا ۔
’’میری فوجوں نے خون ریزی سے قطعی اجتناب کیا ہے اور ہر حالت میں احترامِ حرم ملحوظ رکھا ہے َ ‘‘ ۔ مگر اس کے باوجود مخصوص گروپ نے ایک جلسۂ عام کر کے حکومت برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی ۔ جس کے جواب میں حریت پسندوں نے بھی ایک جلسۂ عام میں مخالفین کے پراپیگنڈہ کا تاروپود بکھیرتے ہوئے سلطان کی حمایت کے ساتھ ساتھ انگریزی حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اس کی مداخلت سے خوفناک سنگین نتائج پیدا ہوں گے ۔
اس گروہ کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ عساکر مدینہ نے نجد پر گولہ باری کی ہے جس کی پر زور تردید کے باوجود اس حلقہ کا سخت اشتعال انگیز پراپیگنڈہ جاری رہا اور انگریز حکومت سے کھلی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ۔ جس پر مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانان ہند کو انتباہ کیا کہ مسلمانان برصغیر کی طرف سے امیر ابن سعود کی مخالفت سے مسلمانان عالم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ تا ہم مخالفین نے اس کے باوجود اپنی سازشیں جاری رکھیں ۔ اور یہاں تک الزام عائد کیا گیا کہ نعوذ باللہ گنبد خضری بھی محفوظ نہیں حالانکہ بذریعہ لاسلکی و خطوط اس کی متواتر تردید کی جا رہی تھی ۔ ۲۵ جنوری ۱۹۲۵ء کو سلطان ابن سعود کی طرف سے مولانا ظفر علی خان کو حسب ذیل مکتوب موصول ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ
(م ۹ دسمبر ۱۹۹۴ء ۔۔۔ ۵ رجب ۱۴۱۵ ھ )
سرزمین حجاز جو مسلمانان عالم کی عقیدت کا مرجع ہے اور جس وقت اغیار و اجانب کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ اس کی انتظامی ابتری و انتشار مسلمانان عالم کے لیے شدید اضطراب کا باعث تھا ۔ اس وقت امیر حجاز نے غیر ملکی اثرات سے سرزمین حجاز کو آزاد و خود مختار بنانے کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا ۔ مگر ایک گروہ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے برطانوی استعمار کی حمایت کر رہا تھا ، اپنے مخصوص ذہنی عقائد کی وجہ سے بھی سلطان کے اس اقدام پر بے حد ناخوش تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان پہلے ہندوستانی رہنما ہیں جنہوں نے سلطان کے اس اقدام کی تعریف کی اور اسے سراہا۔ مولان ظفر علی خان نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء کی ’زمیندار‘ کی اشاعت میں برطانوی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ وہ شریف حسین کی امداد سے باز رہے کیونکہ یہ ایک غیور باہمت اسلامی طاقت اور باغی اسلام بندہ طاغوت کی آویزش ہے ۔ اور فرمایا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سلطانِ نجد کی فتح مندی کی دعا کرے ۔ مگر ہمارے ملک کے خاص گروہ نے سلطان کی مخالفت میں شب وروز ایک کر دئیے اور یہ افسوسناک پراپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے احترام حرم ملحوظ نہیں رکھا ۔ سلطان موصوف نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے مرکزیہ خلافت ہند کو حسب ذیل تار دیا ۔
’’میری فوجوں نے خون ریزی سے قطعی اجتناب کیا ہے اور ہر حالت میں احترامِ حرم ملحوظ رکھا ہے َ ‘‘ ۔ مگر اس کے باوجود مخصوص گروپ نے ایک جلسۂ عام کر کے حکومت برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی ۔ جس کے جواب میں حریت پسندوں نے بھی ایک جلسۂ عام میں مخالفین کے پراپیگنڈہ کا تاروپود بکھیرتے ہوئے سلطان کی حمایت کے ساتھ ساتھ انگریزی حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اس کی مداخلت سے خوفناک سنگین نتائج پیدا ہوں گے ۔
اس گروہ کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ عساکر مدینہ نے نجد پر گولہ باری کی ہے جس کی پر زور تردید کے باوجود اس حلقہ کا سخت اشتعال انگیز پراپیگنڈہ جاری رہا اور انگریز حکومت سے کھلی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ۔ جس پر مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانان ہند کو انتباہ کیا کہ مسلمانان برصغیر کی طرف سے امیر ابن سعود کی مخالفت سے مسلمانان عالم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ تا ہم مخالفین نے اس کے باوجود اپنی سازشیں جاری رکھیں ۔ اور یہاں تک الزام عائد کیا گیا کہ نعوذ باللہ گنبد خضری بھی محفوظ نہیں حالانکہ بذریعہ لاسلکی و خطوط اس کی متواتر تردید کی جا رہی تھی ۔ ۲۵ جنوری ۱۹۲۵ء کو سلطان ابن سعود کی طرف سے مولانا ظفر علی خان کو حسب ذیل مکتوب موصول ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔