مسئلہ حجاز اور مولانا عطاء اللہ حنیف

مسئلہ حجاز اور مولانا عطاء اللہ حنیف
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ
(م ۹ دسمبر ۱۹۹۴ء ۔۔۔ ۵ رجب ۱۴۱۵ ھ )

سرزمین حجاز جو مسلمانان عالم کی عقیدت کا مرجع ہے اور جس وقت اغیار و اجانب کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ اس کی انتظامی ابتری و انتشار مسلمانان عالم کے لیے شدید اضطراب کا باعث تھا ۔ اس وقت امیر حجاز نے غیر ملکی اثرات سے سرزمین حجاز کو آزاد و خود مختار بنانے کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا ۔ مگر ایک گروہ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے برطانوی استعمار کی حمایت کر رہا تھا ، اپنے مخصوص ذہنی عقائد کی وجہ سے بھی سلطان کے اس اقدام پر بے حد ناخوش تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان پہلے ہندوستانی رہنما ہیں جنہوں نے سلطان کے اس اقدام کی تعریف کی اور اسے سراہا۔ مولان ظفر علی خان نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء کی ’زمیندار‘ کی اشاعت میں برطانوی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ وہ شریف حسین کی امداد سے باز رہے کیونکہ یہ ایک غیور باہمت اسلامی طاقت اور باغی اسلام بندہ طاغوت کی آویزش ہے ۔ اور فرمایا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سلطانِ نجد کی فتح مندی کی دعا کرے ۔ مگر ہمارے ملک کے خاص گروہ نے سلطان کی مخالفت میں شب وروز ایک کر دئیے اور یہ افسوسناک پراپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے احترام حرم ملحوظ نہیں رکھا ۔ سلطان موصوف نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے مرکزیہ خلافت ہند کو حسب ذیل تار دیا ۔
’’میری فوجوں نے خون ریزی سے قطعی اجتناب کیا ہے اور ہر حالت میں احترامِ حرم ملحوظ رکھا ہے َ ‘‘ ۔ مگر اس کے باوجود مخصوص گروپ نے ایک جلسۂ عام کر کے حکومت برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی ۔ جس کے جواب میں حریت پسندوں نے بھی ایک جلسۂ عام میں مخالفین کے پراپیگنڈہ کا تاروپود بکھیرتے ہوئے سلطان کی حمایت کے ساتھ ساتھ انگریزی حکومت کو بھی خبردار کیا کہ اس کی مداخلت سے خوفناک سنگین نتائج پیدا ہوں گے ۔
اس گروہ کی طرف سے یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ عساکر مدینہ نے نجد پر گولہ باری کی ہے جس کی پر زور تردید کے باوجود اس حلقہ کا سخت اشتعال انگیز پراپیگنڈہ جاری رہا اور انگریز حکومت سے کھلی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ۔ جس پر مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانان ہند کو انتباہ کیا کہ مسلمانان برصغیر کی طرف سے امیر ابن سعود کی مخالفت سے مسلمانان عالم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ تا ہم مخالفین نے اس کے باوجود اپنی سازشیں جاری رکھیں ۔ اور یہاں تک الزام عائد کیا گیا کہ نعوذ باللہ گنبد خضری بھی محفوظ نہیں حالانکہ بذریعہ لاسلکی و خطوط اس کی متواتر تردید کی جا رہی تھی ۔ ۲۵ جنوری ۱۹۲۵ء کو سلطان ابن سعود کی طرف سے مولانا ظفر علی خان کو حسب ذیل مکتوب موصول ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔
 
’’ خداوند کریم نے اپنے بے پایاں کرم سے ہمیں ان بلاد مقدسہ میں داخل ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے اور ہمیں اپنے فضل و کرم سے یہ توفیق بخشی ہے کہ سرزمین مقدس سے شریف حسین اور اس کے باغی گروہ کو نکال دیں ۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس طرح ظلم و جبروت کی حکومت ختم ہو گئی ۔ یہاں پہلے اغراض و خواہشات کا دور دورہ تھا۔ اب شریعت مطہرہ پر عمل ہو رہا ہے۔ اب چھوٹا ہو یا بڑا سب کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا جائے گا ۔ مکہ معظمہ اور تمام بلاد مقدسہ میں لوگ اس قدر مطمئن ہیں کہ اس سے قبل کبھی نہ ہوئے تھے کہ سب اللہ تعالی کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے ۔ واللہ ذوالفضل العظیم ۔ ‘‘
بلاد مقدسہ میں یہ حالت تھی ۔ مگر مخالفین نے غلط پراپیگنڈے اور سازشوں کے ذریعے سلطان کے خلاف ایک عظیم مہم شروع کر دی۔ یہاں تک کہ حج کے بائکاٹ کا اعلان کر دیا گیا ۔ جس پر ایک عظیم جلسے میں جس میں مولانا داؤد غزنوی بھی شریک تھے انہیں اسلامیوں کی حمایت کا مکمل یقین دلایا گیا۔ علمائے اہل حدیث جس میں مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا داؤد غزنوی کے ساتھ مولانا عطاءاللہ حنیف بھی شریک تھے کھل کر سلطان ابن سعود کی حمایت کا اعلان کر دیا گیا ۔ اور مولانا داؤد غزنوی کی طرف سے سلطان کو حسب ذیل تار دیا گیا ۔
آپ نے غدار حجاز پر جو کامیابی حاصل کی ہے اور مکہ معظمہ میں جس طرح پر امن طور پر داخل ہوئے ہیں اس پر تہ دل سے آپ کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ امید ہے کہ حجاز میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی ۔
مولانا ظفر علی خان نے جلسۂ عام میں اپنی تقریر میں وضاحت سے ان تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا جو ایک مزہبی گروہ اور مخالفین ابن سعود کی طرف سے ان پر لگائے جا رہے تھے ۔ مولانا نے اس سلسلے میں اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ میرے تار کے جواب میں غازی امان اللہ خان نے بھی فرمایا ہے کہ حرمین کی حرمت برقرار ہے ۔ کسی قسم کی بے احتیاطی نہیں ہوئی ۔ اس کے بعد جلد ہی سعودی عساکر کے مدینہ پر قبضہ کی خبر بھی آ گئی ۔
 
اس سلسلے میں مخالفین کی جانب سے جو الزامات لگائے جا رہے تھے وہ مختصرا یہ ہیں :
۱۔ مدینہ پر گولہ باری کر کے حرمین کی بے حرمتی کی گئی ۔
۲۔ مکہ معظمہ میں مزارات منہدم کر دئیے گئے ۔
۳۔ یہ سب انگریز کے اشارے پر ہو رہا ہے ۔ اس لئے اسے فورا حجاز خالی کر دینا چاہیے ۔
۴۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری نے اس کے جواب میں مسئلہ حجاز پر ایک نظر کے نام سے کتابچہ شائع کیا (جو مولانا عطاءاللہ حنیف کی وساطت سے آج بھی میرے پاس موجود ہے ، جو مجھے مولانا مرحوم نے اس زمانے میں سلطان ابن سعود کی حمایت کے سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کی روداد بیان کرتے ہوئے مجھے عنایت کیا اور زمیندار میں وفد حجاز کی رپورٹ شائع کر کے مجھے یہ پرچہ یہاں سے روانہ کیا گیا ہے ۔) ان الزامات کو قطعا بے بنیاد قرار دیا اور ابن سعود کی طرف سے اس اعلان کا اعادہ کیا گیا کہ اب یہاں شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے گا۔ وفد حجاز کی یہ رپورٹ بھی مولانا عطاءاللہ حنیف کے پاس موجود تھی جس میں روضہ اطہر کے متعلق ابن سعود کا اعلان موجود تھا کہ ’’اس کی حفاظت کے لیے میں اپنی جان اور تمام خاندان کو قربان کر دوں گا۔ میں نے مدینہ منورہ میں ایسی فوج بھیجی ہے جو ان شاءاللہ تمام مآثر کا احترام ملحوظ رکھے گی ۔ ‘‘

جاری
 

محمد امین

لائبریرین
آپی۔۔۔ یہ اور دوسرے تھریڈ میں شورش کاشمیری والی باتیں کسی کام کی نہیں ہیں۔ اسی طرح تو ہر مسلک کا بندہ کتب سے اقتباسات پیش کر کے کسی کو صحیح اور کسی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ کتنی ہی ایسی کتب ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو غاصب اور ڈاکو ثابت کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان معاملات کے لیے مسالک کو مزید بلند سطح چاہیے۔ جس سطح پر رہ کر ہم دوسرے مسالک کو غلط ثابت کرتے ہیں اس پر رہتے ہوئے ان مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اور یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس سطح کو کبھی چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ مسلک مذہب سے ہی ہے۔ لہٰذا جس بندے کا مسلک پر ایمان پختہ ہے اس کا مذہب پر بھی اتنا ہی ایمان پختہ ہوتا ہے۔ اگر مسلک پر ایمان ڈانواڈول ہے تو مذہب کی بنیادیں (اس شخص کے لیے) تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی مگر ڈھیلی ضرور ہوجاتی ہیں۔

بعض اوقات میں خود تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہوں اور "میں نہ مانوں" والی ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہوں۔ شاید یہی ہمارا مقدر ہے!
 
آپی۔۔۔ یہ اور دوسرے تھریڈ میں شورش کاشمیری والی باتیں کسی کام کی نہیں ہیں۔ اسی طرح تو ہر مسلک کا بندہ کتب سے اقتباسات پیش کر کے کسی کو صحیح اور کسی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ کتنی ہی ایسی کتب ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو غاصب اور ڈاکو ثابت کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان معاملات کے لیے مسالک کو مزید بلند سطح چاہیے۔ جس سطح پر رہ کر ہم دوسرے مسالک کو غلط ثابت کرتے ہیں اس پر رہتے ہوئے ان مسائل کا حل ممکن نہیں۔!
بہت اچھی بات کہی ہے آپ نے۔۔۔چونکہ مسلکی تعصب میں مبتلا افراد تاریخ کو بھی اپنے مخصوص زاویہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اسلئیے ہر بات متنازعہ ہوجاتی ہے۔ مذکورہ بالا اقتباسات پڑھ کر یہ کلئیر نہیں ہورہا کہ مضمون نگار کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔حجاز میں شورش برپا کرنے والے کون ہیں اور عثمانی خلافت کے خلاف سازشیں کرنے والے کون ہے؟ ان سوالات کا جواب اس قسم کی بے سروپا تحریروں سے حاصل نہیں ہوتا،خوش قسمتی سے انٹرنیٹ پر سعودی پرنس طلال بن عبدالعزیز کا الجزیرہ کو دیا گیا انٹرویو بھی ہے۔۔ ہاؤس آف سعود کے ہی ایک فرد کی گواہی کافی ہے موصوف نے صاف اقرار کیا کہ انکے دادا جان برٹش حکومت کے تنخواہ دار ملازم تھے۔ 5000 پاؤنڈ ماہوار وظیفہ مقرر تھا اور یہ کہ اُس زمانے میں یہ رقم کوئی کسی کو فی سبیل اللہ نہیں دے رہا تھا۔ ؛)
 

حسان خان

لائبریرین
مسلمانان برصغیر کی طرف سے امیر ابن سعود کی مخالفت سے مسلمانان عالم کو شدید نقصان پہنچے گا۔


کیا خلفائے عثمانی کسی اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتے تھے جو یہ نجد کے عرب بدو ان کے خلاف بغاوت میں کھڑے ہو گئے تھے؟ اب جو کام ان نجدیوں نے خود کیا، اُس سے دوسرے مسلمانوں کو کیوں روک رہے ہیں؟
 
کیا خلفائے عثمانی کسی اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتے تھے جو یہ نجد کے عرب بدو ان کے خلاف بغاوت میں کھڑے ہو گئے تھے؟ اب جو کام ان نجدیوں نے خود کیا، اُس سے دوسرے مسلمانوں کو کیوں روک رہے ہیں؟
جناب آپ ابھی تک خلیفہ عثمانی بمقابلہ امیر سعود کے مغالطے میں مبتلا ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام رہے ہیں ؟
 
آپی۔۔۔ یہ اور دوسرے تھریڈ میں شورش کاشمیری والی باتیں کسی کام کی نہیں ہیں۔ اسی طرح تو ہر مسلک کا بندہ کتب سے اقتباسات پیش کر کے کسی کو صحیح اور کسی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ کتنی ہی ایسی کتب ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو غاصب اور ڈاکو ثابت کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان معاملات کے لیے مسالک کو مزید بلند سطح چاہیے۔ جس سطح پر رہ کر ہم دوسرے مسالک کو غلط ثابت کرتے ہیں اس پر رہتے ہوئے ان مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اور یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس سطح کو کبھی چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ مسلک مذہب سے ہی ہے۔ لہٰذا جس بندے کا مسلک پر ایمان پختہ ہے اس کا مذہب پر بھی اتنا ہی ایمان پختہ ہوتا ہے۔ اگر مسلک پر ایمان ڈانواڈول ہے تو مذہب کی بنیادیں (اس شخص کے لیے) تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی مگر ڈھیلی ضرور ہوجاتی ہیں۔
بعض اوقات میں خود تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہوں اور "میں نہ مانوں" والی ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہوں۔ شاید یہی ہمارا مقدر ہے!
پہلا جملہ سمجھ نہیں آیا بھای، یعنی ہمیں مطالعہ اور تحقیق ترک کر دینی چاہیے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا؟اور اس کو مقدر مان لیں ؟ یہ تو مقدر کے ساتھ ظلم ہے۔
بھیا تاریخ اور خصوصا تاریخ اسلام کے مطالعے کے لیے میں بروکلمان اور فلپ ہتی کو برداشت کر سکتی ہوں یہ تو پھر ایک علیگ کا مضمون ہے ؟ اس مسئلے پر آپ کے فراہم کیے گئے مواد کا بھی میں بخوشی مطالعہ کروں گی ۔
یہاں مسلک ہی نہیں ، اس کے علاوہ تاریخی حقائق بھی ہیں ، مثلا اگر اس مضمون میں غلط طور پردعوی کیا گیا ہو کہ مولانا ظفر علی خان نے امیر سعود کی حمایت کی تھی تو آپ کسی اور حوالے سے اس کو غلط ثابت کر دیجیے ؟
یا اگر ہندوستانی عمائدین کے وفد حجاز کے بارے میں کوئی غلط بیانی ہے تو اسے بیان کر دیجیے ؟
رہی بات مسالک کی تو مسالک تعبیر وتشریح ہیں قرآن وسنت کی ، مسلمانوں میں ہمیشہ سے مسالک کی تبدیلی کا رضاکارانہ عمل ہوتا رہا ہے اس سے ان کے قرآن وحدیث پر بنیادی ایقان پر کوئی زد نہیں پڑتی ۔
مضمون ابھی مکمل نہیں ہے ان شاءاللہ مکمل کرنے کے بعد مزید بات ہو گی ۔
 
کیا خلفائے عثمانی کسی اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتے تھے جو یہ نجد کے عرب بدو ان کے خلاف بغاوت میں کھڑے ہو گئے تھے؟ اب جو کام ان نجدیوں نے خود کیا، اُس سے دوسرے مسلمانوں کو کیوں روک رہے ہیں؟
جس خلافت کی سارے ترکان عثمانی مردوں کی طرح حفاظت نہ کر سکے اس کو آپ کی یہ بے پرکیاں واپس لانے سے رہیں ۔ مسئلہ آپ کے زوم لینس کا ہے ۔ منظر بالکل درست ہے ۔ حال ہی میں معمر قذافی فاطمی خلافت کے احیا کا خواب دیکھتے دیکھتے مرا ہے ۔ خوابوں پہ کوئی پابندی نہیں ۔
برسبیل تذکرہ ہندوستانی مسلمان جب زوروں سے تحریک خلافت چلا رہے تھے جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک جانب تھے ، بعد میں جب مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ کی طرف متوجہ ہوئے تو جناحؒ نے ان کو خلافت کے romanticism سے باہر آنے پر مبارک دی تھی جس پر وہ جھینپ گئے تھے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے کم واقف ہیں ۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس خلافت کی سارے ترکان عثمانی مردوں کی طرح حفاظت نہ کر سکے اس کو آپ کی یہ بے پرکیاں واپس لانے سے رہیں ۔ مسئلہ آپ کے زوم لینس کا ہے ۔ منظر بالکل درست ہے ۔ حال ہی میں معمر قذافی فاطمی خلافت کے احیا کا خواب دیکھتے دیکھتے مرا ہے ۔ خوابوں پہ کوئی پابندی نہیں ۔
برسبیل تذکرہ ہندوستانی مسلمان جب زوروں سے تحریک خلافت چلا رہے تھے جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک جانب تھے ، بعد میں جب مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ کی طرف متوجہ ہوئے تو جناح نے ان کو خلافت کے romanticism سے باہر آنے پر مبارک دی تھی جس پر وہ جھینپ گئے تھے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے کم واقف ہیں ۔

آپ کو کس نے کہہ دیا کہ میں کسی اسلامی خلافت کی واپسی کا تمنائی ہوں؟ کیا آپ نے مجھے دوسرے دھاگے پر غازی اتاترک اور جدید ترکی کے گُن گاتے نہیں دیکھا؟

البتہ سماجی طور پر پسماندہ آلِ سعود پر میں خلافتِ عثمانیہ کو بہر صورت ترجیح دوں گا۔
 
آپ کو کس نے کہہ دیا کہ میں کسی اسلامی خلافت کی واپسی کا تمنائی ہوں؟ کیا آپ نے مجھے دوسرے دھاگے پر غازی اتاترک اور جدید ترکی کے گُن گاتے نہیں دیکھا؟
البتہ سماجی طور پر پسماندہ آلِ سعود پر میں خلافتِ عثمانیہ کو بہر صورت ترجیح دوں گا۔
جی ہاں خلافت عثمانیہ کے ایام زوال کی ’سماجی ترقی و عظمت‘ کے متعلق آج کل ترکی میں ایک ڈرامہ بنا تھا ’حریم سلطان‘ کے نام سے ، پتہ نہیں کیوں رجب طیب ارگان کو پسند نہیں آیا؟ یہاں شورش کے اقتباس میں بھی کچھ ذکر ہے ۔ http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ابوالکلام-آزاد-از-شورش-کاشمیری.57301/#post-1135153
اب ان عیاشیوں کی بجائے آل سعود کے ٹاورز پر اس لیے نظر جاتی ہے کہ معاملہ حب علی کا نہیں بغض معاویہ کا ہے جیسا کہ جناب خود اعتراف فرما چکے ہیں ۔ آپ کے دھاگوں کے متعلق اتنا پتہ ہے کہ یک طرفہ گفتگو کے عادی ہیں ، دوسری جانب سے جواب آتے ہی مزید لکھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں ۔
 

حسان خان

لائبریرین
جی ہاں خلافت عثمانیہ کے ایام زوال کی ’سماجی ترقی و عظمت‘ کے متعلق آج کل ترکی میں ایک ڈرامہ بنا تھا ’حریم سلطان‘ کے نام سے ، پتہ نہیں کیوں رجب طیب ارگان کو پسند نہیں آیا؟ یہاں شورش کے اقتباس میں بھی کچھ ذکر ہے ۔ http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ابوالکلام-آزاد-از-شورش-کاشمیری.57301/#post-1135153
اب ان عیاشیوں کی بجائے آل سعود کے ٹاورز پر اس لیے نظر جاتی ہے کہ معاملہ حب علی کا نہیں بغض معاویہ کا ہے جیسا کہ جناب خود اعتراف فرما چکے ہیں ۔ آپ کے دھاگوں کے متعلق اتنا پتہ ہے کہ یک طرفہ گفتگو کے عادی ہیں ، دوسری جانب سے جواب آتے ہی مزید لکھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں ۔

ڈرامے میں پیش کردہ سلطانی عیاشیوں کو چھوڑیے، کیونکہ یہ کوئی علمی دستاویز نہیں بلکہ صرف مصالحہ سیریل ہے۔ طیب ارگان نے اس پر اس لیے اعتراض کیا ہے کیونکہ اس میں سلطان سلیمان جیسے مذہبی و متقی خلیفہ کو بوس و کنار کرتے دکھایا گیا ہے۔
اگر تھوڑا غور کیجیے تو امین بھائی نے ٹاور پر اس لیے انگلی اٹھائی ہے کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق مقدس کعبے سے ہے۔ ورنہ عیاشی تو زرداری بھی کرتا ہے، اور خوبصورت عمارات کا تو میں بھی شیدائی ہوں۔

میں یہاں عیاشیوں کے بجائے آلِ سعود کی سماجی پسماندگی کا ذکر کر رہا تھا۔

آئیے اب میں عثمانیوں کی سماجی ترقی اور سعودیوں کی سماجی پسماندگی کی تین مثالیں پیش کرتا چلوں:

1۔ خلافتِ عثمانیہ نے خالدہ ادیب خانم، نگار خانم، اور ان جیسی کئی دیگر مجاہدہ خواتین دنیا کو پیش کیں۔ سعودیوں نے تو ابھی تک عورت کو گاڑی چلانے کا لائسنس تک نہیں دیا اور اسے برقعے جیسی روایات کا قیدی بنایا ہوا ہے۔ جبکہ عثمانی خواتین نے انیسویں صدی سے ہی پردے کو خیرباد کہنا شروع کر دیا تھا۔

2۔ خلافت عثمانیہ نے مسلم دنیا کو پہلی صاحبِ دیوان عورت مہری خاتون پیش کی۔ مہری خاتون نے سولہویں صدی میں اُس وقت اپنا دیوان مرتب کیا جب مغرب میں بھی کسی خاتون ادیبہ کا ہونا محال سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف سعودیوں نے عورت تو عورت، ابھی تک کوئی قابلِ ذکر مرد ادیب بھی دنیا کو پیش نہیں کیا۔

3۔ عثمانی خلفا نہ صرف بلادِ اسلامیہ کے سلطان، بلکہ زبان و ادب کے بھی سلاطین تھے۔ انہوں نے ترکی اور فارسی میں بہترین ادبی ورثہ چھوڑا ہے اور اپنے دور کے بہترین ادبی دماغوں کی سرپرستی کی ہے۔ اس کے مقابلے میں سعودی حکمرانوں کی کسی تہذیبی اور ادبی خدمت کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔
 
Top