کشمیر کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟
(محمد فیصل)
72 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جنگی ماحول گرم ہے۔ دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو حملے اور جوابی حملے کی دھمکی دے چکی ہیں۔ ایسے میں دونوں اطراف سے سمجھدار اور امن پسند لوگ جنگ کے خطرے سے نجات پانے اور آنے والی نسلوں کو امن، سلامتی اور خوشحالی پر مبنی مستقبل دینے کے خواہاں ہیں۔
مگر اس کے لیے دونوں ممالک میں اس سب سے بڑی وجہ نزاع کا خاتمہ ضروری ہے۔
کیا اس مسئلے کا کوئی ایسا حل ممکن ہے جو اس کے تینوں فریقین یعنی پاکستان، انڈیا اور کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کیا ہو سکتے ہیں اور اس سے بھی پہلے یہ جاننا ہو گا کہ یہ مسئلہ دراصل ہے کیا۔
مسئلہ کشمیر نے جنم کیسے لیا؟
مسئلہ کشمیر کی سب سے اچھی تعریف سابق صدر غلام اسحاق خان نے کی تھی جنہوں نے اسے 'تقسیم برصغیر کا نامکمل کام' قرار دیا تھا۔
برطانیہ نے برصغیر کو انتخابات یا رائے شماری کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا۔ اس طرح برطانوی ہند کی مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان بن گئی تھیں۔ برطانویوں نے جموں و کشمیر جیسی شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنی ریاست کے جغرافیے اور آبادی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے پاکستان کا حصہ بننا ہے یا وہ انڈیا کے ساتھ الحاق کریں گے۔
تاہم کانگرس پارٹی کا یہ کہنا تھا کہ شاہی ریاستوں کے حکمران نہیں بلکہ عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے کس ملک میں شامل ہونا ہے۔ چنانچہ اس نے ایسی ریاستوں کو بزور طاقت انڈیا میں شامل کر لیا جن کے مسلمان حکمران یا تو آزادی چاہتے تھے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند تھے۔ ریاست حیدرآباد اور جوناگڑھ اس کی مثال ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں صورتحال اس سے برعکس تھی جہاں مسلمان اکثریتی آبادی پر ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ کانگرس کو کشمیر میں بھی عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے تھا مگر یہاں اس نے حیدرآباد اور جونا گڑھ والا اصول نظرانداز کرتے ہوئے راجا کی مدد سے کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق کروا لیا۔
ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ میں طے شدہ سرحدی لکیر تبدیل کر کے انڈیا کو کشمیر تک رسائی میں مدد دی
ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ میں طے شدہ سرحدی لکیر تبدیل کر کے انڈیا کو کشمیر تک رسائی میں مدد دی
یاد رہے کہ جنوری 1947 میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات مسلم کانفرنس نے جیتے تھے جس نے 19 جولائی 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کی ریاست جغرافیائی، معاشی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے پاکستان سے قریب تر ہے اسی لیے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔
اس وقت کے برطانوی وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے ریڈکلف ایوارڈ میں ترمیم کی اور مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور انڈیا کو دے دیا جس کا مقصد انڈیا کی کشمیر تک رسائی یقینی بنانا تھا۔
جب کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کی بات چلی تو ریاست کے عوام میں بے چینی اور بغاوت کے آثار ابھرنے لگے۔ پونچھ، گلگت، ہنزہ، سکردو اور کارگل میں یہ بغاوت خاص طور پر نمایاں تھی۔ ایسے میں ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے مہاراجہ کے ریاستی اقتدار کو تحفظ دینے کے بدلے اس سے انڈیا کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لیے۔
اس موقعے پر ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کا کہنا تھا کہ الحاق کی یہ دستاویز 'عبوری' ہے اور ریاست میں حالات معمول پر آنے کے بعد عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس وقت کے انڈین وزیراعظم نہرو کا بھی یہی موقف تھا۔
جواہر لال نہرو کشمیر کا مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے گئے تھے جہاں بحث میں پاکستان کے دلائل وزنی نکلے تو انہیں احساس ہو گیا کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں
اس دوران بعض کشمیری گروہوں نے پاکستانی رضاکاروں اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے قبائلیوں کی مدد سے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا جو اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ یہ لڑائی 14 مہینےجاری رہی اور اس کا اختتام اقوام متحدہ کی مداخلت پر ہوا۔
پاکستان اور انڈیا دونوں نےجنگ بندی کو قبول کیا جس کا قیام یکم جنوری 1949 کو عمل میں لایا گیا تھا۔ اس جنگ بندی کے وقت دونوں ممالک کی فوجیں جہاں موجود تھیں وہی کنٹرول لائن کہلاتی ہے اور کشمیر میں پاکستان اور انڈیا کی یہی سرحد ہے۔
ثالثی کی کوششیں (1948 تا 1965)
نہرو نے 15 جنوری 1948 کو کشمیر کا مسئلہ یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان پر جارحیت کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے کشمیر میں مداخلت سے روکا جائے۔
جواباً پاکستان کا یہ موقف تھا کہ اس نے کشمیر کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ ملحق کر لیا ہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی دی کہ کشمیر سے تمام بیرونی فورسز کو واپس بلا لیا جائے تاکہ ریاست سے ہجرت کرنے والوں کی واپسی اور بحالی ممکن ہو سکے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے کشمیر میں غیرجانبدارانہ انتظامیہ قائم کرنے اور رائے شماری کی تجویز بھی دی گئی جس کی بنیاد پر فیصلہ ہونا تھا کہ آیا کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ جانا چاہیں گے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بحث ہوئی تو پاکستانی دلائل میں وزن پایا گیا اور نہرو کو احساس ہو گیا کہ اگرچہ وہ خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لائے تھے مگر اس سے انہیں فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا۔
سلامتی کونسل نے اپنی پہلی قرارداد جنوری 1948 کو منظور کی جس میں جنگ بند کرنے کو کہا گیا اور اس سے بعد آنے والی قرارداد میں اقوام متحدہ کا کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جس نے انڈیا اور پاکستان جا کر حقائق معلوم کرنا اور ثالث کا کردار ادا کرنا تھا جس کے نتیجے میں رائے شماری کرائی جانا تھی۔
14 اگست 1948 کو اقوام متحدہ نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں جو کچھ یوں تھیں:
1۔ دونوں ملک جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔
2۔ پاکستان اپنی فورسز کو کشمیر سے واپس بلائے۔
3۔ خالی کرائے گئے علاقوں میں انتظامی امور اقوام متحدہ کی نگرانی میں چلائے جائیں۔
4۔ انڈیا کی فوجیں مرحلہ وار جموں اور کشمیر کو خالی کریں۔
5۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کرائی جائے گی۔
پاکستان اور انڈیا دونوں نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو منظور کیا جس میں رائے شماری بھی شامل تھی۔ اگرچہ اس سے بعد بھی اقوام متحدہ نے رائے شماری کے حوالے سے متعدد قراردادیں منظور کیں مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی کے باعث ان میں کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
1962 تک امریکہ اور برطانیہ نے بھی اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے کوششیں کیں جو بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ ان تمام کوششوں کا بنیادی مقصد انڈیا کے ساتھ کشمیر سے فوجیں نکالنے کا معاہدہ کرنا اور رائے شماری ممکن بنانا تھا۔
انڈیا نے اپنے موقف سے انحراف جاری رکھا۔ پہلے تو اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ پر تکنیکی اور ضابطوں سے متعلق اعتراضات کیے اور پھر 1956 میں انہیں سرے سے ہی مسترد کر دیا۔
انڈیا نے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کی صورت میں کشمیر کو خصوصی درجہ دے رکھا ہے
انڈیا نے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کی صورت میں کشمیر کو خصوصی درجہ دے رکھا ہے
اس موقع پر نہرو کا کہنا تھا کہ کشمیر میں استصواب رائے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ قانونی طور پر انڈیا کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس کا جواز یہ بتایا کہ کشمیریوں نے دستور ساز اسمبلی کے لیے ووٹ دیے تھے اور اس کے نتیجے میں شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم بنے۔ اس طرح کشمیری عوام اپنا حق خود ارادیت استعمال کر چکے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ نے یہ موقف مسترد کر دیا اور کہا کہ ریاستی اسمبلی کا کوئی بھی اقدام استصواب رائے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
اس دوران انڈیا نے کشمیر میں ہنگامی حکومت قائم کر لی جس کے سربراہ شیخ عبداللہ تھے۔ مزید براں کشمیر کو انڈین وفاق میں 'خصوصی درجہ' دے کر ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کو 'صدر ریاست' بنا دیا گیا اور شیخ عبداللہ وزیراعظم بن گئے۔انڈیا کے آئین میں یہ خصوصی درجہ آرٹیکل 370 کی صورت میں موجود ہے۔
جنگ اور سفارت کاری (1965 تا 1990)
کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سیاسی و سفارتی اقدامات ناکام ہوئے تو پاکستان نے دوسرے ذرائع سے کام لینے کی ٹھانی۔ اگست اور ستمبر 1965 میں اس نے کشمیر کی آزادی کے لیے 'آپریشن جبرالٹر' شروع کیا جس کا نتیجہ دونوں ممالک میں مکمل جنگ کی صورت میں نکلا۔
1971 میں پاک بھارت جنگ کے بعد شملہ معاہدہ ہوا جس میں پاکستان نے تسلیم کیا کہ وہ اس مسئلے کو انڈیا کے ساتھ باہمی مذاکرات سے حل کرے گا۔ اس معاہدے نے گویا مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلے کی فہرست سے نکال کر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعے کی حیثیت دے دی اور انڈیا نے جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار بنا لیا۔
انڈیا نے تواتر سے یہ موقف اختیار کیا کہ شملہ معاہدے کے تحریری مسودے سے ہٹ کر دونوں ممالک کے سربراہان میں اتفاق پایا گیا تھا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول کو عالمی سرحد کے طور پر تسلیم کر لے گا۔
1971 کی جنگ کے بعد انڈٰیا کے مقابل پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی اور وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے پہلے کی طرح زور دار انداز میں بات کرنے کے قابل نہ رہا۔
کشمیری بغاوت کی تاریخ (1990 تا 201
1970 اور 1980 کی دہائیوں میں کشمیری نوجوان نسل میں حقوق کی جدوجہد نے جنم لینا شروع کیا جس کا آغاز ریاستی حکومت کی بدعنوانی اور سیاسی اپوزیشن کو دبانے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ 1984 سے 1989 کے دوران دہلی کی جانب سے متعین کردہ ریاستی گورنر جگموہن کے دور میں فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا ملی اور ریاست میں مسلمانوں کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوا۔
1987 کے ریاستی انتخابات میں دھاندلی پُرتشدد عوامی مظاہروں اور 1990 کے عام انتخابات کے بائیکاٹ پر منتج ہوئی۔ اس موقع پر ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ طاقت کے استعمال پر کشمیری نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور قابض فوج کے خلاف مسلح مزاحمتی تحریک شروع کی جو آج تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔
مقامی سطح پر شروع ہونے والی اس بغاوت نے کشمیر کے حالات کو تبدیل کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیریوں نے خود آگے بڑھ کر حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔ آغاز میں اس کشمیری بغاوت کی قیادت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین کے ہاتھ میں تھی۔ اول الذکر کشمیر کی آزاد حیثیت اور موخرالذکر ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی رہی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے پیپلزکانفرنس، عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر کشمیری گروہوں سے مل کر آل پارٹیز حریت کانفرنس قائم کی۔
1990 تک افغانستان میں سوویت روس کے خلاف 'جہاد' ختم ہوا تو جہادی عناصر نے کشمیر کا رخ کرنا شروع کیا۔ ریاست میں انڈین فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد نے وادی کی مسلم آبادی میں مایوسی اور غصے کو جنم دیا۔ ایسے میں جہادی عناصر کو وادی کے نوجوانوں میں مقبولیت ملی اور سیاسی اختیار کے حصول کی جدوجہد نے مسلح تحریک کی شکل اختیار کر لی جس میں اسلامی شدت پسند عناصر نے غلبہ پا لیا۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے علاوہ عام ہندو شہری بھی ان مسلح تنظیموں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے جس کے نتیجے میں ان کی عوامی حمایت کمی آئی اور انڈیا کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ کشمیر میں جاری مسلح تحریک حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی ہے جس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔
1990 کی دہائی کے آغاز میں کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں پاک انڈیا بات چیت کے ادوار بھی شروع ہوئے اور دونوں ممالک میں 'اعتماد کی بحالی' کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔ ان میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے دستبرداری، ایک دوسرے کی سرحدوں کے قریب فوجی طیاروں کے لیے نو فلائی زون کا قیام اور سرحدوں کے قریب فوجی مشقوں سے متعلق ایک دوسرے کو پیشگی اطلاعات دینے جیسے اقدام شامل تھے۔
نائن الیون کے بعد انڈیا نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر اپنے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی جس میں اسے کامیابی بھی ملی
1998 میں دونوں ممالک کے مابین 'کمپوزٹ ڈائیلاگ' شروع ہوا جس میں انڈیا پہلی مرتبہ کشمیر کو 8 نکاتی ایجنڈے میں ایک الگ نکتے کے طور پر شامل کرنے پر رضامند ہو گیا۔ بعدازاں فروری 1999 میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اور ان کے انڈین ہم منصب واجپائی کی ملاقات ہوئی جس میں لاہور اعلامیہ جاری ہوا۔ اس موقع پر فریقین نے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لانے پر اتفاق کیا۔
مئی جون 1999 میں کارگل جنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات پہلی حالت میں واپس چلے گئے۔ جولائی 2001 میں پاکستانی صدر مشرف نے واجپائی سے آگرہ میں ہاتھ ملایا۔
اس عرصہ میں دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا تاہم دسمبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے اور امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش آنے کے بعد انڈیا نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر اپنے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی جس میں اسے کامیابی بھی ملی۔
دسمبر 2001 میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی جنگ کے دھانے تک پہنچ گئی۔ یہ کشیدگی 2004 تک جاری رہی جب مشرف اور واجپائی اسلام آباد میں سارک کانفرنس کے موقع پر دوسری مرتبہ ملے۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیے میں فریقین نے کشمیر سمیت تمام متنازع معاملات پر 'کمپوزٹ ڈائیلاگ' دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
اسی برس انڈیا میں کانگریس کی حکومت آئی تو جون 2004 میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات ہوئی جس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فریقین میں کشمیر پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور مسئلے کے پرامن مذاکراتی حل کے لیے سنجیدہ بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق پایا گیا۔
کشمیر میں حالیہ مسلح جدوجہد میں نوجوانوں کی وہ نسل نمایاں ہے جس نے 1990 کے بعد جنم لیا تھا
خاص بات یہ تھی کہ اس اعلامیے میں شملہ معاہدے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا بھی تذکرہ تھا جس سے گفت و شنید میں دونوں ممالک کے موقف کو جگہ دینے کا اشارہ ملتا تھا۔
مشرف کے دور میں پاک انڈیا بیک چینل روابط بھی رہے اور اس دوران کشمیر پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا مگر حتمی طور پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ 2008 میں ممبئی حملے، بعدازاں پٹھان کوٹ میں حملوں اور دونوں ممالک کی سرحدوں پر پے درپے کشیدہ واقعات نے مزید بات چیت کا امکان ختم کر دیا۔
اس دوران کشمیری نوجوانوں کی مسلح تحریک میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی۔ اس مرتبہ اس تحریک میں نوجوانوں کی وہ نسل نمایاں ہے جس نے 1990 کے بعد جنم لیا تھا۔
گزشتہ چند برس میں مقبوضہ کشمیر میں انڈین فوج پر حملوں کے پے درپے واقعات نے دونوں ممالک میں مستقل تناؤ پیدا کر رکھا ہے۔ حالیہ دنوں پلوامہ میں انڈین فوجی قافلے پر حملے اور ہلاکتوں کے بعد طرفین میں ایک مرتبہ پھر جنگی ماحول گرم ہے جو خطے کو ایک اور جنگ میں دھکیل سکتا ہے جس کے نتائج گزشتہ جنگوں سے کہیں زیادہ ہولناک ہوں گے۔
مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو سکتا ہے؟
کشمیر کو دنیا کی خطرناک ترین جگہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہاں پاکستان اور انڈیا کی افواج ہمہ وقت ہتھیار بند حالت میں آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں اس مسئلے پر تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس مسئلے کے باعث دونوں ہمسایہ ممالک 72 سال سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آ رہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل اس کے تینوں فریقین کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔ ماضی و حال میں اس حوالے سے بہت سی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں جن میں 10 ایسی ہیں جن میں اس مسئلے کا ممکنہ حل پوشیدہ ہو سکتا ہے۔
1۔ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے
پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کا حامی ہے۔ ان قراردادوں کی رو سے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا انڈیا کا حصہ بننا چاہیں گے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت اس کے ساتھ رہنا چاہے گی۔
پاکستان اس دلیل کو رد کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی نئی قرارداد ہی ان قراردادوں میں ترمیم یا تنسیخ کر سکتی ہے۔
رائے شماری کی تجویز انڈیا کے لیے قطعی ناقابل قبول ہے جس کا خیال ہے کہ اگر کشمیر میں ریفرنڈم ہوا تو فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔
کشمیری عوام اقوام متحدہ کے زیراہتمام رائے شماری کی حمایت کرتے ہیں مگر 'جے کے ایل ایف' جیسے بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ اس رائے شماری میں 'آزادی' کا آپشن بھی شامل ہونا چاہیے۔
2۔ موجودہ سرحدوں کو تسلیم کر لیا جائے
انڈیا کا موقف ہے کہ پورا جموں و کشمیر اس کا لازمی جزو ہے جس میں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات بھی شامل ہیں۔ انڈیا نے متعدد بار اشارے دیے ہیں کہ وہ کشمیر کی جغرافیائی حالت جوں کی توں رکھنے اور لائن آف کنٹرول کو دونوں ملکوں میں سرحدی لکیر تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ شملہ کانفرنس میں بھی انڈیا کا یہی کہنا تھا اور اب بھی وہ صرف اسی حد تک جانے کی بات کرتا ہے۔
یہ آپشن پاکستان اور کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
3۔ کشمیر کو مکمل آزادی دے دی جائے
کشمیر کی مکمل آزادی کو عموماً اس مسئلے کے حل کے لیے 'تیسرا آپشن' کہا جاتا ہے۔ کشمیری عوام خصوصاً وہاں کی شہری آبادی اس آپشن کی حامی ہے۔ کشمیر میں اس موقف کے حامیوں کی اکثریت ہے یا نہیں اس کا تعین اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کشمیری اپنی رائے دینے میں آزاد ہوں گے۔
اب تک پاکستان اور انڈیا دونوں اس آپشن کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔
4۔ دریائے چناب کو سرحد بنایا جائے
اس فارمولے کی رو سے وادی کشمیر میں مسلمان اکثریتی علاقے اور جموں میں غالب مسلم آبادی والے تین اضلاع (پونچھ، راجوڑی اور ڈوڈا) جو کہ دریائے چناب کے دائیں کنارے پر واقع ہیں انہیں پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور بقیہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہو۔
1962 اور 1963 میں بھٹو اور انڈین وزیر خارجہ سورن سنگھ کے مذاکرات میں مسئلے کے اس حل پر بھی بات ہوئی تھی مگر انڈیا نے اس پر کوئی پیشرفت نہ کی۔
چناب فارمولے میں پونچھ، راجواڑی اور ڈوڈا کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے
چناب فارمولے میں پونچھ، راجواڑی اور ڈوڈا کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے
بعدازاں 1999 میں سابق سیکرٹری خارجہ نیاز نائیک اور ان کے انڈین ہم منصب آر کے مشرا میں ہونے والی بات چیت میں بھی مسئلے کا یہ حل زیرغور آیا تھا۔ ان دونوں کو پاک انڈیا حکومتوں نے غیرسرکاری طور پر یہ ہدف سونپا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی ممکنہ حل تلاش کریں جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ تاہم اس گفت و شنید کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
پاکستان اور کشمیریوں کے لیے یہ حل قابل قبول ہو سکتا ہے مگر موجودہ حالات میں انڈیا کی جانب سے اس کی قبولیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
5۔ اوون ڈکسن کا منصوبہ
اوون ڈکسن ایک آسٹریلوی قانون دان تھے جنہیں اقوام متحدہ نے 1950 میں مسئلے کے حل کی راہیں تلاش کرنے کا کام سونپا تھا۔ خطے کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد ڈکسن نے بتایا کہ کون سے علاقوں میں پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کے حوالے سے عوام کی ترجیح واضح نہیں ہے۔
ان میں وادی کشمیر اور موجودہ آزاد کشمیر کے علاقے شامل تھے جن کا مستقبل بات چیت اور لوگوں کی رائے لینے کے بعد طے کرنے کی تجویز دی گئی۔ جہاں تک بقیہ کشمیر کا تعلق ہے تو اوون ڈکسن نے قرار دیا کہ جموں اور لداخ کو انڈیا جبکہ شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک تجویز یہ ہے کہ وادی کشمیر کو خودمختار ریاست بنا کر پاکستان اور انڈیا دونوں کو اس تک آزادانہ رسائی دے دی جائے
پاکستان کے لیے مسئلے کا یہ حل قابل قبول ہو سکتا تھا مگر انڈیا نے پہلے تو اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہ کیا اور بعدازاں اس تجویز کو سرے سے رد کر دیا۔
6۔ کشمیر سٹڈی گروپ کی تجویز
1998 میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری ارب پتی فاروق کاٹھواری نے 'کشمیر سٹڈی گروپ' کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا۔ اس تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا اور امریکہ کے ماہرین شامل تھے۔ اس گروپ نے 'متحدہ خودمختار ریاست' کے نام سے ایک نئی تجویز پیش کی۔
اس تجویز کی رو سے عالمی طاقتوں کی نگرانی میں ہونے والی ووٹنگ کے ذریعے وادی کشمیر کو ایک خودمختار ریاست بنایا جانا چاہیے۔ تجویز کے مطابق اس ریاست کو عالمی سطح پر الگ ملک کا درجہ حاصل نہیں ہو گا اور پاک انڈیا دونوں ممالک کو اس تک آزادانہ رسائی حاصل ہو گی۔ بعدازاں اس تجویز میں یہ بات بھی شامل کر لی گئی کہ آزاد کشمیر بھی اس خودمختار ریاست کا حصہ ہو گا۔
تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس تجویز پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
7۔ وادی کشمیر اقوام متحدہ کے حوالے کی جائے
سیاسی امور کے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ کی تجویز ہے کہ جموں اور لداخ انڈٰیا جبکہ شمالی علاقہ جات پاکستان کا حصہ رہیں۔ جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے تو اسے 10 برس کے لیے اقوام متحدہ کی تولیت میں دے دیا جائے جس کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے یہ طے ہو کہ وادی کے لوگ پاکستان یا انڈیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا آزاد رہنے کو ترجیح دیں گے۔
تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس طرح کی تجویز پر کوئی بات نہیں کی اور فی الحال ان کی جانب سے مسئلے کا یہ حل قبول کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
8۔ یوسف بُچ کا فارمولا
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار یوسف بُچ نے کچھ عرصہ قبل مسئلہ کشمیر کے حل کی دو مراحل پر مشتمل تجویز پیش کی تھی جسے خاصی شہرت ملی۔
یوسف بُچ کے مطابق پہلے مرحلے میں کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کر کے تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں اقوام متحدہ غیرمنقسم ریاست جموں و کشمیر کو پانچ ڈویژنوں میں تقسیم کر کے ان میں الگ الگ انتخابات کرائے گی اور ہر ڈویژن کی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ یہ پانچوں اسمبلیاں الگ الگ طے کریں گی کہ آیا وہ پاکستان یا انڈیا کے ساتھ موجودہ حالت میں رہنا چاہتی ہیں یا انہیں دونوں ممالک کے ساتھ کسی اور طرز کا تعلق درکار ہے۔
یہ فارمولا قدرے پیچیدہ بھی ہے اور پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ملک نے بھی اس پر غور کا عندیہ نہیں دیا۔
9۔ یورپی مثالوں پر عمل کیا جائے
مسئلہ کشمیر کے حل کی یہ تجویز امریکی ماہر سیلگ ہیریسن نے دی ہے جس میں وہ اٹلی اور سابق یوگوسلاویہ کے درمیان خودمختار علاقے ٹریسٹے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں سلاو سے تعلق رکھنے والے لوگ اٹلی کی حکومت میں رہ رہے ہیں مگر انہیں اپنی ثقافت اور قومیت برقرار رکھنے نیز اٹلی اور سلوانیہ میں آنے جانے کی آزادی ہے۔
ہیریسن کی تجویز ہے کہ انڈیا وادی کشمیر کو خودمختار علاقے کے طور پر خصوصی درجہ دے جبکہ پاکستان کو آزادکشمیر میں بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔ اس طرح دونوں اطراف کے کشمیریوں کو برابر خوداختیاری مل جائے گی۔
ہیریسن فارمولے کی رو سے لائن آف کنٹرول کو نرم سرحد کی حیثیت حاصل ہو گی جس سے اطراف کے لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا آسان ہو جائے گا۔
اس ضمن میں بعض ماہرین اٹلی کے علاقے ٹیرول کے حوالے سے اٹلی اور آسٹریا کے مابین اسی جیسے انتظام کی مثال بھی دیتے ہیں۔ اس علاقے کی آبادی جرمن زبان بولتی ہے جو ناصرف بڑی حد تک خودمختار ہے بلکہ اسے آسٹریا اور اٹلی میں آنے جانے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ تاہم پاکستان، انڈیا یا کشمیریوں میں سے کسی نے بھی اس تجویز میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
10۔ سپین اور فرانس سے سبق سیکھیں
اینڈورا سپین اور فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ کشمیر کی طرح اینڈورا بھی کبھی شاہی ریاست تھی۔ صدیوں سے اس ریاست کی ملکیت پر فرانس اور سپین میں تنازع چلا آ رہا تھا۔
1993 میں دونوں ممالک نے اینڈورا کو خودمختار علاقے کا خصوصی درجہ دے کر یہ مسئلہ حل کر لیا۔ پاکستان اور انڈیا بھی کشمیر کو ایسا ہی درجہ دے سکتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی جانب سے مسئلے کے اس حل کی بابت کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقین اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان اور انڈیا کو پہنچنے والے براہ راست مادی نقصان کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں جن میں سیاچن، کارگل اور وولر بیراج نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر نے سندھ طاس معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور مستقبل میں ایسے مزید کئی مسائل ابھر سکتے ہیں۔
کشمیری اس مسئلے میں بری طرح متاثر ہونے والا فریق ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کشمیر میں 91 ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ممالک باہم مفید اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں اور باہمی مخاصمت پر اٹھنے والے اخراجات کو عوامی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید براں پاکستان اور انڈیا کا جوہری طاقتیں ہونا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیتا ہے۔
دیکھا جائے تو کشمیر کے مسئلے کا صرف وہی حل ممکن ہے جس میں اس کے تینوں فریقین کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے خاص طور پر پاکستان اور انڈٰیا کو اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر ایک دوسرے کو جگہ دینا ہو گی۔