مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل!

فرقان احمد

محفلین
اس لڑی میں ہم اُن کالمز، آرٹیکلز اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا سے ایسے مواد کی شراکت کریں گے جو کہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حلوں سے متعلق ہوں۔ دوست احباب سے بھی اس حوالے سے تعاون کی امید ہے کہ وہ ایسے آرٹیکلز اور مضامین کی شراکت کریں گے جو کہ موضوع زیر بحث سے متعلقہ ہوں۔

نوٹ: خیال رہے کہ فاضل مضامین نگاروں اور تبصرہ نگاروں کی آراء سے ہمارا متفق ہونا لازم نہ ہے۔ اس لڑی کا اصل مقصد اس موضوع پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر موجود مواد کی جمع آوری ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل
(عارف کسانہ)

کیا چارہ گراں کے پاس مسئلہ کشمیر کا بھی کوئی حل ہے جس نے ستر برسوں سے کروڑوں انسانوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہو گا؟مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقوں یعنی کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت نے ستر سالوں سے اس مسئلہ کے اپنے حق میں حل ہونے کے کئی سنہرے مواقع ضائع کئے ہیں اس لئے اب اس مسئلہ کا وہی حل ہوگا جو تینوں کے لئے قابل قبول ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید کئی سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ تو کیا مذاکرات سے بھارت جموں کشمیر کو پاکستان کے حوالے کردے گا جسے وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور جس پر اربوں ڈالر وہ خرچ کرتا ہے؟ اور کیا پاکستان مذاکرات کے نتیجہ میں کشمیر دستبردار ہوسکتا ہے؟ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔کیاکشمیری ایک آزاد اور خود مختار ریاست حاصل کرسکتے ہیں جس کے لئے کیا بھارت اور پاکستان اپنی افواج کو ریاست سے نکال لیں گے؟ اس صورت میں کیا پاکستان چین کے ساتھ اپنا جغرافیائی تعلق ختم کرنا گوارا کرسکتا ہے اور کیا بھارت اپنی سرحدوں کو گرداسپور تک محدود کرنے کا سوچ سکتا ہے؟ تقسیم کشمیر بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت ریاست منقسم ہونے کے باوجود یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔ ان تمام امکانات پر غور کرتے ہوئے کسی ممکنہ حل کی طرف سوچنے کی ضرورت ہے اور وہ ایسا حل ہونا چاہیے جو کشمیری عوام کی خواہشات کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل وہی ممکن ہو گا جس میں تینوں فریقوں کی منشا شامل ہوگی۔ اگر کوئی ایک فریق بھی رضامند نہ ہوا تویہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکے گا، اس لئے جذباتی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو پہل کرنی چاہیے کیونکہ وہ ایک بڑا ملک اور اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ بھارت کو یہ جمہوری اصول ریاست جموں کشمیر پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ بھارت کو اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ بھارت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی بھی قوم کو ہمیشہ کے لئے زیر قبضہ نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیر میں اب تیسری نسل ہے جو زیادہ شدت سے جدوجہد آزادی میں قربانیاں پیش کررہی ہے۔ یہ مسئلہ جوناگڑھ یا حیدرآباد کی طرح نہیں کہ بقول نہرو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوسکا اور یہ مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے جس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دیتی ہے۔ بھارت کو اپنی عوام میں جذباتی فضا کم کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ کشمیر کے کسی حل صورت میں اندرونی خلفشار اور دباو نہ ہو۔ اسی جذباتی فضا کو پاکستان میں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی بھی کشمیر کو اپنی شہ رگ نہیں قرار دیا اور پوری ریاست جموں کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا ہے۔ اس مسئلہ کے تیسرے فریق یعنی کشمیری قیادت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ریاست سے اپنی افواج نکال لیں اور کشمیرکو کشمیری عوام کے حوالے کردیں۔ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حالات بہت بدل چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں تاکہ جموں کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں اور اس کا فائدہ پاک بھارت کے عوام کو بھی پہنچے گا جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی اور وہ رقم دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر خرچ ہوگی۔ کشمیریوں سے کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو امن کی ضرورت ہے اور اگر برصغیر میں امن قائم ہوگیا تو یہ علاقہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہوگا۔ دونوں ممالک کو آپس میں لڑنے کی بجائے باہمی تعاون کی ضرور ت ہے جو تعلیم، صحت، تجارت، ثقافت، زراعت، صنعت و حرفت اور دوسرے کئی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سنہرے دور میں اگر مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ پوری ریاست جموں کشمیر کو دس سے پندرہ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے اور دوران دونوں ممالک کا ریاست جموں کشمیر سے مشترکہ تعلق بھی قائم رہے۔ یہ مدت گزر جانے بعد ریاست جموں کشمیر کے عوام سے آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ دونوں ممالک کے مشترکہ نظام کے تحت رہنا چاہتے یا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا اپنی آزاد و خودمختار ریاست چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں اور ضرورت ہے کہ اب سنجیدگی کے ساتھ اس ضمن میں کوشش کی جائے۔ ٹرسٹی شپ کونسل اقوام متحدہ کے چھ مرکزی اداروں میں سے ایک ہے جو آرٹیکل 75 اور 76 کے تحت کام کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قواعدکے مطابق کسی بھی متنازعہ علاقہ کے لئے ٹرسٹی شپ کونسل تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ ممالک یو این ٹرسٹی شپ میں رہے ہیں جن میں ناؤرو ،گھانا ، ٹوگو لینڈ،مغربی سامووا، ٹینگا نیکا، راوانڈا ارونڈی، برطانوی کیمرون، فرانسیسی کیمرون، نیو گنی، بحرالکاہل جزائر اعتماد علاقہ، اطالوی صومالی لینڈ شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت بارہویں ٹرسٹی شپ ریاست جموں کشمیر کے لئے کیوں نہیں ہوسکتی؟ پاکستان ماضی میں ایسی تجاویز جنوری 1951 میں دولت مشترکہ کانفرنس اور 1965 میں پیش کرچکا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے مشرقی تیمورکے طرز کی تجویز پیش کی۔ اب بھارت کو بھی چاہیے کہ جرات مندانہ فیصلے کرے اور آگے بڑھے۔ بھارت کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کی دوستی کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی تجاویز پیش کرنے چاہیں اور آنے والے نسلوں کو جنگوں کی تباہی کے خطرات کی بجائے پر امن اور خوشحال مستقبل کی نوید دینی چاہیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ کشمیر اور اس کا ممکنہ حل
(راجہ افراسیاب خان)

دنیا کی تاریخ کا سب سے پرانا مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کا ہے۔ 1947ءمیں پاکستان اور بھارت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی سے ریاست جموں و کشمیر کا جھگڑا شروع ہو گیا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا لازمی حصہ ہے۔ اسی مسئلہ کی بنا پر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تین خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں۔ چوتھی جنگ کے خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان چوتھی جنگ ہوتی ہے تو اس جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو قومیں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہے اسی تاریخی پس منظر میں پاکستان اور بھارت پیدا ہوئے تھے۔ یہ ایک بات حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہی مسئلہ کشمیر کا آخری اور شافی حل نکالا جائے گا۔ ریاست جموں و کشمیر میں 85 فیصد سے بھی زائد مسلمان آباد ہیں۔ جموں اور اسکے گرد و نواح کے علاقوں میں ہندو اور سکھ آباد ہیں۔ اسکے علاوہ ساری ریاست جموں و کشمیر میں مسلمان ایک ناقابل تردید حد تک اکثریت والی آبادی ہے۔ وہ لوگ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ وہ کسی صورت میں بھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہ ہیں وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ انکی زندگی تاریخ، معاشیات اور جغرافیائی حالات اس امر کی ایک بڑی دلیل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر روز اول سے ہی پاکستان کا لازمی حصہ بنا ہوا ہے۔ ذرا پاکستان اور بھارت دونوں کے مشترکہ نقشہ پر نظر دوڑائیں کہ کس طرح کشمیر پاکستان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی زمین کو سیراب کرنے والے تمام کے تمام دریا کشمیر سے آتے ہیں۔ زندگی پانی اور ہَواکی وجہ سے جاری و ساری ہے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کا قیام ناممکن بن جاتا ہے۔ کشمیر سے آنے والا پانی پاکستان اور پاکستانی قوم کو زندگی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں ان دریاﺅں کے پانی سے محروم کر دیا جائے تو یقینی طور پر پاکستان دنیا کے ایک وسیع ترین ریگستان کی شکل اختیار کر لے گا۔

1947ءمیں بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج کو بھیج کر قتل غارت کے بعد زبردستی اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ کشمیریوں نے کبھی بھی دل و دماغ سے بھارت کو قبول نہ کیا ہے۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ بھارت کشمیر کو خالی کر دے اور وہ خود اپنی آزادانہ مرضی اور خواہش سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ بھارت نے شروع شروع میں کشمیریوں کے اس مو¿قف سے اتفاق کیا تھا کہ ریاست میں یو این او کی نگرانی میں ہونے والی آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری میں کشمیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں گے۔ افسوس کہ اس بھارتی اتفاق کے باوجود آج تک کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام نہ کیا جا سکا ہے اس طرح مسئلہ کشمیر جوں کا توں سرد خانہ میں پڑا چلا جا رہا ہے۔ وقت کا یہ اہم ترین تقاضہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ کشمیری خود اپنی آزادانہ خواہش اور مرضی سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں گے تو سرزمین پاکستان اور بھارت میں امن و خوشحالی کا ظہور ہو گا اور اس طرح یہ خطہ دنیا کا ایک انتہائی خوشحال علاقہ بن جائے گا، دونوں ملکوں سے غربت اور جہالت کا خاتہ ہو گا، دونوں ملک امن و آشتی کے ساتھ ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے چلے جائینگے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس دیرینہ ترین مسئلے کو آج ہی حل کر دیا جائے۔ اس لئے بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز آئے اور وہ پاکستان کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز کرے۔ یہ بات چیت صرف اور صرف وقت گزارنے کیلئے ہرگز نہیں ہونی چاہئے بلکہ دونوں ممالک کو اسکے حل کی طرف انتہائی دیانتداری اور نیک نیتی سے آنا ہو گا۔ گہری سوچ کے بعد مَیں کشمیر کے جھگڑے کے حل کیلئے ایک تجویز پیش کرتا ہوں :

ریاست جموں و کشمیر میں تین مرحلہ جات میں رائے شماری کا اہتمام کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں رائے شماری ہو گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ خود اپنی آزاد مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنا الحاق کریں گے۔

دوسرے مرحلے میں جموں وغیرہ کے ہندو علاقوں میں رائے شماری کی جائیگی کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس ملک کیساتھ شامل ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے ریاست کے اکثریتی مسلمان آبادیوں والے تمام کے تمام علاقے پاکستان کیساتھ شامل ہونے کا اعلان کرینگے۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد ہندو اور بُدھ مت علاقوں میں رائے شماری ہو گی اور اس طرح وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کیساتھ وابستہ ہونے کا اعلان کرینگے۔ اس طرح ریاست جموں و کشمیر کا جھگڑا امن و آشتی سے حل ہو جائیگا۔

دنیا اب بہت آگے کی سوچ میں مصروف ہے آج کا یورپ معاشی میدان میں ایک ہوتا ہُوا نظر آتا ہے۔ یورپ کے 27 ملکوں میں صدیوں سے خوفناک خونی جنگیں ہوتی رہی ہیں، لاکھوں لوگوں کا قتل عام ان جنگوں میں ہوتا رہا ہے آج وہی یورپ ایک وحدت میں نتھی ہو چکا ہے اس خطے میں بھی حق و انصاف کی بنیاد پر یورپ کا عمل دہرایا جا سکتا ہے اگر جرمنی اور برطانیہ میں امن قائم ہو سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی انصاف کی بنیادوں پر امن کا قیام ممکن نظر آتا ہے۔ یہ بات صرف اور صرف اس وقت ممکن ہو گی جب بھارت میں ”نازی جرمنی“ کی سوچ کا خاتمہ ہو گا۔ اس دور میں ”نازی جرمنی“ کی سوچ کا امکان کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔ کشمیریوں کو آزادی دے کر اور پاکستان کے ساتھ دوستی اور امن کا رشتہ قائم کر کے بھارت کو تجارتی میدانوں میں زیادہ معاشی اور تجارتی فوائد حاصل ہونگے۔ میری تجویز ہے کہ بھارتی رہنما بار بار یورپی ممالک کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کس طرح یہ صدیوں پر محیط عرصے پر خوفناک جنگیں لڑنے والے ملک دوستی اور پیار کے رشتوں میں ایک ہو چکے ہیں۔ آج یورپ کے 27 ملک یورپین یونین کا نام اختیار کر چکے ہیں۔ بھارت والے یہ دیکھیں کہ کس طرح وہ ”انگریز اور جرمن“ جو پیدائشی طور پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے آج وہ رشتے دار بن کر ایک ہو چکے ہیں۔

برصغیر میں بھی یورپین یونین کی طرح سات ملکوں کی سارک بن چکی ہے۔ صد افسوس کہ سارک ناکامی کی طرف جا رہی ہے، آئیں ہم سب سارک کا رُخ ناکامی سے موڑ کر کامیابی کی طرف لے آتے ہیں شرط صرف اور صرف یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کر لیا جائے۔کشمیر کے جھگڑے کے ختم ہوتے ہی ہم انتہائی تیزی سے بھارت کے ساتھ دوستی کے راستے پر چل پڑیں گے، پرانی دشمنیاں ختم ہو جائیں گی، سوشل اور تجارتی راستے کھل جائیں گے، سرحدیں نرم پڑ جائیں گی۔ ہر طرف تجارت ہی تجارت کی بات ہو گی۔ اس طرح اس خطے سے جہالت، غربت، بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ خوشحالی پاکستان اور بھارت دونوں کا مقدر بن جائے گی۔ دنیا کے کروڑوں لوگ سیر و تفریح کیلئے اس خطے کا رُخ کیا کرینگے۔ بھارت کو پاکستان سے بے معنی مقصد دشمنی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہی ہو گا۔ بھارت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس بات کو سمجھ لے کہ پاکستان تاقیامت قائم و دائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ اب سرزمین پاکستان ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔ پاکستان اس وقت 25 کروڑ آبادی والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی، میرپور وغیرہ جدید ترین شہر بن چکے ہیں۔خوشحالی اور امن ہمارا مقدر بن چکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب بھارت کو بھی چاہیے کہ جرات مندانہ فیصلے کرے اور آگے بڑھے۔
اصل میں معاملہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر آئینی اور قانونی طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر کے آخری راجہ ہری سنگھ نے پاکستانی قبائل کے حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنی مرضی سے کشمیر کو بھارت میں شامل کیا تھا۔ اس لئے عالمی سطح پر پاکستان کا کیس بہت ہی کمزور ہے۔
اقوام عالم زیادہ سے زیادہ بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔ آگے اس کو حل کرنا ان دونوں ممالک کا باہمی مسئلہ ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل
(کلدیپ نائر)

یہ استصواب رائے نہیں تھا جیسا کہ جموں وکشمیر کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے پولنگ سے پہلے کہا تھا بلکہ جموں وکشمیر کے اس انتخاب کا جھکاؤ بہت حد تک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی طرف تھا جو وادی کی خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہے اور یہی استصواب کے مطالبے کا اصل مقصد ہے۔

پی ڈی پی28 نشستیں حاصل کر کے ریاست کی سب سے بڑی پارٹی ثابت ہوئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کی اصل آب و تاب بحال کرے گی جو بقول اس کے حکمران نیشنل کانفرنس (این سی) نے خراب کر دی تھی۔ شاید اسی کے نتیجے میں این سی کو شکست کا سامنا ہوا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ جو ریاست سیکولر ازم کے حوالے سے پورے ملک کے لیے ایک مثال تھی وہ بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکی ہے۔

مسلم اکثریت والی وادی میں اب پی ڈی پی جیت گئی ہے۔ تاہم ریاست میں حالات کی خرابی کا زیادہ الزام بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر آتا ہے۔ اس نے معاشرے کو تقسیم کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی ہے۔ اس نے جو تحریک چلائی تھی اس کا ریاست کی یکجہتی سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ ریاستی امور میں ہندوؤں کی کوئی آواز ہی نہیں۔ یہ مہم اتنی کامیاب ہوئی کہ بی جے پی کو جسے 2008ء میں11 نشستیں ملی تھیں اب وہ 25 نشستیں جیت گئی ہے۔

ریاست کے اندر تقسیم در تقسیم نے اس کا حلیہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ جموں ہندوؤں کا گڑھ ہے جب کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے وادی کشمیر سے بی جے پی کو ایک بھی نشست نہیں ملی جس کی کہ عمر عبداللہ نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی حالانکہ اس مقصد کے لیے ووٹوں کی تعداد بھی بڑھائی گئی تھی۔ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس وادی سے مسلمانوں کے انتخاب سے کشمیریوں کو اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ اب وہ باقی کے بھارت سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ جو امیدوار اس تاثر کو قائم رکھتے ہیں ان کو زیادہ حمایت ملتی ہے مگر یہ بھی کوئی نہیں بات نہیں۔

نیشنل کانفرنس نامی پارٹی شیخ عبداللہ نے قائم کی تھی جو کہ اس وقت بھی ایک مقبول عام لیڈر تھے جب ریاست پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ جب ریاست سے برطانوی حکومت کا 1947ء میں اقتدار ختم ہوا تو شیخ عبداللہ نے ریاست کی بھارت کے ساتھ شمولیت کی حمایت کی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو، جو ریاست کا ہندو حکمران تھا، دو تجاویز دی گئیں: کہ یا تو وہ آزاد رہیں یا بھارت اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں۔

لیکن مہاراجہ نے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہو سکتی تھی بشرطیکہ اس موقع پر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا جاتا۔ مہاراجہ نے آزاد رہنے کا اعلان کر کے پاکستان کے ساتھ اپنی حیثیت برقرار رکھنے کا معاہدہ کر لیا تاہم بھارت نے ایسا معاہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کے خیالات مختلف تھے۔ اس موقع پر پاکستان نے بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے وہاں اپنے نیم فوجی دستے بھیج دیے اور وادی پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مہاراجہ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کر لی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس وقت تک راجہ کی کوئی مدد کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ ریاست بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرتی۔

اب مہاراجہ کے پاس اور کوئی متبادل نہیں تھا کہ بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دے۔ چنانچہ بھارت کی فوجیں عین وقت پر طیاروں کے ذریعے سری نگر پہنچ گئیں کیونکہ پاکستانی دستے بھی ایئر پورٹ تک پہنچ گئے تھے۔ اگر پاکستانی دستے ہلے گُلے سے گریز کرتے اور بارہ مولا سے نکلنے میں تاخیر نہ کرتے تو وہ سری نگر میں بھارتی فوج سے پہلے پہنچ سکتے تھے۔ تب کشمیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق بڑی افراتفری کے حالات میں ہوا حالانکہ شیخ عبداللہ بھی اس کی پوری حمایت کر رہے تھے۔ نہرو نے وعدہ کیا کہ جب حالات معمول پر آ جائیں گے تو عوام کی خواہشات کو مقدم رکھا جائے گا لیکن یہ موقع کبھی نہ آیا کیونکہ عالمی سطح پر غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہو گئی تھیں۔

پاکستان، جس کا کشمیر پر دعویٰ تھا، اس نے مغرب کے ساتھ فوجی معاہدے کر لیے اور ان سے اسلحہ حاصل کرنے لگا۔ یہ سرد جنگ شروع ہونے کا زمانہ تھا۔ پاکستان کے اقدام کو مغرب بلاک کے ساتھ شمولیت کی علامت تصور کیا گیا۔ نہرو نے کہا کہ اب کشمیریوں کے ساتھ کیا ہوا ان کا وعدہ پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان نے مغرب سے ہتھیار حاصل کر لیے ہیں۔ پاکستان حکومت نے نہرو پر وعدہ خلافی کا الزام لگایا لیکن اس کے مغربی بلاک سے ہتھیار لینے سے کشمیر پر اس کے کلیم کو تحلیل کر دیا۔کشمیر کے لیے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا معاملہ کئی عشروں تک لٹکا رہا۔ کچھ وقت تک کشمیریوں نے اپنے لیے مکمل آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ شروع کر دیا لیکن چاروں طرف سے خشکی میں گھری ہوئی (لینڈ لاکڈ) ریاست بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے بغیر اپنی آزادی کس طرح قائم رکھ سکتی تھی کیونکہ بصورت دیگر ریاست کا بیرونی دنیا سے رابطہ ممکن نہیں تھا۔ تاہم یہ آزادی کا مطالبہ ہی ہے۔

جس نے کشمیریوں کے پاؤں اکھاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان جس نے ایک موقع پر اس تجویز کی مخالفت کی تھی اب اپنا اعتراض ختم کر دیا ہے۔ اس کی یہ توقع ہے کہ آزاد کشمیر بالآخر اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے ساتھ پاکستان میں شامل ہو جائے گا۔ تاریخ کا جو بھی نقطہ نظر ہو حقیقت یہ ہے کہ بھارت کبھی بھی کشمیر کو پاکستان کے حوالے نہیں کر سکتا اور نہ ہی پاکستان بزور طاقت بھارت سے کشمیر لے سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کو عوام کی بہتری اور خطے کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے کسی پرامن تصفیے پر پہنچنا ہو گا۔ انھوں نے تین باقاعدہ جنگیں لڑیں اور ایک چھوٹی جنگ کارگل پر لڑی گئی۔ دونوں ملک ایٹمی قوت بھی ہیں۔ لیکن دشمنی کا کوئی انت نہیں۔ بے شک اس مسئلے کے حل کے لیے بے شمار ناکام کوششیں کی جا چکی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل کام سمجھتا ہے جب کہ یہ ریاست اب قانونی طور پر بھارت کے ساتھ شمولیت اختیار کر چکی ہے۔

مفاہمت کی تمام تجاویز بے نتیجہ رہی ہیں کیونکہ دونوں ملک حقیقت میں مفاہمت چاہتے ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں نے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تلاش کرنے کے لیے 67 سال ضایع کر دیے ہیں۔ دونوں ملک مزید 67 سال بھی ضایع کر سکتے ہیں اگر وہ اپنے بے لچک موقف پر اسی طرح اصرار کرتے رہے۔ پاکستان نے اس مسئلے میں مذہب کو شامل کر کے اسے اور زیادہ ناقابل حل بنا لیا ہے۔ اور یہ تجویز کہ ہندو اکثریت والا جموں بھارت کے ساتھ اور مسلمان اکثریت والی وادی کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائے اس سے تقسیم ہند کے زخم پھر ہرے ہو جائیں گے۔

اس مسئلے کا کوئی یکطرفہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے افہام و تفہیم ہونی چاہیے۔ ہاں برطانوی کیبنٹ مشن پلان کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے جس نے بھارت کی تقسیم کے باوجود اسے اکٹھا رکھا۔ اسی وجہ سے تقسیم کا فارمولا کامیاب ہو گیا۔ایک نئی تجویز جو میں پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ کشمیر کا دفاع اور امور خارجہ نئی دہلی حکومت کے پاس رہیں اسی طرح جو کشمیر پاکستان کے پاس ہے اس کا دفاع اور امور خارجہ اسلام آباد کے پاس رہیں۔ باقی تمام محکمے کشمیریوں کے پاس ہوں اور ان کے درمیان سرحد ختم کر دی جائے۔ ممکن ہے اس طرح نئے تعلقات قائم ہو سکیں جن میں عدم اعتماد اور عداوت کا عنصر موجود نہ ہو۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
 

فرقان احمد

محفلین
اصل میں معاملہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر آئینی اور قانونی طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر کے آخری راجہ ہری سنگھ نے پاکستانی قبائل کے حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنی مرضی سے کشمیر کو بھارت میں شامل کیا تھا۔ اس لئے عالمی سطح پر پاکستان کا کیس بہت ہی کمزور ہے۔
اقوام عالم زیادہ سے زیادہ بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔ آگے اس کو حل کرنا ان دونوں ممالک کا مسئلہ ہے۔
یہ ہم نے نہیں کہا تھا۔ براہ مہربانی جس مضمون سے اقتباس لیا گیا ہے، اُن کا نام لکھ کر تبصرہ فرمائیں۔ :) یوں، ہم جواب دینے کے پابند نہ رہیں گے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
کشمیر کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟
(محمد فیصل)

72 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جنگی ماحول گرم ہے۔ دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو حملے اور جوابی حملے کی دھمکی دے چکی ہیں۔ ایسے میں دونوں اطراف سے سمجھدار اور امن پسند لوگ جنگ کے خطرے سے نجات پانے اور آنے والی نسلوں کو امن، سلامتی اور خوشحالی پر مبنی مستقبل دینے کے خواہاں ہیں۔

مگر اس کے لیے دونوں ممالک میں اس سب سے بڑی وجہ نزاع کا خاتمہ ضروری ہے۔

کیا اس مسئلے کا کوئی ایسا حل ممکن ہے جو اس کے تینوں فریقین یعنی پاکستان، انڈیا اور کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کیا ہو سکتے ہیں اور اس سے بھی پہلے یہ جاننا ہو گا کہ یہ مسئلہ دراصل ہے کیا۔

مسئلہ کشمیر نے جنم کیسے لیا؟

مسئلہ کشمیر کی سب سے اچھی تعریف سابق صدر غلام اسحاق خان نے کی تھی جنہوں نے اسے 'تقسیم برصغیر کا نامکمل کام' قرار دیا تھا۔

برطانیہ نے برصغیر کو انتخابات یا رائے شماری کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا۔ اس طرح برطانوی ہند کی مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان بن گئی تھیں۔ برطانویوں نے جموں و کشمیر جیسی شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنی ریاست کے جغرافیے اور آبادی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے پاکستان کا حصہ بننا ہے یا وہ انڈیا کے ساتھ الحاق کریں گے۔

تاہم کانگرس پارٹی کا یہ کہنا تھا کہ شاہی ریاستوں کے حکمران نہیں بلکہ عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے کس ملک میں شامل ہونا ہے۔ چنانچہ اس نے ایسی ریاستوں کو بزور طاقت انڈیا میں شامل کر لیا جن کے مسلمان حکمران یا تو آزادی چاہتے تھے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند تھے۔ ریاست حیدرآباد اور جوناگڑھ اس کی مثال ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر میں صورتحال اس سے برعکس تھی جہاں مسلمان اکثریتی آبادی پر ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ کانگرس کو کشمیر میں بھی عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے تھا مگر یہاں اس نے حیدرآباد اور جونا گڑھ والا اصول نظرانداز کرتے ہوئے راجا کی مدد سے کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق کروا لیا۔
ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ میں طے شدہ سرحدی لکیر تبدیل کر کے انڈیا کو کشمیر تک رسائی میں مدد دی

ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ میں طے شدہ سرحدی لکیر تبدیل کر کے انڈیا کو کشمیر تک رسائی میں مدد دی

یاد رہے کہ جنوری 1947 میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات مسلم کانفرنس نے جیتے تھے جس نے 19 جولائی 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کی ریاست جغرافیائی، معاشی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے پاکستان سے قریب تر ہے اسی لیے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔

اس وقت کے برطانوی وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے ریڈکلف ایوارڈ میں ترمیم کی اور مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور انڈیا کو دے دیا جس کا مقصد انڈیا کی کشمیر تک رسائی یقینی بنانا تھا۔

جب کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کی بات چلی تو ریاست کے عوام میں بے چینی اور بغاوت کے آثار ابھرنے لگے۔ پونچھ، گلگت، ہنزہ، سکردو اور کارگل میں یہ بغاوت خاص طور پر نمایاں تھی۔ ایسے میں ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے مہاراجہ کے ریاستی اقتدار کو تحفظ دینے کے بدلے اس سے انڈیا کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لیے۔

اس موقعے پر ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کا کہنا تھا کہ الحاق کی یہ دستاویز 'عبوری' ہے اور ریاست میں حالات معمول پر آنے کے بعد عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس وقت کے انڈین وزیراعظم نہرو کا بھی یہی موقف تھا۔

جواہر لال نہرو کشمیر کا مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے گئے تھے جہاں بحث میں پاکستان کے دلائل وزنی نکلے تو انہیں احساس ہو گیا کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں

اس دوران بعض کشمیری گروہوں نے پاکستانی رضاکاروں اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے قبائلیوں کی مدد سے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا جو اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ یہ لڑائی 14 مہینےجاری رہی اور اس کا اختتام اقوام متحدہ کی مداخلت پر ہوا۔

پاکستان اور انڈیا دونوں نےجنگ بندی کو قبول کیا جس کا قیام یکم جنوری 1949 کو عمل میں لایا گیا تھا۔ اس جنگ بندی کے وقت دونوں ممالک کی فوجیں جہاں موجود تھیں وہی کنٹرول لائن کہلاتی ہے اور کشمیر میں پاکستان اور انڈیا کی یہی سرحد ہے۔

ثالثی کی کوششیں (1948 تا 1965)

نہرو نے 15 جنوری 1948 کو کشمیر کا مسئلہ یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان پر جارحیت کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے کشمیر میں مداخلت سے روکا جائے۔

جواباً پاکستان کا یہ موقف تھا کہ اس نے کشمیر کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ ملحق کر لیا ہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی دی کہ کشمیر سے تمام بیرونی فورسز کو واپس بلا لیا جائے تاکہ ریاست سے ہجرت کرنے والوں کی واپسی اور بحالی ممکن ہو سکے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے کشمیر میں غیرجانبدارانہ انتظامیہ قائم کرنے اور رائے شماری کی تجویز بھی دی گئی جس کی بنیاد پر فیصلہ ہونا تھا کہ آیا کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ جانا چاہیں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بحث ہوئی تو پاکستانی دلائل میں وزن پایا گیا اور نہرو کو احساس ہو گیا کہ اگرچہ وہ خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لائے تھے مگر اس سے انہیں فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا۔

سلامتی کونسل نے اپنی پہلی قرارداد جنوری 1948 کو منظور کی جس میں جنگ بند کرنے کو کہا گیا اور اس سے بعد آنے والی قرارداد میں اقوام متحدہ کا کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جس نے انڈیا اور پاکستان جا کر حقائق معلوم کرنا اور ثالث کا کردار ادا کرنا تھا جس کے نتیجے میں رائے شماری کرائی جانا تھی۔

14 اگست 1948 کو اقوام متحدہ نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں جو کچھ یوں تھیں:

1۔ دونوں ملک جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔

2۔ پاکستان اپنی فورسز کو کشمیر سے واپس بلائے۔

3۔ خالی کرائے گئے علاقوں میں انتظامی امور اقوام متحدہ کی نگرانی میں چلائے جائیں۔

4۔ انڈیا کی فوجیں مرحلہ وار جموں اور کشمیر کو خالی کریں۔

5۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کرائی جائے گی۔

پاکستان اور انڈیا دونوں نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو منظور کیا جس میں رائے شماری بھی شامل تھی۔ اگرچہ اس سے بعد بھی اقوام متحدہ نے رائے شماری کے حوالے سے متعدد قراردادیں منظور کیں مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی کے باعث ان میں کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا۔

1962 تک امریکہ اور برطانیہ نے بھی اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے کوششیں کیں جو بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ ان تمام کوششوں کا بنیادی مقصد انڈیا کے ساتھ کشمیر سے فوجیں نکالنے کا معاہدہ کرنا اور رائے شماری ممکن بنانا تھا۔

انڈیا نے اپنے موقف سے انحراف جاری رکھا۔ پہلے تو اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ پر تکنیکی اور ضابطوں سے متعلق اعتراضات کیے اور پھر 1956 میں انہیں سرے سے ہی مسترد کر دیا۔
انڈیا نے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کی صورت میں کشمیر کو خصوصی درجہ دے رکھا ہے

انڈیا نے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کی صورت میں کشمیر کو خصوصی درجہ دے رکھا ہے

اس موقع پر نہرو کا کہنا تھا کہ کشمیر میں استصواب رائے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ قانونی طور پر انڈیا کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس کا جواز یہ بتایا کہ کشمیریوں نے دستور ساز اسمبلی کے لیے ووٹ دیے تھے اور اس کے نتیجے میں شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم بنے۔ اس طرح کشمیری عوام اپنا حق خود ارادیت استعمال کر چکے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ نے یہ موقف مسترد کر دیا اور کہا کہ ریاستی اسمبلی کا کوئی بھی اقدام استصواب رائے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

اس دوران انڈیا نے کشمیر میں ہنگامی حکومت قائم کر لی جس کے سربراہ شیخ عبداللہ تھے۔ مزید براں کشمیر کو انڈین وفاق میں 'خصوصی درجہ' دے کر ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کو 'صدر ریاست' بنا دیا گیا اور شیخ عبداللہ وزیراعظم بن گئے۔انڈیا کے آئین میں یہ خصوصی درجہ آرٹیکل 370 کی صورت میں موجود ہے۔

جنگ اور سفارت کاری (1965 تا 1990)

کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سیاسی و سفارتی اقدامات ناکام ہوئے تو پاکستان نے دوسرے ذرائع سے کام لینے کی ٹھانی۔ اگست اور ستمبر 1965 میں اس نے کشمیر کی آزادی کے لیے 'آپریشن جبرالٹر' شروع کیا جس کا نتیجہ دونوں ممالک میں مکمل جنگ کی صورت میں نکلا۔

1971 میں پاک بھارت جنگ کے بعد شملہ معاہدہ ہوا جس میں پاکستان نے تسلیم کیا کہ وہ اس مسئلے کو انڈیا کے ساتھ باہمی مذاکرات سے حل کرے گا۔ اس معاہدے نے گویا مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلے کی فہرست سے نکال کر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعے کی حیثیت دے دی اور انڈیا نے جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار بنا لیا۔

انڈیا نے تواتر سے یہ موقف اختیار کیا کہ شملہ معاہدے کے تحریری مسودے سے ہٹ کر دونوں ممالک کے سربراہان میں اتفاق پایا گیا تھا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول کو عالمی سرحد کے طور پر تسلیم کر لے گا۔

1971 کی جنگ کے بعد انڈٰیا کے مقابل پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی اور وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے پہلے کی طرح زور دار انداز میں بات کرنے کے قابل نہ رہا۔

کشمیری بغاوت کی تاریخ (1990 تا 2018)

1970 اور 1980 کی دہائیوں میں کشمیری نوجوان نسل میں حقوق کی جدوجہد نے جنم لینا شروع کیا جس کا آغاز ریاستی حکومت کی بدعنوانی اور سیاسی اپوزیشن کو دبانے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ 1984 سے 1989 کے دوران دہلی کی جانب سے متعین کردہ ریاستی گورنر جگموہن کے دور میں فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا ملی اور ریاست میں مسلمانوں کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوا۔

1987 کے ریاستی انتخابات میں دھاندلی پُرتشدد عوامی مظاہروں اور 1990 کے عام انتخابات کے بائیکاٹ پر منتج ہوئی۔ اس موقع پر ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ طاقت کے استعمال پر کشمیری نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور قابض فوج کے خلاف مسلح مزاحمتی تحریک شروع کی جو آج تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔

مقامی سطح پر شروع ہونے والی اس بغاوت نے کشمیر کے حالات کو تبدیل کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیریوں نے خود آگے بڑھ کر حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔ آغاز میں اس کشمیری بغاوت کی قیادت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین کے ہاتھ میں تھی۔ اول الذکر کشمیر کی آزاد حیثیت اور موخرالذکر ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی رہی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے پیپلزکانفرنس، عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر کشمیری گروہوں سے مل کر آل پارٹیز حریت کانفرنس قائم کی۔

1990 تک افغانستان میں سوویت روس کے خلاف 'جہاد' ختم ہوا تو جہادی عناصر نے کشمیر کا رخ کرنا شروع کیا۔ ریاست میں انڈین فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد نے وادی کی مسلم آبادی میں مایوسی اور غصے کو جنم دیا۔ ایسے میں جہادی عناصر کو وادی کے نوجوانوں میں مقبولیت ملی اور سیاسی اختیار کے حصول کی جدوجہد نے مسلح تحریک کی شکل اختیار کر لی جس میں اسلامی شدت پسند عناصر نے غلبہ پا لیا۔

کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے علاوہ عام ہندو شہری بھی ان مسلح تنظیموں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے جس کے نتیجے میں ان کی عوامی حمایت کمی آئی اور انڈیا کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ کشمیر میں جاری مسلح تحریک حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی ہے جس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔

1990 کی دہائی کے آغاز میں کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں پاک انڈیا بات چیت کے ادوار بھی شروع ہوئے اور دونوں ممالک میں 'اعتماد کی بحالی' کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔ ان میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے دستبرداری، ایک دوسرے کی سرحدوں کے قریب فوجی طیاروں کے لیے نو فلائی زون کا قیام اور سرحدوں کے قریب فوجی مشقوں سے متعلق ایک دوسرے کو پیشگی اطلاعات دینے جیسے اقدام شامل تھے۔

نائن الیون کے بعد انڈیا نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر اپنے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی جس میں اسے کامیابی بھی ملی

1998 میں دونوں ممالک کے مابین 'کمپوزٹ ڈائیلاگ' شروع ہوا جس میں انڈیا پہلی مرتبہ کشمیر کو 8 نکاتی ایجنڈے میں ایک الگ نکتے کے طور پر شامل کرنے پر رضامند ہو گیا۔ بعدازاں فروری 1999 میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اور ان کے انڈین ہم منصب واجپائی کی ملاقات ہوئی جس میں لاہور اعلامیہ جاری ہوا۔ اس موقع پر فریقین نے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لانے پر اتفاق کیا۔

مئی جون 1999 میں کارگل جنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات پہلی حالت میں واپس چلے گئے۔ جولائی 2001 میں پاکستانی صدر مشرف نے واجپائی سے آگرہ میں ہاتھ ملایا۔

اس عرصہ میں دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا تاہم دسمبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے اور امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش آنے کے بعد انڈیا نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر اپنے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کر دی جس میں اسے کامیابی بھی ملی۔

دسمبر 2001 میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی جنگ کے دھانے تک پہنچ گئی۔ یہ کشیدگی 2004 تک جاری رہی جب مشرف اور واجپائی اسلام آباد میں سارک کانفرنس کے موقع پر دوسری مرتبہ ملے۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیے میں فریقین نے کشمیر سمیت تمام متنازع معاملات پر 'کمپوزٹ ڈائیلاگ' دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔

اسی برس انڈیا میں کانگریس کی حکومت آئی تو جون 2004 میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات ہوئی جس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فریقین میں کشمیر پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور مسئلے کے پرامن مذاکراتی حل کے لیے سنجیدہ بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق پایا گیا۔

کشمیر میں حالیہ مسلح جدوجہد میں نوجوانوں کی وہ نسل نمایاں ہے جس نے 1990 کے بعد جنم لیا تھا

خاص بات یہ تھی کہ اس اعلامیے میں شملہ معاہدے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا بھی تذکرہ تھا جس سے گفت و شنید میں دونوں ممالک کے موقف کو جگہ دینے کا اشارہ ملتا تھا۔

مشرف کے دور میں پاک انڈیا بیک چینل روابط بھی رہے اور اس دوران کشمیر پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا مگر حتمی طور پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ 2008 میں ممبئی حملے، بعدازاں پٹھان کوٹ میں حملوں اور دونوں ممالک کی سرحدوں پر پے درپے کشیدہ واقعات نے مزید بات چیت کا امکان ختم کر دیا۔

اس دوران کشمیری نوجوانوں کی مسلح تحریک میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی۔ اس مرتبہ اس تحریک میں نوجوانوں کی وہ نسل نمایاں ہے جس نے 1990 کے بعد جنم لیا تھا۔

گزشتہ چند برس میں مقبوضہ کشمیر میں انڈین فوج پر حملوں کے پے درپے واقعات نے دونوں ممالک میں مستقل تناؤ پیدا کر رکھا ہے۔ حالیہ دنوں پلوامہ میں انڈین فوجی قافلے پر حملے اور ہلاکتوں کے بعد طرفین میں ایک مرتبہ پھر جنگی ماحول گرم ہے جو خطے کو ایک اور جنگ میں دھکیل سکتا ہے جس کے نتائج گزشتہ جنگوں سے کہیں زیادہ ہولناک ہوں گے۔

مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو سکتا ہے؟

کشمیر کو دنیا کی خطرناک ترین جگہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہاں پاکستان اور انڈیا کی افواج ہمہ وقت ہتھیار بند حالت میں آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں اس مسئلے پر تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس مسئلے کے باعث دونوں ہمسایہ ممالک 72 سال سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آ رہے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل اس کے تینوں فریقین کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔ ماضی و حال میں اس حوالے سے بہت سی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں جن میں 10 ایسی ہیں جن میں اس مسئلے کا ممکنہ حل پوشیدہ ہو سکتا ہے۔

1۔ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے

پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کا حامی ہے۔ ان قراردادوں کی رو سے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا انڈیا کا حصہ بننا چاہیں گے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت اس کے ساتھ رہنا چاہے گی۔

پاکستان اس دلیل کو رد کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی نئی قرارداد ہی ان قراردادوں میں ترمیم یا تنسیخ کر سکتی ہے۔

رائے شماری کی تجویز انڈیا کے لیے قطعی ناقابل قبول ہے جس کا خیال ہے کہ اگر کشمیر میں ریفرنڈم ہوا تو فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔

کشمیری عوام اقوام متحدہ کے زیراہتمام رائے شماری کی حمایت کرتے ہیں مگر 'جے کے ایل ایف' جیسے بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ اس رائے شماری میں 'آزادی' کا آپشن بھی شامل ہونا چاہیے۔

2۔ موجودہ سرحدوں کو تسلیم کر لیا جائے

انڈیا کا موقف ہے کہ پورا جموں و کشمیر اس کا لازمی جزو ہے جس میں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات بھی شامل ہیں۔ انڈیا نے متعدد بار اشارے دیے ہیں کہ وہ کشمیر کی جغرافیائی حالت جوں کی توں رکھنے اور لائن آف کنٹرول کو دونوں ملکوں میں سرحدی لکیر تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ شملہ کانفرنس میں بھی انڈیا کا یہی کہنا تھا اور اب بھی وہ صرف اسی حد تک جانے کی بات کرتا ہے۔

یہ آپشن پاکستان اور کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

3۔ کشمیر کو مکمل آزادی دے دی جائے

کشمیر کی مکمل آزادی کو عموماً اس مسئلے کے حل کے لیے 'تیسرا آپشن' کہا جاتا ہے۔ کشمیری عوام خصوصاً وہاں کی شہری آبادی اس آپشن کی حامی ہے۔ کشمیر میں اس موقف کے حامیوں کی اکثریت ہے یا نہیں اس کا تعین اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کشمیری اپنی رائے دینے میں آزاد ہوں گے۔

اب تک پاکستان اور انڈیا دونوں اس آپشن کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔

4۔ دریائے چناب کو سرحد بنایا جائے

اس فارمولے کی رو سے وادی کشمیر میں مسلمان اکثریتی علاقے اور جموں میں غالب مسلم آبادی والے تین اضلاع (پونچھ، راجوڑی اور ڈوڈا) جو کہ دریائے چناب کے دائیں کنارے پر واقع ہیں انہیں پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور بقیہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہو۔

1962 اور 1963 میں بھٹو اور انڈین وزیر خارجہ سورن سنگھ کے مذاکرات میں مسئلے کے اس حل پر بھی بات ہوئی تھی مگر انڈیا نے اس پر کوئی پیشرفت نہ کی۔
چناب فارمولے میں پونچھ، راجواڑی اور ڈوڈا کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے

چناب فارمولے میں پونچھ، راجواڑی اور ڈوڈا کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے

بعدازاں 1999 میں سابق سیکرٹری خارجہ نیاز نائیک اور ان کے انڈین ہم منصب آر کے مشرا میں ہونے والی بات چیت میں بھی مسئلے کا یہ حل زیرغور آیا تھا۔ ان دونوں کو پاک انڈیا حکومتوں نے غیرسرکاری طور پر یہ ہدف سونپا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی ممکنہ حل تلاش کریں جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ تاہم اس گفت و شنید کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

پاکستان اور کشمیریوں کے لیے یہ حل قابل قبول ہو سکتا ہے مگر موجودہ حالات میں انڈیا کی جانب سے اس کی قبولیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

5۔ اوون ڈکسن کا منصوبہ

اوون ڈکسن ایک آسٹریلوی قانون دان تھے جنہیں اقوام متحدہ نے 1950 میں مسئلے کے حل کی راہیں تلاش کرنے کا کام سونپا تھا۔ خطے کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد ڈکسن نے بتایا کہ کون سے علاقوں میں پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کے حوالے سے عوام کی ترجیح واضح نہیں ہے۔

ان میں وادی کشمیر اور موجودہ آزاد کشمیر کے علاقے شامل تھے جن کا مستقبل بات چیت اور لوگوں کی رائے لینے کے بعد طے کرنے کی تجویز دی گئی۔ جہاں تک بقیہ کشمیر کا تعلق ہے تو اوون ڈکسن نے قرار دیا کہ جموں اور لداخ کو انڈیا جبکہ شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک تجویز یہ ہے کہ وادی کشمیر کو خودمختار ریاست بنا کر پاکستان اور انڈیا دونوں کو اس تک آزادانہ رسائی دے دی جائے

پاکستان کے لیے مسئلے کا یہ حل قابل قبول ہو سکتا تھا مگر انڈیا نے پہلے تو اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہ کیا اور بعدازاں اس تجویز کو سرے سے رد کر دیا۔

6۔ کشمیر سٹڈی گروپ کی تجویز

1998 میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری ارب پتی فاروق کاٹھواری نے 'کشمیر سٹڈی گروپ' کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا۔ اس تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا اور امریکہ کے ماہرین شامل تھے۔ اس گروپ نے 'متحدہ خودمختار ریاست' کے نام سے ایک نئی تجویز پیش کی۔

اس تجویز کی رو سے عالمی طاقتوں کی نگرانی میں ہونے والی ووٹنگ کے ذریعے وادی کشمیر کو ایک خودمختار ریاست بنایا جانا چاہیے۔ تجویز کے مطابق اس ریاست کو عالمی سطح پر الگ ملک کا درجہ حاصل نہیں ہو گا اور پاک انڈیا دونوں ممالک کو اس تک آزادانہ رسائی حاصل ہو گی۔ بعدازاں اس تجویز میں یہ بات بھی شامل کر لی گئی کہ آزاد کشمیر بھی اس خودمختار ریاست کا حصہ ہو گا۔

تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس تجویز پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

7۔ وادی کشمیر اقوام متحدہ کے حوالے کی جائے

سیاسی امور کے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ کی تجویز ہے کہ جموں اور لداخ انڈٰیا جبکہ شمالی علاقہ جات پاکستان کا حصہ رہیں۔ جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے تو اسے 10 برس کے لیے اقوام متحدہ کی تولیت میں دے دیا جائے جس کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے یہ طے ہو کہ وادی کے لوگ پاکستان یا انڈیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا آزاد رہنے کو ترجیح دیں گے۔

تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس طرح کی تجویز پر کوئی بات نہیں کی اور فی الحال ان کی جانب سے مسئلے کا یہ حل قبول کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

8۔ یوسف بُچ کا فارمولا

پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار یوسف بُچ نے کچھ عرصہ قبل مسئلہ کشمیر کے حل کی دو مراحل پر مشتمل تجویز پیش کی تھی جسے خاصی شہرت ملی۔

یوسف بُچ کے مطابق پہلے مرحلے میں کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کر کے تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں اقوام متحدہ غیرمنقسم ریاست جموں و کشمیر کو پانچ ڈویژنوں میں تقسیم کر کے ان میں الگ الگ انتخابات کرائے گی اور ہر ڈویژن کی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ یہ پانچوں اسمبلیاں الگ الگ طے کریں گی کہ آیا وہ پاکستان یا انڈیا کے ساتھ موجودہ حالت میں رہنا چاہتی ہیں یا انہیں دونوں ممالک کے ساتھ کسی اور طرز کا تعلق درکار ہے۔

یہ فارمولا قدرے پیچیدہ بھی ہے اور پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ملک نے بھی اس پر غور کا عندیہ نہیں دیا۔

9۔ یورپی مثالوں پر عمل کیا جائے

مسئلہ کشمیر کے حل کی یہ تجویز امریکی ماہر سیلگ ہیریسن نے دی ہے جس میں وہ اٹلی اور سابق یوگوسلاویہ کے درمیان خودمختار علاقے ٹریسٹے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں سلاو سے تعلق رکھنے والے لوگ اٹلی کی حکومت میں رہ رہے ہیں مگر انہیں اپنی ثقافت اور قومیت برقرار رکھنے نیز اٹلی اور سلوانیہ میں آنے جانے کی آزادی ہے۔

ہیریسن کی تجویز ہے کہ انڈیا وادی کشمیر کو خودمختار علاقے کے طور پر خصوصی درجہ دے جبکہ پاکستان کو آزادکشمیر میں بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔ اس طرح دونوں اطراف کے کشمیریوں کو برابر خوداختیاری مل جائے گی۔

ہیریسن فارمولے کی رو سے لائن آف کنٹرول کو نرم سرحد کی حیثیت حاصل ہو گی جس سے اطراف کے لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا آسان ہو جائے گا۔

اس ضمن میں بعض ماہرین اٹلی کے علاقے ٹیرول کے حوالے سے اٹلی اور آسٹریا کے مابین اسی جیسے انتظام کی مثال بھی دیتے ہیں۔ اس علاقے کی آبادی جرمن زبان بولتی ہے جو ناصرف بڑی حد تک خودمختار ہے بلکہ اسے آسٹریا اور اٹلی میں آنے جانے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ تاہم پاکستان، انڈیا یا کشمیریوں میں سے کسی نے بھی اس تجویز میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

10۔ سپین اور فرانس سے سبق سیکھیں

اینڈورا سپین اور فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ کشمیر کی طرح اینڈورا بھی کبھی شاہی ریاست تھی۔ صدیوں سے اس ریاست کی ملکیت پر فرانس اور سپین میں تنازع چلا آ رہا تھا۔

1993 میں دونوں ممالک نے اینڈورا کو خودمختار علاقے کا خصوصی درجہ دے کر یہ مسئلہ حل کر لیا۔ پاکستان اور انڈیا بھی کشمیر کو ایسا ہی درجہ دے سکتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی جانب سے مسئلے کے اس حل کی بابت کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔

مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقین اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان اور انڈیا کو پہنچنے والے براہ راست مادی نقصان کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں جن میں سیاچن، کارگل اور وولر بیراج نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر نے سندھ طاس معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور مستقبل میں ایسے مزید کئی مسائل ابھر سکتے ہیں۔

کشمیری اس مسئلے میں بری طرح متاثر ہونے والا فریق ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کشمیر میں 91 ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ممالک باہم مفید اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں اور باہمی مخاصمت پر اٹھنے والے اخراجات کو عوامی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید براں پاکستان اور انڈیا کا جوہری طاقتیں ہونا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیتا ہے۔

دیکھا جائے تو کشمیر کے مسئلے کا صرف وہی حل ممکن ہے جس میں اس کے تینوں فریقین کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے خاص طور پر پاکستان اور انڈٰیا کو اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر ایک دوسرے کو جگہ دینا ہو گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
کشمیر کے چند ممکنہ حل
(میاں ماجد علی افضل)

پاک و ہند کی آزادی سے ہی کشمیر دونوں ممالک کے مابین فساد کی جڑ ثابت ہوا ہے۔ 71 سال بعد بھی مسئلہ کشمیر پاک و ہند تعلقات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس تنازعہ کے بیج تقسیم کے وقت ہی بو دیے گئے تھے جب 565 ریاستوں کی اپنی مرضی سے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا حق تفویض کیا گیا۔ اس وقت کشمیر 77 % فیصد مسلمان آبادی کے ساتھ ہندو مہاراجہ کے ماتحت تھا۔ کشمیر ایک landlocked خطہ ہے جو برِ صغیر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ 85,806 مربع میل پر مشتمل ہے، جس میں سے 31,643 مربع میل بھارت کے قبضہ میں ہے اور 12,387 مربع میل پاکستان کے ماتحت ہے۔ بھارت جموں، کشمیر اور لدخ ڈویژن پر قابض ہے جبکہ پاکستان مغربی جموں، پونچ، لدخ، سکردو اور گلگت پر قابض ہے۔ درج ذیل کوششوں سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

پانی کا مسئلہ:

بھارت پانی کی تقسیم کے معاملے میں پاکستان سے غیر منصفانہ رویہ روا رکھتا ہے جو کہ کشمیر سے بھی بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر سکتا ہے لہذا فوری کا متقاضی ہے۔ پچھلی دہائی میں پاک بھارت تعلقات پانی کی تقسیم کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اگر بیرونی دباؤ یا انسانی حقوق کے تحت مسئلہ کشمیر حل ہو بھی جائے تو پانی کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہے گا یا شاید شدت اختیار کر جائے کیونکہ بھارت پانی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتاہے لہذا اس مسئلہ پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ضروری ہے تاکہ جغرافیائی location سطحی خدوخال، پانی کی سیاسی حدود، آبادی اور رہائش، اندرونی حالات، بیرونی تعلقات اور پانی کی فراہمی کا تعین کیا جا سکے۔

سماجی و ثقافتی ملاپ:

پاکستان کو تین سطحی سیاسی حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے جس میں کشمیریوں سے تعلقات بڑھائے جائیں، بیرونی اور اندرونی معاشی معاملات کی بحالی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسٹریٹیجک مذاکرات، CBMs اور کشمیریوں کو متاثرکرنے کے لئے پاکستان کا استحکام اور بارڈر پر نرمی کی بہت ضرورت ہے۔

مستقل قومی کشمیر پالیسی:

اندرونی سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور باہمی اتفاق ہی سے اندرونی محاذ تیار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستا ن کو عالمیopinion بنانے کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔ جس میں ذرائع ابلاغ مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ سماجی اور معاشی ترقی کے لئے دوسروں پر انحصار سے گریز کرنا چاہیے۔ مضبوط سیاسی، سماجی اور معاشی initiativesلئے جائیں تاکہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ طلبہ یونین، وکالتی گروپ، تعلیمی گروپ اور تھنک ٹینکس بنا کر عالمی ذرائع ابلاغ، پاکستانی اور کشمیری علماء کو ان کا حصہ بنانا چاہیے تا کہ وہ کشمیر کے حقائق سے دنیا کو آگاہ کر سکیں۔

ایک جامع اور عملی پالیسی تیار کی جانی چاہیے جو کشمیر کے متعلق قومی قوت کے عناصر کا احاطہ کرتی ہو۔ سارک کو مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ ممبر ممالک کے مابین تعاون کو بہتر بنایا جا سکے۔ دونوں ممالک کو بارڈر پر لچکداری کا مظاہرہ کر کے دونوں اطراف کے لوگوں کو ملنے جلنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے، جس سے لائن آف کنٹرول کی ساکھ متاثر کیے بغیر تجارت کو بھی فروغ دیا جا سکے۔
 

جان

محفلین
جواب ادھار رہا کہ ابھی مصروف ہوں۔ :)
اصل میں معاملہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر آئینی اور قانونی طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر کے آخری راجہ ہری سنگھ نے پاکستانی قبائل کے حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنی مرضی سے کشمیر کو بھارت میں شامل کیا تھا۔ اس لئے عالمی سطح پر پاکستان کا کیس بہت ہی کمزور ہے۔
اقوام عالم زیادہ سے زیادہ بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔ آگے اس کو حل کرنا ان دونوں ممالک کا باہمی مسئلہ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل
(ڈاکٹر مختیار ملغانی)

بیسویں صدی کی تاریخ بین الاقوامی مسائل و تنازعات سے بھری پڑی ہے، ان تنازعات میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آج دن تک حل طلب ہیں، لیکن ان تمام تنازعات میں سے کسی ایک کا بھی اس کے دورانیے، تباہی، ہلاکتوں، جنگوں ومظالم کی بابت، مسئلۂ کشمیر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازعے کی دونوں اطراف ایٹمی قوتوں کی موجودگی معاملے کو اور بھی گھمبیر بنائے ہوئے ہے۔ ان دونوں فریقین کا نکتۂ نظر اور ان کے مقاصد جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ معاملے کے الجھاؤ کو تاریخی نگاہ سے سمجھا جائے۔

تختِ برطانیہ سے آزادی اور تقسیمِ برصغیر کے وقت دو نئے ممالک ، پاکستان یا بھارت، کے ساتھ الحاق کیلئے ہر ریاست کو آزادی ء انتخاب کی اجازت دی گئی، اور عمومی طور پر مسلمان اکثریت پاکستان اور ہندو اکثریت ہندوستان کے ساتھ الحاق کرتے دکھائی دئیے، ایک نکتۂ نظر یہ ہے کہ اس وقت کے کشمیر کے مہاراجہ، ہری سنگھ، نے کسی بھی ریاست سے الحاق کی بجائے ایک آزاد ریاست کو ترجیح دی، جس پر کشمیر کی اکثریت مسلمان آبادی اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، مگر دوسرا نظریہ اس کے برخلاف ہے کہ ہری سنگھ چونکہ مقامی آبادی کے جھکاؤ کو پرکھ چکا تھا کہ یہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں، اس لیے ہندوستان کی مدد سے مقامی مسلمانوں کے خلاف ریاستی قوت استعمال کرنے کی ٹھانی، اور خطے میں ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی، صورتحال کوئی بھی رہی ہو۔ مسلمانوں کے خلاف اسی رویے کو دیکھتے ہوئے یا پھر مسلمان کشمیریوں کے ساتھ مذہبی اظہارِ یکجہتی کیلئے ،صوبۂ سرحد سے پختون قبائل نے کشمیری حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، جس سے خوفزدہ ہوکر ہری سنگھ نے ہندوستان سے مداخلت کی درخواست کی، اور بدلے میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کی پیشکش کی، ہندوستان کے مطابق ہری سنگھ نے چھبیس اکتوبر 1947ء کو ، Instrument of Accession of Jammu and Kashmir State، نامی ڈاکومنٹ پر دستخط کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا حکومتی سطح پر اعلان کر دیا تھا، مگر ایسے کسی بھی معائدے سے دو دن قبل پختون قبائل کہ مدد سے ہری سنگھ کے فیصلے کے خلاف مقامی کشمیریوں نے آزاد کشمیر نامی خطے کہ بنیاد رکھی، جس کا مرکز مظفر آباد ٹھہرا، جبکہ گلگت، ہنزہ و دیگر شمالی علاقہ جات بغیر کسی کشمکش کے پاکستان کا حصہ قرار پائے، پاکسان نے ایسے کسی بھی ڈاکومنٹ یا حکومتی اعلان کو مکمل مسترد کیا کہ بین الاقوامی سطح پر نہ صرف یہ ڈاکومنٹ مشکوک ہے، بلکہ عوام کی مرضی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی اختلاف اس تنازعے کی بنیاد بنا جو آج دن تک جاری ہے۔

ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے ریڈیو پیغام کے ذریعے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں کشیدگی کو ریفرینڈم کے ذریعے حل کیا جائے گا اور کشمیری عوام اپنے حق میں جو فیصلہ کریں گے وہ ہم سب کو قبول ہوگا، نہرو کا یہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے، اسی طرح اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم پر متعدد دفعہ اس تنازعے پر بحث ہوچکی، اقوامِ متحدہ کے ریزولوشنز ( 13 اگست 1948ء، 5 جنوری 1949، 14 مارچ 1950ء) کے مطابق کشمیریوں کو ریفرینڈم کے ذریعے ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے، اور پاکستان بھی اسی حل کا قائل ہے، مگر ہندوستان کی یہی ہٹ دھرمی ہے کہ چونکہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معائدے پر دستخط کر چکے تھے، اس لئے مزید کسی ریفرینڈم کی ضرورت نہیں۔

بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کا کیس تین وجوہات کی بنیاد پر انتہائی کمزور ہے، پہلی وجہ یہ کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے چھبیس اکتوبر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق پر دستخط کر بھی دیئے تھے جو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس واقعے سے دو روز قبل، چوبیس اکتوبر کو آزاد کشمیر، گلگت و دیگر شمالی علاقہ جات ہری سنگھ کے دائرۂ اختیار سے نکل چکے تھے، اس لیے ہری سنگھ ان علاقوں کی قسمت کے فیصلے کا حق نہ رکھتا تھا، دوسری وجہ یہ کہ اقوامِ متحدہ و تمام جمہوری اصولوں کے مطابق ہر قوم کو حقِ خود ارادیت حاصل ہے، اور یہاں ہندوستان اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتا دکھائی دیتا ہے، اور تیسری وجہ یہ کہ آج تک یہ بات معلوم نہ ہو سکی، کہ چھبیس اکتوبر کو ہری سنگھ، جو اپنی جان بچانے کیلئے سری نگر سے جموں کی طرف ، راستے میں تھا، ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر اس نے کہاں اور کس حالت میں دستخط کئے؟، اس معاملے پر مؤرخ نے اپنے منہ میں پانی بھر رکھا ہے، انہی وجوہات کی بنیاد پر ہندوستان مسئلۂ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے سے گریزاں رہا، باوجودیکہ اگلے کئی سالوں، 1951، 1952 اور 1957ء میں اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حوالے سے مذکورہ بالا ریزولوشنز کی تجدید ہوتی رہی۔

اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی مداخلت سے خطے میں جنگ بندی عمل میں لائی گئی، ہندوستان اور جموں وکشمیر کے درمیان ، دہلی ایگریمنٹ، کے نام سے معاہدہ طے پایا، جس پر جواہرلال نہرو اور شیرِ کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے دستخط کئے، اسی معاہدے کی آڑ میں بھارت نے جموں و کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنانے پر غور شروع کیا، 1951ء میں جموں اور کشمیر میں ایک اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، اور اسی اسمبلی نے ، جو کہ سیاسی طور پر ہندوستان کے زیرِ اثر تھی، جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی قراد دار منظور کر ڈالی، جو کہ کشمیریوں کی امنگوں کے سراسر خلاف تھی، اس سے معاملہ گھمبیر تر ہوتا گیا۔

مسئلہ کشمیر کو لے کر دو فریقین شاید کم تھے کہ 1962ء میں، چین بھی اس میں کُود پڑا، ہندوستانی قبضے میں واقع کشمیر، چین کو تبت سے ملانے والی اہم ترین شاہراہ کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے چین کیلئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا، اسی شاہراہ کو لے کر چین اور ہندوستان کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا، اور چین نے آگے بڑھتے ہوئے لداخ کے ایک بڑے رقبے پر اپنا قبضہ جمالیا، اب کشمیر کے حوالے سے فریقین کی تعداد دو کی بجائے تین ہو چکی۔
اگلے سالوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو مزید جنگیں، 1965 اور 1971ء میں لڑی گئیں اور ہر دفعہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی مداخلت سے نہ صرف جنگ بندی ، بلکہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے جمہوری و پرامن حل پر اتفاق رائے قائم ہوا، مگر افسوس کہ اس کو عملی جامہ کبھی نہ پہنایا جا سکا, اس کے بعد سے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی، مجاہدین کی کاروائیوں، کارگل کے واقعے، اکیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں خودکش حملے، بالخصوص پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی پوزیشن کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی کمزور کر دیا ، اگرچہ کارگل اور سیاچین کے واقعے کے بعد پرویز مشرف دور میں کشمیر کے معاملے پر کچھ پیش رفت ہوئی اور ہندوستان پاکسان کے تعلقات کافی حد تک بہتر ہوتے محسوس ہوئے، مگر ممبئ حملے کے واقعے نے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دیا، ہندوستان کی طرف سے الزام ہے کہ پاکسانی مجاہدین اس کاروائی میں ملوث ہیں، وہ دن اور آج کا دن کشمیر کا تنازع اپنی جگہ بغیر کسی پیش رفت کے موجود ہے، آگے تاریخ ہے، جس کہ تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔

کشمیر کے تنازعے کی حقیقی تصویر دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کشمیر سے گزرتے دریاؤں کی اہمیت، جو ہند و پاک کی زمینی سیرابی کیلئے ناگزیر ہیں، پر غور کیا جائے، انیسویں صدی کے آخر میں، پنجاب (متحدہ ) کی زرخیز زمین کی سیرابی کو دریاؤں اور نہروں کے جس نظام کی تعمیر کی گئی، اس میں سندھ کو مزید پانچ شاخوں میں تقسیم کر دیا گیا، جس میں سے دو، جہلم اور چناب، اور خود سندھ بھی، جو موجودہ پاکستان کے پنجاب کو سیراب کرتے ہیں، جموں اور کشمیر سے گزرتے ہیں، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج ہندوستانی پنجاب کی زرخیزی کا ذریعہ ہیں، 1948ء میں بڑھتی چپقلش کے نتیجے میں ہندوستان نے پاکستان کو ان پانیوں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن تنازع پرامن طریقے سے حل ہوا، اگرچہ ان دریاؤں کے پانی کے حوالے سے ہندوستان اب بھی دھونس دھمکی سے نہیں چوکتا۔

تنازعہ کشمیر کے حل کی تین ہی صورتیں ہیں جو ممکن ہو سکتی ہیں، اور ان تینوں صورتوں کا ، کشمیر میں ریفرینڈم پر انحصار نہیں، یعنی کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کا موقع دیا جائے، یا نہ دیا جائے، ہر حال میں تنازعے کے حل کی صرف درج ذیل تین صورتیں ہیں جو اپنے اندر مخصوص پیچیدگیاں لئے ہوئے ہیں۔
پہلی صورت یہ کہ پوری وادی کسی ایک ملک، پاکستان یا ہندوستان، کے حوالے کر دی جائے، یا کشمیری عوام ریفرینڈم کے ذریعے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔
لیکن اس صورت میں کچھ مشکلات ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ بھارت یا پاکستان میں سے کوئی ایک ملک بھی اس بات پر متفق نہیں ہوگا کہ پورا کشمیر دوسرے ملک کے حوالے کر دیا جائے، وہ کشمیر جس کیلئے گزشتہ بہتر سالوں سے خون بہایا جاتا رہا ہے، دوسرا کمزور پہلو یہ کہ اقوامِ متحدہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے، بے شمار ریزولوشنز کے باجود عملی طور پر کچھ نہ کیا جا سکا، یہاں ایک تیسرا پہلو ، چین کی خطے میں دلچسپی ہے، تقسیم سے قبل کی ریاستِ کشمیر کے کچھ علاقے اس وقت چین کے قبضے میں ہیں، اور چین نہ صرف یہ کہ ان علاقوں کو واپس نہ کرے گا، بلکہ اپنی معاشی و جغرافیائی خواہشِ وسعت میں ً ھل من مزید ً کا نعرہ لگاتا دکھائی دے گا۔

دوسری صورت، ایک آزاد اور خودمختار ریاستِ کشمیر۔
یعنی کہ اگر کشمیر کے لوگ کسی کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے، بلکہ ریفرینڈم کے ذریعے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں تینوں فریق، ہندوستان، پاکستان اور چین کھُل کر ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے، کیونکہ ہر ملک کا مستقبل اور مفادات جزوی طور پر کشمیر سے جڑے ہیں، بلکہ ریاستِ کشمیر اس وقت معاشی اور دفاعی طور پر تین حصوں میں بٹی ہے ، آزاد ملک کی صورت میں تین مختلف ممالک کے پنجوں سے نکلنا ، بھاری خون ریزی کے بغیر ممکن نہ ہوگا، اس سے اگلا قدم، ایک نئے آزاد ملک میں مختلف مذہبی اور قومی دہشتگرد تنظیموں کے پنپنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ایسی صورت میں افغانستان میں موجود مختلف جہادی تنظیمیں اپنا اگلا ہیڈ کوارٹر کشمیر کو منتخب کر بیٹھیں، کشمیر کے علیحدہ ملک کا نعرہ ہندوستان کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا کہ ایسی صورت میں آسام اور ناگا ریاست کے مطالبات کے ساتھ ساتھ خالصتان کی تحریک کو بھی تقویت ملے گی۔

تیسری صورت، جغرافیائی حدود و شناخت کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے کچھ حصہ ہندوستان کو، اور کچھ پاکستان کے حوالے کر دیا جائے، (جس حصے پر چین قابض ہے، وہ حصہ اس کے پاس رہنے دیا جائے )،اس صورت میں خود کشمیری متفق نہ ہو پائیں گے، اگر ریفرینڈم کے ذریعے کچھ علاقے ہندوستان کے ساتھ اور کچھ پاکستان کے ساتھ الحاق پر اتفاق کر بھی لیتے ہیں تو بھی کشمیر کی چھاتی پر ایک لائن آف کنٹرول برقرار رہے گی، جو ہندوستان اور پاکستان کا بارڈر کہلائے گی، اسی مقام پر وہی جھڑپیں اور کشمکش جاری رہی گے جو آج ہے، اور مختلف تنظیمیں اپنی اپنی خدمات اسی تناظر میں پیش کرتی رہیں گی جیسا کہ آج ہو رہا ہے، ایسا بٹوارہ کوئی نتیجہ نہ دے پائے گا، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد، والے محاورے کے مصداق صورتحال وہی رہے گی۔

ان تینوں صورتوں میں سب سے خطرناک اور خونریز، دوسری صورت ہے، یعنی کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاستِ کشمیر، مگر مسئلے کا حقیقی حل بھی یہی ہے،
رواں صدی کے آخر تک دنیا کے نقشے پر ممالک کی تعداد لگ بھگ پانچ سو ہو جائے گی، اس وقت معاشی حالات اور قومی حساسیت جیسے عناصر کا تقاضا ہے کہ زیادہ مگر چھوٹے ممالک کا قیام عمل میں لایا جائے، اور کشمیر کے معاملے میں بھی حقیقی اور پائیدار ،مگر مشکل ترین حل یہی ہو گا کہ کشمیر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سامنے آئے، باقی دو صورتیں حل نہیں، بلکہ صرف معاملے سے جان چھڑانے والی بات ہوگی، مگر اس خطرناک اور خونریز حل، جس کے بغیر چارہ نہیں، کیلئے ضروری ہے کہ تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر اس حد تک اجاگر کیا جائے کہ دنیا کے بڑے ممالک اور انسانی حقوق پر کام کرتی تنظیمیں نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ اقوام متحدہ کو مجبور کریں کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے وجود، نہ صرف وجود بلکہ اس کے استحکام کیلئے ہر ممکن کوشش اور مدد کی جائے، مگر اس کیلئے خطے میں چین کے معاشی اثرات کو کم کرنا، افغانستان میں ایک پرامن حکومت کا قیام، ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو شعور و تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی طویل جدوجہد درکار ہے، وگرنہ معاملہ مؤبیس کے رِبن , Moebius tape, کی مانند ایک ہی سطح اور دائرے میں گھومتا رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ریاست جموں و کشمیر میں تین مرحلہ جات میں رائے شماری کا اہتمام کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں رائے شماری ہو گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ خود اپنی آزاد مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنا الحاق کریں گے۔
ریفرنڈم سے متعلق بہت بار کوششیں ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلی کوشش اقوام متحدہ کی قرارداد 47 میں ہوئی تھی۔ جہاں پاکستان کو کشمیر کے مقبوضہ علاقہ خالی کرنے، بھارت کو اپنی فوج واپس بلانے اور ریفرنڈم کروانا کا کہا گیا تھا۔
البتہ پاکستان نے کشمیر کو خالی نہیں کیا اور یوں آج تک ریفرنڈم کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
696ad703-fa50-42e4-af4b-233f3a468663.jpg
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مشرف کا کشمیر کے لیے ایک فارمولا

(اعجاز مہر)

پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنائے جانے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حل کے لیے ایک نیا حل پیش کردیا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو طے کرنا ہے کہ کونسے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کونسے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔

تجویز کے مطابق خودمختار حصے کو اقوام متحدہ کے زیرانتظام کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ دونوں ممالک کے مشترکہ کنٹرول میں بھی رہ سکتا ہے۔

پیر کے روز صحافیوں اور سفیروں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے حظاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انہیں امید کی کرن نظر آرہی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی تجویز کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دو حصے ہیں جو ان کے مطابق آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے پانچ حصے ہیں جن میں وادی کشمیر بھی شامل ہے جو کہ خالصتاً کشمیری ہیں۔ دوسرا علاقہ جموں کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندؤوں کا ہے۔ تیسرا لداخ، چوتھا دراز کارگل اور پانچواں لیہ کا حصہ بھارت کے زیرانتظام ہے۔

انہوں نے کہا کہ لداخ بدھ مذہب والوں کا ہے جبکہ کارگل شیعہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ ان سات علاقوں میں سے بھارت اور پاکستان کو طے کرنا ہے کہ ان حصوں کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہونی چاہیے یا لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر۔

صدر نے بتایا کہ جب وہ نیویارک میں بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملے تھے اس وقت انہوں نے ان سے کہا تھا کہ استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے ان سے تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ صدر مشرف نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔

صدر کے بقول دونوں ممالک مختلف امکانات پر کام کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تجاویز عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے بحث کی خاطر اب پیش کریں یا ان پر پیش رفت کے بعد۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ان کی رائے ہے کہ ابھی سے تجاویز بحث کے لیے عوام کے سامنے لانی چاہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت کے عوام اور کشمیری ان کی تجویز پر کھلے دل و دماغ سے غور کریں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ریفرنڈم سے متعلق بہت بار کوششیں ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلی کوشش اقوام متحدہ کی قرارداد 47 میں ہوئی تھی۔ جہاں پاکستان کو کشمیر کے مقبوضہ علاقہ خالی کرنے، بھارت کو اپنی فوج واپس بلانے اور ریفرنڈم کروانا کا کہا گیا تھا۔
البتہ پاکستان نے کشمیر کو خالی نہیں کیا اور یوں آج تک ریفرنڈم کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
696ad703-fa50-42e4-af4b-233f3a468663.jpg
آپ ہمارے مراسلے سے اقتباس لیتے ہیں تو یہ گمان ہوتا ہے کہ تحریر ہماری ہے۔ آپ مضمون نگار سے مخاطب ہو کر اپنا مدعا بیان کریں چاہے وہ فی الوقت غائب ہیں۔ :) بہتر ہو گا کہ اس لڑی کا پہلا مراسلہ ایک بار پھر دیکھ لیں، شکریہ! :)
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان اور انڈیا دونوں نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو منظور کیا جس میں رائے شماری بھی شامل تھی۔ اگرچہ اس سے بعد بھی اقوام متحدہ نے رائے شماری کے حوالے سے متعدد قراردادیں منظور کیں مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی کے باعث ان میں کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
خالی بھارت کو الزام دینا درست نہیں۔ کشمیر کے مقبوضہ علاقوں سے فوجیں تاحال پاکستان نے بھی نہیں نکالی ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
، اور تیسری وجہ یہ کہ آج تک یہ بات معلوم نہ ہو سکی، کہ چھبیس اکتوبر کو ہری سنگھ، جو اپنی جان بچانے کیلئے سری نگر سے جموں کی طرف ، راستے میں تھا، ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر اس نے کہاں اور کس حالت میں دستخط کئے؟
ظاہر ہے جب پاکستان سے قبائل اس کی ریاست پر حملہ کریں گے تو اس نے جان بچانے کیلئے قریب ترین مخالف فریق سے ہی رابطہ کرنا تھا۔ اس میں حیرت والی کونسی بات ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
وزیراعظم عمران خان کی ،کشمیر مسئلے کے کئی حل زیر غور ہونے کی پیش گوئی کے ایک ہفتے بعد آج پاکستان نے مسئلہ کشمیر کا حل پیش کر دیا ہے اوشمالی ائر لینڈ طرز پر ماڈل سامنے لایا ہے جس کے تحت کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنا کر وہاں اقوام متحدہ ریفرنڈم کیلئے کشمیریوں کی رجسٹریشن شروع کرے جس کیساتھ ہی ہندوپاک کو بھی اسی ماڈل پر مذاکرات کیلئے سامنے لایا جاسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ برطانوی طرز پر بھی ایک ماڈل زیر نظر ہے جس پر آئندہ کچھ ہی دنوںمیں خاکہ پیش کر دیا جائیگا ۔اس دوران پاکستان نے صاف کر دیا کہ کشمیری نسل در نسل خون بہا رہے ہیںاور ایسے میں پاکستان کشمیریوں کی خونریزی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا ہے ، پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں صاف کر دیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کشمیر مسئلے کے حل کیلئے سنجیدگی سے پہل کرنا چاہتا ہے اور جو حل تیار کر لیا گیا ہے اس کو قابل عمل بھی بنایاجاسکتا ہے کیونکہ دونوں طرف کے کشمیرکو غیر فوجی علاقہ بنا کر امن بحالی کیلئے مذاکرات شروع کئے جائیں جس میں سبھی گروپوںکو اسی ماڈل پر اتفاق رائے بنانے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے ۔
حکومت پاکستان نے کشمیر مسئلے کے فوری حل کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہاکہ کشمیری ظلم کے شکار ہیں اور جب تک اس ظلم کا خاتمہ نہیں کیا جائیگا خونریزی نہیں روکی جاسکتی ہے لہذا اقوام متحدہ کو بھی حل کی ایک کاپی روانہ کی جائیگی ۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک ماڈل بنایا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کا حل شمالی آئرلینڈ اور برٹش طرز پر ہے۔اسلام آباد میں سینیٹرمشاہد حسین سید کی زیرصدارت سینٹ کمیٹی برائے خارجہ کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کبھی بھی اس سطح کی کوشش نہیں کہ جس سطح کی ہونی چاہئے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کشمیر میں خواتین کے حقوق کی پامالیوں پر کبھی یو این ایچ سی آر کا دروازہ کھٹکھٹایا/ کیا ہم نے بچوں پر پیلٹ گنز کے استعمال پر عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا، ہمیں یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے بعد کشمیر میں تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا اگر اقوام متحدہ مشرقی تیمور میں رائے شماری کراسکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں۔شیری مزاری نے کہا کہ کشمیری نسل در نسل آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور اب ہمیں بیانات اور تقریروں سے آگے نکل جانا ہوگا،میں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک ماڈل بنایا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کا حل شمالی آئرلینڈ اور برٹش طرز پر ہیں اس ماڈل کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا آغازکیا جائے اور اسی ماڈل کے تحت تمام گروپس کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جائیں جب کہ اقوام متحدہ رائے شماری کے لیے کشمیریوں کی رجسٹریشن کرے اور خود اس کی مانیٹرنگ کرے۔شیریں مزاری نے کہا کہ رائے شماری کے لیے اقوام متحدہ حد بندی کرے اور کشمیرکو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔
اب ہم کشمیریوں کو مزید خون بہاتے نہیں دیکھ سکتے۔ عمران خان نے واضح کیاکہ جب تک بھارت اوررپاکستان کے درمیان مذاکرات نہ ہوں تب تک کشمیرمسئلے کے مختلف ممکنہ حل زیرغورنہیں کیاجاسکتاہے۔واضح رہے کہ ایک ہفتے قبل پاکستانی وزیراعظم سے سوال کیا گیا تھا کہ کشمیر مسئلے پر کیا عمل کیا جارہا ہے تو انہوںنے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیرکاکوئی حل زیرغورہے ،پاکستانی وزیراعظم نے انکشاف کیاکہ ویاتین حل مذاکرات کے دوران زیرغورلائے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کشمیرمسئلے کے مجوزہ دویاتین حل کاخلاصہ نہ کرتے ہوئے صحافیوں کوبتایاکہ ابھی اسبارے میں کوئی بھی بات کرناقبل ازوقت ہوگا۔تاہم عمران خان نے سابق صدرپرویزمشرف کے دورمیں کشمیرمسئلے کے حوالے سے اہم پیش رفت کااعتراف کرتے ہوئے بتایاکہ بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اورسابق وزیرخارجہ نٹورسنگھ نے ایک کانفرنس کے دوران اُنھیں یہ بتایاتھاکہ اگر۴۰۰۲کے لوک سبھاانتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کامیاب ہوکردوبارہ برسراقتدارآجاتی تومسئلہ کشمیرحل ہواہوتا۔عمران خان کے بقول اٹل بہاری واجپائی اورنٹورسنگھ نے کہاتھا’’اگربھاجپا۴۰۰۲کے لوک سبھاالیکشن نہ ہارجاتی توکشمیرمسئلہ حل ہوگیاہوتا۔ غورطلب ہے کہ مشرف اورواجپائی کے دورمیں ہندوپاک تعلقات میں اہم پیش رفت ہوئی تھی ،اورپاکستان کے سابق صدرپرویزمشرف نے جب بھارت کادورہ کیاتھاتوآگرہ میں مشرف اورواجپائی کے درمیان ہوئے اعلیٰ سطحی وَن ٹووِ ن مذاکرات میں دونوں رہنمائوں کے درمیان کشمیرحل پرفیصلہ کن سمجھوتہ ہوتے ہوتے رہ گیاکیونکہ بھاجپاکی سینئرخاتون لیڈراورموجودہ وزیرخارجہ سشماسوراج کی جانب سے عین اُسی وقت ایک متنازعہ بیان سامنے آیاجسکے باعث سب کئے کرائے پرپانی پھرگیا۔عمران خان نے مشرف اورواجپائی کے دورمیں ہوئی اہم پیش رفت کے تناظرمیں کہاکہ اگرتب دونوں ملک اس دیرینہ مسئلے کے کسی متفقہ حل کی جانب بڑھ سکے تھے تواب بھی ایساہوناممکن ہے تاہم انہوں نے اسبارے میں مزیدکوئی وضاحت نہیں کی ۔پاکستانی وزیراعظم کاکہناتھاکہ واجپائی اورنٹورسنگھ کی باتوں سے صاف ظاہرہوتاہے کہ دونوں ملک کشمیرمسئلے کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے بھارت اورپاکستان کے درمیان جنگ کے امکانات یااندیشوں کویکسرمستردکرتے ہوئے کہاکہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں ،اسلئے جنگ کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمدہونگے ۔عمران خان نے سبھی ہمسایہ ممالک کیساتھ پُرامن تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ بھارت کیساتھ وہاں ہونے والے آئندہ پارلیمانی انتخابات تک مذاکرات کاامکان نظرنہیںآتاہے کیونکہ ہمسایہ ملک فی الوقت مذاکرات کیلئے تیارنہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیاکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہرملک میں خارجہ پالیسی بنانے میں فوج کارول رہتاہے۔انہوں نے کہاکہ امریکہ میں بھی ایساہوتاہے اوردوسرے ممالک میں بھی ،کیونکہ خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت سلامتی صورتحال سے متعلق مشورے فوج سے طلب کئے جاتے ہیں جوخارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت ملحوظ نظررکھے جاتے ہیں ۔عمران خان کاکہناتھاکہ اُنکی حکومت کے فیصلوں کوپاکستانی فوج کی مکمل تائیدوحمایت حاصل ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ظاہر ہے جب پاکستان سے قبائل اس کی ریاست پر حملہ کریں گے تو اس نے جان بچانے کیلئے قریب ترین مخالف فریق سے ہی رابطہ کرنا تھا۔ اس میں حیرت والی کونسی بات ہے۔
ہم نے یہ ارشاد بھی نہیں فرمایا تھا۔ :) ہم صرف مضامین جمع کر رہے ہیں جو شاید ہم نے خود بھی ابھی نہیں پڑھے۔ اس لڑی کا مقصد اس موضوع پر مواد کی جمع آوری ہے، اور بس! :)
 

جاسم محمد

محفلین
غورطلب ہے کہ مشرف اورواجپائی کے دورمیں ہندوپاک تعلقات میں اہم پیش رفت ہوئی تھی ،اورپاکستان کے سابق صدرپرویزمشرف نے جب بھارت کادورہ کیاتھاتوآگرہ میں مشرف اورواجپائی کے درمیان ہوئے اعلیٰ سطحی وَن ٹووِ ن مذاکرات میں دونوں رہنمائوں کے درمیان کشمیرحل پرفیصلہ کن سمجھوتہ ہوتے ہوتے رہ گیاکیونکہ بھاجپاکی سینئرخاتون لیڈراورموجودہ وزیرخارجہ سشماسوراج کی جانب سے عین اُسی وقت ایک متنازعہ بیان سامنے آیاجسکے باعث سب کئے کرائے پرپانی پھرگیا
اس وقت بھارت کے نائب وزیراعظم ایل کے ادوانی نے بھی امن معاہدہ کی راہ میں روڑے اٹکائے تھے۔ مشرف کو چاہئے تھا کہ ایک بڑے مقصد کی خاطر چھوٹے موٹے بھارتی مطالبات تسلیم کر لیتا۔ لیکن وہ غصے میں آکر مذاکرات کی میز سے بھاگ گیا۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
Advani admits he sabotaged Agra summit - Newspaper - DAWN.COM
 
Top