فرخ منظور
لائبریرین
مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب
جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے ہیں نصیب
نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب!
جہاں ہو دشتِ تمنّا وہیں دیارِ حبیب
دعا نہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تری
دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب
نہ جانے زورِ خطابت سے تھک گیا ہے وہ
نہ جانے عجزِ ندامت سے چُپ ہوا ہے خطیب
میں خود بتا نہیں سکتا یہ کس کی ہے آواز
تُو آکے کان ذرا دھر مرے لبوں کے قریب
تمام عمر کٹی مسجدوں کے سایے میں
یہ چار دن تو گزر جائیں میکدے کے قریب
غریقِ گریہ ہو دل، لب رہیں تبسّمؔ ریز
مگر یہ غم نہیں ہوتا ہے ہر کسی کو نصیب
(صوفی تبسمؔ)
جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے ہیں نصیب
نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب!
جہاں ہو دشتِ تمنّا وہیں دیارِ حبیب
دعا نہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تری
دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب
نہ جانے زورِ خطابت سے تھک گیا ہے وہ
نہ جانے عجزِ ندامت سے چُپ ہوا ہے خطیب
میں خود بتا نہیں سکتا یہ کس کی ہے آواز
تُو آکے کان ذرا دھر مرے لبوں کے قریب
تمام عمر کٹی مسجدوں کے سایے میں
یہ چار دن تو گزر جائیں میکدے کے قریب
غریقِ گریہ ہو دل، لب رہیں تبسّمؔ ریز
مگر یہ غم نہیں ہوتا ہے ہر کسی کو نصیب
(صوفی تبسمؔ)
آخری تدوین: