مسافر جا چکا کب کا مسافر یاد آتا ہے

مسافر جا چکا کب کا مسافر یاد آتا ہے
یہاں بھی مست رہتا تھا وہاں بھی سو رہا ہوگا

بہت خاموش تھا ابتک مغنی کچھ نہ بولا تھا
ذرا سی بات کردی ہے تماشا ہو رہا ہوگا

کسی عاشق کا صدقہ ہے قیامت جو نہیں آتی
کہیں پر منہ چھپا کر وہ ابھی تک رو رہا ہوگا

وہ آنکھیں ہوں یا زلفیں ہوں یا ہو گر دل ملنگوں کا
کہیں پھر جا نہیں سکتا یہاں پر جو رہا ہوگا

اسے اب ڈھونڈتے ہو کیوں ملے جمشید کیوں کر اب
بہت سے داغ دھبے تھے کہیں پر دھو رہا ہوگا
 
Top