ش
شہزاد احمد
مہمان
مستانہ بے سبب نہیں نغمہ ہزار کا
پیغام کچھ صبا نے دیا ہے بہار کا
کیوں مرتبہ بلند نہ ہو انکسار کا
جُھکنا ہی فیض ہے شجر باردار کا
کیوں کر تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کی سحر
کچھ پوچھیے نہ حال دلِ بے قرار کا
بعدِ فنا بھی گردشِ دوراں میں ہم رہے
اوٹھتا رہا لحد سے بگولہ غبار کا
زاہد جو اہلِ دل ہے تو اتنا تو رکھ خیال
بے وجہ دل دُکھے نہ کسی بادہ خوار کا
سیماب اضطراب میں بے مثل کیوں نہ ہو
پیرو ہے خاص میرے دلِ بے قرار کا
کیوں روکتے ہو ہم کو مسافر عدم کے ہیں
کھلنا محال ہے کمرِ استوار کا
برسوں تمہارا باغ میں دیکھا ہے راستہ
نرگس سے پوچھو حال مرے انتظار کا
عشاق تاکے جاتے ہیں نخچیر کی طرح
چلتے ہیں تیر شوق ہوا ہے شکار کا
گلزار کے گلوں کو سمجھتا ہوں داغِ غم
عاشق ہوا ہوں کس رخِ رشکِ بہار کا
پژمردگی شگفتہ دلوں کو ہوئی نصیب
بگڑا ہے رنگ کیا چمنِ روزگار کا
دل دے کے پھیرنے کا ارادہ جو ہے ہزبر
یہ امر آپ سمجھے ہیں کیا اختیار کا
پیغام کچھ صبا نے دیا ہے بہار کا
کیوں مرتبہ بلند نہ ہو انکسار کا
جُھکنا ہی فیض ہے شجر باردار کا
کیوں کر تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کی سحر
کچھ پوچھیے نہ حال دلِ بے قرار کا
بعدِ فنا بھی گردشِ دوراں میں ہم رہے
اوٹھتا رہا لحد سے بگولہ غبار کا
زاہد جو اہلِ دل ہے تو اتنا تو رکھ خیال
بے وجہ دل دُکھے نہ کسی بادہ خوار کا
سیماب اضطراب میں بے مثل کیوں نہ ہو
پیرو ہے خاص میرے دلِ بے قرار کا
کیوں روکتے ہو ہم کو مسافر عدم کے ہیں
کھلنا محال ہے کمرِ استوار کا
برسوں تمہارا باغ میں دیکھا ہے راستہ
نرگس سے پوچھو حال مرے انتظار کا
عشاق تاکے جاتے ہیں نخچیر کی طرح
چلتے ہیں تیر شوق ہوا ہے شکار کا
گلزار کے گلوں کو سمجھتا ہوں داغِ غم
عاشق ہوا ہوں کس رخِ رشکِ بہار کا
پژمردگی شگفتہ دلوں کو ہوئی نصیب
بگڑا ہے رنگ کیا چمنِ روزگار کا
دل دے کے پھیرنے کا ارادہ جو ہے ہزبر
یہ امر آپ سمجھے ہیں کیا اختیار کا