مستان بابا

مستان بابا
:::::::::::
عجیب سا شخص تھا ۔ چلتا پھرتا ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس پر کالی چمڑی سی منڈھ دی گئی ہو۔ پرانی میلی سی لُنگی، ، اور ایک بوسیدہ سا کٹا پھٹا کرتا ہی شائد اس کی کُل کائنات تھی۔ پاؤں جوتوں سے بے نیاز، دھول مٹی سے اٹے پڑے تھے۔ ڈھاکہ کے تیج گاؤں کے اس چھوٹے سے بازار میں سارا دن ایک سرے سے دوسرے سرے تک آوارہ گردی کرتے رہنا اس کا واحد مشغلہ تھا۔ کرخت سا چہرہ جس کی جُھریوں اور ماتھے کی سلوٹوں میں نجانے کتنے ماہ و سال اپنی گذرگاہوں کے نشان ثبت کرکے جاچکے تھے۔ لیکن اس کی شخصیت میں سب سے عجیب بات اس کی آنکھیں تھیں۔ لال انگارہ آنکھیں، جن میں کچھ ایسا تاثر تھا کہ دیکھنے والا اس کی نظروں کی تاب نہ لاکر اس سے آنکھیں چرانے پر مجبور ہوجاتا۔ عجیب خوف زدہ کردینے والی آنکھیں تھیں۔ آس کی وضع قطع تو بھکاریوں جیسی تھی، لیکن اس سے نظریں ملتے ہی انسان کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا۔ ارد گرد کے ماحول سے عجیب بے نیازی سی ٹپکتی تھی ان آنکھوں سے یا شائد حقارت۔۔ یوں جیسے کوئی منگول گھڑ سوار، کسی برباد شدہ مفتوحہ شہر کی گلیوں مین گشت کر رہا ہو۔ اسے بھیک مانگتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا، اگر کوئی شخص کچھ کھانے پینے کی چیز اس کے آگے پیش کرتا تو نظر انداز کر کے گذر جاتا، اور اگر پھر بھی وہ شخص اس کے ساتھ قدم دو قدم چل کر دوبارہ وہی بات کرتا تو اس کا بھڑک اٹھنا یقینی ہوتا تھا۔ بہت غصے کے ساتھ اس شخص پر نظر ڈالتا اور الٹے ہاتھ کی ایک ضرب اس دینے والے ہاتھ پر پڑتی اور کھانے کا برتن یا پینے کا پیالہ جو کچھ بھی اس ہاتھ میں ہوتا، ایک جھٹکے سے سڑک کے وسط میں پڑا نظر آتا۔ یوں تو بازار مین کھانے کی کئی دکانیں تھیں، لیکن وہ ہمیشہ ایک مخصوص دکان میں ہی جاکر کھانا کھاتا تھا۔ وہ دکان دو بھائیوں کی ملکیت تھی جو باری باری دکان پر بیٹھتے تھے۔ انہوں نے دکان کے اندر ایک کرسی اور ایک چھوٹی سی میز صرف اسی کے لئے مخصوص کر رکھی تھی، جس پر کسی گاہک کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ جب بھی دکان میں آتا، ایک حاکمانہ شان کے ساتھ آکر چپ چاپ اس کرسی پر آکر بیٹھ جاتا اور کھانا اس کے آگے رکھ دیا جاتا۔ کئی مرتبہ کھانا کھاتے کھاتے اس کے جی میں آتی تو کاونٹر پر موجود دونوں بھائیوں مین سے کسی ایک کو پرے دھکیل کر اس کی کرسی پر بیٹھ جاتا۔ اورکبھی کبھی آگے کاونٹر پر موجود کھانے کے دیگچوں میں سے کسی ایک کو پاؤں کی ٹھوکر سے سڑک پر گرادیتا۔ میں بھی اکثر رات کے وقت اسی دکان سے کھانا کھاتا تھا۔
میں نے جب پہلی مرتبہ اس شخص کو کھانے کا دیگچہ ٹھوکر کے ساتھ سڑک پر الٹاتے ہوئے دیکھا تو بہت حیران ہوا،لیکن اس سے زیادہ حیرانی دکاندار کی جانب سے اس سارے عمل کو نظر انداز کرنے اور بابا سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر ہوئی۔ میں نے دکان میں موجود دوسرے مزدوروں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے، یہ بابا کون ہے؟ تو سب کا یہی جواب تھا کہ یہ مستان بابا ہیں۔ مستان کی اصطلاح میرے لئے نئی تھی، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مغربی پاکستان مین جس شخص کو مجذوب کہا جاتا ہے، مشرقی پاکستان میں اسے عوامی زبان میں مستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
میرے مستقل وہاں رات کا کھانا کھانے کی وجہ سے دونوں بھائی مجھے پہچاننے لگے تھے اور کبھی کبھی ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگالیتے۔ اس زمانے میں مجھے داڑھی رکھنے کا شوق تھا اور چھوٹی سی اس ڈاڑھی کی وجہ سے دونوں بھائی مجھے " مُلّا بھائی" کے نام سے پکارتے تھے۔ چھوٹے بھائی سے کچھ بے تکلفی بھی پیدا ہوگئی۔ میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تم لوگ اس بابے کی ان حرکتوں کو کیوں برداشت کرتے ہو تو؟
"مُلّا بھائی، ایک وجہ تو یہ ہے کہ مستان بابا ہمارے باپ کے وقت سے اس دکان پر آتا ہے، ہمارا باپ بھی اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتا تھا۔ دوسری بات ہم دونوں بھائیوں کا مستان بابا کے بارے میں اپنا اپنا ایک خاص اعتقاد ہے۔ میرا بڑا بھائی تو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری دکان مستان بابا کی برکت سے چل رہی ہے۔ اس کا یقین ہے کہ جس دن بابا اس طرح کی حرکت کرکے اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے، اس دن دکان کی کمائی دوسرے دنوں سے زیادہ ہوتی ہے۔" یہ بات کہہ کر وہ اپنے بھائی کی "ضعیف الاعتقادی" پر مسکرایا اور میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
یہ تو تمہارے بھائی کا اعتقاد تھا، تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو کہ دکان مستان بابا کی وجہ سے چل رہی ہے؟
" نہیں۔۔۔ میرا معاملہ الگ ہے۔ مجھے اپنے باپ کے زمانے سےدکان کے گلّے سے پیسے چرانے کی عادت تھی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد جب ہم دونوں بھائی اس کاؤنٹر پر باری باری بیٹھنے لگے، تو میں نے اسی عادت کے ہاتھوں ایک دن گلّے سے کچھ پیسے پار کئے، اسی دن مستان بابا آیا اور مجھے کرسی سے دھکیل کر خود بیٹھ گیا اور دیگچہ بھی ٹھوکر سے اُلٹا دیا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے پیسے واپس گلّے میں رکھ دئیے۔ میں نے بعد میں بھی جب کبھی یہ حرکت کی، اس دن بابا نے ضرور کچھ نہ کچھ توڑ پھوڑ مچائی۔ مجھے یقین ہے کہ بابا میرے دل کے کھوٹ سے واقف ہوجاتا ہے اور میری اوقات دکھانے کے لئے اس دن ایسا کچھ نہ کچھ ضرور کرتا ہے۔"
تم چرائے ہوئے پیسے واپس گلّے میں رکھ دیتے ہو اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ بابا تمہارے کھوٹ سے واقف ہوجاتا ہے، تو تم باز کیوں نہیں آجاتے اس حرکت سے؟
" تم نہیں سمجھو گے مُلّاں بھائی۔ میری بھی ضد ہے کہ کسی دن تو ایسا ہو کہ میں بابا کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاؤں۔ جس دن ایسا ہوگیا، وہ میری فتح ہوگی۔ اور پھر مین شائد کبھی دوبارہ ایسا کام نہ کروں۔ میں بابا کے خوف کی وجہ سے یہ کام نہیں چھوڑنا چاہتا، بلکہ بغیرکسی پکڑ کے احساس کے، آزادی کے ساتھ اپنی مرضی استعمال کرتے ہوئے یہ کام چھوڑنا چاہتا ہوں۔ اب تو محض ضد میں آکر چوری کرتا ہوں"۔
میں دل ہی دل میں دونوں بھائیوں کی اس بے وقوفی پر ہنستا ہوا اور یہ سوچتا ہوا واپس مِل میں چلا آیا کہ ایک پاگل انسان نے ان دونوں کو بھی پاگل بنا رکھا ہے۔
تیج گاؤں نامی اس صنعتی علاقے میں یہ ایک اکلوتی سٹیل رولنگ مل تھی۔ مالک بنگالی تھا لیکن تمام کاریگر مغربی پاکستان کے تھے۔ میں اس مِل میں خراد مشین پر کام کرتا تھا اور مِل کے رولرز اور دوسری مشینوں کے ٹوٹے ہوئے پرزے مرمت کرنا میری ذمہ داری تھی۔ مجھے اس مل میں آئے ہوئے دو تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ رہائش مِل کے اندر ہی کوارٹرز میں تھی۔ سب لوگ مِل کے مالک کو سیٹھ کہہ کر پکارتے تھے، میں بھی اسے سیٹھ ہی کہتا تھا۔
رات کا کھانا تو میں اسی مرکزی بازار میں جاکر کھاتا تھا، لیکن دوپہر کے کھانے کے لئے مِل کے ساتھ ملحقہ چھوٹے سے بازار کا رخ کرتا جہاں مزدوروں کے لئے چائے کے کھوکھے اور چھوٹے موٹے چھپر ہوٹل تھے، اور دوسری کئی ورکشاپوں کے مزدور بھی وہیں دوپہر کے کھانے کے وقت آیا کرتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس بازار میں بھی ایک مستان بابا موجود تھے۔ یہ بابا جی پہلے والے سے یکسر مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر نہ تو کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ ہی کوئی وحشت۔ یہ ٹھندے میٹھے سے بابا تھے جو بازار کی نکڑ پر واقع ایک تھڑے کے سائے میں بیٹھے رہتے تھے۔ کئی مرتبہ وہاں کے بچے بابا سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے بھی نظر آتے اور کوئی نہ کوئی شرارت کرکے بھاگ کھڑے ہوتے۔ بابا کو جب کھانے کی یا چائے کی طلب ہوتی ، کسی نہ کسی دکان یا کھوکھے کے آگے جاکر کھڑے ہوجاتے، اور دکاندار خود ہی انہیں کچھ نہ کچھ پیش کردیتا، جو وہ قبول کرلیتے ۔ بے ضرر سے آدمی تھے۔ میرا بھی آتے جاتے کبھی سرِِ راہ آمنا سامنا ہوتا تو میں احتراماّ سر کو خم کرکے سلام کرتا اور وہ مسکراہٹ سے اس کا جواب دیتے۔
پچھلے دو ہفتوں سے میں خاصا پریشان تھا۔ سیٹھ نے لاھور سے ایک نئے فورمین کو بھرتی کیا تھا، لیکن اس آدمی کا رویہ میرے ساتھ شروع دن سے اہانت آمیز اور معاندانہ تھا۔ حالانکہ ہم دونوں کا ایک ہی شہر سے تعلق تھا لیکن بات بات پر میرے ساتھ مسئلہ کھڑا کرنا اس کا معمول بنتا جارہا تھا۔ ایک ساتھی ورکر کا کہنا تھا کہ یہ بندہ لاھور سے اپنے بھائی کو تمہاری جگہ پر لانا چاہتا ہے اور اسی لئے تمہیں تنگ کر رہا ہے، تاکہ تنگ آکر تم خود ہی استعفیٰ دے کر چلے جاؤ یا مالک روز روز کی شکایتوں کی بناء پر تمہیں نکال دے۔ بہرحال اصل بات جو کچھ بھی ہو، یہ حقیقت تھی کہ اس نے صرف میرے ساتھ یہ رویہ روا رکھا ہوا تھا، معمولی سی غلطی پر بات کا بتنگڑ بنا دینا، اور اچھا کام کرنے پر حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرنا موصوف کا وطیرہ تھا۔ اس نے ایک دو مرتبہ کسی دوسرے کاریگر کو میری مشین پر کھڑا کرکے مل کے رولرز کی مرمت کروائی اور مجھے کسی دوسرے کام پر لگادیا۔ لیکن وہ رولرز مِل میں لگانے کے چند منٹوں کے بعد ٹوٹ گئے۔ دو تین مرتبہ اس نے خود بھی خراد مشین پر انہیں ٹُول لگایا لیکن وہی نتیجہ نکلا۔ وجہ کا علم صرف مجھے تھا کیونکہ ایک خاص تکنیک کو استعمال کئےبغیر مشین پر ٹول لگانے سے رولرز میں وہ نقص باقی رہ جاتا تھا جس کے نتیجے میں وہ دباؤ پڑتے ہی ٹوٹ جاتے تھے۔ اس کا نظریہ تھا کہ میں کچھ گربڑ کرتا ہوں جبکہ میری سوچ تھی کہ اس کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں اور یہ مجھے نکلوانے کے چکر میں ہے تو میں کیوں اسے درست تکنیک سکھاؤں۔ آج بھی صبح یہی کچھ ہوا تو ہماری تلخ کلامی ہوگئی اور کافی تُو تکار ہوئی۔ سیٹھ کے سامنے میری شکایت بھی کی گئی اور سیٹھ نے ہم دونوں کی بات سن کر مجھے وارننگ دے دی کہ نئے فورمین کی عزت کیا کرو اور اس کی بات مانو۔
اسی تلخی اور گُھٹن کی کیفیت میں رات کو مرکزی بازار میں جانے کی بجائے ملحقہ بازار میں چلا گیا اور کھانا کھا کر جب چھپر ہوٹل سے نکلا تو انہیں ٹھنڈے میٹھے بابا جی پر نظر پڑی۔ حسبِ معمول انہوں نے مسکراہٹ پھینکی اور میں نے سر کو خم کرکے سلام کیا۔ میرے جی میں نجانے کیا آئی کہ واپس بابا جی کے پاس پلٹا اور پہلی مرتبہ ان سے ہم کلام ہوتے ہوئے پوچھا
کھانا کھائیں گے؟
ہاں کھائیں گے !!!
چنانچہ ہم دونوں اسی کھوکھے میں داخل ہوئے اور میں نے ان کے لئے کھانا منگوالیا۔
بابا جی خاموشی سے کھانا کھاتے رہے ۔کھانے کے دوران ایک عجیب بات مین نے یہ نوٹ کی کہ وہ ساری انگلیون سے لقمہ بنا کر زور سے پلیٹ میں اسے دباتے اور اس کے ساتھ ہی اپنے پاؤں کے پنجے سے زمین کو مسلتے پھر زور سے زمین کو دباتے اور آہستہ سے"ھُوں" کہتے اور وقفے وقفے کے بعد مجھے بھی غور سے دیکھتے۔ میں ان کی اس عجیب ادا کو ان کی عادت سمجھ کر اپنی سوچوں میں ہی غلطاں و پیچاں رہا اور اپنی پریشانی کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ جب کسی کی زیادتی کے نتیجے میں غصہ دل کے اندر ہی رہ جائے تو مجھ سے زیادہ دیر سنبھالا نہیں جاتا اور جب تک وہ غصہ تحلیل نہ ہوجائے دل کی گھٹن کو باہر نکلنے کا موقع نہیں ملتا تو میرا یہی حال ہوتا ہے، کسی بات میں جی نہیں لگتا۔ جی میں آئی کہ بابا جی سے بات کروں، دعا کے لئے کہوں لیکن فطری جھجھک آڑے آتی رہی۔ میری انا نے اس سے پہلے کبھی کسی کے آگے یوں ہاتھ نہیں پھیلائے تھے۔ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ اس دوران انہوں نے کھانا ختم کرلیا۔ میں نے کچھ اور وقت لینے کے لئے دوبارہ پوچھا
چائے پئیں گے؟
ہاں پئیں گے !!!
چنانچہ چائے بھی منگوالی گئی اور میں از سرِ نو مناسب الفاظ سے اظہارِ مدعا کرنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنا شروع ہوگیا۔ اس دوران چائے بھی ختم ہوگئی۔
سگریٹ پئیں گے؟
ہاں پئیں گے !!!
میں اس زمانےمیں وُڈبائن کے سگریٹ پیتا تھا۔ ڈبیا نکال کر ان کے آگے رکھی انہوں نے سگریٹ سلگالیا اور میں اپنی سلگن میں مصروف ہوگیا۔ جب سگریٹ بھی ختم ہوگئی میں بادلِ ناخواستہ اٹھ کھڑا ہوا اور جب انہوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو بغیر سوچے سمجھے میرے منہ سے نکلا
میرا کام ہوجائے گا؟
وہ تو ہوچکا ہے !!!!!
میں بڑی عجلت میں سلام کرکے واپس مِل کی طرف چلا آیا اور سارے رستے ذہن میں یہی الفاظ گونجتے رہے۔۔۔وہ تو ہوچکا ہے !!!!!!
کوارٹر میں آتے ہی سوگیا۔ صبح ایک نامانوس سے شور کے ساتھ نیند کھلی۔ باہر نکل کے دیکھا تو کوارٹر سے کافی دور مِل کے شیڈ کے پاس سے گالم گلوچ کی آوازیں آرہی تھیں۔ خدا کی پناہ یہ تو سیٹھ کی آواز ہے۔ اتنی مغلّظات !!! آخر کس کی شامت آئی ہے۔ ضرور رات کوئی بڑا نقصان کیا ہے کسی نے۔ آگے جاکر دیکھا تو نیا فورمین سرجھکائے کھڑا تھا اور سیٹھ کے مغلظات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
بھیج دو سالے کو واپس لاھور ، جدھر سے آیا ہے۔ نہیں چاہئیے ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔آدمی۔
میں سُن ہوکر رہ گیا۔ فورمین سے ہمدردی بھی محسوس ہوئی۔ خدا کسی کو پردیس میں ایسی صورتِ حال سے دوچار نہ کرے۔ آخر تھا تو میرے ہی شہر کا۔ لیکن دور کہیں دل کی گہرائی میں لڈو بھی پھوٹ رہے تھے کہ چلو جان چھوٹی روز روز کی بک بک سے۔ اب سکون سے کام کریں گے۔ خس کم جہاں پاک۔
فورمین کو اسی دن حساب چکتا کرکے واپس بھیج دیا گیا۔
دن سکون سے گذرنے لگے لیکن ایک بات بہت عجیب ہوئی۔ وہ بابا جی مجھے دوبارہ کبھی نہ مل سکے۔ حالانکہ اسی بازار میں موجود ہوتے تھے، لیکن جب بھی کسی سے پوچھا کہ مستان بابا کدھر ہے؟ تو بتانے والا کسی نہ کسی دکان کی جانب اشارہ کرتا کہ اس دکان میں گئے ہیں، جب وہاں جاتا تو دکاندار سے معلوم ہوتا کہ بس دو منٹ پہلے نکل کے گئے ہیں دیکھ یہیں کہیں ہونگے۔۔۔۔
ایک دن دل میں خیال آیا کہ مرکزی بازار کے مستان بابا سے مل کر دیکھتا ہوں۔ حالانکہ پہلے میں اسے محض ایک پاگل ہی سمجھتا تھا لیکن ٹھنڈے میٹھے بابا کے حوالے سے ہونے والے تجربے کے بعدمیرا یہ خیال متزلزل ہوچکا تھا اور دل کہہ رہا تھا کہ شائد یہ بھی واقعی کوئی اصلی مستان بابا ہو۔ اگرچہ یہ بابا کسی شخص سے بات نہیں کرتا تھا اور لوگون کو اس سے وحشت محسوس ہوتی تھی لیکن مجھے پتہ چل چکا تھا کہ مستان کے ساتھ کس طرح رہ و رسم بڑھائی جاسکتی ہے۔ وہی ٹھنڈے میٹھے بابا والا طریقہ۔
چنانچہ بازار میں داخل ہوتے ہی مستان بابا تیز تیز قدموں سے ایک سمت جاتا نظر آگیا۔ میں نے رک کر ایک دکان سے گرم گرم چاول اور شوربہ گوشت ایک پیالے میں ڈلوائے اور تیز تیز قدموں سے باباکے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ مجھے معلوم تھا کہ بابا کا موڈ نہ ہو تو وہ نظر انداز کرکے چلتا رہتا ہے اور کھانا لانے والے شخص کو واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ اگر وہ شخص پھر بھی کھانا کھلانے کی ضد کرے تب بابا کے غصے کا نشانہ بنتا ہے۔ مین نے بھی یہی سوچ رکھا تھا کہ بس ایک مرتبہ کہوں گا دوبارہ نہین۔
لیکن پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ مستان بابا جو مجھ سے کافی قدم آگے تھا، اچانک رک گیا اور واپس میری طرف مڑا۔ اسے رکتے دیکھ کر میں نے بھی حوصلہ پایا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ اس کے پاس جاپہنچا۔ دل میں اپنی کامیابی پر پھر سے لڈو پھوٹ رہے تھے کہ پہلی مرتبہ یہ مستان بابا کسی اور سے کھانا قبول کرے گا۔ جونہی اس کے نزدیک پہنچا،بابا کا ہاتھ ایک زنّاٹے دار تھپڑ کی صورت میں اٹھا اور چاول سڑک پر بکھر گئے اور سٹیل کا پیالہ شائد کئی صدیوں تک سڑک کے وسط میں اپنے پیندے پر لڑکھڑاتا رہا اور اس کے جھنجھنانے کی آواز بھی شائد پورے بازار میں دیر تک گونجتی رہی۔۔۔بابا مجھے بھی میری اوقات دکھا کر اور میرے اندر کا کھوٹ سرِ بازار مٹی میں ملا کر جاچکا تھا۔ میں نے سٹیل کا پیالہ، کشکول کی صورت اٹھایا اور کسی بھکاری کی طرح واپس چلا آیا !!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔محمود احمد غزنوی٭۔16 ستمبر 2015۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
وعلیکم السلام۔۔۔۔سر جی یہ ایک شخص کی زندگی کا واقعہ ہے، جسے میں نے قلمبند کیا ہے۔ کہانی کا اختتام حقیقت میں ایسا نہیں ہوا تھا، لیکن میں نےکہانی کے آخر میں یہ رنگ دے دیا ہے۔۔۔۔۔اب آپ اسے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
 

محمدظہیر

محفلین
آسان فہم انداز میں اچھا لکھا ہے
کیا لوگوں کو بابوں پر یقین دلانے کے لیے آپ نے اس واقعہ کو لکھا ہے؟
 

آوازِ دوست

محفلین
اور ہم جیسے لوگ جو بابوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ہماری آپ کُچھ رہنمائی کر سکتے ہیں۔ بابے ہمیں ممکنہ طور پر شارٹ کٹ مہیا کرتے ہیں اور زندگی بہت ہی بے بھروسہ سی چیز ہے تو کیا ہرج ہے اِس تجربے میں :)
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ اک خوبصورت تحریر
جو قاری کو کچھ پل خود میں اترتے اپنے باطن میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے ۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر ۔۔
 
Top