مستقبل کس کا؟

arifkarim

معطل
مستقبل کس کا؟
11 جنوری 2016 | 10:45 صبح

سولہویں صدی میں یورپ میں آنے والے سائنسی انقلاب نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس سے پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ بیماریاں، وبائیں، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات کسی اوپر والے کی ناراضگی کے سبب نازل ہوتی ہیں۔ لیکن اس انقلاب کے بعد انہیں علم ہو گیا کہ ان آفات کی وجوہات خالصتاً مادی ہیں اور یہ کہ ہم عقل و خرد اور مشاہدے و تجربے سے یہ تمام وجوہات جان سکتے ہیں۔

اس سائنسی انقلاب کے بغیر ہماری زندگی میں جدت ممکن ہی نہ تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی انقلاب یورپ میں ہی کیوں برپا ہوا۔ چین، ہند یا عرب میں ایسا انقلاب کیوں نہ آ سکا؟

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یورپ میں بڑے بڑے سائنس دان پیدا ہوئے تھے۔ ان میں اٹلی کا گلیلیو اور برطانوی سائنس دان آئزک نیوٹن نمایاں ہیں۔ ان لوگوں نے حرکت کے قوانین دریافت کیے اور بتایا کہ سیارے اپنے محور کے گرد کیوں گھومتے ہیں۔ اسی طرح فرانس کے لیوازے نے آکسیجن دریافت کی اور یہ بھی معلوم کیا کہ چیزیں کیوں جلتی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑے سائنس دانوں کی بدولت ہی یورپ کو سائنسی میدان میں سبقت حاصل ہوئی۔

اگر دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب میں بھی بہت بڑے سائنس دان پیدا ہوئے ہیں۔ نوویں سے تیرھویں صدی تک صرف مسلمان ہی سائنس میں آگے تھے۔ جابر بن حیان نے کیمیا کے میدان میں کئی کمالات دکھائے۔ کئی سو سال کے بعد ڈالٹن نے اسی کے کام سے استفادہ کیا۔ اسی طرح ابن الہیشم کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جس کی معرکتہ الاآرا کتاب 'المناظر' صدیوں تک پڑھی گئی۔ ان سینا کی کتاب 'قانون الطب'طبی موضوعات پر کلیدی حیثٰیت رکھتی ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی سائنسی میدان میں بڑے بڑے کمالات دکھائے تھے۔ ہندوؤں کی مثال لیجیے۔ سائنس خصوصاً ریاضی کے شعبے میں آریا بھاٹا کی مثال نمایاں ہے جس نے سب سے پہلے sine اور cosineکے جدول بنائے تھے۔ اس نے ایسی ریاضیاتی مساوات حل کیں جو بعد ازاں سائنسی انقلاب کے وقت کام آئیں۔ اسی طرح بھاسکرا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جس نے ابتدائی قسم کا حساب وضع کیا تھا۔

اگر ہم چین کی قدیم تہذیب پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہاں بھی بڑے بڑے سائنسی کارنامے دکھائی دیتے ہیں۔ سائنسی میدان میں بہت سے اہم کام سب سے پہلے چین میں ہوئے۔ مثال کے طور پر کاغذ بنانے کا فن چین سے شروع ہوا۔ قطب نما بھی چینیوں کی ایجاد ہے۔ بارود سب سے پہلے چین میں بنا جبکہ وہاں لوہا بھی بڑی مقدار میں نکالا اور ڈھالا جاتا تھا۔

مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان تمام سائنسی کمالات کے باوجود سائنسی انقلاب چین، ہند یا عرب کے بجائے یورپ میں برپا ہوا۔ میں اسے عجیب بات اس لیے سمجھتا ہوں کہ پانچویں سے پندرھویں صدی تک یورپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کلیسا نے چہار جانب پہرے بٹھائے ہوئے تھے۔ جو اس سے اختلاف کرتا اسے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی بات نہ مانتا تو اسے اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ان گنت عورتوں کو چڑیل قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ یہ ایسا دور تھا جب عقل و خرد کی باتیں سختی سے دبا دی جاتی تھیں۔ گھٹن کی ایسی فضا میں سائنس اور علم کی بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر یورپ میں خرد افروزی اور روشن خیالی کا دور کیسے آیا؟

یورپ میں تمام تر جہالت کے باوجود سائنس کو پنپنے کا موقع کیونکر ملا؟

میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ کہ پندرھویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سائنس، عقل و خرد، تجربے اور مشاہدے کی بنا پر دنیا اور کائنات کے تمام مظاہر کو سمجھا جا سکتا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں جو انسانی سوچ سے ماورا ہو۔ یہ خیال پروان چڑھانے میں اس زمانے کے مفکرین نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

مثال کے طور پر فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ نے قرار دیا کہ کسی بھی مسئلے یا مادی نطام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کو الگ طور سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آپ پورے مسئلے کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے انسانی جسم کی مثال سے یہ بات بخوبی واضح ہو سکتی ہے۔ ہمارا دل ایک پمپ ہے جو جسم کے ہر حصے میں خون بھیجتا ہے۔ اسی طرح جگر خون کو صاف کرتا ہے۔ یہ ایک ہی مشین کے مختلف پرزے ہیں۔

یورپ میں سائنسی انقلاب برپا ہونے کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ سائنس اور کلیسا کے مابین جاری صدیوں پرانی جنگ میں کلیسا کو شکست ہو گئی۔ یہ جنگ سائنس نے جیت لی تھی جس کے نتیجے میں اسے کلیسا کی گرفت سے آزاد ہو کر تیزی سے آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ اس سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہ کیا جائے کہ تمام سائنس دان مذہب سے جدا ہو گئے تھے۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ آئزک نیوٹن کٹر عیسائی تھا۔ ڈیکارٹ بھی خدا پر یقین رکھتا تھا۔ لیکن بڑا فرق یہ تھا کہ اب قدرتی مظاہر کی توجیہات مذہب کے بجائے سائنس میں تلاش کی جانے لگی تھیں۔ مثال کے طور پر جب آسمان میں شہاب ثاقب دکھائی دینے لگے تو اسے بدشگونی یا خدا کی ناراضگی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن نیوٹن کے قوانین نے ہمیں یہ بتایا کہ شہاب ثاقب کشش ثقل کے باعث زمین کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ یورپ میں کہیں کہیں ایسی درس گاہیں یا یونیورسٹیاں موجود تھیں جہاں آزادی فکر کو تحفظ حاصل تھا۔ اگرچہ سماج کے مختلف حصے کلیسا کے شدید دباؤ کے زیر اثر تھے مگر یہ درسگاہیں کسی طور اس اثر سے محفوظ رہیں جس کے نتیجے میں وہاں آزادانہ سائنسی تحقیق ممکن ہو پائی اور نئی سوچ نے جنم لیا۔

ہر تہذیب میں بڑے بڑے اذہان اور ذہین سائنس دان پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ یہ قدرت کی دین ہے۔ امریکی، افریقی، ایشیائی یا کسی اور خطے کے انسان کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں دیکھا جائے تو یورپ میں آنے والی فکری تبدیلی ایک اتفاق تھا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپ میں کلیسا اور فرسودہ روایات کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ سائنس، عقل اور منطق کی جیت ہوئی۔ سائنس کی ترقی کے لیے عقل و منطق کی جیت لازم ہے۔

آج دنیا بھر میں سائنس اور سائنسی سوچ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اگرچہ معقول سوچ کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ مستقبل عقل اور سائنس کا ہی ہے۔

لکھاری:
پرویز ہود بھائی عالمی اعزاز یافتہ جوہری سائنس دان ہیں۔ پاکستانی عوام کو سائنسی طریق کار سے متعارف کرانے اور ترقی کا شعور دینے میں ان کا اہم کردار ہے۔ ہود بھائی ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں طبعیات پڑھاتے ہیں
ماخذ

نایاب سید ذیشان محمد سعید زہیر عبّاس نور سعدیہ شیخ حمیرا عدنان صائمہ شاہ
 

نایاب

لائبریرین
بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی اک اچھی تحریر

آج دنیا بھر میں سائنس اور سائنسی سوچ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اگرچہ معقول سوچ کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ مستقبل عقل اور سائنس کا ہی ہے۔
اس سے اختلاف ممکن نہیں ۔
اور کیا معلوم کہ "القارعہ " میں بیان ہوئی " پہاڑوں کے روئی کے گالوں کی طرح بکھرنے " کیفیت میں اسی عقل اور سائنس کی انتہا کا ہاتھ ہو ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top