مستقل بے کلی سی رہتی ہے

مستقل بے کلی سی رہتی ہے
یاد کی شمع جلتی رہتی ہے

جسم پر اک سکوت طاری ہے
روح میں خامشی سی رہتی ہے

دل میں اکثر غبار رہتا ہے
آنکھ میں اک نمی سی رہتی ہے

خواب بھی اب کوئی نہیں آتا
نیند بھی روٹھی روٹھی رہتی ہے

کیسے کہہ دوں کہ اب بھی اس دل میں
وہی صورت بھلی سی رہتی ہے

آدمی کو سنوار دیتی ہے
جو تمنّا ادھوری رہتی ہے

تم کو محمود اب اُبھرنا ہے
رات بیتی ہے، صبح رہتی ہے
 
خواب بھی اب کوئی نہیں آتا
نیند بھی روٹھی روٹھی رہتی ہے

تم کو محمود اب اُبھرنا ہے
رات بیتی ہے، صبح رہتی ہے

واہ، بہت خوب جناب، شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے محمود۔ مطلع کے علاوہ دوسرے اولیٰ مصرعوں میں اختتام میں ’ہے‘ بدل دیں تو بہتر ہو۔ ردیف کا کچھ مشترک پہلے مصرع میں اچھا نہیں لگتا۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! ایک اور خوبصورت غزل۔ اللہ تعالیٰ آپ کی صلاحیتوں کو مزید نکھارتا چلا جائے۔ آمین!
 
Top