محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
مسدسِ بدحالی
محمد خلیل الرحمٰن
( آج کراچی کے حالات سے متاثر ہوکر)
کسی نے یہ سقراط سے آکے پوچھا
پیے گا تو زہراب کا کیسے پیالا
وہ مردِ قلندر اُٹھا اور بولا
پیوں گا مین حق کے لیے ہی یہ پیالا
مگر جو سیاست میں جائز یہ سمجھیں
مریں روز اور روز ہی جھوٹ بولیں
عجب آج ہے اپنی ملکی سیاست
یہ جاگیرداروں کے گھر کی سیاست
لٹیروں کی، چوروں کی گندی سیاست
یہ جھوٹی حکومت، یہ جھوٹی سیاست
انھی لیڈروں سے تو مایوس ہوں میں
انھی کی سیاست سے مانوس ہوں میں
یہی حال افراد کا، قوم کا ہے
ہر إک آدمی یاں کا بگڑا ہوا ہے
نہ کوئی ہے نیک اور کوئی پارسا ہے
کہ حرص و ہوس کا ہی بندہ ہوا ہے
نہیں جاگتے پر یہ لالچ کے بندے
کوئی اِن کے منہ آج سونے سے بھردے
زبان اور علاقے کا ہر بت جدا ہے
جدا قومیت میں کچھ ایسے بٹا ہے
تعصب سے اور عصبیت سے بھرا ہے
بنایا انھوں نے نیا اک خدا ہے
یہ ہیں قتل و غارت میں مصروف ایسے
درندے ہوں جنگل کے مالوف جیسے
گھٹا سر پہ ادبار کی چھائی اب تو
لٹیروں کی ، چوروں کی بن آئی اب تو
نحوست نے حالت یہ دکھلائی اب تو
کہ نظروں میں ذلت نظر آئی اب تو
نہ اپنوں کی، غیروں کی نظروں میں عزت
نہ بچوں میں اور نہ بزرگوں میں عزت
کہیں زر پرستی کی چرچے ہوئے ہیں
کہ آمد سے زیادہ تو خرچے ہوئے ہیں
کہیں لوگ پانی کو ترسے ہوئے ہیں
کہیں بے دخل اپنے گھر سے ہوئے ہیں
کہیں گیس ، بجلی و پانی پہ جھگڑا
کہیں دیدنی، آنی جانی پہ جھگڑا
ہوئے آج بدمست و بدحال ایسے
کہ بگڑی ہے بدلی ہوئی چال ایسے
ہوئیں عزتیں آج پامال ایسے
کہ شرمائے آج ان سے پاتال ایسے
کوئی ان کا پستی میں گرنا تو دیکھے
کہ پستی کا حد سے گزرنا تو دیکھے
ہوئی کیاوجہ ، کون سی یہ بلا ہے؟
کوئی اب دعا ہے، کوئی اب دوا ہے؟
علاج اور دنیا میں کوئی بچا ہے؟
کہ سچ کے سوا کوئی چارہ رہا ہے؟
مرے دوستو جھوٹ کو چھوڑ دیں اب
یہ ناطے پرانے سبھی توڑدیں اب
کوئی راستے میں ڈرائے نہ ہم کو
یہ راہِ طلب ہے ستائے نہ ہم کو
کہ حق سے کوئی اب ہٹائے نہ ہم کو
گناہوں کی لذت لُبھائے نہ ہم کو
‘‘ بس اگلے فسانے فراموش کردو
تعصب کے شعلے کو خاموش کردو’’