مسدسِ حالی

الف عین

لائبریرین
پہلا دیباچہ
١٢٩٤ ھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامد اً و مصلیاً
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دل زندہ تو نے ہم کو چھوڑا ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی
بچپن کا زمانہ جو کہ حقیقت میں دنیا کی باشاہت کا زمانہ ہے ایک ایسے دلچسپ اور پر فضا میدان میں گزارا جو کلفت کے گردوغبار سے بالکل پاک تھا ۔ نہ وہاں ریت کے ٹیلے تھے ، نہ کاردار جھاڑیا تھیں ، نہ آندھیوں کے طوفان تھے ، نہ باد سموم کی لپٹ تھی۔
جب اس میدان سے کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو ایک اور صحرا اس سے بھی زیادہ دلفریب نظر آیا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں ولولے اور لاکھوں امنگیں خود بخود دل میں پیدا ہوگئیں ۔ مگر یہ صحرا جس قدر نشاط انگیز تھا ۔ اس کی سر سبز جھاڑیوں میں ہولناک درندے چھپے ہوئے تھے اور اس کے خوشنما پودوں پر سانپ اور بچھو لپٹے ہوئے تھے۔ جونہی اس کی حد میں قدم رکھا ہر گوشہ سے شیر و پلنگ اور مارو کژ دم نکلے آئے ۔ باغ جوانی کی بہات اگر چہ قابل دید تھی مگر دنیا کی مکروہات سے دم لینے کی فرصت نہ ملی، نہ خود آرائی کا خیال آیا، نہ عشق و جوانی کی ہوا لگی ، نہ وصل کی لذت اٹھائی ، نہ فراق کا مزا چکھا۔
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیانے کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا ۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشت جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کردیا۔ کبھی نالئہ نیم شب سے ربع مسکوں کو بلا ڈالا۔ کبھی چشم دریا بار سے تمام عالم کو ڈبو دیا۔ آہ دفغاں کے شور سے کرو بیوں کے کان بہرے ہو گئے۔شکایتوں کی بوچھا ڑ سے زمانہ چیخ اٹھا ۔ طعنوں کی بھر مار سے آسمان چھلنی ہوگیا۔ جب رشک کا تلاطم ہوا تو ساری خدائی کو رقیب سمجھا ۔ یہاں تک کہ آپ اپنے سے بد گمان ہوگئے ۔ جب شوق کا دریا امنڈا تو کشش دل سے جذب مقناطیسی اور قوت کہر بائی کا کام لیا ۔ بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے اور بارہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے۔ گویا زندگی ایک پیرا ہن تھا کہ جب چاہا اتاردیا اور جب چاہا پہن لیا۔ میدان قیامت میں اکثر گزرا ہوا۔ بہثت و دوزخ کی اکثر سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھادئیے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کبھی خانئہ خمار کی چوکھٹ پر جبہہ سائی کی ۔ کبھی مے فروش کے در پر گدائی کی۔ کفر سے مانوس رہے ایمان سے بیزار رہے۔ پیر مغاں کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ برہمنوں کے چیلے بنے۔ بت پوجے ۔ سنار باندھا۔ قشقہ لگایا ۔ زاہدوں پر پھبتیاں کہیں۔ واعظوں کا خاکہ اڑایا ۔ دیر اور بت خانہ کی تعظیم کی۔ کعبہ اور مسجد کی توہین کی ۔ خدا سے شوخیاں کیں ۔ نبیوں سے گستاخیاں کیں۔ اعجاز مسیحی کو ایک کھیل جانا۔ حسن یوسفی کو ایک تماشا سمجھا ۔ غزل کہی تو پاک شہدوں کی بولیاں بولیں ۔ قصیدہ لکھا تو بھاٹ اور بادخوانوں کے منہ پھیر دیئے ۔ ہر مشت خاک میں اکسیر اعظم کے خواص بتلائے ، ہر چوب خشک میں عصائے موسوی کے کرشمے دکھائے۔ ہر نمرود وقت کو ابراہیم خلیل سے جا ملایا۔ ہر فرعون بے سامان کو قادر مطلق سے جا بھڑایا۔ جس کے مداح بنے اسے ایسا بانس پر چڑھایا کہ خود ممدوح کو اپنی تعریف میں کچھ مزانہ آیا ۔ غرض نامئہ اعمال ایسا سیاہ کیا کہ کہیں سفید باقی نہ چھوڑی۔
چو پرسش گنہم روز حشر خواہد بود تمسکات گناہان خلق پارہ کنند
بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اسی ایک چکر میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک ساراجہاں طے کرچکے ۔ جب آنکھیں کھیلیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں۔
شکست رنگ شباب و ہنوز رعنائی درآں دیار کہ زاوی ہنوز آنجائی
نگاہ اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں آگے پیچھے ایک میدان وسیع نظر آیا جس میں بے شمار راہیں چاروں طرف کھلی ہوئی تھیں اور خیال کے لیے کہیں عرصہ تنگ نہ تھا۔ جی میں آیا کہ قدم آگے بڑھائیں اور اس میدان کی سیر کریں مگر جو قدم بیس برس تک ایک چال سے دوسری چال نہ چلے ہوں اور جن کی دوڑ گز دو گز زمین میں محدود رہی ہو ان سے اس وسیع میدان میں کام لینا آسان نہ تھا۔ اس کے سوا بیس برس کی بیکار اور نکمی گردش میں ہاتھ پاؤں چور ہوگئے تھے اور طاقت رفتار جواب دے چکی تھی ۔ لیکن پاؤں میں چکر تھا اس لیے نچلا بیٹھنا بھی دشوار تھا ۔ چند روز اسی تردو میں کامرد ہے ایک دشوار گزار رستے میں رہ نور دہے ۔ بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے تھے تھک کر پیچھے رہ گئے ہیں ۔ بہت سے ابھی اس کے ساتھ افتاں و خیزاں چلے جاتے ہیں ۔ مگر ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں ۔ پیروں میں چھالے پڑے ہیں ۔ دم چڑھ رہا ہے ۔ چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ لیکن وہ اولو العزم آدمی جوان سب کا رہنما ہے ۔ اسی طرح تازہ دم ہے ۔ نہ اسے رستے کی تکان ہے نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے کی پروا ہے ۔نہ منزل کی دوری سے کچھ ہر اس ہے۔ اس کی چتون میں غضب کا جادو بھرا ہے کہ جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ آنکھیں بند کرکے اسی کے ساتھ ہولیتا ہے اس کی ایک نگاہ ادھر بھی پڑی اور اپنا کام کرگئی۔ بیس برس کے تھکے ہارے خستہ و کوفتہ اسی دشوار گزار رستہ پر پڑلیے ۔ نہ یہ خبر ہے کہان جاتے ہیں نہ یہ معلوم ہے کہ کیوں جاتے ہیں ۔ نہ طلب صادق ہے نہ قدم راسخ ہے نہ عزم ہے نہ استقلال نہ صدق ہے نہ اخلاص ہے مگر ایک زبردست ہاتھ ہے کہ کھینچے لیے چلا جاتا ہے۔
آں دل کہ رم نمودے از خو بروں جواناں دیرینہ سال پیرے بردس بیک نگا ہے
زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا ۔ نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا ۔ مگر یہ ایک ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراقش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے بخارات درونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا ، دل و دماح میں تلاطم کررہے تھے ۔ اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے ۔ قوم کے ایک سچے خیر خواہ نے ( جو اپنی قوم کے سوا تمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور جس طرح خود اپنے پرزور ہاتھ اور قوی بازو سے بھائیوں کی کدمت کررہا ہے ۔ اسی طرح ہراپا ہج اور نکمے کو اسی کام میں لگانا چاہتا ہے ) آکر ملامت کی اور غیرت دلائی کہ حوان ناطق ہونے کا دعویٰ کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے ۔
روچو انسان لب بجبنباں در دہن در جمادی لاف انسانی مزن
قوم کی حالت تباہ ہے ۔ عزیز ذلیل ہو گئے ہیں ۔ شریف خاک میں مل گئے ہیں ۔ علم کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ دین کا صرف نام باقی ہے ۔ افلاس کی گھر گھر پکار ہے ۔ پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے ۔ اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے جاتے ہیں ۔ تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے ۔ رسم و رواج کی بیٹی ایک ایک کے پاؤں پہنچاسکتے ہیں غافل اور بے پروا ہیں ۔ علماء جن کو قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں ۔ ایسے میں جس سے جو کچھ بن آئے تو بہت ہے ورنہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں اور ساری ناؤ کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے ۔ ہر چند لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں ۔ مگر نظم جو کہ بالطبع سب کو مرغوب ہے اور خاص کو عربس کا ترکہ اور مسلمانوں کا موروثی حصۃ ہے قوم کے بیدار کرنے کے لیے اب تک کسی نے نہیں لکھی ۔ اگر چہ ظاہر ہے کہ اور تدبیروں سے کیا ہوا جو اس تدبیر سے ہوگا ۔ مگر ایسی تنگ حالتوں میں انسان کے دل پر ہمیشہ دو طرح کے خیال گزرتے رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ دوسرے یہ کہ ہم کچھ کرنا چاہیے ۔ پہلے خیال کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ نہ ہوا ۔ اور دوسرے خیال سے دنیا میں بڑے عجائبات ظاہر ہوئے ۔
در فیض ست منشیں از کشائش ناامید ایں جا برنگ دانہ از ہر قفل می روید کلید ایں جا
" اور وہ ایسا خدا ہے کہ جب لوگ نا امید ہو جاتے ہیں تو مینہ برسات ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے "
ہر چند اس حکم کی بجا آواری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی ۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جاکر ٹھہری ۔برسون کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہوا۔ اور باسی کڑھی میں ایک ابال آیا ۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواتر حملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے کام لینا شروع کیا اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے مکروہات سے فرصت بہت کم ملی ۔ اور بیمار یوں کے ہجوم سے اطمینان کبھی نصیب نہ ہوا مگر ہر حال میں یہ دھن لگی رہی۔ بارے الحمدللہ کہ بہت سے وقتوں کے بعد ایک ٹوٹی پھو ٹی نظم اس عاجز بندہ کی بساط کے موافق تیار ہوگئی ۔ اور ناصح مشفق سے شرمندہ نہ ہونا پڑا ۔ صرف ایک امید کے سہارے پر یہ راہ دور دراز طے کی گئی ہے ۔ ورنہ منزل کا نشان نہ اب تک ملا ہے اور نہ آئندہ ملنے کی توقع ہے ۔
خبر نیست کہ منزل گہ مقصود کجاست ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے مے آید
اس مسدس کے آغاز میں پان سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کوکب اسلام کا طلوع ہونا اور نبی امی کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتاً سر سز و شاداب ہوجانا اور اس ابر رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہر ابھرا چھو ڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد ان کے تنزل کا حال کھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوںسے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آکر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے ۔ اگر چہ اس جانکاہ نظم میں جس کی دشواریاں لکھنے والے کا دل اور دماغ ہی خوب جانتا ہے بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہووا ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ مگر شکر ہے کہ جس قدر رہو گیا اتنی بھی امید نہ تھی ۔ ہمارے ملک کے اہل مذاق ظاہراً اس روکھی پھیکی سیدھی سادی نظم کو پسند نہ کریں گے ۔ کیونکہ اس میں تاریخی واقعات ہیں چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا جو آج کل قوم کیک حالت ہے ، اس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ نہ کہیں نازک خیالی ہے ، نہ رنگیں بیانی ، نہ مبالغہ کی چاٹ ہے ، نہ تکلف کی چاشنی ہے ، غرض کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے اہل وطن کے کان مانوس اور مذاق آشنا ہوں اور کوئی کرشمہ ایسا نہیں ہے کہ لاعین زات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر (نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں گزارا) گویا اہل دہلی و لکھنؤ کی دعوت میں ایک ایسا دستر خوان چنا گیا ہے جس میں ابالی کھچڑی اور بے مرچ سالن کے سوا کچھ نہیں مگر اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور وہ واہ سننے کیلیے نہیں کی گئی ۔ بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لیے کی گئی ہے ۔ اگر دیکھیں اورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ کچھ شکایات نہیں ۔
حافظ وظیفئہ تو دعا گفتن است و بس
در بند آں مباش کہ تشنید یا شنید
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا دیباچہ
متعلق بہ ضمیمہ
١٣٠٣ ھ



حدیث درد دلآویز داستانے ہست
کہ ذوق بیش دہ چوں دراز تر گردو
مسدس مدو جز را سلام اول ہی اول ١٢٩٤ ھ میں چھپ کر شائع ہوا تھا ۔ اگر چہ اس نظم کی اشاعت سے شاید کوئی معتدبہ فائدہ سوسائٹی کو نہیں پہنچا ۔ مگر چھ برس میں جس قدر قبولیت و شہر ت اس نظم کو اطراف ہندوستان میں ہوئی وہ فی الواقع تعجب انگیز ہے ۔ نظم بالکل غیر مانوس تھی اور مضمون اکثر طعن و ملامت پر مشتمل تھے ۔ قوم کی برائیاں چن چن کر ظاہر کی گئی تھیں اور زبان سے تیغ و سناں کا کام لیا گیا تھا۔ ناظم کی نسبت قوم کے اکثر ابرار واخیاء مذہبی سو ء ظن رکھتے تھے۔ تعصب عموماً کلمہ حق سننے سے مانع تھا۔ با ایں ہمہ اس تھوڑی سی مدت میں یہنظم ملک کے اطراف و جوانب میں پھیل گئی ۔ ہندوستان کے مختلف اضلاع میںاس کے ساتھ آٹھ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہو چکے ہیں ۔ بعض قومی مدرسوں میں اس کا انتخاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔ مولود شریف کی مجلسوں میں جابجا اس کے بند پڑھے جاتے ہیں ۔ اکثر لوگ اس کو پڑھ کر بے اختیار روتے اور آنسو بہاتے ہیں ۔ اس کے بہت سے بند ہمارے واعظوں کی زبان پر جاری ہیں ۔ کہیں کہیں قومی ناٹک میں اس کے مضامین ایکٹ کیے جاتے ہیں ۔ بہت سے مسدس اسی کی روش پر اسی بحر میں ترتیب دیئے گئے ہیں ۔ اکثر اخباروں میں موافق و مخالف ریویواس پر لکھے گئے ہیں۔ شمال مغربی اضلاع کے سرکاری مدارس میں عام قبولیت کی وجہ سے اس کو تعلیم میں دخل کردیا گیا ہے ۔ یہ او ر اسی قسم کی اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ قوم کے دل میں متاثر ہونے کا مادہ نہ ہوتا تو یہ اور ایسی ایسی ہزار نظمیں بے کار تھیں ۔ پس مصنف کو اگر فخر ہے تو صرف اس بات پت ہے کہ اس نے زمین گردانا ہے جو بے راہ ہے پر گمراہ نہیں ہے وہ رستے سے بھٹکے ہوئے میں مگر رستے کی تلاش میں چپ دراست نگراں ہیں ۔ اس کے ہنر مفقو د ہوگئے ہیں مگر قابلیت موجود ہے ۔ ان کی صورت بدل گئی ہے ۔ مگر ہیولیٰ باقی ہے ۔ ان کے قویٰ مضمحل ہو گئے ۔ مگر زائل نہیں ہوئے ۔ ان کے جوہر مٹ گئے ہیں مگر جلا سے پھر نمو دار ہوسکتے ہیں ۔ ان کے عیبوں میں خوبیاں بھی ہیں مگر چھپی ہوئی ۔ ان کے خاکستر میں چنگاریاں بھی ہیں مگر دبی ہوئی ۔
یہ نظم جس میں قوم کی گزشتہ اور موجودہ حالت کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا مد نظر تھا اگرچہ مشرق کی عام نظموں کی نسبت مبالغہ سے خالی تھی ۔ لیکن فرو گذاشت سے خالی نہ تھی ۔ دوست کی نگاہ نکتہ چینی اور خوردہ گیری میں وہی کام کرتی ہے جو دشمن کی نگاہ کر تی ہے ۔ دونوں یکساں عیبوں پر خوردہ گیری اور چشم پوشی کرتے ہیں ۔ مگر دشمن اس غرض سے کہ عیب ظاہر ہوں اور خوبیاں مخفی رہیں ۔ اور دوست اس خوف سے کہ مبادا خوبیوں کا غرور عیبوں کی اصلاح سے باز رکھے ۔ مصنف بھی جو کہ دوستی کا دم بھرتا ہے شاید محبت اور دلسوزی ہی سے قوم کی عیب جوئی پر مجبور ہوا اور ہنر گستری سے معذور رہا ۔ مگر بھڑک بھڑک کر بجھ گئی تھی ۔ اور اس کی افسردگی الفاظ میں سرایت کر گئی تھی۔ نظم کا خاتمہ ایسے دل شکن اشعار پر ہوا جن سے تمام امیدیں منقطع ہوگئیں اور تمام کوشش رائیگاں نظر آنے لگیں ۔ شاید اس خرابی کا تدراک کچھ نہ ہوسکتا اگر قوم کی توجہ مصنف کے دل میں یاک نئی تحریک پیدا نہ کرتی اور قوم کو ایک نئے خطاب کا مستحق نہ ٹھراتی ۔ گو قوم نہیں بدلی مگر اس کے تیور بدلتے جاتے ہیں ۔ پس اگر تحسین کا وقت نہیں آیا تو نفرین ضرور کم ہونی چاہیے ۔ بعض احباب کی تحریک نے ان خیالات کی تائید کی اور ایک ضمیمہ مقتضائے حال کے موافق اصل مسدس کے آخر میں لاحق کیا گیا ۔ ضمیمہ کو طول دینا مصنف کا مقصود نہ تھا لیکن اس مضمون کو چھیڑ کر طول سے بچنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے سمندر میں کود کر ہاتھ پاؤں نہ مارنا۔
قدیم مسدس میں جستہ جستہ تصرف کیا گیا ہے ۔ شاید بعض تصرفات کو ناظرین اس وجہ سے کہ قدیم اسلوب مانوس ہو گیا تھا پسندنہ کریں ۔ مگر مصنف کا فرض تھا کہ دوستوں کی ضیافت میں کوئی ایسی چیز پیش نہ کرے جو خود اس کے مذاق میں ناگوار معلوم ہو ۔ نظم نہ پہلے پسند کے قابل تھی اور نہ اب ہے۔ مگر الحمد اللہ کہ درد اور سچ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے امید ہے کہ درد پھیلے گا اور سچ چمکے گا :
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
 

الف عین

لائبریرین
رباعی

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
 

الف عین

لائبریرین
کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا " دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں
تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں
یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس وہں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ"
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ برحق کو بدنام انھوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا
وہ خط جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ
گراں کردیا اس کا عالم سے پلہ
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغلیاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویہ
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ببل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانوان کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جواڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
2
بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرار
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
بہ بکر اور تغلب کی باہم لڑ ائی
صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی
قبیلوں کی گردی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہپ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیش تھا غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی
بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بوقبیں ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت
یہ چالیسیویں سال لطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے
 

الف عین

لائبریرین
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد انیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کلا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اٹھ کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسکئہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن مین اس کی کایا
رہا ڈرنہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی
طبیعت میں جو اس کے جو ہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی
پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں
وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر
یہ فرمایا سب سے کہ " اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟"
کہا سب نے " قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا"
کہا" گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کروگے اگر میں کہوں گا؟
کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پاکر"
کہا" تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے"
کہا" گر مری بات یہ دل نشیں ہے
تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے
کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے
3سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر
کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں
اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک
نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبداء و منتہا سے
لگائی تھی ایک اک نے لوماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لایق
زبان اور دل کی شہادت کے لایق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لایق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لایق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرد گر مرد تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھے سے کم تم
کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
اسی طرح دل ان کا ایک اک سے توڑا
ہر اک قبلئہ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسویٰ کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھا گے
دئیے سر جھکا ان کے مالک کے آگے
پتا اصل مقصود کا پاگیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آگیا جب
محبت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ تو حید کا چھا گیا جب
سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدن کے سب باب ان کو
جتائی انھیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزندو زن اس مں یا مال و دولت
نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمہارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا یا سدا جن میں جرچا
انہی کے لیے یان ہے نعمت خدا کی
انہی پر ہے واں جاکے رحمت خدا کی"
سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت
کہا " ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت
شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں
وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر۔
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر
کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر
وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ
کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ
بچایا برائی سے ان کو یہ کہہ کر
کہ طاعت سے ترکِ معاصی ہے بہتر
تو رع کا ہے ذات میں جن کی جوہر
نہ ہوں گے کبھی عابد ان کے برابر
کرو ذکر اہلِ ورع کا جہاں تم
نہ لو عابدوں کا کبھی نام واں تم
غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی
کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی
خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی
نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی
طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت
تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت
امیروں کو تنبیہ کی اس طرح پر
کہ ہیں تم میں جو اغنیا اور تو نگر
اگر اپنے طبقہ میں ہوں سب سے بہتر
بنی نوع کے ہوں مددگار و یاور
نہ کرتے ہوں بے مشورت کام ہر گز
اٹھاتے نہ ہوں بے دھڑک گام ہر گز
تو مردوں سے آسودہ تر ہے وہ طبقہ
زمانہ مبارک ملے جس کو ایسا
پہ جب اہلِ دولت ہوں اشرارِ دنیا
نہ ہو عیش میں جن کو اوروں کی پروا
نہیں اس زمانہ میں کچھ خیرو برکت
اقامت سے بہتر ہے اس وقت رحلت
دیے پھیر دل ان کے مکرو ریا سے
بھرا ان کے سینہ کو صدق و صفا سے
بچایا انہیں کذب سے، افترا سے
کیا سرخرو خلق سے اور خدا سے
رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو
بس اک شوب میں کردیا پاک ان کو
کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے
سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے
مفاد ان کو سوداگری کے سجھائے
اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے
نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا
بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا
ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب
کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب
مناقب سے بدلے گئے سب مثالب
ہوئے روح سے بہرہ وران کے قالب
جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر
ہوا جاکے آخر کو قایم سرے پر
جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت
ادا کر چکی فرض اپنا رسالت
رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت
نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت
تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی
کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی
 

الف عین

لائبریرین
سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور بنی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے
رہِ کفر و باطر سے بیزار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے
جہالت کی رشمیں مٹا دینے والے
کہانیت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شرتھا
خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی
نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت
نہ پوشش سے مقصود تھی زیب و زینت
امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت
فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت
لگایا تھا مالی نے اک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں
ہو گلہ کا جیسے نگہبان چوپاں
سمجھتے تھے ذی و مسلم کو یکساں
نہ تھا عبد و حر میں تقاوت نمایا
کنیز اور بانو تھی آپس میں ایسی
زمانہ میں ماں جائی بہنیں ہوں جیسی
5رہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گم، گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے، واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بہ بے وجہ نفرت
جھکا حق سے جو، جھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جو، رک گئے اس سے وہ بھی
ترقی کا جس دم خیال ان کو آیا
اک اندھیر تھا ربعِ مسکوں میں چھایا
ہر اک قوم پر تھا تنزل کا سایہ
بلندی سے تھا جس نے سب کو گرایا
وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے
دھند لکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے
نہ وہ دور دورہ تھا عبرانیوں کا
نہ یہ بخت و اقبال نصرانیوں کا
پراگندہ دفتر تھا یونانیوں کا
پریشاں تھا شیرازہ ساسانیوں کا
جہاز اہلِ روما کا تھا ڈگمگاتا
چراغ اہلِ ایراں کا تھا ٹمٹماتا
ادھر ہند میں ہر طرف تھا اندھیرا
کہ تھا گیان گن کا لدایاں سے ڈیرا
ادھر تھا عجم کو جہالت نے گھیرا
کہ دل سب نے کیش و کنش سے تھا پھیرا
نہ بھگوان و دھیان تھا گیانیوں میں
نہ یزداں پرستی تھی یزدانیوں میں
 

الف عین

لائبریرین
ہوا ہر طرف موجزن تھی بلا کی
گلوں پہ چھری چل رہی تھی جفا کی
عقوبت کی حد تھی نہ پرسش خطا کی
پڑی لٹ رہی تھی ودیعت خدا کی
زمیں پر تھا ابرِ ستم کا دڑیڑا
تباہی میں تھا نوع انساں کا بیڑا
وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں
درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں
جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں
بہت دور پہنچا تھا واںِ ظلم و طغیاں
بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے
وہ تھے بھیڑئیے آدمی خوار سارے
ہنر کا جہاں گرم بازار ہے اب
جہاں عقل و دانش کا بہورا ہے اب
جہاں ابرِ رحمت گہربار ہے اب
جہاں ہن برستا لگاتار ہے اب
تمدن کا پیدا نہ تھا واں نشاں تک
سمندر کی آئی نہ تھی موج واں تک
نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا
نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا
وہ صحرا انھیں قطع کرنا پڑا تھا
جہاں نقشِ پا تھا نہ شورِ درا تھا
جونہی کان میں حق کی آواز آئی
لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی
گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اٹھی
پڑی چارسو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی
جو ٹیکس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی
کیا امیوں نے جہاں میں اجالا
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناؤ کو جا سنبھالا
زمانہ میں پھیلائی توحید مطلق
لگی آنے گھر گھر سے آواز حق حق
ہوا غلغلہ نیکیوں کا بدوں میں
پڑی کھلبلی کفر کی سرحدوں میں
ہوئی آتش افسردہ آتشکدوں میں
لگی خاک سی اڑنے سب معبدوں میں
ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر
جمے ایک جا سارے دنگل بچھڑ کر
لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے
ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے
ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا
ارسطو کے مردہ فنوں کو جلایا
فلاطون کو زندہ پھر کر دکھایا
ہر اک شہر و قریہ کو یاناں بنایا
مزا علم و حکمت کا سب کو چکھایا
کیا برطرف پردہ چشمِ جہاں سے
جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے
ہر اک میکدے سے بھرا جاکے ساغر
ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہوکر
گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ" حکمت کو اک گم شدہ مال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو"
ہر اک علم کے فن کے جویا ہوئے وہ
ہر اک کام میں سب سے بالا ہوئے وہ
فلاحت میں بے مثل و یکتا ہوئے وہ
سیاحت میں مشہورِ دنیا ہوئے
ہر اک ملک میں ان کی پھیلی عمارت
ہر اک قوم نے ان سے سیکھی تجارت
کیا جاکے آباد ہر ملک ویراں
مہیا کیے سب کی راحت کے ساماں
خطرناک تھے جو پہاڑ اور بیاباں
انہیں کردیا رشکِ صحنِ گلستاں
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے
یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
سدا ان کو مرغوب سیرو سفر تھا
ہر اک بر اعظم میں ان کا گزر تھا
تمام ان کا چھانا ہوا بحرو بر تھا
جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا
وہ گنتے تھے یکساں وطن اور سفر کو
گھر اپنا سمجھتے تھے ہر دشت و در کو
 

الف عین

لائبریرین
جہاں کو ہے یاد ان کی رفتار اب تک
کہ نقشِ قدم ہیں نمودار اب تک
ملایا میں ہیں ان کے آربار اب تک
انہیں رو رہا ہے میلیبار اب تک
ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر
نشاں ان کے باقی ہیں جبرالٹر پر
نہیں اس طبق پر کوئی بر اعظم
نہ ہوں جس میں ان کی عمارت محکم
عرب، ہند، مصر، اندلس و شام، ویلم
بناؤں سے ہیں ان کی معمور عالم
سرِ کوہِ آدم سے تا کوہِ بیضا
جہاں جاؤ گے کھوج پاؤ گے ان کا
وہ سنگیں محل اور وہ ان کی صفائی
جمی جن کے کھنڈروں پہ ہے آج کائی
وہ مرقد کی گنبد تھے جن کے طلائی
وہ معبد جہاں جلوہ گر تھی خدائی
زمانہ نے گو ان کی برکت اٹھالی
نہیں کوئی ویرانہ پر ان سے خالی
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جاکر
یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آلِ عدنان سے میرے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
ہویدا ہے غرناطہ ہے شوکت ان کی
عیاں ہے بلنسیہ سے قدرت ان کی
بطلیوس کو یا دہے عظمت ان کی
ٹپکتی ہے قادس میں سر حسرت ان کی
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے
مساجد کے محراب و در جاکے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جاکے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جاکے دیکھے
جلالا ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
وہ بلدہ کہ فخرِ بلادِ جہاں تھا
ترو خشک پر جس کا سکہ روں تھا
گڑا جس میں عباسیوں کا نشاں تھا
عراقِ عرب جس سے رشکِ جناں تھا
اڑا لے گئی بادِ پندار جس کو
بہا لے گئی سیلِ تاتار جس کو
سنے گوشِ عبرت سے گرجا کے انساں
تو واں ذرہ ذرہ یہ کرتا ہے اعلاں
کہ تھا جن دنوں مہرِ اسلام تاباں
ہوا یاں کی تھی زندگی بخش دواں
پڑی خاک ایتھنز میں جاں یہیں سے
ہوا زندہ پھر نام یوناں یہیں سے
وہ لقمان و سقراط کے درمکنوں
وہ اسرارِ بقراط و درسِ فلاطوں
ارسطو کی تعلیم سولن کے قانوں
پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں
یہیں آکے مہرِ سکوت ان کی ٹوٹی
اسی باغِ رعنا سے بو ان کی پھوٹی
 

الف عین

لائبریرین
یہ تھا علم پر واں توجہ کا عالم
کہ ہو جیسے مجروح جو یائے مرہم
کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ تھی کم
بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر
چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر
وہ تارے جو تھے شرق میں لمعہ افگن
پہ تھا ان کی کرنوں سے تا غرب روشن
نوشتوں سے ہیں جن کے اب تک مزین
کتب خانئہ پیرس و روم و لندن
پڑا غلغلہ جن کا تھا کشوروں میں
وہ سوتے ہیں بغداد کے مقبروں میں
وہ سنجار کا اور کوفہ کا میداں
فراہم ہوئے جس میں مساحِ دوراں
کرہ کی مساحت کے پھیلائے ساماں
ہوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں
زمانہ وہاں آج تک نوح گر ہے
کہ عباسیوں کی سبھا وہ کدھر ہے
سمر قند سے اندلس تک سراسر
انھی کی رصدگاہیں تھیں جلوہ گستر
سوادِ مراغہ میں اور قاسیوں پر
زمیں سے صدا آرہی ہے برابر
کہ جن کی رصد کے یہ باقی نشاں ہیں
وہ اسلامیوں کے منجم کہاں ہیں
مورخ جو ہیں آج تحقیق والے
تفحص کے ہیں جن کے آئیں نرالے
جنہوں نے ہیں عالم کے دفتر کھنگالے
زمیں کے طبق سر بسر چھان ڈالے
عرب ہی نے دل ان کے جاکر ابھارے
عرب ہی سے وہ بھرنے سیکھے ترارے
اندھیرا تواریخ پر چھا رہا تھا
ستارہ روایت کا گہنا رہا تھا
درایت کے سورج پہ ابر آرہا تھا
شہادت کا میدان دھندلا رہا تھا
سرِ رہ چراغ اک عرب نے جلایا
اہر اک قافلہ کا نشاں جس سے پایا
گروہ ایک جو یا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوس
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو
اسی شوق میں طے کیا بحرو بر کو
سنا خازنِ علم دیں جس بشر کو
لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو کود مزا اس کا چکھ کر
6

کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جوآج جائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے سب ناسپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکاک جو برق آکے چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوس کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے
سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و ذم کا
بنہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا
نہ انداز تلقین و عظ و حکم کا
خزانہ تھا مدفوں زباں اور قلم کا
نواسنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے
زباں کھول دی سب کی نطقِ عرب نے
زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت
وہئی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت
نہ صرف ایک مشرق میں تھی ان کی شہرت
مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت
سلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا
وہ مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا
ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ
حکیم گرامی حسین ابن سینا
حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا
ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا
انھیں کے ہیں مشرق میں سب نام لیوا
انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا
غرض فن ہیں جو مائیہ دین و دولت
طبیعی ، الہی، ریاضی و حکمت
طب اور کیمیا، ہندہ اور ہئیبت
سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا
مگر اک جہاں ہے غزالخواں عرب کا
ہراکر گیا سب کو باروں عرب کا
سپیدو سیہ پر ہے احساس عرب کا
وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی
کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی
 

الف عین

لائبریرین
رہے جب تک ارکان اسلام برپا
چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا میل سے شہد صافی مصفآ
رہی کھوٹ سے سیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں
علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں
پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا
تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
وہ بگڑا نہیں دنیا میں جب تک
برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا
کہ آتی ہوواں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرومند دانا
کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ
کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ

وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں
بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں
بہت خشک اور بے طراوت مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و باران کے پودے
نظر آتے ہیں ہونہار ان کے پودے
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل
ہوئے دکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردو سے جو اور ہوتا ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے
وہ دینِ حجازی کا بیباک بیڑا
نشاں جس کا اقصاء عالم میں پہنچا
مزاحم ہوا کوئی خطرہ نہ جس کا
نہ عماں میں ٹھٹکا نہ قلزم میں جھجکا
کئے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آکر
اگر کان دھر کر سنیں اہلِ عبرت
تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت
زمیں روکھ بن پھول پھل ریت پر بت
یہ فریاد سب کر رہے ہیں بہ حسرت
کہ کل فخر تھا جن سے اہلِ جہاں کو
لگا ان سے عیب آج ہندوستاں کو
حکومت نے تم سے کیا گر کنارا
تو اس میں نہ تھا کچھ تمہارا اجارا
زمانہ کی گردش سے ہے کس کو چارا
کبھی یاں سکندر کبھی یاں ہے دارا
نہیں بادشاہی کچھ آخر خدائی
جو ہے آج اپنی تو کل ہے پرائی
 

الف عین

لائبریرین
ہوئی متقفی جب کہ حکمت خدا کی
کہ تعلیم جاری ہو خیرالوریٰ کی
پڑے دھوم عالم میں دینِ ہدیٰ کی
تو عالم کی تم کو حکومت عطا کی
کہ پھیلاؤ دنیا میں حکمِ شریعت
کرو ختم بندوں پہ مالک کی حجت
ادا کرچکی جب حق اپنا حکومت
رہی اب نہ اسلام کو اس کی حاجت
مگر حیف اے فخرِ آدم کی امت
ہوئی آدمیت بھی ساتھ اس کے رخصت
حکومت تھی گویا کہ اک جھول تم پر
کہ اڑتے ہی اس کے نکل آئے جوہر
زمانہ میں ہیں ایسی قومیں بہت سی
نہیں جس میں تخصیص فرماندہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی
کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پستی
چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں
وہ ملت کہ گردوں پہ جس کا قدم تھا
ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علم تھا
ہو فرقہ جو آفاق میں محترم تھا
وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں
کہ گنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگر ہماری رگوں میں لہو میں
ہمارے ارادو میں اور جستجو میں
دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں
طبعیت میں فطرت میں عادت میں خومیں
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وچن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت
نہ اپنوں سے الفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سستی، دماغوں میں نخوت
خیالوں میں پستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں، دوستی آشکارا
غرض کہ تواضع، غرض کی مدارا
نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ علموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم
نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نے رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصۃ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے
سیاحت کی گوں ہیں نہ مردِ سفر ہیں
خدا کی خدائی سے ہم بے خبر ہیں
یہ دیواریں گھر کی و پیشِ نظر ہیں
یہی اپنے نزدیک حدِ بشر ہیں
ہیں تالاب میں مچھلیاں کچھ فراہم
وہی ان کی دنیا وہی ان کا عالم
بہشت اور ارم اسلسبیل اور کوثر
پہاڑ اور جنگل جزیرے سمندر
اسی طرح کے اور بھی نام اکثر
کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں برابر
یہ جب تک نہ دیکھں کہیں کس یقیں پر
کہ یہ آسماں پر ہیں یا ہیں زمیں پر
وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت
وہ شائستہ لوگوں کا گنجِ سعادت
وہ آسودہ قوموں کا راس البضاعت
وہ دولت کہ ہے وقت جس سے عبارت
نہیں اس کی وقعت نظر میں ہماری
یو نہیں مفت جاتی ہے برباد ساری
اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا
تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دنیا
مگر ہاں وہ سرمائیہ دین و دنیا
کہ ایک ایک لمحہ ہے انمول جس کا
نہیں کرتے خست اڑانے میں اس کے
بہت ہم سخی ہیں لٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم
تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم
یونہیں گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیںکوئی گویا خبردار ہم میں
کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریے کا وہ حکم بردار کتا
کہ بھیڑوں کی ہر دم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتے کا کھڑکا
تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھپرا
گر انصاف کیجئے تو ہم سے بہتر
کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر
وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچی ہیں
ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں
ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا
بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ
کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ
کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ
بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ
8
مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں
جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں
زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا
وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا
یہاں اور ہیں جتنی قومیں گرامی
خود اقبال ہے آج ان کا سلامی
تجارت میں ممتاز دولت میں نامی
زمانہ کے ساتھی ترقی کے حامی
نہ فارغ ہیں اولاد کی تربیت سے
نہ بے فکر ہیں قوم کی تقویت سے
دکان ان کی ہے اوعر بازار ان کا
بنج ان کا ہے اور بہوار ان کا
زمانہ میں پھیلا ہے بیوپار ان کا
ہے پیر و جواں برسرِ کار ان کا
مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر
انہیں کے ہیں آفس انہیں کے ہیں دفتر
معزز ہیں ہر ایک دربار میں وہ
گرامی ہیں ہر ایک سرکار میں وہ
نہ رسوا ہیں عادات و اطوار میں وہ
نہ بدنام گفتار و کردار میں وہ
نہ پیشہ سے حرفہ سے انکار ان کو
نہ محنت مشقت سے کچھ عار ان کو
جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ
پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ
ہر اک سانچے میں جاکے ڈھل جاتے ہیں وہ
جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ
ہر اک وقت کا مقتضیٰ جانتے ہیں
زمانہ کے تیور وہ پہچانتے ہیں
مگر ہے ہماری نظر اتنی اونچی
کہ یکساں ہے واں سب بلدی و پستی
نہیں اب تک اصلا خبر ہم کو یہ بھی
کہ ہے کون مردار کتیا ترقی
جدھر کھول کر آنکھ ہم دیکھتے ہیں
زمانہ کو اپنے سے کم دیکھتے ہیں
زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا
کہ ہے آشتی مین مری یاں گزارا
نہیں پیروی جن کو میری گوارا
مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی
چمن میں وا آچکی ہے خزاں کی
پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی
صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں کی
کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستاں کی
تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب
مصیبت کی ہے آنے والی سحر اب
فلاکت جسے کہئے ام الجرائم
نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم
بناتی ہے انسان کو جو بہائم
مصلّی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم
وہ یوں اہلِ اسلام پر چھا رہی ہے
کہ مسلم کی گویا نشانی یہی ہے
کہیں مگر کے گر سکھاتی ہے ہم کو
کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو
خیانت کی چالیس سجھاتی ہے ہم کو
خوشامد کی گھاتیں بناتی ہے ہم کو
فسوں جب یہ پاتی نہیں کار گر وہ
تو کرتی ہے آخر کو دریوزہ گر وہ
یہاں جتنی قومیں ہمارے سوا ہیں
ہزار ان میں خوش ہیں تو دو بینوا ہیں
یہاں لاکھ میں دو اگر اغنیا ہیں
تو سو نیم بسمل ہیں باقی گدا ہیں
ذرا کام غیرت کو فرمائیں گر ہم
تو سمجھیں کہ ہیں متبذل کس قدر ہم
بگاڑے ہیں گردش نے جو خاندانی
نہیں جانتے بس کہ روٹی کمانی
دلوں میں ہے یہ یک قلم سب بے ٹھانی
کہ کیجئے بسر مانگ کر زندگانی
جہاں قدر دانوں کا ہیں کھوج پاتے
پہنچتے ہیں واں مانگتے اور کھاتے
کہیں باپ دادا کا ہیں نام لیتے
کہیں روشناسی سے ہیں کام لیتے
کہیں جھوٹے وعدوں پہ ہیں دام لیتے
یونہی ہیں وہ دے دے کے دم دام لیتے
بزرگوں کے نازاں ہیں جس نام پر وہ
اسے بیچتے پھرتے ہیں در بدر وہ
یہ ہیں ڈھنگ ان تازہ آفت زدوں کے
بہت کم زمانہ ہوا جن بگڑے
ابھی ایک عالم ہے آگاہ جن سے
کہ ہیں کس کے بیٹے وہ اور کس کے پوتے
جنہیں دیس پردیس سب جانتے ہیں
حسب اور نسب جن کا پہچانتے ہیں
مگر منٹ چکا جن کا نام و نشاں ہے
پرانی ہوئی جن کی اب داستاں ہے
فسانوں میں قصوں میں جن کا بیاں
بہت نسل پر تنگ ان کی جہاں ہے
نہیں ان کی قدر اور پرسش کہیں اب
انہیں بھیک تک کوئی دیتا نہیں اب
بہت آگ چلموں کی سلگانے والے
بہت گھانس کی گھٹڑیاں لانے والے
بہت دربدر مانگ کر کھانے والے
بہت فاقے کرکر کے مرجانے والے
جو پوچھو کہ کس کان کے ہیں وہ جوہر
تو نکلیں گے نسلِ ملوک ان میں اکثر
انہی کے بزرگ ایک دن حکمراں تھے
انہی کے پرستار پیر و جواں تھے
یہی مامنِ عاجز و ناتواں تھے
یہی مرجعِ ویلم و اصفہاں تھے
یہی کرتے تھے ملک کی گلہ بانی
انہیں کے گھروں میں تھی صاحب قرآنی
 

الف عین

لائبریرین
یہ اے قومِ اسلام عبرت کی جاہے
کہ شاہوں کی اولاد در درگدا ہے
جسے سنئے افلاس میں مبتلا ہے
جسے دیکھئے مفلس و بینوا ہے
نہیں کوئی ان میں کمانے کے قابل
اگر ہیں تو ہیں مانگ کھانے کے قابل
نہیں مانگنے کا طریق ایک ہی یاں
گدائی کی ہیں صورتیں نت نئی یاں
نہیں حصر کنگلوں پہ گدیہ گری یاں
کوئی دے تو منگتوں کی ہے کہا کمی
بہت ہاتھ پھیلائے زیرِ ردا ہیں
چھپے اجلے کپڑوں میں اکثر گدا ہیں
بہت آپ کو کہہ کے مسجد کے بانی
بہت بن کے خود سیدِ خاندانی
بہت سیکھ کر نوحہ و سوز خوانی
بہت مدح میں کرکے رنگیں بیانی
بہت آستانوں کے خدّام بن کر
پڑے مانگتے کھاتے پھرتے ہیں در در
مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں
ہنر اور پیشہ کو جو خوار سمجھیں
تجارت کو کھیتی کو دشوار سمجھیں
فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی
کریں نوکری بھی تو بے عزتی کی
جو روٹی کمائیں تو بے حرمتی کی
کہیں پائیں خدمت تو بے عزتی کی
قسم کھائیے ان کی خوش قسمتی کی
امیروں کے بنتے ہیں جب یہ مصاحب
تو جاتے ہیں ہو کر حمت سے تائب
کہیں ان کی صحبت میں گانا بجانا
کہیں مسخرہ بن کے ہنسنا ہنسانا
کہیں پھبتیاں کہہ کے انعام پانا
کہیں چھیڑ کر گالیاں سب سے کھانا
یہ کام اور بھی کرتے ہیں پر نہ ایسے
مسلمان بھائی سے بن آئیں جیسے
امیروں کا عالم نہ پوچھو کہ کیا ہے
خمیران کا اور ان کی طینت جدا ہے
سزاوار ہے ان کو جو نا سزا ہے
روا ہے انہیں سب کہ جو ناروا ہے
شریعت ہوئی ہے نکو نام ان سے
بہت فخر کرتا ہے اسلام ان سے
ہر اک بول پر ان کے مجلس فدا ہے
ہر اک بات پر واں درست اور بجا ہے
نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا ہے
نہ کردار ان کا کوئی ناسزا ہے
وہ جو کچھ کہ ہیں ، کہہ سکے کون ان کو
بنایا ندیموں نے فرعون ان کو
وہ دولت کہ ہے مائیہ دین و دنیا
وہ دولت کہ ہے تو شئہ راہِ عقبیٰ
سلیماں نے کی جس کی حق سے تمنا
بڑھا جس سے آفاق میں نام کسریٰ
کیا جس نے حاتم کو مشہور دوراں
کیا جس نے یوسف کو مسبحودِ اخواں
ملا ہے یہ فخر اس کو ان کی بدولت
کہ سمجھی گئی ہے وہ اصلِ شقاوت
کہیں ہے وہ سرمائیہ جہل و غفلت
9
کہیں نشئہ بادئہ کبر و نخوت
جہاں کے لئے جو کہ آبِ بقا ہے
وہ اقوم کے حق میں سمی دوا ہے
ادھر مال و دولت نے یاں منہ دکھایا
ادھر ساتھ ساتھ اس کے ادبار آیا
پڑا آکے جس گھر پہ ثروت کا سایا
عمل واں سے برکت نے اپنا اٹھایا
نہیں راس یاں چار پیسے کسی کو
مبارک نہیں جیسے پر چیونٹی کو
سمجھتے ہیں سب عیب جن عادتوں کو
بہائم سے نسبت ہے جن سیرتوں کو
چھپاتے ہیں اوباش جن خصلتوں کو
نہیں کرتے اجلاف جن حرکتوں کو
وہ یاں اہلِ دولت کو ہیں شیرِ مادر
نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ پیمبر
طبعیت اگر لہو و بازی پہ آئی
تو دولت بہت سی اسی میں لٹائی
جو کی حضرتِ عشق نے رہنمائی
تو کردی بھرے گھر کی دم میں صفائی
پھر آخر لگے مانگنے اور کھانے
یونہیں مٹ گئے یاں ہزاروں گھرانے
نہ آغاز پر اپنے غور ان کو اصلا
نہ انجام کا اپنے کچھ ان کو کھٹکا
نہ فکر ان کو اولاد کی تربیت کا
نہ کچھ ذلتِ قوم کی ان کو پروا
نہ حق کوئی دنیا پہ ان کا نہ دیںپر
خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے جاکر
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر
نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا
ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا
تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بیہوش رہنا
دمِ نزع تک خود فراموش رہنا
پریشاں اگر قحط سے اک جہاں ہے
تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے
اگر باغِ امت میں فصلِ خزاں ہے
تو خوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے
بنی نوعِ انساں کا حق ان پہ کیا ہے
وہ اک نوع، نوعِ بشر سے جدا ہے
کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ
بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ
پہنتے نہیں جز سمور و کتاں وہ
مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ
نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر
نہیں رہتے بے نغمہ و ساز دم بھر
کمر بستہ ہیں لوگ خدمت میں ان کی
گل و لالہ رہتے ہیں صحبت میں ان کی
نفاست بھری ہے طبعیت میں ان کی
نزاکت سو داخل ہے عادت میں ان کی
دواؤں میں مشک ان کی اٹھتا ہے ڈھیروں
وہ پوشاک میں عطر ملتے ہیں سیروں
یہ ہوسکتے ہیں ان کے ہم جنس کیونکر
نہیں چین جن کو زمانے سے دم بھر
سواری کو گھوڑا نہ خدمت کو نوکر
نہ رہنے کو گھر اور نہ سونے کو بستر
پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی
جو تدبیر الٹی تو تقدیر کھوٹی
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
 

الف عین

لائبریرین
عمل جن کا ہے اس کلامِ متیں پر
وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر
مدار آدمت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا
حمیم آب و زقوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں
طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغا تھا گویا کہ حصۃ انہیں کا
کہ حب الوطن ہے نشان مومنیں کا
امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت
ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت
فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی جرئات
سپاہی کے ہتیار شاہوں کی طاقت
دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں
سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں قرباں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو
انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے
نتیجے ہیں آپس کی ہمدردیوں کے
غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت
مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت
اگر ہے مشائخ سے ان کو عقیدت
تو ہے پیرزادوں پہ وقف ان کی دولت
نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے
پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے ہیں مرتے
عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے
تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے
نماز اور روزہ کی عادت اگر ہے
تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے
اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی
تو فردوس میں نیو اپنی جمادی
عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی
نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی
تماشوں میں ثروت بڑوں کی اڑانی
نمائش میں دولت خدا کی لٹانی
چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں
یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں انکے ارماں
مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں
تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں
زمانہ میں ہے جو کوئی دن کا مہماں
نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں
عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی
عمارت کا ہے اس کی اللہ والی
پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں
وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں
کھیلیں تھیں جہاں علمِ باطن کی راہیں
فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں
کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے
کہاں ہیں وہ اللہ کے پاک بندے
وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں
اصولی کدھر ہیں، مناظر کدھر ہیں
محدث کہاں ہیں، مفسر کدھر ہیں
10
وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں ٹمٹاتا نہیں واں
مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں
مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں
وہ ارکاں شرعِ متیں کے کہاں ہیں
وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں
رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ
نہ قاضی نہ مفتی نہ صوفی نہ مُلّا
کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر
کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر
چلی ایسی اس بزم میں بادِ صرصر
بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر
رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی
صراحی نہ طنبور، مطرب نہ ساقی
بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت
سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر
کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے
مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے
یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت
مقام ان کا ہے ماورائے شریعت
انہیں پر ہے ختم آج کشف و کرامت
انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت
یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب
یہی ہیں جنید اور یہی بایزید اب
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
کوئی مئسلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامت ہے دشوار واں سے
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے
کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشمِ بددور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیں خلقِ رسولامیں گے
جو چاہے کہ خوش ان سے مل کر ہو انساں
تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں
نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں
تشرع میں اس کے نہ ہو کوئی نقصاں
لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو
ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو
عقائد میں حضرت کا ہم داستاں ہو
ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو
حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو
مریدوں کا ان کے بڑا مدح خواح ہو
نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے
بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
شریعت کے احکام تھے وہ گوارا
کہ شیدا تھے ان پر یہود و انصاریٰ
گواہ ان کی نرمی کا قرآن ہے سارا
خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا
مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو
کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو
نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی
نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی
پہ احکام ظاہر کے لے یہ بڑھائی
کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی
وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا
کیا قلتیں اس کو غسل و وضو کا
سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے
ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
جہاں مختلف ہوں روایات باہم
کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم
اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں
سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر
جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات مذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
تعصب کہ ہے دشمنِ نوع انساں
بھرے گھر کیے سیکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں
کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا
ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے
چھپا جس کے پردے میں اس ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے
وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم
جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم
ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے
کہ جو کام دینی ہے یا دنیوی بری ہے
مخالف کی ریس اس میں کرنی بری ہے
11
نشاں غیرتِ دینِ حق کا یہی ہے
مخالف کی الٹی ہر اک بات سمجھو
وہ دن کو کہے دن تم تم رات سمجھو
قدم گر رہِ راست پر اس کا پاؤ
تو تم سیدھے رستے سے کترا کے جاؤ
پڑیں اس میں جو وقتیں وہ اٹھاؤ
لگیں جس قدر ٹھوکریں اس میں کھاؤ
جو نکلے جہاز اس کا بچ کر بھنور سے
تو تم ڈال دو ناؤ اندر بھنور کے
اگر مسخ ہو جائے صورت تمہاری
بہائم میں مل جائے سیرت تمہاری
بدل جائے بالکل طبعیت تمہاری
سراسر بگڑ جائے حالت تمہاری
تو سمجھو کہ ہے حق کی اک شان یہ بھی
ہے اک جلوئہ نورِ ایمان یہ بھی
نہ اوضاع میں تم سے نسبت کسی کو
نہ اخلاق میں تم پہ سبقت کسی کو
نہ حاصل یہ کھانوں میں لذت کسی کو
نہ پیدا یہ پوشش میں زینت کسی کو
تمہیں فضل ہر علم میں بر ملا ہے
تمہاری جہالت میں بھی اک ادا ہے
کوئی چیز سمجھو نہ اپنی بری تم
رہو بات کو اپنی کرتے بڑی تم
حمایت میں ہو جب کہ اسلام کی تم
تو ہو ہر بدی اور گنہ سے بری تم
بدی سے نہیں مومنوں کو مضرت
تمہارے گنہ اور اوروں کی طاعت
مخالف کا اپنے اگر نام لیجے
تو ذکر اس کا ذلت سے خواری سے کیجئے
کبھی بھول کر طرح اس میں نہ دیجے
قیامت کو دیکھو گے اس کے نتیجے
گناہوں سے ہوتے ہو گویا مبّرا
مخالف پہ کرتے ہو جب تم تبرّا
نہ سنی میں اور جعفری میں ہو الفت
نہ نعمانی و شافعی میں ہو ملت
وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ نفرت
لمقلد کرے نا مقلد پہ لعنت
رہے اہلِ قبلہ مین جنگ ایسی باہم
کہ دینِ خدا پر ہنسے سارا عالم
کرے کوئی اصلاح کا گر ارادہ
تو شیطان سے اس کو سمجھو زیادہ
جسے ایسے مفسد سے ہے استفادہ
رہِ حق سے ہے برطرف اس کا جدہ
شریعت کو کرتے ہیں برباد دونوں
ہیں مردود شاگرد و استاد دونوں
وہ دیں جس نے الفت کی بنیاد ڈالی
کیا طبعِ دوراِ کو نفرت سے خالی
بنایا اجانب کو جس نے موالی
ہر اک قوم کے دل سی نفرت نکالی
عرب اور حبش ترک و تا جیک و ویلم
ہوئے سارے شیر و شکر مل کے باہم
تعصب نے اس صاف چشمہ کو آکر
کیا بغض کے خار و خس سے مکدر
بنے خصم جو تھے عزیر اور برادر
نفاق اہلِ قبلہ میں پھیلا سراسر
نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں
کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں
ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے
مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے
سب ایک اک کے باہم مددگار ہوتے
عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے
جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم
تو کہہ سکتے اپنے کو خیر الامم ہم
اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر
کہ " ہیں سب مسلمان باہم برادر"
برادر ہے جب تک برادر کا یاور
معین اس کا ہے خود خداوند داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی
فقیری میں بھی کرتے ہجم بادشاہی
وہ گھر جس میں دل ہوں ملے سب کے باہم
خوشی نا خوشی میںہوں سب یار و ہمدم
اگر ایک خوش دل تو گھر سارا خرم
اگر ایک گمگیں تو دل سب کے پر غم
مبارک ہے اس قصر شاہنشی سے
جاہں ایک دل ہو مکدر کسی سے
اگر ہو مدار اس پہ تحقیق دیں کا
کہ ہے دین والوں کا برتاؤں کیسا
کھرا ان کا بازار ہے یا کہ کھوٹا
ہے قول و قرات ان جھوٹا کہ سچا
تو ایسے نمونے بہت شاذ ہیں یاں
کہ اسلام پر جن سے قائم ہو برہاں
مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے
کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے
نہ بھائی کو بھائی سے یاں درگزر ہے
مہ ملا کو صوفی کو اس سے حذر ہے
اگر نشئہ مے ہو غیبت میں پنہاں
تو ہشیار پائے نہ کوئی مسلماں
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں
سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایامِ دوراں
نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں
نشہ میں تکبر کے ہے چور کوئی
حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی
اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی
نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی
بھلا جس کو کہتی ہے ساری خدائی
ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی
 

الف عین

لائبریرین
12
تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی
کھٹکتا ہے کانٹا سا نظروں میں سب کی
بگڑتا ہے جب قوم میں کوئی بن کر
ابھی بخت و اقبال تھے جس کے یاور
ابھی گردیں جھکتی تھیں جس کے در پر
مگر کردیا اب زمانے نے بے پر
تو ظاہر میں کڑھتے ہیں پر خوش ہیں جی میں
کہ ہمدرد ہات آیا اک مفلسی میں
اگر اک جوانمرد ہمدر انساں
کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں
کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں
وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی
یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت
تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت
سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت
تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا
نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا
اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی
تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی
تو گویا تمنا ہماری بر آئی
بس سے نہیں مشغلہ خوب کوئی
تماشا نہیں ایسا مرغوب کوئی
تغلب میں بد نیتی میں دغا میں
نمو اور بناوٹ فریب اور ریا میں
سعایت میں بہتان میں افترا میں
کسی بزم بیگانہ و آشنا میں
نہ پاؤ گے رسوا و بدنام ہم سے
بڑھے پھر نہ کیوں شانِ اسلام ہم سے
خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے
وہ عہدِ ہمایوں جو خیر القروں تھا
خلافت کا جب تک کہ قائم ستوں تھا
نبوت کا سایہ ابھی رہنموں تھا
سماں خیرو برکت کا ہر دم فزوں تھا
عدالت کے زیور سے تھے سب مزین
پھلا اور پھولا تما احمد کا گلشن
سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں
نبوت نہ گر ختم ہوتی عرب پر
کوئی ہم پہ مبعوث ہوتا پیمبر
تو ہے جیسے مذکورہ قرآں کے اندر
ضلالت یہود اور نصاریٰ کی اکثر
 

الف عین

لائبریرین
13
یو نہیں جو کتاب اس پیمبر پہ آتی
وہ گمراہیاں سب ہماری جتاتی
ہنر ہم میں جو ہیں وہ معلوم ہیں سب
علوم اور کمالات معدوم ہیں سب
چلن اور اطوار مذموم ہیں سب
فراغت سے دولت سے محروم ہیں سب
جہالت نہیں چھوڑتی ساتھ دم بھر
تعصب نہیں بڑھنے دیتا قدم بھر
وہ تقویمِ پارینہ یونانیوں کی
وہ حکمت کہ ہے ایک دھو کے کی ٹٹی
یقیں جس کو ٹھہرا چکا ہے نکمی
عمل نے جسے کردیا آکے ردی
اسے وحی سے سمجھے ہیں ہم زیادہ
کوئی بات اس میں نہیں کم زیادہ
زبور اور توریت و انجیل و قرآں
بالا جماع ہیں قابلِ نسخ و نسیاں
مگر لکھ گئے جو اصول اہلِ یوناں
نہیں نسخ و تبدیل کا ان میں امکاں
نہیں مٹتے جب تک کہ آثار دنیا
مٹے گا کبھی کوئی شوشہ نہ ان کا
نتائج ہیں جو مغربی علم و فن کے
وہ ہیں ہند میں جلوہ گر سو برس سے
تعصب نے لیکن یہ ڈالے ہیں پردے
کہ ہم حق کا جلوہ نہیں دیکھ سکتے
دلوں پر ہیں نقش اہل یوناں کی رائیں
جواب وحی اترے تو ایماں نہ لائیں
اب اس فلسفہ پر جو ہیں مرنے والے
شفا اور مجسطی کے دم بھرنے والے
ارسطو کی چوکھٹ پہ سر دھرنے والے
فلاطون کی اقتدا کرنے ولاے
وہ تیلی کے کچھ بیل سے کم نہیں ہیں
پھرے عمر بھر اور جہاں تھے وہیں ہیں
وہ جب کرچکے ختم تحصیلِ حکمت
بندھی سر پہ دستارِ علم و فضیلت
اگر رکھتے ہیں کچھ طبعیت میں جودت
تو ہے سب ان کی بڑی یہ لیاقت
کہ گردن کو وہ رات کہہ دیں زباں سے
تو منواکے چھوڑیں اسے اک جہاں سے
سوا اس کے جو آئے اس کو پڑھاویں
انہیں جو کچھ آتا ہے اس کو بتاویں
وہ سیکھے ہیں جو بولیاں سب سکھاویں
میاں مٹھو اپنا سا اس کو بناویں
یہ لے دے کے ہے علم کا ن کے حاصل
اسی پر ہے فخر ان کو بین الاماثل
نہ سرکار میں کام پانے کے قابل
نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل
نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل
نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل
نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر
وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر
جو پوچھو کہ حضرت نے جو کچھ پڑھا ہے
مراد آپ کی اس کے پڑھنے سے کیا ہے
مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے
نتیجہ کوئی یا کہ اس کے سوا ہے
تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے
جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے
نہ حجت رسالت پہ لاسکتے ہیں وہ
نہ اسلام کا حق جتا سکتے ہیں وہ
نہ قرآں کی عظمت دکھاسکتے ہیں وہ
نہ حق کی حقیقت بتا سکتے ہیں وہ
دلیلیں ہیں سب آج بے کار ان کی
نہیں چلتی توپوں میں تلوار ان کی
پڑے اس مشقت میں ہیں وہ سراپا
نتیجہ نہین ان کو معلوم جس کا
گئیں بھول آگے کی بھیڑیں جو بیٹا
اسی راہ پر پڑ لیا سارا گلا
نہیں جانتے یہ کہ جاتے کدھر ہیں
گئے بھول رستہ وہ یا راہ پر ہیں
مثال ان کی کوشش کی ہے صاف ایسی
کہ کھائی کہیں بندروں نے جو سردی
ادھر اور ادھر دیر تک آگ ڈھونڈی
کہیں روشنی ان کو پائی نہ اس کی
مگر ایک جگنو چمکتا جو دیکھا
پتنگا اسے آگ کا سب نے سمجھا
لیا جاکے تھام اور سب نے اسی دم
کیا گھانس پھونس اس پہ لاکر فراہم
لگے اس کو سلگانے سب مل کے پیہم
پہ کچھ آگ سلگی نہ سردی ہوئی کم
یو نہیں رات ساری انہوں نے گنوائی
مگر اپنی محنت کی راحت نہ پائی
گزرتے تھے جو جانور اس طرف سے
جب اس کشمکش میں انہیں دیکھتے تھے
ملامت بہت سخت تھے ان کو کرتے
کہ شرمائیں وہ زعم باطل سے اپنے
مگر اپنی کد سے نہ باز آتے تھے وہ
ملامت پہ اور الٹے غراتے تھے وہ
نہ سمجھے وہ جب تک ہوا دن نہ روشن
اسی طرح جو ہیں حقیقت کے دشمن
نہ جھاڑیں گے گرد تو ہم سے دامن
پہ جب ہوگا نور سحر لمعہ افگن
بہت جلد ہو جائے گا آشکارا
کہ جگنو کو سمجھے تھے وہ اک شرارا
وہ طب جس پہ غش ہیں ہمارے اطباء
سمجھتے ہیں جس کو بیاضِ مسیحا
بتانے میں ہے بخل جس کے بہت سا
جسے عیب کی طرح کرتے ہیں اخفا
فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بسینہ
نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے
نہ اصلا خبر معدنیات کی ہے
نہ تشریں کی لے کسی پر کھلی ہے
نہ علمِ طبیعی نہ کیمسٹری ہے
نہ پانی کا علم اور نہ علمِ ہوا ہے
مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے
نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے
نہ مخزن میں انگشت رکھنے کی جا ہے
سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے
نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے
سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے
صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے
وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا
وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا
برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں
کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویے امیروں کے نورِ نظر ہیں
ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں
خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں
جو سقے نہ ہوں جی سے جائیں گزر سب
ہو میلا جہاں گم ہوں دھوبیھ اگر سب
ہے دم پر اگر شہر چھوڑٰں نفر سب
جو تھڑ جائیں مہتر تو گندے ہوں گھر سب
پہ کرجائیں ہجرت جو شاعر ہمارے
کہیں مل کے " خس کم جہاںپاک" سارے
 

الف عین

لائبریرین
عرب جو تھے دنیا میں اس فن کے بانی
نہ تھا کوئی آاق میںجن کا ثانی
زمانہ نے جن کی فصاحت تھی مانی
مٹادی عزیزوں نے ان کی نشانی
سب ان کے ہنر اور کمالات کھوکر
رہے شاعری کو بھی آخر ڈبو کر
ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے
جلا دین نے پائی ان کے بیاں سے
سناں کے لیے کام انہوں نے لساں سے
زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے
ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل
پڑی ان کے خطبوں سے عالم میں ہلچل
خلف ان کے یاں جو کہ جادوبیاں ہیں
فصاحت میں مقبول پیرو جواں ہیں
بلاغت میں مشہور ہندوستاں ہیں
وہ کچھ ہیں تولے دیکے اس گوں کے یاں ہیں
کہ جب شعر میں عمر ساری گنوائیں
تو بھانڈ ان کی غزلیں مجالس میں گائیں
طوائف کو از بر ہیں دیوان ان کے
گویوں پے بے حد ہیں احسان ان کے
نکلتے ہیں تکیوں میں ارمان ان کے
ثنا خواں ہیں ابلیس و شیطان ان کے
کہ عقلوں پہ پردے دیئے ڈال انہوں نے
ہمیں کر دیا فارغ البال انہوں نے
شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے
تباہ ان کی حالت بری ان کی گت ہے
کسی کو کبوتر اڑنے کی لت ہے
کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے
چرس اور گانجے پہ شیدا ہے کوئی
مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی
سدا گرم انفار سے ان کی صحبت
ہر اک رند اوباش سے ان کی ملت
پڑھے لکھوں کے سایہ سے ان کو وحشت
مدارس سے تعلیم سے ان کو نفرت
کمینوں کے جرگے میں عمریں گنوانی
انہیں گالیاں دینی اور آپ کھانی
نہ علمی مدارس میں ہیں ان کو پاتے
نہ شائتہ جلسوں میں ہیں آتے جاتے
پہ میلوں کی رونق ہیں جاکر بڑھاتے
پڑے پھرتے ہیں دیکھتے اور دکھاتے
کتاب اور معلم سے پھرتے ہیں بھاگے
مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے
اگر کیجئے ان پاک شہدوں کی گنتی
ہوا جن کے پہلو سے بچ کر ہے چلتی
ملی خاک میں جن سے عزت بڑوں کی
مٹی خاندوانوں کی جن سے بزرگی
تو یہ جس قدر خانہ برباد ہونگے
وہ سب ان شریفوں کی اولاد ہونگے
ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
 
Top