پہلا دیباچہ
١٢٩٤ ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامد اً و مصلیاً
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دل زندہ تو نے ہم کو چھوڑا ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی
بچپن کا زمانہ جو کہ حقیقت میں دنیا کی باشاہت کا زمانہ ہے ایک ایسے دلچسپ اور پر فضا میدان میں گزارا جو کلفت کے گردوغبار سے بالکل پاک تھا ۔ نہ وہاں ریت کے ٹیلے تھے ، نہ کاردار جھاڑیا تھیں ، نہ آندھیوں کے طوفان تھے ، نہ باد سموم کی لپٹ تھی۔
جب اس میدان سے کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو ایک اور صحرا اس سے بھی زیادہ دلفریب نظر آیا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں ولولے اور لاکھوں امنگیں خود بخود دل میں پیدا ہوگئیں ۔ مگر یہ صحرا جس قدر نشاط انگیز تھا ۔ اس کی سر سبز جھاڑیوں میں ہولناک درندے چھپے ہوئے تھے اور اس کے خوشنما پودوں پر سانپ اور بچھو لپٹے ہوئے تھے۔ جونہی اس کی حد میں قدم رکھا ہر گوشہ سے شیر و پلنگ اور مارو کژ دم نکلے آئے ۔ باغ جوانی کی بہات اگر چہ قابل دید تھی مگر دنیا کی مکروہات سے دم لینے کی فرصت نہ ملی، نہ خود آرائی کا خیال آیا، نہ عشق و جوانی کی ہوا لگی ، نہ وصل کی لذت اٹھائی ، نہ فراق کا مزا چکھا۔
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیانے کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا ۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشت جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کردیا۔ کبھی نالئہ نیم شب سے ربع مسکوں کو بلا ڈالا۔ کبھی چشم دریا بار سے تمام عالم کو ڈبو دیا۔ آہ دفغاں کے شور سے کرو بیوں کے کان بہرے ہو گئے۔شکایتوں کی بوچھا ڑ سے زمانہ چیخ اٹھا ۔ طعنوں کی بھر مار سے آسمان چھلنی ہوگیا۔ جب رشک کا تلاطم ہوا تو ساری خدائی کو رقیب سمجھا ۔ یہاں تک کہ آپ اپنے سے بد گمان ہوگئے ۔ جب شوق کا دریا امنڈا تو کشش دل سے جذب مقناطیسی اور قوت کہر بائی کا کام لیا ۔ بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے اور بارہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے۔ گویا زندگی ایک پیرا ہن تھا کہ جب چاہا اتاردیا اور جب چاہا پہن لیا۔ میدان قیامت میں اکثر گزرا ہوا۔ بہثت و دوزخ کی اکثر سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھادئیے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کبھی خانئہ خمار کی چوکھٹ پر جبہہ سائی کی ۔ کبھی مے فروش کے در پر گدائی کی۔ کفر سے مانوس رہے ایمان سے بیزار رہے۔ پیر مغاں کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ برہمنوں کے چیلے بنے۔ بت پوجے ۔ سنار باندھا۔ قشقہ لگایا ۔ زاہدوں پر پھبتیاں کہیں۔ واعظوں کا خاکہ اڑایا ۔ دیر اور بت خانہ کی تعظیم کی۔ کعبہ اور مسجد کی توہین کی ۔ خدا سے شوخیاں کیں ۔ نبیوں سے گستاخیاں کیں۔ اعجاز مسیحی کو ایک کھیل جانا۔ حسن یوسفی کو ایک تماشا سمجھا ۔ غزل کہی تو پاک شہدوں کی بولیاں بولیں ۔ قصیدہ لکھا تو بھاٹ اور بادخوانوں کے منہ پھیر دیئے ۔ ہر مشت خاک میں اکسیر اعظم کے خواص بتلائے ، ہر چوب خشک میں عصائے موسوی کے کرشمے دکھائے۔ ہر نمرود وقت کو ابراہیم خلیل سے جا ملایا۔ ہر فرعون بے سامان کو قادر مطلق سے جا بھڑایا۔ جس کے مداح بنے اسے ایسا بانس پر چڑھایا کہ خود ممدوح کو اپنی تعریف میں کچھ مزانہ آیا ۔ غرض نامئہ اعمال ایسا سیاہ کیا کہ کہیں سفید باقی نہ چھوڑی۔
چو پرسش گنہم روز حشر خواہد بود تمسکات گناہان خلق پارہ کنند
بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اسی ایک چکر میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک ساراجہاں طے کرچکے ۔ جب آنکھیں کھیلیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں۔
شکست رنگ شباب و ہنوز رعنائی درآں دیار کہ زاوی ہنوز آنجائی
نگاہ اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں آگے پیچھے ایک میدان وسیع نظر آیا جس میں بے شمار راہیں چاروں طرف کھلی ہوئی تھیں اور خیال کے لیے کہیں عرصہ تنگ نہ تھا۔ جی میں آیا کہ قدم آگے بڑھائیں اور اس میدان کی سیر کریں مگر جو قدم بیس برس تک ایک چال سے دوسری چال نہ چلے ہوں اور جن کی دوڑ گز دو گز زمین میں محدود رہی ہو ان سے اس وسیع میدان میں کام لینا آسان نہ تھا۔ اس کے سوا بیس برس کی بیکار اور نکمی گردش میں ہاتھ پاؤں چور ہوگئے تھے اور طاقت رفتار جواب دے چکی تھی ۔ لیکن پاؤں میں چکر تھا اس لیے نچلا بیٹھنا بھی دشوار تھا ۔ چند روز اسی تردو میں کامرد ہے ایک دشوار گزار رستے میں رہ نور دہے ۔ بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے تھے تھک کر پیچھے رہ گئے ہیں ۔ بہت سے ابھی اس کے ساتھ افتاں و خیزاں چلے جاتے ہیں ۔ مگر ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں ۔ پیروں میں چھالے پڑے ہیں ۔ دم چڑھ رہا ہے ۔ چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ لیکن وہ اولو العزم آدمی جوان سب کا رہنما ہے ۔ اسی طرح تازہ دم ہے ۔ نہ اسے رستے کی تکان ہے نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے کی پروا ہے ۔نہ منزل کی دوری سے کچھ ہر اس ہے۔ اس کی چتون میں غضب کا جادو بھرا ہے کہ جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ آنکھیں بند کرکے اسی کے ساتھ ہولیتا ہے اس کی ایک نگاہ ادھر بھی پڑی اور اپنا کام کرگئی۔ بیس برس کے تھکے ہارے خستہ و کوفتہ اسی دشوار گزار رستہ پر پڑلیے ۔ نہ یہ خبر ہے کہان جاتے ہیں نہ یہ معلوم ہے کہ کیوں جاتے ہیں ۔ نہ طلب صادق ہے نہ قدم راسخ ہے نہ عزم ہے نہ استقلال نہ صدق ہے نہ اخلاص ہے مگر ایک زبردست ہاتھ ہے کہ کھینچے لیے چلا جاتا ہے۔
آں دل کہ رم نمودے از خو بروں جواناں دیرینہ سال پیرے بردس بیک نگا ہے
زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا ۔ نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا ۔ مگر یہ ایک ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراقش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے بخارات درونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا ، دل و دماح میں تلاطم کررہے تھے ۔ اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے ۔ قوم کے ایک سچے خیر خواہ نے ( جو اپنی قوم کے سوا تمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور جس طرح خود اپنے پرزور ہاتھ اور قوی بازو سے بھائیوں کی کدمت کررہا ہے ۔ اسی طرح ہراپا ہج اور نکمے کو اسی کام میں لگانا چاہتا ہے ) آکر ملامت کی اور غیرت دلائی کہ حوان ناطق ہونے کا دعویٰ کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے ۔
روچو انسان لب بجبنباں در دہن در جمادی لاف انسانی مزن
قوم کی حالت تباہ ہے ۔ عزیز ذلیل ہو گئے ہیں ۔ شریف خاک میں مل گئے ہیں ۔ علم کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ دین کا صرف نام باقی ہے ۔ افلاس کی گھر گھر پکار ہے ۔ پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے ۔ اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے جاتے ہیں ۔ تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے ۔ رسم و رواج کی بیٹی ایک ایک کے پاؤں پہنچاسکتے ہیں غافل اور بے پروا ہیں ۔ علماء جن کو قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں ۔ ایسے میں جس سے جو کچھ بن آئے تو بہت ہے ورنہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں اور ساری ناؤ کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے ۔ ہر چند لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں ۔ مگر نظم جو کہ بالطبع سب کو مرغوب ہے اور خاص کو عربس کا ترکہ اور مسلمانوں کا موروثی حصۃ ہے قوم کے بیدار کرنے کے لیے اب تک کسی نے نہیں لکھی ۔ اگر چہ ظاہر ہے کہ اور تدبیروں سے کیا ہوا جو اس تدبیر سے ہوگا ۔ مگر ایسی تنگ حالتوں میں انسان کے دل پر ہمیشہ دو طرح کے خیال گزرتے رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ دوسرے یہ کہ ہم کچھ کرنا چاہیے ۔ پہلے خیال کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ نہ ہوا ۔ اور دوسرے خیال سے دنیا میں بڑے عجائبات ظاہر ہوئے ۔
در فیض ست منشیں از کشائش ناامید ایں جا برنگ دانہ از ہر قفل می روید کلید ایں جا
" اور وہ ایسا خدا ہے کہ جب لوگ نا امید ہو جاتے ہیں تو مینہ برسات ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے "
ہر چند اس حکم کی بجا آواری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی ۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جاکر ٹھہری ۔برسون کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہوا۔ اور باسی کڑھی میں ایک ابال آیا ۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواتر حملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے کام لینا شروع کیا اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے مکروہات سے فرصت بہت کم ملی ۔ اور بیمار یوں کے ہجوم سے اطمینان کبھی نصیب نہ ہوا مگر ہر حال میں یہ دھن لگی رہی۔ بارے الحمدللہ کہ بہت سے وقتوں کے بعد ایک ٹوٹی پھو ٹی نظم اس عاجز بندہ کی بساط کے موافق تیار ہوگئی ۔ اور ناصح مشفق سے شرمندہ نہ ہونا پڑا ۔ صرف ایک امید کے سہارے پر یہ راہ دور دراز طے کی گئی ہے ۔ ورنہ منزل کا نشان نہ اب تک ملا ہے اور نہ آئندہ ملنے کی توقع ہے ۔
خبر نیست کہ منزل گہ مقصود کجاست ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے مے آید
اس مسدس کے آغاز میں پان سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کوکب اسلام کا طلوع ہونا اور نبی امی کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتاً سر سز و شاداب ہوجانا اور اس ابر رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہر ابھرا چھو ڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد ان کے تنزل کا حال کھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوںسے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آکر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے ۔ اگر چہ اس جانکاہ نظم میں جس کی دشواریاں لکھنے والے کا دل اور دماغ ہی خوب جانتا ہے بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہووا ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ مگر شکر ہے کہ جس قدر رہو گیا اتنی بھی امید نہ تھی ۔ ہمارے ملک کے اہل مذاق ظاہراً اس روکھی پھیکی سیدھی سادی نظم کو پسند نہ کریں گے ۔ کیونکہ اس میں تاریخی واقعات ہیں چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا جو آج کل قوم کیک حالت ہے ، اس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ نہ کہیں نازک خیالی ہے ، نہ رنگیں بیانی ، نہ مبالغہ کی چاٹ ہے ، نہ تکلف کی چاشنی ہے ، غرض کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے اہل وطن کے کان مانوس اور مذاق آشنا ہوں اور کوئی کرشمہ ایسا نہیں ہے کہ لاعین زات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر (نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں گزارا) گویا اہل دہلی و لکھنؤ کی دعوت میں ایک ایسا دستر خوان چنا گیا ہے جس میں ابالی کھچڑی اور بے مرچ سالن کے سوا کچھ نہیں مگر اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور وہ واہ سننے کیلیے نہیں کی گئی ۔ بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لیے کی گئی ہے ۔ اگر دیکھیں اورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ کچھ شکایات نہیں ۔
حافظ وظیفئہ تو دعا گفتن است و بس
در بند آں مباش کہ تشنید یا شنید