غدر کے بعد جب کئی برس پانی پت میں بیکاری کی حالت میں گزر گئے تو فکرِ معاش نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ حسنِ اتفاق سے نواب مصطفٰی خاں مرحوم، رئیسِ دہلی و تعلقہ دار جہانگیر آباد ضلع بلند شہر، سے جو فارسی میں حسرتی اور اردو میں شیفتہ تخلص کرتے تھے اور شاعری کا اعلٰی درجہ کا مذاق رکھتے تھے شناسائی ہو گئی اور آٹھ سات برس تک بطور مصاحبت کے ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ نواب صاحب جس درجہ کے فارسی اور اردو زبان کے شاعر تھے اسکی نسبت ان کا مذاقِ شاعری بمراتب بلند تر اور اعلٰی تر واقع ہوا تھا۔ انہوں نے ابتدا میں اپنا فارسی اور اردو کلام مومن خاں کو دکھایا تھا، مگر انکے مرنے کے بعد وہ مرزا غالب سے مشورۂ سخن کرنے لگے تھے۔ میرے وہاں جانے سے انکا پرانا شعر و سخن کا شوق جو مدت سے افسردہ ہو رہا تھا، تازہ ہو گیا اور انکی صحبت میں میرا طبعی میلان بھی جو اب تک مکروہات کے سبب اچھی طرح ظاہر نہ ہونے پایا تھا چمک اٹھا۔ اسی زمانہ میں اردو اور فارسی کی اکثر غزلیں نواب مرحوم کے ساتھ لکھنے کا اتفاق ہوا۔ انہیں کے ساتھ میں بھی جہانگیر آباد سے اپنا کلام مرزا غالب کے پاس بھیجتا تھا مگر در حقیقت مرزا کے مشورہ و اصلاح سے مجھے چنداں فائدہ نہیں ہوا بلکہ جو کچھ فائدہ ہوا وہ نواب صاحب کی صحبت سے ہوا۔ وہ مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادھی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانا منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔ نواب شیفتہ کے مذاق کا اندازہ اس واقع سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک روز انیس کا ذکر ہو رہا تھا۔ انہوں نے انیس کے مرثیہ کا یہ مصرعہ پڑھا۔ ع
آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
اور کہا کہ انیس نے ناحق مرثیہ لکھا، یہی ایک مصرعہ بجائے خود ایک مرثیہ کے برابر تھا۔ انکے خیالات کا اثر مجھ پر بھی پڑنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہوگیا۔
نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو میں ایک آسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھے یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے انکی اردو عبارت درست کرنے کو مجھے ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی۔ لاہور ہی میں کرنیل ہالرانڈ، ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن پنجاب کے ایما سے مولوی محمد حسین آزاد نے اپنے پرانے ارادے کو پورا کیا، یعنی 1874ء میں ایک مشاعرے کی بنیاد ڈالی جو ہندوستان میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نیا تھا، اور جس میں بجائے مصرعہ طرح کے کسی مضمون کا عنوان شاعروں کو دیا جاتا تھا کہ اس مضمون پر اپنے خیالات جس طرح چاہیں نظم میں ظاہر کریں۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں چار مثنویاں، ایک برسات پر، دوسری امید پر، تیسری رحم و انصاف پر، چوتھی حبِ وطن پر لکھیں۔
اسکے بعد میں لاہور سے دہلی میں اینگلو عربک سکول کی مدرسی پر بدل آیا۔ یہاں آ کر اول میں نے ایک آدھ نظم بطور خود اسی طرز کی جس کی تحریک لاہور میں ہوئی تھی، لکھی۔ پھر سر سید احمد خاں مرحوم نے ترغیب دلائی کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی و تنزل کی حالت اگر نظم میں بیان کی جائے تو مفید ہوگی، چنانچہ میں نے اول مسدس مد و جزر اسلام اور اسکے بعد اور نظمیں جو چھپ کر بار بار شائع ہو چکی ہیں، لکھیں۔
نظم کے سوا اردو نثر میں بھی چند کتابیں لکھی ہیں، سب سے پہلے غالباً 1867ء میں ایک کتاب تریاقِ مسموم ایک نیٹو کرسچن کی کتاب کے جواب میں، جو میرا ہم وطن تھا اور مسلمان سے عیسائی ہوا تھا، لکھی تھی۔ جس کو اسی زمانہ میں لوگوں نے مذہبی میگزینوں میں شائع کر دیا تھا۔ اسکے بعد لاہور میں ایک عربی کتاب کا جو جیولوجی میں تھی اور فرنچ سے عربی میں کسی مصری فاضل نے ترجمہ کی تھی، اردو میں ترجمہ کیا اور اسکا کاپی رائٹ بغیر کسی معاوضہ کے پنجاب یونیورسٹی کو دے دیا۔ چنانچہ ڈاکٹر لائٹز کے زمانہ میں اسکو پنجاب یونیورسٹی نے چھاپ کر شائع کر دیا تھا۔ مگر اول تو وہ اصل کتاب پچاس ساٹھ برس کی لکھی ہوئی تھی جبکہ جیولوجی کا علم ابتدائی حالت میں تھا، دوسرے مجھ کو اس فن سے محض اجنبیت تھی، اسلئے اصل اور ترجمہ دونوں غلطیوں سے خالی نہ تھے۔ لاہور ہی میں ایک کتاب عورتوں کی تعلیم کیلئے قصہ کے پیرایہ میں موسوم بہ مجالس النساء لکھی تھی جس پر کرنل ہالرانڈ نے ایک ایجوکیشنل دربار میں بمقام دہلی مجھے لارڈ نارتھ بروک کے ہاتھ سے چار سو روپیہ کا انعام دلوایا تھا اور جو اودھ اور پنجاب کے مدارسِ نسواں میں مدت تک جاری رہی اور شاید اب بھی کبھی کہیں جاری ہو۔ پھر دلی میں سعدی شیرازی کی لائف اور انکی نظم و نثر پر ریویو لکھ کر شائع کیا، جسکا نام حیاتِ سعدی ہے اور جس کے دس بارہ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہوچکے ہیں۔ پھر شاعری پر ایک مبسوط ایسے (Essay) لکھ کر بطور مقدمہ کے اپنے دیوان کے ساتھ شائع کیا۔ اسکے بعد مرزا غالب مرحوم کی لائف جس میں ان کی فارسی اور اردو نظم و نثر کا انتخاب بھی شامل ہے اور نیز ان کی شاعری پر بھی ریویو لکھا گیا ہے جو یادگارِ غالب کے نام سے لکھ کر شائع کی۔ اور اب سر سید احمد خاں مرحوم کی لائف موسوم بہ حیاتِ جاوید جو تقریباً ہزار صفحہ کی کتاب ہے، لکھی۔ جو امید ہے کہ مارچ یا اپریل میں شائع کی جائے گی۔
اسکے سوا اور بھی بعض کتابیں فارسی گرامر وغیرہ میں لکھی ہیں جو چنداں ذکر کے قابل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ تیس بتیس مضمون بھی مختلف عنوانوں پر مختلف اوقات میں لکھے جو تہذیب الاخلاق علی گڑھ گزٹ اور دیگر اخبارات یا رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ نیز اردو کے علاوہ فارسی میں کسی قدر زیادہ اور عربی میں کم میری نظم و نثر موجود ہے جو ہنوز شائع نہیں ہوئی۔ جب سے ان دونوں زبانوں کا رواج ہندوستان میں کم ہونے لگا ہے اس وقت سے انکی طرف توجہ نہیں رہی۔ میری سب سے اخیر فارسی نظم وہ ترکیب بند ہے جو سر سید کی وفات پر میں نے 1898ء میں لکھا تھا اور اردو میں سب سے اخیر وہ نظم ہے جو حال میں ایمپرس وکٹوریا کی وفات پر لکھی ہے اور علی گڑھ گزٹ میں شائع ہو چکی ہے۔
1305ھ میں جب کہ میں اینگلو عربک سکول دہلی میں مدرس تھا، نواب سر عثمان جاہ بہادر مرحوم مدار المہام سرکار عالی نظام اثنائے سفر شملہ میں علی گڑھ محمڈن کالج کے لئے سر سید احمد خاں مرحوم کی کوٹھی واقع علی گڑھ میں فروکش ہوئے تھے اور میں بھی اس وقت علی گڑھ گیا ہوا تھا۔ نواب صاحب ممدوح نے بصیغۂ امدادِ مصنفین ایک وظیفہ تعداد پچھتر روپے ماہوار کا میرے لئے مقرر فرمایا اور 1309ھ میں جب کہ میں سر سید مرحوم کے ہمراہ بشمول دیگر ممبران ڈیپوٹیشن ٹرسٹیان محمڈن کالج علی گڑھ، حیدر آباد گیا تھا اس وظیفہ میں پچیس روپے ماہوار کا اضافہ کر کے سو روپیہ سکۂ حالی کا وظیفہ میرے لئے مقرر کر دیا جو اب تک مجھ کو ماہ بماہ سرکار سے ملتا ہے اور اسی وقت سے میں نے اینگلو عربک سکول کا تعلق قطع کر دیا ہے۔
۔