طاہر اقبال
محفلین
سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے
یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے
بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے
حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے
ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں
یہ حد ہےکہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں
مزاجوں میں یوں لیڈری آگئی ہے
کہ گھر گھر کی اپنی الگ پارٹی ہے
کوئی شیر ہے تو کوئی لومڑی ہے
یہی اپنی لے دے کے انڈسٹری ہے
نہ منزل نہ جادہ نہ کوئی ارادہ
رضا کار کمیاب، لیڈر زیادہ
اگر گھر میں ہیں خیر سے چار بھائی
تو اک اک نے ڈفلی الگ ہے اُٹھائی
بچھی ہے سیاست کی پتلی چٹائی
بہ ہر تخت پوش و بہ ہر چار پائی
سلیٹی کوئی ، توتیائی ہے کوئی
کوئی سرخ ہے، فاختائی ہے کوئی
جلوس اور جلسے میں تکرار ان میں
فساد و فتن کے نمک خوار ان میں
بپا مستقل جوت پیزار ان میں
“یونہی چلتی رہتی ہے تلوار ان میں“
جو زندہ مہینہ ، مردہ مہینہ
یہ کیا زندگی ہے، نہ جینا نہ مرنا
ملوں، پرمٹوں، کارخانوں کے جھگڑے
سیاست کے “نودولتانوں“ کے جھگڑے
زبانوں، بیانوں، ترانوں کے جھگڑے
فسانوں پہ ہم داستانوں کے جھگڑے
سرخوان لقمہ اُٹھانے پہ جھگڑا
وہ جھگڑا کہ ہر دانے دانے پہ جھگڑا
حقائق کے آثار دھندلانے والے
جرائد میں شہ سرخیاں پانے والے
یہ ہر قول دے کر مکر جانے والے
یہ ہر “میز کرسی“ پہ مر جانے والے
بیاباں کو صحنِ چمن جانتے ہیں
قیادت کو خوراکِ تن جانتے ہیں
مکیں گمشدہ ہیں، مکاں لڑ رہے ہیں
زمیں چپ مگر آسماں لڑ رہے ہیں
خود اپنی صفوں میں جواں لڑ رہے ہیں
کہاں لڑنے والے، کہاں لڑ رہے ہیں
فسادات کی سرخیاں اور بھی ہیں
“مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں“
مقاصد کو زیر و زبر کر کے لڑنا
نتائج سے قطع نظر کر کے لڑنا
سنان و تبر تیز کر کر کے لڑنا
اگر کر کے لڑنا، مگر کر کے لڑنا
کہیں دو “وڈیرے“ جو لڑ بیٹھتے ہیں
تو سارے “بٹیرے“ بگڑ بیٹھتے ہیں
امامت کے تھے مدعی خشک و تر میں
سیاست میں، دانش میں، فکر و نظر میں
مقام ان کا اونچا ہے نوع بشر میں
کہ رہتا ہے اکثر فساد ان کے گھر میں
ہوس کی غلامی، شکم کی خدائی
گلا کاٹ دیتا ہے بھائی کا بھائی
مقدر میں بھوک، اور گرد سفر ہے
بسیرا اگر ہے، تو “فٹ پاتھ “ پر ہے
نہ کھانے کو روٹی ، نہ رہنے کو گھر ہے
گزر زندگی کا سرِ رہگزر ہے
وہ مردہ پڑا ہے، یہ گھائل پڑا ہے
سرِ راہ حل مسائل پڑا ہے
دفاتر کا آئین و دستور رشوت
تہی دست لوگوں سے بھر پور رشوت
وہ بیش توفیق و مقدور رشوت
جوانی پہ ہے “چشمِ بددور“ رشوت
عجب حرص دولت کا یہ رقص و رم ہے
کہ جیسے ضرورت بہت، وقت کم ہے
مہاجر کی آباد کاری پہ رشوت
وساور کی “لیسنسداری “ پہ رشوت
الیکشن کی امیدواری پہ رشوت
وزارت کی پروردگاری پہ رشوت
جو سائل اصولی مثالی رہے گا
وہ بھر پور دنیا میں خالی رہے گا
مکانوں کی آرائشیں بڑھ گئی ہیں
مکینوں کی آسائشیں بڑھ گئی ہیں
خیانت کی گنجائشیں بڑھ گئی ہیں
کہ بیگم کی فرمائشیں بڑھ گئی ہیں
حدیں کچھ ورائے گماں اور بھی ہیں
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“
امیر اپنے، آرام فرمانے والے
ہر اک ساحلِ نو پہ رقصانے والے
مے ناب و برفاب و جمخانے والے
غریبانِ ملت سے کٹ جانے والے
یہ دوری کوئی بے سبب تو نہیں ہے
محلے کی مسجد کلب تو نہیں ہے
یہ رم اور رمی کے بیمار صاحب
جوئے اور گھڑ دوڑ کے یار صاحب
سمور اور ریشم کے مینار صاحب
رباط اور روما کے سیار صاحب
وہ شیری دھری ہے، یہ وہسکی پڑی ہے
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی ہے
نہ یہ کارواں میں، نہ یہ کارواں سے
نہ جانے یہ لوگ آگئے ہیں کہاں سے
جو اپنی زباں سے، کہیں کچھ زباں سے
تو لب پھڑپھڑاتے رہیں رائیگاں سے
شلر اور شیلے کو سب جانتے ہیں
مگر میر و غالب کو کب جانتے ہیں
زمیں دار ، کاروں کو دوڑانے والے
زر و مال مجروں پہ برسانے والے
کلف دار شملوں کو لہرانے والے
نمک خوار کتوں کو لڑوانے والے
لگائو ادب سے، ہنر سے، نہ فن سے
دھواں اُٹھ رہا ہے، دلِ انجمن سے
یہ مانا بشر دیوتا بھی نہیں ہے
یہ جینا نری اک سزا بھی نہیں ہے
فراغت شے ناروا بھی نہیں ہے
حیات بشر دیر پا بھی نہیں ہے
مگر دین و ملت کا احساس کچھ تو
غریبوں کی ذلت کا احساس کچھ تو
جو جینا ہو تو رہنمائی کرو تم
جو دانا ہو عقدہ کشائی کرو تم
غنی ہو تو حاجت روائی کرو تم
بڑائی یہی ہے، بھلائی کرو تم
بڑے شوق سے اپنے جلسے منائو
امیروں ، غریبوں کے بھی کام آئو
نہ منشور اپنا، نہ دستور اپنا
قدم راہ چلنے سے معذور اپنا
مگر شور ہے دور سے دور اپنا
گلا کام کرتا ہے بھر پور اپنا
سید ضمیر جعفری
یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے
بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے
حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے
ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں
یہ حد ہےکہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں
مزاجوں میں یوں لیڈری آگئی ہے
کہ گھر گھر کی اپنی الگ پارٹی ہے
کوئی شیر ہے تو کوئی لومڑی ہے
یہی اپنی لے دے کے انڈسٹری ہے
نہ منزل نہ جادہ نہ کوئی ارادہ
رضا کار کمیاب، لیڈر زیادہ
اگر گھر میں ہیں خیر سے چار بھائی
تو اک اک نے ڈفلی الگ ہے اُٹھائی
بچھی ہے سیاست کی پتلی چٹائی
بہ ہر تخت پوش و بہ ہر چار پائی
سلیٹی کوئی ، توتیائی ہے کوئی
کوئی سرخ ہے، فاختائی ہے کوئی
جلوس اور جلسے میں تکرار ان میں
فساد و فتن کے نمک خوار ان میں
بپا مستقل جوت پیزار ان میں
“یونہی چلتی رہتی ہے تلوار ان میں“
جو زندہ مہینہ ، مردہ مہینہ
یہ کیا زندگی ہے، نہ جینا نہ مرنا
ملوں، پرمٹوں، کارخانوں کے جھگڑے
سیاست کے “نودولتانوں“ کے جھگڑے
زبانوں، بیانوں، ترانوں کے جھگڑے
فسانوں پہ ہم داستانوں کے جھگڑے
سرخوان لقمہ اُٹھانے پہ جھگڑا
وہ جھگڑا کہ ہر دانے دانے پہ جھگڑا
حقائق کے آثار دھندلانے والے
جرائد میں شہ سرخیاں پانے والے
یہ ہر قول دے کر مکر جانے والے
یہ ہر “میز کرسی“ پہ مر جانے والے
بیاباں کو صحنِ چمن جانتے ہیں
قیادت کو خوراکِ تن جانتے ہیں
مکیں گمشدہ ہیں، مکاں لڑ رہے ہیں
زمیں چپ مگر آسماں لڑ رہے ہیں
خود اپنی صفوں میں جواں لڑ رہے ہیں
کہاں لڑنے والے، کہاں لڑ رہے ہیں
فسادات کی سرخیاں اور بھی ہیں
“مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں“
مقاصد کو زیر و زبر کر کے لڑنا
نتائج سے قطع نظر کر کے لڑنا
سنان و تبر تیز کر کر کے لڑنا
اگر کر کے لڑنا، مگر کر کے لڑنا
کہیں دو “وڈیرے“ جو لڑ بیٹھتے ہیں
تو سارے “بٹیرے“ بگڑ بیٹھتے ہیں
امامت کے تھے مدعی خشک و تر میں
سیاست میں، دانش میں، فکر و نظر میں
مقام ان کا اونچا ہے نوع بشر میں
کہ رہتا ہے اکثر فساد ان کے گھر میں
ہوس کی غلامی، شکم کی خدائی
گلا کاٹ دیتا ہے بھائی کا بھائی
مقدر میں بھوک، اور گرد سفر ہے
بسیرا اگر ہے، تو “فٹ پاتھ “ پر ہے
نہ کھانے کو روٹی ، نہ رہنے کو گھر ہے
گزر زندگی کا سرِ رہگزر ہے
وہ مردہ پڑا ہے، یہ گھائل پڑا ہے
سرِ راہ حل مسائل پڑا ہے
دفاتر کا آئین و دستور رشوت
تہی دست لوگوں سے بھر پور رشوت
وہ بیش توفیق و مقدور رشوت
جوانی پہ ہے “چشمِ بددور“ رشوت
عجب حرص دولت کا یہ رقص و رم ہے
کہ جیسے ضرورت بہت، وقت کم ہے
مہاجر کی آباد کاری پہ رشوت
وساور کی “لیسنسداری “ پہ رشوت
الیکشن کی امیدواری پہ رشوت
وزارت کی پروردگاری پہ رشوت
جو سائل اصولی مثالی رہے گا
وہ بھر پور دنیا میں خالی رہے گا
مکانوں کی آرائشیں بڑھ گئی ہیں
مکینوں کی آسائشیں بڑھ گئی ہیں
خیانت کی گنجائشیں بڑھ گئی ہیں
کہ بیگم کی فرمائشیں بڑھ گئی ہیں
حدیں کچھ ورائے گماں اور بھی ہیں
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“
امیر اپنے، آرام فرمانے والے
ہر اک ساحلِ نو پہ رقصانے والے
مے ناب و برفاب و جمخانے والے
غریبانِ ملت سے کٹ جانے والے
یہ دوری کوئی بے سبب تو نہیں ہے
محلے کی مسجد کلب تو نہیں ہے
یہ رم اور رمی کے بیمار صاحب
جوئے اور گھڑ دوڑ کے یار صاحب
سمور اور ریشم کے مینار صاحب
رباط اور روما کے سیار صاحب
وہ شیری دھری ہے، یہ وہسکی پڑی ہے
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی ہے
نہ یہ کارواں میں، نہ یہ کارواں سے
نہ جانے یہ لوگ آگئے ہیں کہاں سے
جو اپنی زباں سے، کہیں کچھ زباں سے
تو لب پھڑپھڑاتے رہیں رائیگاں سے
شلر اور شیلے کو سب جانتے ہیں
مگر میر و غالب کو کب جانتے ہیں
زمیں دار ، کاروں کو دوڑانے والے
زر و مال مجروں پہ برسانے والے
کلف دار شملوں کو لہرانے والے
نمک خوار کتوں کو لڑوانے والے
لگائو ادب سے، ہنر سے، نہ فن سے
دھواں اُٹھ رہا ہے، دلِ انجمن سے
یہ مانا بشر دیوتا بھی نہیں ہے
یہ جینا نری اک سزا بھی نہیں ہے
فراغت شے ناروا بھی نہیں ہے
حیات بشر دیر پا بھی نہیں ہے
مگر دین و ملت کا احساس کچھ تو
غریبوں کی ذلت کا احساس کچھ تو
جو جینا ہو تو رہنمائی کرو تم
جو دانا ہو عقدہ کشائی کرو تم
غنی ہو تو حاجت روائی کرو تم
بڑائی یہی ہے، بھلائی کرو تم
بڑے شوق سے اپنے جلسے منائو
امیروں ، غریبوں کے بھی کام آئو
نہ منشور اپنا، نہ دستور اپنا
قدم راہ چلنے سے معذور اپنا
مگر شور ہے دور سے دور اپنا
گلا کام کرتا ہے بھر پور اپنا
سید ضمیر جعفری