مسلئہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود

ابن محمد جی

محفلین
ایک ایسے طالب علم کی آپ بیتی جو خرد کی گھلتیوں سے مسلئہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کو سمجھنا چاہتا تھا آخر ایک صاحب حال کی صحبت نے اس پر اصل حقیقت افشاں کردی۔
پروفیسر محمد اسلم گوندل ۔ ایم اے انگلش۔ڈی ۔ ای۔ایل ۔ٹی
جب میں نے ایم ۔اے ۔اسلامیات پارٹ۔۲ کے امتحان کی تیاری شروع کی تو تصوف کے پرچے میں سب مشکل فلسفہ وحدت الوجودکو سمجھنے میں پیش آئی۔ اس سے ملتے جلتے خیالات یونان کے فلاسفرز اور ہندو برہمنوں نے بھی پیش کئے ہیں ۔ایسی کیفیات اولیاے کرام کے تذکروں ميں بھی ملیں اور صوفیاے کرام کی تعلیمات میں بھی ۔ مقدمین اور متاخرین کے بعد میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ جس کو بھی پڑھا الجھن میں اضافہ ہی ہوا۔ صوتحال یہ تھی کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔۔۔۔ مریض عشق پر رحمت خدا کی
یہ فلسفہ صرف امتحانی نقطہ نگاہ سے ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ تصوف کے ایک طالبعلم کی حثییت سے اسے سمجھنا بھی ضروری تھا۔ شیخ مکرم حضرت امیرمحمد اکرام اعوان مد ظلہ عالی سے بیعت کا شرف ۱۰۔جنوری ۲۰۰۱ء کو ہوا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ ہو گیا ہےکہ کسی مسئلہ کے بارے میں مشکل پیش آئے تو حضرت جی کے کسی نہ کسی خطبہ ميں اس کا حل ضرور مل جاتا ہے۔چنانچہ فروری ۲۰۰۷ کا ماہنامہ المر شد آیا تو اس میں کسی صاحب نے یہی سوال حضرت جی سے کیا تھااور حضرت جی کا جواب درج تھا۔جوں جوں پڑھتے گئےذ ہین کی گرہیں کھلتی گئیں اور وہ نکتہ جو مقدمین کی تحریروں سے گنجلک تر ہو گیا تھا وہ فورا سمجھ میں آگیا۔ الحمدللہ۔ ( امتحانی پرچے میں بھی یہ سوال موجود تھا )
۱۳ دسمبر ۲۰۰۷کو حضرت جی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا تو حضرت جی نے فرمایا کہ ایک بزرگ آئے تھے جنہوں نے کہا کہ انہوں نے اس مسئلہ کے بارے میں بہت پڑھا ہے مگر سمجھ نہیں آئی۔انہیں تو حضرت جی نے فرمایا کہ میاں جس مکتب میں یہ تعلیم دی جاتی ہے تم نے تو اس کا دروازہ تک نہیں دیکھا پھر سمجھ کیسے آئے۔ مجھے حضرت جی نے فرمایا کہ چونکہ بہت سے جویان حق اس فلسفہ کو سمجھتے سمجھتے خود کھو گئے۔تم تحقیق کر کے اس فلسفہ پر روشنی ڈالو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت جی کی یہ بات سن کر فوری طور پر یہ یقین ہی نہیں آیا کہ میں اس قابل ہوں کہ حضرت جی سے مخاطب ہیں مگروہ مجھی سے مخاطب تھے ۔ بلکہ جب واپس پہنچا تو حضرت جی مد ظلہ عا لی کا گرامی نامہ ملا جسے بوسہ دے کر کھولا تو اس میں بھی یہی حکم تحریر تھا اب بات یہ نہیں کہ میں اس قابل ہوں یا نہیں جب حضرت جی مد ظلہ عا لی نے فرما دیا تو راہنمائی بھی وہی فرمائیں گے۔
وحدۃ الوجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟
دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وحدۃالوجود جیسے انتہائی نازک اوراختلافی فلسفہ کی ضرروت ہی کیوں پیش آئی ۔ نا چیز اپنی کم علمی و کم مائیگی کا پورا پورا احساس رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے : کنت کنز مخفیا فا حببت ان اعرف فخلقت الخلق:
ترجمہ : "میں ایک مخفی خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے اس لیے میں نے خلقت پیدا کی"
اس مخلوق کا سر تاج اور اپنا نائب حضرت آدم کو بنایا ۔ اس میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں سے اسے سجدہ کرواکر تمام مخلوقات میں اس کے شرف کا اعلان فرمایا ۔ اب اس جسد خاکی میں مقید روح چونکہ عالم امر سے ہے "قل الروح من امر ربی " اس لئے وہ اپنے وطن حقیقی کی طرف مراجعت کرنا چاہتی ہے اور اپنے خالق کی ذات حقیقی کی کششں اسے طرح اپنی طرف کھینچی ہے کہ وہ بیقرار ہو کر اس کی تجلیات میں گم ہونا چاہتی ہے جیسے قظرہ ندی میں ندی دریا میں اور دریا سمندر میں مل کر اپنی ہستی کو نیستی میں بدل کر امر ہونا چاہتا ہے۔ بقول اقبال :
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
(سزا یہی ہے کہ مجھے مٹا کر اپنی ہستی میں سمولے)
یا غالب نے کہا تھا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتاتو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یہ خواہش،یہ تڑپ اور یہ لذت آشنائی جن ارواح زندہ کو بیقرار رکھتی ہےوہ رات کی خلوتوں میں جاگ جاگ کر اپنے مالک کے حضور گر یہ و زاری کرتے ہیں اور ایک ہی رات میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کر جاتے ہیں حتیٰ کہ رات ختم ہوجاتی ہے مگران کے ذوق کی تسکین نہیں ہوتی :
بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را
ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان پر اللہ تعالی کی تجلیات ذاتی وصفاتی یوں جلوہ فگن ہوں کہ وہ مد ہوشی کے عالم میں یہ پکار اٹھیں :
من تو شدم ، تو من شدی ،من تن شدم ،توجاں شدی
تا کس نہ گوئد بعد ازاں ، من دیگرم تو دیگری
اللہ تعالی کی معرفت کا حصول ہی مقصد تخلیق آدم ہے اور اسی ہستی واحد کی پہچان ہی مقصود باری تعالی بھی ہے ۔ اسی تڑپ نے عاشقان بلند نگاہ اور طالبان صادق کو بیقرار رکھا اور انہوں نے اپنے نہاں خانہ دل میں اپنے ما لک کو یوں سمویا کہ انہیں بجز اپنے اور کوئی نطرنہ آیا ۔ اس راہ میں سالک کو منازل ومقامات ، کشف وکرامات ،ذکر وفکر ، ذوق و شوق ، سوزو گداز، علم وانکشاف اور ایسی کیفیات میسر آتی ہیں جن کی کراماکاتبیں کو بھی خبرنہیں ہوتی۔
میاں عاشق و معشوق رمزیست ۔۔۔۔۔۔ کراماکاتبیں را ہم خبر نیست یا پھر بقول خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی:
نہ وصل بماند و نہ واصل
آنجا کہ خیال حیرت آمد
اور عاشق صادق دنیا و مافیہا کو بھلا کر مست شراب الست ہو جاتا ہے
من ہماں د م کہ وضو سا ختم از چشمہ عشق
چار تکبیر زد م یکسرہ بر ہر چہ کہ یست
قطرہ سمندر سے ملا تو وہ سمندر کہلایا ۔ کسی عاشق صادق پر تجلیات صفات باری یوں جلوہ فگن ہوئیں کہ وہ خود توفنا ہو گیا مگر اسی فنا میں اسے اپنی بقا بصورت وجود باری محسوس ہوئی۔ ایسے میں کوئی تو نرمی سے بولا: بلہیا کی جاناں میں کون ؟اور کس نے نعرہ "انا الحق" بلند کر کے سولی پہ چڑھنا قبول کیا توکس نے "اعظم وشانی"کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔ لیکن یہ سزائیں ان کے نشہ عشق کو دوآتشہ ہی کرتی گئیں کیونکہ"یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے"قصہ مختصرآپ ایسے عاشقان صادق کو پاگل کہیں ،مجذوب کہیں عقل و خرد سے بیگانہ قراردیں،یا مجنون کے خطاب سے نوازیں،ایسے الوالعزم موجود رہے ہیں اور ہیں جو "یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ "سے کم راضی نہیں ہوتے ۔ انہیں سولی پہ لٹکایا جائے ،ان کے سر قلم کیا جائے، ان کو جلاکر ان کی راکھ ہوامیں اڑا دی جائے ، انہیں پرواہ نہیں ۔انہیں یہی حسرت رہتی ہے کہ کاش ان کی راکھ ہی کوچہ یار تک جا سکتی :
بعد ازفنا بھی لے نہ گئی کوئے یار میں
کیا بار تھا صبا میرے مشت غبار میں
زنان مصرحضرت یوسف علیہ السلام کے حسن میں گم ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ لیتی ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا تو حسن حقیقی کا نظارہ کرنے والوں کو تلوار کی کاٹ سے کیا خطرہ ؟ رب ارنی کہنے والے اس بات کی پرواہ کب کرتے ہیں کہ جواب میں لن ترانی سننا پڑے گا ۔ تجلیات باری خرمن دل کو جلاکے راکھ کردیں تو راکھ سے بھی رب ارنی کی صدائیں بلند ہوں گی کیو نکہ۔ من نمی گوئم انا الحق ، یارمی گوئد بگو
لب بام بھی پکارا ، سر دار بھی صدا دی
میں کہا ں کہاں نہ پہنچا تیری دید کی لگن میں
با ت بہت لمبی ہو گئی ۔ شیخ مکرم نے ارشاد فرمایا تھا کہ عاشقان با صفا کے اقوال و احوال کی روشنی میں مسئلہ وحدۃالوجود اور وحدۃالشہود کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ یاد رہے کہ زمانہ قدیم سے نظریہ وحدۃالوجود کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے ۔ البتہ اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ حضرت علامہ ابن عربی نے پیشں کیا ۔ جب جاہلوں کی محفل میں یہ نظریہ آیا تو اس سے جو گمراہی پھیلی اس کا تدارک کرنے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی نے و حدۃالشہود کانظریہ پیش کیا ۔
وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود:
وحدۃالوجود کی سادہ اور آسان تعریف کر یں تو اس سے مراد "ایک ہو جانا" ہے یعنی اللہ تعا لی کی ہستی میں گم ہو جانا۔اور وحدۃالشہود سے مراد "ایک دیکھنا ہے"یعنی چاروں طرف" تو ہی تو "ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالٰی دیکھا ہے ۔ وحدۃالوجود کی خصوصیت یہ ہے کہ توحید الہٰی کے غلبہ، سرور اور کیفت کے دوران میں سالک و جدانی طور پر ذات الہٰی میں ایسا محوو مستغرق ہوتا ہے کہ وجود باری کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ سالک کے قلب و ذہن سے ما سوا اللہ یکسر دور ہو جاتے ہیں اور صرف وجود حق کا ادراک و احساس ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ اس کیفیت میں سالک کا نعرہ ہوتا ہے ۔"ہمہ اُوست"۔ اس کیفیت کو لوائح جامی میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
ہمسایہ وہم نشین ویمرہ ہمہ اوست
در دلق گدا واطلس شاہ ہمہ اوست
در انجمن فرق ونہاں خانہ جمع
با للہ ہمہ اوست ، باللہ ہمہ اوست
یہاں شاید تفصیل تو بیان کی نہیں جاسکتی مگر صوفیا نے تو حید کی جو قسمیں اور درجات بیان کئے ہیں ان کے نام لکھے دیتا ہوں:
اول تو حید شریعت ، دوم توحید طریقت ،(توحید افعالی ،صفاتی ،ذاتی )سوم توحید حقیقت (اس کے نو مراتب ہیں )،چہارم توحید معرفت جسے توحید ازلی ،ذاتی ،قدیمی اور الہٰی بھی کہتے ہیں ) بعض صوفیا نے تو حید کی قسمیں :وجودی، شہودی ،عینی اور ظلی بتائی ہیں ۔
مقتدمین کے نزدیک وحدۃالوجود
اب ہم متقدمین کے روشنی میں وحدۃالوجود کے بارے میں ان کے عقاید کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ کسی نبی یا رسول نے وحدۃالوجود کی نہ تو تعلیم دی اور نہ ہی ایسا کو ئی دعویٰ کیا۔ انبیائے کرام اللہ تعالٰی کی عطا کردہ شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے اور انہوں نے اپنے اس فرض منصبی کو کما حقہ، ادا کیا ۔ نبی کریمﷺ کے صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین تک ادوار کو خود نبی رحمت ﷺ نے خیر القرون فرمایا ہے۔ اس کے بعد جب معرفت الہٰی کے حصول کے لیے سخت مجاہدہ کی ضرورت پیدا ہوئی تو طالبان حق نے اس راہ پر چلتے ہوئے مختلف منازل طے کیں ۔ انہیں منازل میں کوئی ایک کیفیت سے دوچار ہوا تو کوئی کسی دوسری کیفیت سے۔ یہ بھی یادرہے کہ کیفیات کا احساس صرف صاحب کیفیت کو ہی ہوتا ہے۔ اسے بانٹا نہیں جا سکتا ۔چنانچہ سالکان راہ حق نے اپنی اپنی کیفیت کے مطابق ذات حق کا ادراک کیا اور اسے بیان کیا۔ صوفیائے کرام کی فہرست میں ایسے بہت سے نام ملتے ہیں جو وحدۃالوجود کے قائل تھے۔ اگرچہ ان کے احوال و درجات میں بھی تفاوت ہے۔
ا۔شیخ لاسلام ابو اسماعیل عبداللہ الا نصاری الہروی متوفی 481ھ وحدۃالوجود کے قائل تھے
وہ اپنی کتاب "منازل السائرین " کے بارے "الا تصال " میں فرماتے ہیں ۔ ترجمہ : "تیرا درجہ اتصال لوجود کا ہے ۔ اس اتصال کے محض نام اور اشارہ کے سوا ہم اور کچھ نہیں سمجھ سکتے ۔ نہ اتصال کی صفت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ مقدار کو "اسی کتاب کے "باب الفناء" میں فرماتے ہیں ۔فنا کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ علمی اعتبار سے فنا کا ہے ۔ وہ اس طرح کہ معروف یعنی ذات باری کی معرفت میں فنا ہو جائے ۔ دوسرا درجہ فنا مجدا کا ہے اور وہ اس طرح کہ جو کچھ طالب دیکھنے وہ معاین یعنی خدا فنا ہو جائے۔ تیسرا یعنی آخری درجہ درجہ حقیقی فنا کا ہے اور وہ اس طرح کہ طالب وجود میں فنا ہو جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ ابن اقیم نے منازل السائرین کی شرح لکھی اور تاویلیں کر کے وحدۃالوجود کو وحدۃالشہود بنا دیا۔
وحدۃالوجود اور حضرت خواجہ جنید بغدادی ، حضرت با یزید بسطامی ، حضرت شبلی:
حضرت خواجہ جنید بغدادی نے جب کہا "لیس فی الجبۃ الاللہ " تو ظاہر ہے ان پر بھی اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہو گی جس میں تا کس نہ گو ئد بعد ازاں من دیگری" والا معاملہ ہوتا ہے۔ اور ابو علمی دقاق بھی اسی کیفیت میں ہوں گے جب انہوں نے کہا :ترجمہ :"میں نے تجھے دیکھ لیا ہے اسی لیے تو میں تمہیں چاہتا ہوں ۔میں نے اپنے آپ کو بیچ کر تمہیں خریدا ہے ۔"حضرت با یزید بسطامی پکارے : سبحانی ما اعظم و شانی ۔ حضرت شبلی نے بر سرمنبر کہا : انا اقول وانا اسمع وھل فی الدارین ، غیر ی (میں کہتا ہوں اور میں سنتا ہوں ۔ بھلا میرے سوا دونوں جہانوں میں کون ہے ؟) طوالت کے ڈر سے دیگر بہت سے صوفیا کرام کا حوالہ نہیں دیا جا رہا ۔اگر اس موضوع پر کتاب لکھنے کا حکم ہوا تو اس میں دیگر صوفیا کرام کے حوالہ جات موجود ہوں گے ۔
وحدۃالوجود اور حضرت ابن عربی
ہم باقی متقدمین کو چھوڑکر حضرت شیخ محی الدین محمد علی الہاتمی الا ندلسی الد مشقی المعروف بہ حضرت ابن عربی کی طرف آتے ہیں کہ وہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور اسی بات کی طرف شروع میں بتایا گیا ہے ۔کہ جو کچھ بیان کیا ہے ۔ اس کے لیے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گی ہیں جن کو سمجھ لیناعوام تو کجا خواص کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
حضرت ابن عربی اپنی مشہور زمانہ تصنیف فصوص الحکم کے فص حکمتہ قدوسیہ فی کلمتہ ادریسیہ میں لکھے ہیں :
ترجمہ : " پس حق تعالٰی بذاتہ علی ہے ۔ با ضافت علی نہیں ۔ کیوں اعیان ثابتہ و معلومات الہیہ جن کو و جود خارجی نہیں،ہنوز ختم عدم میں ہیں۔ ان کو وجود خارجی کی ہوا تک نہیں لگی۔ پس اعیان ثابتہ باوجود موجودات خارجیہ میں متعدد معلوم ہونے کے ہنوز اپنے عدم اصلی پر ہیں ۔ اور ذات جو مجمو ع صور تجلی ہے ۔ مجموع اور کثرت سے بحثییت تقدئی ظاہر اور مجموع اور کثرت میں بحثییت اطلاق باطن ہے ۔اگرچہ خلق ، خا لق ، سے متمیز ہے ۔ مگر حقیقت ووجود کے لحاظ سے ایک ہی شے خالق بھی ہے ۔ اور وہ مخلوق بھی۔اور وہ مخلوق بھی ہے اور خالق بھی ۔ تمام مخلوفات ایک ہی عین حقہ سے ہیں ؟ نہیں ۔ بلکہ وہی عین و ذات واحد حقہ اعیان و ذوات کثیر میں نمایاں ہے۔"
اتصال حکمت مہمیتہ کلمہ ابراہیمیہ میں فرماتے ہیں :ترجمہ : "مرزوقین کی غذارزق سے ہوتی ہے ۔ رزاق ذات مرزوق میں یعنی کھانے والے تن میں اس طور سرایت کرتا اور داخل ہوجاتا ہے کہ کوئی عضو یعنی بغیر سریان غذا کے باقی نہیں رہنا ۔ اس طرح حضرت خلیل اللہ تمام مقامات الہی میں سرایت کر گے ۔ کیفیت کچھ یوں بیان کی جاسکتی یے کہ:
ولیس لہ سوای کرنی فنحن لہ کنجن لنا
ترجمہ : پس اگر حق تعالٰی ظاہر ہو ۔تو مخلوق اسی میں پوشیدہیےاور تمام مخلوقات حق تعالٰی کی صفات واسماء (کے مظاہر ) ہیں ۔ یعنی سمع اور بصر اسی کی ہو گی ۔ اور یہ مخلوقات مجموعی طور پر نسبتیں اور حق تعالٰی کی ادرکات ہو گی ۔ لیکن اگر مخلوق ظاہر ہو تو حق تعالی مخلوق میں پوشیدہ اور باطن ہو گا ۔ پس حق تعالٰی مخلوق کی سمع،بصر اور اسکے پاوٰں اور ساری قوتیں ہو گا جیسا کہ خبر صیحح میں آیا ہے ۔ پھر اگر حق تعالٰی کی ذات ان نسبتوں سے عاری ہو تی تو حق کی ذات معبود نہ ہوتی ۔یہ وہ نسبتیں ہیں جن کو ہماری اعیان نے پیدا کیا ۔ تو اس لیےہم نے ذات مطلق کو اپنی عبادت کے سبب معبود گردانا ۔ حق تعالٰی تب تک نہیں پہچانا جاتا جب تک ہم نہ پچانا جائیں ۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔اور حضور ﷺ ہی مخلوقات میں دانا ترین ہیں ،۔ ( فص کلمہ ابراہیمیہ ) تر جمہ : پس ہم کہتے ہیں جان لے تو اے سالک ۔ کہ جس چیز کو ماسوی اللہ کہا جاتا ہے اور یا اسے عالم کہتے ہیں تو وہ بہ نسبت حق تعالٰی سایہ کے مانند ہے ۔ جیسے کسی شخص کا سایہ ہوتا ہے۔ پس وہ ماسوی اللہ اور عالم اللہ تعالٰی ہی کا سایہ ہے ۔(فص یوسفیہ) بحثییت مجموعی تمام موجودات حق تعالٰی کی صفات کے مظاہر ہیں جو ہر اول مظہر صفات ذات ہے ۔جیسے عل وقدرت اور اسی طرح عقول ونفوس ، افلاک ،ستارے ۔ طباع سب مظاہر صفات افعال ہیں جیسے ایجاد ، اعدام ، احیاء اور امانت وغیرہ،
حضرت ابن عربی فص حکمت کلمہ اسماعیلیہ میں اعتبارات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "اب تجھ کو دو معرفتیں حاصل ہوں گی ۔ ایک معرفت نفس ورب کی با عتبار تیرے نفس کے نہ اور دوسری معرفت نفس ورب کی با اعتبار رب کے اور اسکے مظہر ہونے کے۔یہ معرفت با اعتبار تیرے نفس کہ نہ ہو گی ۔فانت عبد و انت رب ۔۔۔۔۔۔۔۔ لمن لہ فیہ انت عبد
تو بندہ ہے اور تو رب سے جدا نہیں ہے۔ کس کا بندہ جس سے تو نے الست بر بکم کے جواب میں بلٰی کہہ کر اقرار عبدیت کیا ہے ۔ وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالٰی کے کوئی موجود رہا ہی نہیں ۔ پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ کوئی جدا ہے ۔ دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ دلیل کشف وعیان اسی کو ثابت کرتی یے ۔ لہذا میں جب اپنی دو آنکھوں سے گھور گھور کر خوب غور سے دیکھتا ہوں تو اس کی ذات کے سوائے کچھ نہیں دیکھتا ۔"باقی فصوص کو چھوڑ کر میں اپنی بات حضرت ابن عربی کے اس قول پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے فص حکمت کلمہ لوطیہ میں فرمائی ہے : ترجمہ سر نفس الامراورقد ر ظاہر اور واضح ہو گیا ۔اور کثرت میں وحدت داخل ہو گی ۔عالم میں حق کے جلوے ہیں ۔ ہر جفت میں واحد ہوتا ہی ہے ۔ اعداد کا دارہ مدار وحدہی پر ہے۔"اس طرح حضرت ابن عربی کے فلسفہ کےمطابق "ہمہ اوست "موجود ہے اورر باقی معدوم ہے
وحدۃالوجود کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں میں آواگون، تنا سخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد
اتحاد حلول" :سچی بات تو یہ ہے کہ متقد مین اور حضرت ابن عربی نے نظریہ وحدۃالوجود کو ایسے الفاظ میں پیش کیا جو ہر کسں وناکس کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا تھامگر جاہلوں نے وحدۃالوجد کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں آواگون، تناسخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد کو تصوف کے پا کیزہ علم میں داخل کردیا۔ عقیدہ وحدۃالوجود کی ترویج کا نتیجہ شریعت اسلامی کے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا ۔ یہ کیفیت جو استثنائی صورت میں معدود ے چند حضرات کو وہی حاصل تھی جب عوام تک پہنچی تو اکبر کے عہد حکومت میں دین الہٰی کی بنیاد بنی ۔ اسی سے ہندووں کے عقیدہ حلول کو تقویت ملی ۔ عیسائی مشزیوں کے عقیدہ تثلیت کے ثبوت کے لئے بھی یہی پیش کی جانے لگی ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعوایدار بھی ظلی نبی اور کبھی حلولی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے لگے ۔ غرضیکہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں ہندووں کے زیر اثر اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مزاق اڑایا جانے لگا ۔ بد قسمتی سے برصغیر ہند میں صوفیوں کے ایک گروہ نے ہندووں کے ویدانتی فلسفہ سے متاثر ہو کر غیر اسلامی وغیرشرعی فاسد نطریات کی تبلیغ واشاعت مسلمانوں میں شروع کردی ۔ انہیں میں سے بعض نے وحدۃ الوجود کے نظریہ کو بنیاد بنا کر "اتحاد حلول " کا نظریہ پیش کر دیا ۔ اور اس طرح گمراہی پھیلانا شروع کردی ۔ ہرکس نا کس دعویٰ کرنے لگا کہ عالم میں جو کچھ ہے بس خدا ہی ہے ۔ زمین وآسمان ، شجروحجر، نباتات وجمادات غرضیکہ سب کچھ خدا ہی ہے (معاذاللہ )
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایا ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
 

ابن محمد جی

محفلین
وحدۃ الشھود :
توحید خالص کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مجدد والف ثانی نے فرمایا :
ترجمہ : ایک توحید شہودی اور دوسری توحید وجود دی ۔ توحید شہودی ، ایک دیکھنا ، ہے یعنی ایک کے سوا سا لک کو کچھ مشہود نہیں ہوتا ۔ اور توحید وجودی ایک کو موجود جاننا اور اسی کے غیر کو نابود سمجھنا اور غیر کو معلوم جاننے کے باوجود اسے ایک مظہر اور جلوہ خیال کرنا ہے ۔ پس توحیدوجودی علم الیقین کی قسم ہے اورتوحید شہودی عین ایقین کی قسم سے ہے ۔ ،(مکتوبات امام ربانی جلد اول مکتوب 43)
عقیدہ وحدۃ الوجود کا رد کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی نے خان جہان کے نام اپنے مکتوب (مکتوب نمبر 67جلددوم ) میں تحریر فرمایا :
"حق تعالٰی کس چیز کے ساتھ متحد نہیں یوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے ۔ نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے نہ وہ کسی چیز میں حلول کرتا ہے "
وجدۃالوجودی صوفیا کی ایک کثیر تعداد نے شریعت کو طریقت کے تابع کرکے تصوف کے نام پر بہت سی بدعات رائج کر لی تھیں ۔ چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات (مکتوبات نمبر 221-جلد اول) میں ان عبادتوں اور ریاضوں کی جن کو صوفیا ء نے سنت نبوی اور شریعت سے ہٹ کر احتیار کیا تھا ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں ۔ ترجمہ :
"وہ ریاضتیں اور مجاہدے جو سنت کی پیروی سے ہٹ کر اختیار کریں وہ معتبر نہیں ہیں کیونکہ جوگی ِ برہمن اور یونان کے فلاسفر بھی اس امر میں شریک ہیں ۔"(مکتوبات امام ، ربانی جلد اول مکتوبات 121) آپ نے زوردے کر کہا کہ سنت کو لازم پکڑنا چاہیے ۔ احکام شرعیہ کے نفیس موتیوں کو بچوں کی طرح وجدوحال کے جو ز و مویز کے غوض نہ دیں۔ نفس کو چھوڑ کر فص کی طرف نہ جائیں ۔آپ نے "ہمہ اوست " کی بجائے "ہمہ ازاوست " کی تلقین کی ۔ آپ نے زوردے کر کہا کہ ہر مسلمان کو اپنے عقیدئد کتاب وسنت کے مطابق درست کرنے کی ضرورت ہیں ۔ بعض نام نہاد عارف شرعی احکام کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے ۔ مگر جو بھی ایساسمجھتا یے وہ جاہل ہے ۔شریعت کی پابندی کی پابندی کیے بغیر اعمال کا احتساب اور قلب کی سلامتی ناممکن ہے ۔ احوال باطنی کا احکام شعریعت سے آراستہ ہونا ضروری یے۔"
بد قسمتی سے داراشکوہ اور اس کے حواری دانشوروں نے بھی وحدۃالوجود کی آڑ میں "ہمہ اوست" کے نظریہ کا کھلم کھلا پر چار شروع کر دیا ۔ خوشامدی درباریوں نے داراشکوہ کو یقین دلایا کہ وہ تصوف کی تمام منازل طے کر چکا ہے اور " فنا فی اللہ "کے مرتبہ پر فائز ہے ۔ چنانچہ دارا نے شریعت ترک کی اور کہا کہ جب وہ " فنا فی اللہ" کے درجے پہ پہنچ چکا ہے تو پھر اپنی ہی عبادت کیوں کروں ؟ اسی طرح کے عقائد سرمد کے بھی تھے جو وحدت ادیان کا قائل تھا ۔ اس نے بھی الوہیت کا دعویٰ کیا جس کی پاداش اسے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں قتل کیا گیا ۔
ہر بد عتی اور گمراہ اپنے عقائد فاسدہ کی بنیاد کتاب و سنت ھی پر رکھتا ہے
شیخ احمد سرہندی نے علم جہاد بلند کرکے اور پیروان اسلام کی زندگی کو مشرکارنہ رسوم ۔ ملحدانہ عقائد اور غیر شرعی ر جہانات سے پاک وصاف کیا تھا اور ایک با پھر کتاب و سنت کے احکام کی تجدید کی۔ان کی تعلیم تھی کہ ہر مسلمان خواہ بادشاہ ہو یا ادنیٰ رعایا ، عالم ہو یا جاہل ، امیر ہو یا غریب ،عارف ہو یا سالک اپنے عقائد کو کتاب و سنت کے مطابق درست کرے ۔ کتاب و سنت سے جو علوم مستعار ہیں ان میں سے وہی معتبر ہیں جن کو بزرگ نے سمجھا اور اخز کیا ۔ ورنہ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے عقائد فاسدہ کی بنیاد کتاب و سنت ہی پر رکھتا ہے ۔ پس قرآن و حدیث سے جو شخص جو معنی سمجھے وہ سب معتبر نہیں ۔ اعتقاد صیحح وہی ہے جس کو علماء اہل سنت نے کتاب وسنت وآثار سلف سے سمجھاہو ۔ اگر بالفرض کشف والہام سے جمہور علما ء کے خلاف کسی نص کے معنی معلوم ہوں تو اس کا اعتبار نہیں بلکہ اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ نجات ابدی اور فلا ح سرمدی اسی میں ہے کہ ان ہی علما ء کا متبع رہا جائے جہنوں نے صحابہ اکرام اور سلف صالحین کے سر چشمہ ہدایت سے فیض اٹھایا یے ۔ بعض عارف شرعی احکام کی پاپندی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں ۔مگر جو عارف ایسا سمجھتا ہے وہ جاہل ہے ۔ عبادت کی جتنی ضرورت عارفوں کو ہے مبتدیوں کو اس کے دسویں حصہ کی بھی حاجت نہیں۔ شریعت کی پابندی کے بغیر اعمال کا احتساب اور قلب کی سلامتی نا ممکن ہے جو شخص باطن کو درست کرتا ہے اور ظاہر کو یونہی چھوڑ دیتا ہے وہ ملحد ہے ۔اگر اس کوکچھ باطنی احوال حاصل ہوں تو اس کے حق میں استدراج ہے ۔ احوال باطنی کا احکام شریعت سے آراستہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر علوم لدینہ کی مطابقت صریح علوم شرعیہ سے نہیں تو ایسے تمام علوم کو حاصل کرنا الحاد اور بے دینی ہے۔طریقت سے ہٹ کر جوریاضتیں اور مجاہدے لوگ کرتے ہیں ان کا کچھ وزن اور اعتبار نہیں۔ایسی ریاضیتں تو یونان کے فلسفی اور ہندوستان کے برہمن اور جوگی بھی کرتے ہیں ۔ لیکن انہیں گمراہی اور خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اپنے ایک اور مکتوبات میں حضرت مجدد الف ثانی لکھتے ہیں:' تیسرا گروہ وحدۃالوجود کا قائل ہے ۔ یعنی خارج میں فقط ایک ہی 'ذات، موجود ہے اور وہ حق تعالٰی کی ذات یے اور عالم کا خارج میں علمی ثبوت کے سوا ہر گز کوئی ثبوت ثابت نہیں ہے ۔ کہتے ہیں کہ اعیان نے وجود کی بو نہیں سونگی ۔ اور اگرچہ یہ لوگ بھی عالم کو حق تعالٰی کا ظل کہتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ ان کا ظلی وجود صرف مرتبہ حس میں ہے۔ مرتبہ نفس الامراور خارج میں عدم محض ہے ۔ اور حق تعالٰی کی ذات کو صفات و جوبیہ اور مکانیہ سے متصف جانتے ہیں اور مراتب تنزلات ثابت کرتے ہیں اور ہر مرتبہ میں ذات احد کو اس مرتبہ کے لائق احکام سے متصف کرتے ہیں ۔ اور متلذذاور متالم اسی ذات کو جانتے ہیں ۔ لیکن اس محسور متوہمہ ظلال کے پردہ اور عقلی اور شرعی طور پر بہت سے محظورات یعنی اشکال ان پر وارد ہوتے ہیں ۔ جن کے جواب میں بہت سے حیلے اور تکلیف کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ لوگ اصل وکمال کے درجات کی تفاوت کے موافق واصل وکامل ہیں ۔ لیکن ان کی باتیں خلقت کو گمراہی اور الحاد کی طرف رہنمائی کر کے زندقہ تک پہنچا دیتی ہیں ۔(مکتوبات ربانی – مکتوب 160)
وجود یہ کے بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی رائے :
'وجود یہ کے نزدیک عالم کی حقیقت اسماء وصفات ہیں جو ظاہر وجود پر متجلی ہوئے اور اس سے عالم کے وجود کو خیال پیدا ہوا ۔ جس کی تعمیر کبھی یوں کرتے ہیں کہ وہ معدوم محض ہے ۔ مگر ساتھ ہی احکام کا مورد ہے اور کبھی یوں کرتے ہیں کہ وہ عین حق ہے اور دونوں کا حاصل ایک ہے ۔ اور شہودیہ کے نزدیک عالم کی حقیقت عدمات جن پر اسماء وصفات نے تجلی کی۔جس سے وجود ظلی پیدا ہوا ۔ اس لئے وہ عالم کو نہ معدوم سمجھتے ہیں اور نہ حق۔ ( تجدید تصوف وسلوک ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ) (جاری ہے)
 

ابن محمد جی

محفلین
وحدت الوجود اور شہود پر بہت مباحث ہیں ،ا اس سلسلہ میں عہد حا ضرہ کی ایک عطیم المرتبت شخصیت کی صحبت میں یہ سوال پیش کیا گیا ،اس پر آپ نے یہ جواب عنایت فرمایا ،جوکہ پیش خدمت ہے۔
وحدت الوجوداور وحدت الشھودکے بارے میں شیخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مد ظلہ عالی سے سوال اور اس کا جواب :
سوال ۔اہل تصوف کے دو نظریات و حدت الوجود اور وحدت الشہود کا کیا مطلب ہے ۔وضاحت فرمائیے ۔
(بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)
صوفیا کے مختلف مراقبات اور مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔جس طرح علوم ظاہری میں اسباق چلتے ہیں اسی طرح کیفیات باطنی بھی سبق درسبق چلتی ہیں اور ان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔ جن دوستوں کے اسباق ہیں وہاں تک اور جنہیں مشاہدہ ہے اندازہ فرماتے ہوں گے کہ جب ’’ مراقبہ فنا ‘‘ کیا جاتاہے تو اس میں ہر چیز فنا ہوتی نظر آتی ہے حتیٰ کہ ساری کائنات فنا ہو جاتی ہے کچھ باقی نہیں بچتا ۔ کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ ہر چیز فنا ہوجاتی ہے ۔اس کے بعد جب بقاباللہ کا مراقبہ کیا جاتا ہے ۔و یبقی ٰ وجہ ربک ذوالجلال والا کرام تو ہر وجود کے ساتھ قادر مطلق کے انوارت نظرآتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے وہ قائم ہے تو سامنے سمجھ آرہی ہے کہ قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم رکھنے سے قائم ہیں ۔ اس کے بنانے سے بنتے ہیں اور اس کے مٹانے سے مٹ جاتے ہیں ان کی اپنی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے ۔ جب اس کیفیت سے صوفیا ء گزرے تو انہوں نے کہا کہ وجودراصل ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے ۔جو ازل سے ابد تک ہے ، ہمیشہ ہے ،ہر حال میں ہے ہر جگہ ہے ۔ باقی نہ ہونے کے برابر ہیں اور صرف اس کے قائم رکھنے سے قائم رہتے ہیں اس کے مٹا دینے سے مٹ جاتے ہیں ان کی کوئی ذاتی حثییت نہیں ہے ۔ اسے’وحدت الوجود ‘ کا نام دیا گیا ہے کہ وجود صرف ایک ہے واحد لا شریک ہے۔باقی وجودوں کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ۔شیخ محی لدین عربی ؒ نے جب اس نظر یے کو اپنی کتاب میں جگہ دی اور اس پر بحث فرمائی تو پھر یہ مستقل ایک نظریہ بن گیا ۔ لیکن اس کا مفہوم یہ تھا جو میں عرض کر رہا ہوں۔
کاملین سے جاہلین
یہ بات کا ملین کی تھی ، اہل علم کی تھی ۔بعد میں جب لوگ آئے ان کا کمال نہ علوم باطنی میں اس پائے کا تھا نہ علوم ظاہری میں ان کے علوم اس پائے کے تھے تو اس میں ایک قبا حت آگئی ۔ بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جاتاکہ اللہ ہی باقی ہے جو کچھ ہے یہ فانی ہے سمجھا یہ جانے لگا کہ ہر وجود میں اللہ ہے ۔وحدت الوجود کاجو مفہوم تھا وہ یکسر بدلنے لگا تو یہ ہندؤوں والا عقیدہ بننے لگ تھا جیسے ہر وہ طاقت جسے وہ ناقا بل تسخیر سمجھتے ہیں کہ اس میں بھگوان موجود ہے ۔ بڑا پہاڑ ہوتو اس کی پوجا شروع کر دو، بڑا درخت ہو تو اس کی پو جاشروع کر دو ۔کو ئی بھی جانور ایسا ہوتا جو قابو نہ آئے تو اس کی پوجا شروع کرنا کہ اس میں بھگوان ہے ۔تو وہ اس میں قبا حتیں در آئیں نااہلوں کی وجہ سے وہ یہ تھیں ۔ ان قباحتوں کی وجہ سے حضرت الف ثانی ؒ نے اس کے مقابلے میں کروحدت الشہود کا لفظ دیا کہ ہر چیز ہر وجود اس کی وحدت پہ گواہ ہے یعنی ہر وجود کی ذات ہے وہ اس کی قدرت کاملہ پہ گواہ ہے ۔اس کی شہادت دے ہی ہے تو ان قباحتوں سے بچنے کے لئے اس کی اصلاحی صورت تشکیل دی گئی جس میں خطرہ کم تھا یا نہ ہونے کے برابرتھا ۔اب جسے گمراہ ہونا ہو اور کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھے کہ اللہ کریم اسے رو کر دے تو گمراہ ہوتا ہی ہے ۔
ویھدی الیہ من ینیب قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے لو گ اس کی وجہ سے اعتراض تراش کر گمراہ ہو جاتے ہیں تو جو آب حیات پی کر مر جائے اب اس کا علاج ہے لیکن وہ خطرات ختم ہو گئے اور اصل بات نکھر کر سامنے آگئی ۔ اسے حقوق دے ہیں اسے زندگی سی ہے یا اسے شعور دیا ہے لیکن وہ گواہ ہے اللہ کی قدرت کاملہ پر ۔وہ انسان ہے یا حیوان ہے ‘ جاندار ہے نباتات ہے ، آسمان ہے یا زمین ہے ‘ کوئی وجود بھی ہے تو وہ ایک شہادت دے رہا ہے اور سب شہادت جو ہے وہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ہے ، اس کے خالق اور اس کی قادر مطلق ہونے پر ہے تو یہ ان خطرات سے بچنے کے لئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کیاا صطلا ح سے در آئے تھے ان سے بچنے کیلئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کی اصطلاح سے در آئے تھے ان بچنے کے لئے یہ راستہ اپنایا گیا ۔ وحدت الشہود کا تو یہ اصطلاحات ہیں یہ نظریات نہیں ہیں یہ اصطلاحات ہیں ۔
نظریات یا عقائدوہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیان فرما دئیے ۔( حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مد ظلہ عالی)
نظریات یا عقائد وہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیا ن فرمادئیے ۔اب مختلف کیفیات کے اظہار کے لئے مختلف اصطلاحات ہیں جن سے اس کی کیفیت کا اظہار مطلوب ہے ۔ تو اپنی اصل دونوں درست ہیں ان میں اختلاف نہیں ہے ۔ صرف یہ ہے کی وحدت الوجود جب کہاگیا تو اس میں خطرات درآئے اور بجائے اس کے یہ سمجھاجا کہ ہر وجود جو ہے اسکی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے سمجھایہ جانے لگاکہ ہر وجود اللہ ہے ۔تو اس کی اصطلاح حضرت مجددؒ جو لائے وہ تھی وحدت پر ہے ۔اس کے خالق کائنات ،خالق کل اور قادرمطلق ہونے پر ہے تو وہ نظریات ہیں جن کے پاس علوم ظاہربھی ہوں اور انہیں کمالات باطنی بھی حاصل ہوں ۔تو عموماًاہل علم جو اس شعبے میں آتے ہیں تو یہ ان کے بحث کرنے کی باتیں ہیں اور اپنے علم کے مطا بق اسے سمجھتے ہیں اور اس میں غلطیاں ہوتی ہیں ۔دراصل بات ایک ہی ہے اس کے لئے اصطلاحیں دو ہیں اور یہ بنیادی عقیدہ ہے اسلام کا اس میں سے ہے کہ قائم بذات صرف اللہ ہے باقی ہر چیز فانی ہے اور جسے اللہ بناتا ہے بنتی ہے جسے اللہ مٹادیتاہے مٹ جاتی ہے ۔
کو ئی تشریح ان حدود سے متجاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں
تشریح کی حدود متعین کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:
یہ ایسا فن ہے کہ اسمیں ہر شخص کو اپنی استعداد اور اپنی علمی استعداد جس طرح اللہ کریم نے مختلف استعداددی ہے علم ظاہر کے لئے ۔دو شخص اکٹھے پڑھتے ہیں ایک استاد سے پڑھتے ہیں ایک جیسی کتابیں پڑھتے ہیں لیکن دونوں کی حثییت الگ الگ ہوتی ہے ۔اس لئے کہ دونوں کی اپنی استعداد جو ہے حصول علم کی وہ الگ ہوتی ہے ۔اس طرح بے شمار لوگ اللہ اللہ سیکھتے ہیں ،کیفیات باطنی حاصل کرتے ہیں ایک ہی استاد سے ایک ہی وقت میں کرتے رہتے ہیں لیکن ہر حال الگ ہوتاہے ۔ جس طرح کی کیفیات کی استعداد اللہ کریم نے اسکے وجود میں رکھی ہوتی ہے اس طرح کی کیفیات بھی حاصل کرتاہے اور جس طرح کا شعورو آگہی کا مادہ اس میں اللہ کریم نے رکھا ہوتاہے اسی طرح سے وہ سمجھتاہے ۔تو اصولی بات یہ ہے کہ جو بنیادی عقائدہیں شریعت کے اصل ہیں ۔آگے یہ سب تشریحات ہیں اور کوئی تشریح ان حدودسے متحاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں ۔ان حدودکے اندروضاحتیں ہیں تفصیلات ہیں ۔جیسے قرآن حکیم کی تفسیر میں بے شمار تفصیل لکھی حضرات نے اللہ مفسرین کرام پرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے لیکن اس سب کا معیار یہ ہے کہ وہ جتنی تفصیل میں چلے جائیں وہ تفصیل ان حدود کے اندرہونی چاہئے جو حضوراکرمﷺ نے متعین فرمادیں ۔ شارحیں حدیث نے حدیث مبارکہ پر بڑی لمبی بحثیں فرمائی ہیں۔مختلف لوگوں نے اعتراض کئے ۔حضرات نے ان کے جواب دئیے اور ایک ایک حدیث پر بہت بڑی بڑی لمبی بحثیں ہیں تو شرط بنیادی صرف یہ ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کی مراد رتھی ۔ارشاد سے آپ ﷺ کی مراد کیا تھی اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس کا کیامفہوم سمجھا، اس پر حضورﷺ کے سامنے کیسے عمل کیا اور حضور ﷺ نے اسکی تصدق فرمائی وہ ہوجاتی ہے ۔ ان الفاط سے مراد کیا تھا اس حد کے اندر جتنی تشریح ، جتنی تفصیل ہوتی رہے ۔جب اس حد سے متصادم ہو گی تو باطل ہو جائے گی ۔چو نکہ حق اس کے اندر ہے ۔اس طرح صوفیا کے مراقبات ہوتے ہیں کیفیات ہوتی ہیں مختلف کیفیات سمجھتے ہیں وہ اور ان کی تعبیر ات ان کو دیتے ہیں لیکن اس سب کی شرط یہی ہے کہ شریعت مظہرہ کی حدود کے اندجو کچھ ہے وہ حق ہے جہاں سے کسی کی کیفیت یا کسی کا کشف یا کسی کا الہام شریعت سے متصادم ہوگا تو باطل ہو جائے گا اور شریعت بر حق ہے ۔
وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:
ہوتایہ ہے کہ انبیا ء علیہم الصلوۃ والسلام نے بھی ساری شریعت کشف وا لہام سے ، وحی سے حاصل فرمائی ۔وحی کی کیفیت بھی صرف نبی پہ ظاہر ہوتی ہے کوئی دوسرا جو پاس بیٹھا ہوا اور وحی نازل ہو رہی ہوتو دوسرے کو سمجھ نہیں آتی ۔اس طرح کشف و الہام بھی صاحب کشف والہام پہ وارد ہوتاہے کوئی ساتھ دوسرا بیٹھا ہواسے سمجھ نہیں آتی ۔لیکن نبی کریم ﷺ پر جو وارد ہوتااس میں دوباتیں یقینی تھیں ۔اس میں ایک تو حضور ﷺ پہ جوکچھ واردہوتاوہ حق ہوتا تھا۔اس میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔دوسری بات یہ حق ہوتی تھی کہ جو کچھ حضور پہ وحی یا کشف سے ‘ یا نبی کا خواب بھی وحی الہیٰ ہوتاہے ‘ خواب سے اگر کوئی بات نبی پہ وارد ہوتی ہے تو وہ بھی وحی ہوتی ہے اور وہ بھی برحق ہوتی ہے نہ اس میں شیطان مداخلت کرتا ہے اورنہ اللہ کے نبی کوسمجھنے میں غلطی لگتی ہے۔
صوفیا ء اور انبیا ء کے کشف اور مجاہدہ میں فرق :
جو کشف اور مجاہدہ صوفیاء کو ہوتاہے وہ بھی وہی ہوتاہے جو نبی کو ہوتاہے ۔اس لئے کہ باتباع نبی اور نبی کی اطاعت میں فنا ہونے سے وہ برکات نصیب ہوتی ہیں ۔لیکن یہاں بہت بڑا فرق ہے ۔صوفی کے مشاہدے یا اس کے القایا کشف میں شطان بھی مداخلت کرسکتاہے ۔یہ دونوں خطرات ولی کے ساتھ موجود ہیں جو نبی کے ساتھ نہیں ہیں ،لہٰذاہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا ۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے ۔دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ جو کشف نبی کو ہوتوہے ،جوا لہام نبی ہوتا ہے ،جو وحی نبی پہ آتی ہے ، جو خواب اللہ کا نبی دیکھتا ہے ساری امت اس کی مکلف ہوتی ہے۔پوری امت کو وہ ماننا پڑتا ہے ۔ جو مشاہدہ ولی کو ہوتا ہے کو ئی دوسرا بندہ اس کا مکلف نہیں ۔صاحب مشاہدہ اگر اس کا مشاہدہ شرعی حدود کے اندر ہے تو اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے کہ فلاں کو یہ کشف ہوااس لئے میں یہ عمل کروں ۔ یہ شان صرف انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام کی ہے تو لہذا کو ئی بھی نظریہہو یا اسے آپ اصطلاح کہیں یا کشف کہیں یا مشاہدہ کہیں تو بنیاد شریعت مطہرہ ہے اور ارشادات نبوی ﷺاور قرآن اور حدیث ہے اور سنت ہے اس کے اندر اندر اس کی تشریحات اس کی تفصیلات علماء کو اللہ کریم علم کے راستے بتادیتاہے ،علم کے ذریعے سے سمجھا دیتا ہے اور بڑی بڑی بحثیں علماء حضرات نے فرمائی ہیں اور علما ہی کو مشاہدات بھی نصیب ہوتے ہیں ۔جو اس طرف آجائے اس اللہ کریم کشف اور مشاہدے سے سرفراز فرماتے ہیں ان کے کشف سے کوئی نیا حکم جاری نہیں ہو سکتااور شرعی حدود سے باہر بھی نہیں ہو سکتیں ۔اسلام تو ارشادات نبویﷺ کا نام ہے ، اسلام تو اعمال نبوی کا نام ہے ،اسلام تواخلاق نبوی ﷺکا نام ہے ۔جو حضور ﷺ نے سکھادیا وہ اسلام ہے۔
 
ہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا ۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے
یہ بات ھی سمجھنے والی ھے۔ اگر سب سمجھ جائیں تو جھگڑا ھی ختم۔

ماشاء اللہ بہت ھی مفصل کالم۔۔ اللہ عزوجل آپ کو بہت جزاے خیر عطا فرماے۔ آمین یا رب العالمین۔۔
 

ابن محمد جی

محفلین
ہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا ۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے
یہ بات ھی سمجھنے والی ھے۔ اگر سب سمجھ جائیں تو جھگڑا ھی ختم۔

ماشاء اللہ بہت ھی مفصل کالم۔۔ اللہ عزوجل آپ کو بہت جزاے خیر عطا فرماے۔ آمین یا رب العالمین۔۔
شکریا آپکا ،جزاک اللہ
 
اگر اہل محفل کے علم کے لئے یہاں پر پوسٹ کر سکیں تو عنایت ہوگی، جناب۔
میں نے اس طویل مکتوب کا ترجمہ شروع کیا تھا۔ نصف سے زیادہ کا ترجمہ ہوچکا ہے اور یہاں پوسٹ بھی کیا ہے۔ میرے دستخط میں اسکا لنک موجود ہے :)
 
Top