چوہدری لیاقت علی
محفلین
مسلسل آنکھ میں پانی اچھلتا رہتا ہے
نہ جانے کیا ہے جو مجھ میں پگھلتا رہتا ہے
.......
ادھر ادھر سے مجھے کاٹتا ہے اک دریا
یہاں وہاں سے کنارا نکلتا رہتا ہے
.......
ہرایک بار یہ جانا کہ اس کو جان لیا
مگر وہ شخص تو چہرہ بدلتا رہتا ہے
........
مرے چراغ سے کرلی ہے گفتگو جب سے
یہ آئینہ کسی حیرت میں جلتا رہتا ہے
.......
یہ کون ہے مری آوارگی کے صحرا میں
سفر میں رہتا ہے اور ہاتھ ملتا رہتا ہے
.......
یہ کوہِ خواب ہے جو رات بھر فضاؤں میں
کسی کی یاد کا لاوا اگلتا رہتا ہے
.......
نبیل میں تو کہیں خود کو چھوڑ آیا تھا
یہ کس کا عکس مرے ساتھ چلتا رہتا ہے
نہ جانے کیا ہے جو مجھ میں پگھلتا رہتا ہے
.......
ادھر ادھر سے مجھے کاٹتا ہے اک دریا
یہاں وہاں سے کنارا نکلتا رہتا ہے
.......
ہرایک بار یہ جانا کہ اس کو جان لیا
مگر وہ شخص تو چہرہ بدلتا رہتا ہے
........
مرے چراغ سے کرلی ہے گفتگو جب سے
یہ آئینہ کسی حیرت میں جلتا رہتا ہے
.......
یہ کون ہے مری آوارگی کے صحرا میں
سفر میں رہتا ہے اور ہاتھ ملتا رہتا ہے
.......
یہ کوہِ خواب ہے جو رات بھر فضاؤں میں
کسی کی یاد کا لاوا اگلتا رہتا ہے
.......
نبیل میں تو کہیں خود کو چھوڑ آیا تھا
یہ کس کا عکس مرے ساتھ چلتا رہتا ہے