مسلمانوں کی جہالت کا نوحہ (حصہ دوم)

noha-2-670.jpg

اللسٹریشن: جمیل خان

(دوسرا حصہ)​
کسی دانشمند کا مقولہ ہے کہ ‘‘مہذب ہونے کا سب سے بڑا پیمانہ ہی یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلاف برداشت اور جذب کرتا ہے، دقیانوسی معاشروں کی واضح پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کرسکتے۔’’​
آج ہمارے معاشرے میں کم و بیش ایسی ہی حساس صورتحال برقرار ہے اور یہ صورتحال ہمارے لیے نئی بھی نہیں۔ ہم ایسی صورتحال کو بغداد، غرناطہ، دہلی، قسطنطنیہ، ڈھاکہ، کابل، طرابلس، قاہرہ اور دیگر شہروں میں پیدا ہوتے دیکھ چکے ہیں،لیکن ہمارے اکثر علماء، دانشور، مفکر، اربابِ اختیار اس کا کوئی حتمی اور قابل عمل حل دریافت نہیں کرسکے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں سقوطِ بغداد سے لے کر تمام اسقاط سے قبل جاری رہنے والے فکری انتشار کی طرز کا انتشار برپا ہے۔ وہی معمولی معمولی باتوں پر ہنگامہ آرائیاں، فتنہ پردازیاں، عدم برداشت کا رویہ، کفر و زندیق کے فتوؤں کی روز افزوں فراوانی، یک رنگی پگڑی والا دورنگی پگڑی والے کی مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتا، رفع یدین کرنے اور آمین بالجہر کہنے پر مسجد میں ہاتھا پائیاں، درود و سلام پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے اس بات پر سرپھٹوّل۔​
اب تو مساجد کے صدر دروازوں پر جلی حروف میں اُن کے ’’مسالک ہائے مروّجہ‘‘ کا درج ہونا بھی اتنا عام ہوگیا ہے کہ سلجھے ہوئے ذہن کے افراد کو بھی معیوب محسوس نہیں ہوتا۔​
اس جلی سرخی لگانے کی ضرورت بھی اس بناء پر پیش آئی ہوگی کہ مخالف مسلک کا کوئی فرد بھولے بھٹکے سے بھی ان کی مسجد میں داخل نہ ہوسکے۔​
دیگر عوامل میں درازئی ریش کی مقدار؟​
شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر رکھی جائے؟​
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا جائے یا نہیں؟​
پینٹ شرٹ پہن کر نماز ہوگی یا نہیں؟ جیسے بہت سے غیر اہم، احمقانہ اور فروعی معاملات نزاعی صورت اختیار کرچکے ہیں۔​
ایسے نزاع اکثر جان لیوا واقعات کی صورت میں بھی ظہورپذیر ہوتے رہتے ہیں۔​
ان المناک سانحات پر ہمارے بعض دانشور یہ تبصرہ فرما کر اپنی کم مائیگی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں کہ ’’تاریخ خود کو دہرارہی ہے۔‘‘​
یہ کہنا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، ایک واضح ثبوت ہے کہ کہنے والے کی عقل پر یا تو پتھر پڑچکے ہیں یا پھر اس نے کبھی انسانی معاشروں کی تاریخ کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔​
جی ہاں، بات بہت تلخ ہے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی شعور مسلسل ارتقائی سفر طے کررہا ہے۔ کبھی یہ سفر اس قدر سُست رفتار تھا کہ ایک قدم کا فاصلہ شاید ایک صدیوں میں طے ہوتا ہو، لیکن آج سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس سفر کو انتہائی تیز رفتار کردیاہے۔​
حیوانات کی مختلف نوعوں کی اگر کوئی تاریخ مرتب کی جائے تو کہا جاسکے گا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اس لیے کہ مویشیوں اور درندوں میں انسانوں کے برعکس شعوری ارتقاء نہیں ہوتا۔​
لیکن اگر کوئی انسانی معاشرہ صدیوں سے شعوری طور پر ایک سطح پر ہی کھڑا ہو اور اپنے تجربات، سانحات اور اسقاط سے کچھ نہ سیکھا ہو تو پھر اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اس قوم یا ملت کی ذہنی سطح چونکہ ہمیشہ سے ہی پست رہی ہے، اس لیے ان کے ہاں وقوع پذیر سانحات ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں۔​
صدیوں پہلے بھی ان کے عوام، دانشور اور ارباب اختیار نے یہی کچھ کیا تھا جو آج کرتے پھر رہے ہیں۔ اس نکتے کو اس لطیفے کے ذریعے نہایت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے، پورا لطیفہ تو ہمیں یاد نہیں۔ ایک صاحب نے راستے میں پڑے کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر کہا تھا ’’آج پھر پھسلنا پڑے گا۔‘‘​
مسلمان قوم کی نفسیات اور ان صاحب کی نفسیات میں ہمیں تو کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔​
پاکستان کے علاوہ دیگر مسلم معاشروں میں بظاہر مذہبی انتشار کی ایسی کوئی کیفیت محسوس نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ متمول مسلمان ممالک قیمتی معدنی دولت کو صرف اپنی وقتی عیاشیوں پر ہی صرف کررہے ہیں۔ بلند و بالا عمارتیں، یخ بستہ شاپنگ سینٹرز جہاں دن رات لاکھوں روپے کی خریداری کی جاتی ہے، طویل اور وسیع و عریض سڑکیں، اس کے علاوہ ترقی کے نام پر اُن کے پاس کیا ہے؟​
اُن کے ہاں پیٹرول صاف کرنے والی ریفائنریوں جیسی ہیوی انڈسٹریز سے لے کر کھجور پیک کرنے والے کارخانے تک، ترقی یافتہ ممالک کی ملکیت یا مرہونِ منت ہیں۔ مسجدالحرام یا مسجد نبوی کی توسیع کا معاملہ ہوتو اس کے لیے بھی غیر مسلم اور کافر اقوام کی تیکنیکی مدد اور صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔​
اب تو اسمائے الٰہیہ اور قرآنی آیات کے طغرے، عام اور ڈیجیٹل تسبیحیں، جائےنمازیں اور اس طرح کے دیگر تبرکات جو حرمین کے اطراف میں موجود عارضی اور مستقل دکانوں میں فروخت کیے جارہے ہوتے ہیں، وہ سب کے سب چین CHINA میں تیار ہوتے ہیں۔​
یادرہے چینیوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنی غذا کے لیے ہر طرح کے جانور کو حلال سمجھتے ہیں۔ دن رات اپنے قرب وجوار کے لوگوں کو پاکی ناپاکی کا درس پڑھانے والے مولوی اور جدید وضع قطع کے حامل ذہنی مولوی ، سؤر، بلی، کتے، چوہے اور نجانے کیا کیا الا بلا کھا جانے والی چینی قوم کے افراد کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تبرکات آنکھوں سے لگاتے ہیں اور اپنے گھروں میں لگا کر اس کی شان بڑھاتے ہیں۔​
اکثر مسلمان دانشور یہ کہہ کر اپنا سر فخر سے بلند کرلیتے ہیں کہ موجودہ دور کی سب سے بڑی دولت سیال سونا Black Gold کے بڑے ذخائر مسلمان ملکوں کے پاس ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آج عالمی سرمائے میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، دنیا کی سرفہرست تجارتی کمپنیوں اور کاروباری رہنماؤں میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں بناسکی ہے۔​
البتہ آج کل کچھ مذہبی یا نیم مذہبی دانشور ٹی وی چینلز پر دن رات یہ نوحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمان اقوام عالم کی صف میں معاشی، اقتصادی اور علمی لحاظ سے انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پاس اعداد و شمارکی ایک طویل فہرست بھی ہوتی ہے، لیکن ان میں سے کبھی کسی نے اس کے اسباب پر غیرجانبدار ہوکر روشنی نہیں ڈالی۔​
مذہبی دانشوروں کے پاس تو ایک ہی حل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی اکثریت مذہبی شعائر کی پابندی نہیں کررہی ہے، جس روز مسلمانوں نے ایسا کرلیا، اس روز ساری دنیا ان کے قدموں تلے ہوگی۔​
نیم پڑھے لکھے مولویوں اور دانشور نما مولویوں کے پاس بھی مسواک والی حکایت کی طرز کی بہت سی مثالیں ہوتی ہیں، جس کی روشنی میں وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی راہیں تلاش کررہے ہوتے ہیں۔​
مسواک کی حکایت جو بجائے خود ایک ایسا لطیفہ ہے کہ جسے سناکر سنانے والے کو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ بھائیو لطیفہ ختم ہوگیا ہے، اب ہنس لو۔ اس حکایت کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوران جنگ مسلمان سپاہی مسواک کررہے تھے تو دشمن فوج کے سپاہیوں میں خوف پھیل گیا کہ یہ لوگ اپنے دانت تیز کررہے ہیں، ہمیں سب مل کر کچا چبا جائیں گے۔​
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہمارے خیال میں ماضی پرستی ہے، یہی وہ رویہ ہے جس کے باعث تعمیری سوچ اور روشن خیالی رخصت ہوجاتی ہے اور ذہنی جمود معاشرے کو گھن کی طرح کھاجاتا ہے۔​
ہم آج ماضی پرستی کی وجہ سے سائنس وٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تو ہمارے بقول کل جب ترقی کا تاج ہمارے سروں پر تھا، تب بھی ہم علم و ہنر کے فروغ سے روگردانی کے مرتکب ہوئے تھے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں رکھ سکے تھے، جس پر ہم اپنے لیے شعوری، سائنسی، فنی، سماجی، اقتصادی اور اخلاقی ترقی کی عمارت تعمیر کرسکتے۔​
چودھویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی عیسوی کی تاریخ کے صفحات اچھی طرح اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیجیے، اس عرصے میں مسلمان من حیث القوم علموہنر یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی سے اسی قدر دور رہے، جس قدر اندھیرا روشنی سے دور بھاگتا ہے۔​
ان چھ صدیوں میں ہمیں بہت باریک بینی سے تلاش کرنے کے باوجود صرف دو سائنسدانوں کے نام مل سکے، قطب الدین شیرازی اور غیاث الدین الکاشی۔​
آپ خود بھی تلاش کرلیجیے۔​
ٹھہریے، ان دونوں کو بھی اگر جدید سائنسی معیار پر پرکھا جائے تو معلوم ہوسکے گا کہ یہ جابر بن حیان اور الخوارزمی کے درجے سے کہیں پست درجے پر ہیں۔​
ہم آخر کیوں یہ تسلیم نہیں کرلیتے کہ ان چھ صدیوں کے دوران جاہلانہ وحشت کے مہیب بادل ہم پر سایہ فگن تھے۔​
جی نہیں، ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے، ہمارا احمقانہ فخر ہمیں ایسا کیوں کرنے دے گا؟​
تو پھر آئیےمزید پیچھے چلتے ہیں، بنواُمیہ کا عہد۔ جبکہ ہماری سلطنت تین براعظموں کی وسعتوں میں پھیل چکی تھی، 661 عیسوی سے 750سنِ عیسوی تک، 89 سالہ دورِ مطلق العنانی میں ہمیں جابر و ظالم عمّال جو لاکھوں افراد کو بلاجھجک قتل کروادیتے اور ان کے دل پرکوئی بوجھ نہ ہوتا، خوشامدی شعراء، ضمیر فروش اور عقل وخرد کے دشمن علماء، فقہاء اور مشائخ کی فوج ظفر موج تو نظر آتی ہے لیکن ہمیں ایک بھی سائنسدان یا فلسفی دکھائی نہیں دیتا۔​
اگلا دور بنوعباس کا ہے، جو 508 برسوں پر محیط ہےیعنی 750ء سے 1258 تک، اسے مسلم تاریخ کا زرّیں دور کہا جاتا ہے، اس عہدِ زرّیں میں بھی ہمیں عرق ریزی کے باوجود محض 58 مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں۔​
اگر ہم اپنے تذکرہ نویسوں کی اس فہرست میں سے فروعی مسائل کی بال کی کھال نکالنے والے منطقیوں اور فلسفیوں، اپنے حرم میں جمع کردہ ہزاروں کنیزوں سے دن رات ہوس پوری کرنے والے اور اپنے ناموں کے ساتھ الّا بلّا کے القابات لگانے والے باگڑ بلّاؤں کے کشتہ ساز شاہی طبیبوں، مترجمین اور دیگر زبانوں میں تحریر کتابوں سے مواد اخذ کرکے عربی زبان میں کتابیں لکھنے والے جعلی مصنفین کو چھان پھٹک کر الگ کردیں توپھر یہ تعداد تیس بتیس سے بھی کم رہ جائے گی۔​
سلطنتِ عثمانیہ کا دور 1288ء سے 1924ء تک یعنی 636 برسوں پر محیط رہا، لیکن اس دور میں بھی ہمیں قاضی روی کے علاوہ ایک بھی قابل اور حقیقی سائنسدان کا نام نہیں مل سکا۔ تذکرہ نگاروں نے زبردستی کچھ نام اس دور سے ڈھونڈ نکالے ہیں، جنہیں کسی بھی صورت سائنسدان نہیں کہا جاسکتا۔​
برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے۔ تاریخ کے اوراق اُلٹتے پلٹتے اکبر اعظم کے دورتک آجایئے۔ یہ سولہویں صدی عیسوی ہے۔ ہندوستان کی مُسلم تاریخ میں یہ دور ‘‘عہد زرّیں’’ کے نام سے موسوم ہے، لیکن علم و ہنر یعنی سائنس و ٹیکنالوجی سے بےرغبتی کا عالم یہ تھا کہ اس دور میں ہمیں ایک بھی سائنسدان کا نام نہیں ملتا، کوئی اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی اور علمی درسگاہ اس عہد میں آپ کو بھی نہیں مل سکے گی کہ جب ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔​
برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً سات سو سال حکومت کی، اس طویل عہد میں آپ کو امراء کی خوشحالی کے چرچے تو تاریخ کے صفحات پر ضرور ملیں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان برسوں میں غرباء کا کوئی وجود نہیں تھا کہ اُن کی فلاح و بہبود کے کام کیے جاتے؟ اس دور میں عالیشان مقبرے اور محلات تعمیر ہوئے، کہیں کوئی ہسپتال کے قیام کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ آپ بھی کھنگال لیجیے شاید آپ کو مل جائے، ہمیں تو نہیں مل سکا۔ ہاں ایک علمی محفل کا تذکرہ ملتا ہے، جس کے انعقاد کے لیے فتح پور سیکری میں آڈیٹوریم قسم کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن یہ ‘‘علمی محفل’’ کس درجے کی ہوتی تھی، اِس کا اندازہ اُس محفل میں شریک خوشامدی قصیدہ خوانوں اور مغنّیوں کی فہرست دیکھ کر ہی ہوجانا چاہئے۔​
اب ایسا بھی نہیں تھا کہ سلطنتِ مغلیہ کے مغرب سے کوئی روابط ہی نہ تھے کہ مغرب میں ہونے والی تبدیلیوں، ایجادات اور اکتشافات سے یہ لوگ سراسر لاعلم ہی رہے ہوں اور اس بناءپر اپنے ہاں ایجادات اور دریافتوں کا کوئی سلسلہ قائم نہ کرسکے ہوں۔ ایسا نہیں تھا، بلکہ یورپ کے تجارتی قافلے بحری راستوں سے ہندوستان آچکے تھے اور یہ سرطامس روکی سفارت سے بہت پہلے کی بات ہے، جو جہانگیر کے زمانے میں آئی تھی۔​
مغربی گھنٹے، گھڑیاں، نیم سائنسی قسم کی نت نئی مغربی مصنوعات کی نمائشیں ہندوستان کے بڑے شہروں میں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ‘‘عہدزرّیں’’ ہمارے سامنے کوئی ایسا سائنس دان کیوں نہیں پیش کرتا جس کا تذکرہ ہم دوسرے یا تیسرے درجے کے سائنس دانوں کی فہرست میں ہی کرسکیں؟​
جب کہ اُدھر مغربی ممالک میں نشاةِ ثانیہ RENAISSANCE ہورہی تھی۔ مغرب کے ایک بحری جہاز راں کولمبس نے اپنی اولوالعزمی اور ہسپانوی حکومت کی دور اندیشی کی بناء پر جس نے اُس کے سفر کے لیے مالی امدد فراہم کی تھی، امریکہ دریافت کرلیا تھا۔ امریکہ کی دریافت سے مغربی اقوام کے لیے ترقی کے نئے امکانات کھلتے چلے گئے۔​
اگر یہ خطہ مسلمانوں نے دریافت کیا ہوتا اور وہاں نقلِ مکانی کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہوتی تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی۔لیکن ہندوستان میں جسے مغربی حکمران ‘‘سونے کی چڑیا’’ کہا کرتے تھے، شعراءکی محافل سجانے اور بغاوتوں کو کچلنے سے زیادہ اہم کام کوئی نہیں ہوسکتا تھا اور اسی دور میں پہلے نکولس اور اُس کے بعد گلیلیو اپنی دریافتوں سے یورپ کے عمومی مزاج میں تبدیلی کی ایک بہت بڑی بنیاد رکھ چکے تھے۔​
سلطنتِ مغلیہ کے عہدِ شاہجہانی میں یورپ میں نیوٹن پیدا ہوا، جس نے صرف 22 برس کی عمر میں قوانینِ طبیعیات پر غور و فکر کرتے ہوئے ایک تجربہ کرکے روشنی کو ترکیب دینے والے رنگ معلوم کیے، کششِ ثقل اور سیاروں کے بیضوی دائروں پر شماریاتی مشقیں مکمل کیں، جبکہ ‘‘ہندوستان جنت نشان’’ کی شان و شوکت کے مقابلے میں کہیں پیچھے کھڑا تھا۔ یورپ نت نئی ایجادات میں مصروف تھا اور مسلمان ہندوستان جنت نشان کے ہوں یا عرب و ایران کے، یا تو عیاشیوں میں مصروف تھے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے ایجاد کرنے میں، اس کے سوا اُنہیں شاید دوسرا کوئی کام نہ تھا ۔​
اگلی دو صدیوں میں مغرب نے سائنسی فکریات، انکشافات اور ایجادات کے حوالے سے زبردست انقلاب برپا کردیا تھا اور مسلمان ہر سو زوال اور غلامی سے دوچار ہورہے تھے۔​
(جاری ہے)​
از جمیل خان​
 
مناسب الفاظ میں آ ئینہ دکھاتی تحریر، ہے بہت بہترین ۔
اوراگر آخر میں کوئی منا سب حل بھی ہو تو سونے پہ سہاگہ ہو گا۔:)
 
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا جائے یا نہیں؟
یہ شائد غلطی سے لکھا گیا ہے درست فقرہ مسواک ہے ٹوتھ پیسٹ کرنے سے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس کا تیز فلیور یا ذائقہ سیدھا حلق کو متاثر کرتا ہے۔
دراصل کچھ فقیہہ مسواک کے استعمال کو مکروہ سمجھتے ہیں اور شائد اس کی وجہ میرے ناقص علم کے مطابق مسواک کے ذائقے کا ہونا ہے کیونکہ میں نے خود یہ تجربہ کیا ہے کہ کچھ کیکر کی مسواکیں قدے تلخ اور تیز ذائقے والی ہوتی ہیں۔
نو کمنٹس اس پر کوئی کچھ نہ لکھے یہ صرف پڑھنے کے لیئے ہے تبصروں کے لیئے نہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک تصحیح کر دیجیئے جو اس فقرے میں غلطی ہے
سلطنتِ عثمانیہ کا دور 1288ء سے 1224ء تک یعنی 636 برسوں پر محیط رہا، لیکن اس دور میں بھی ہمیں قاضی روی کے علاوہ ایک بھی قابل اور حقیقی سائنسدان کا نام نہیں مل سکا۔ تذکرہ نگاروں نے زبردستی کچھ نام اس دور سے ڈھونڈ نکالے ہیں، جنہیں کسی بھی صورت سائنسدان نہیں کہا جاسکتا۔
 
ایک تصحیح کر دیجیئے جو اس فقرے میں غلطی ہے
صیح پکڑا منصور بھائی(y)
پر میں نے تو کاپی ہی کیا تھا۔ٹائپو اورجنل آرٹیکل میں ہی تھی
اب اسے میں تو ایڈٹ نہیں کر سکتا۔آپ ہی کر دیجیے۔یہاں"1224" کی بجائے "1924" آئے گا
 
Top