نجم سیٹھی کے کالم کا جواب:
ایک کالم ’’قومی شناخت بمقابلہ مذہبی شناخت‘‘ پڑھا تو فرض سمجھا کہ اپنا نقطہ نظر پیش کروں۔ کالم نگار کو بُرا لگا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ وہ پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ انہوں نے چوہدری صاحب کی اس سوچ کو پاکستان میں ہونے والی تاریخی غلطیوں سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق اس سوچ (کہ ہم پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں) کی جڑیں در اصل تقسیمِ ہند اور اس سے پہلے چلنے والی تحریک پاکستان کے نظریات سے گڑی ہوئی ہیں۔ کالم نگار کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے اُن رہمنائوں میں شامل تھے جنہوں نے جان بوجھ کر اسلامی جذبات کو ابھارا۔ کالم نگار کے لیے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی اس کی اسلامی شناخت کو برقرار کھا گیا۔ان کو یہ دکھ ہے کہ سیکولر جمہوری اقدار کی بجائے یہاں اسلامی نظرئیے کی آبیاری کی گئی۔ ان کے مطابق 1971 میں پاکستان کی تقسیم اور ہمارے موجودہ اختلافات کی وجہ بھی یہی اسلامی نظریہ اور اسلام کے نام پر اس ملک کا قیام ہے۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ لکھا مگر میں یہاں پہلے اُن سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ اگر وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کے اتنا ہی خلاف ہیں اور اسے اس ملک کے لیے اتنا ہی خطرناک جانتے ہیں تو پھر انہوں نے پنجاب کا عبوری وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہوے اس نظریہ کے تحفظ کی قسم کیوں اُٹھائی تھی۔ کیا وہ جھوٹ تھا یا اُسے اپنے ذاتی مفاد کے حصول لیے منافقت سمجھا جائے؟؟یا اُس دن اور اُس لمحہ کے لیے وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کے واقعی داعی بن گئے تھے؟؟ قارئین کرام کی یاد دہانی کے لیے یہ بتاتا چلوں کہ وہعبوری وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بھی اسلامی نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتے رہے اور اب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ میموگیٹ جیسا کھیل کھیلنے والے کی طرح انہوں نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح پر اسلام کے نام پر پاکستان بنانے پر اعتراض کیا۔اللہ خیر کرے۔ کیا میں ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ پاکستان اگر اسلام کے نام پر نہ بنتا تو پھر پاکستان کو بنانے کی کوئی دوسری وجہ کیا ہو سکتی تھی جب کہ ان جیسی سوچ رکھنے والے تو آج بھی کہتے ہیں کہ ہم اور ہندوستان میں رہنے والے تو ایک جیسے ہیں۔ یہاں تو ایک طبقہ کا بس نہیں چلتا،ورنہ وہ اسلام کو ایک طرف چھوڑ کر کسی طرح پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کو ختم کر دیں تا کہ دونوں ’’بھائی بھائی‘‘ بن جائیں۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جس انداز میں ’’بھائی بھائی‘‘ کا سلوک اس وقت بھی کیا جا رہا ہے، اُس کے متعلق اگر کسی کو بھی کوئی غلط فہمی ہو تو شاہ رخ خان اور شبانہ اعظمی سے ہی بات کر لے۔ جہاں تک پاکستان کے ٹوٹنے اور ہماری نسلی بنیادوں پر موجودہ تقسیم کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو اسلام کے نام پر تو بنا لیا،اسے ایک اسلامی آئین بھی دے دیا اور اسلامی نظریہ پاکستان کے تحفظ کی قسمیں بھی کھالیں مگر عملاً پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی کوشش نہ کی گئی بلکہ اس کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ اسلام تو وہ واحد پہچان ہے جو پنجابیوں، بلوچوں، سندھیوں، بنگالیوں، پٹھانوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ ورنہ اگر ہم زبان اور نسل کی بات کریں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے اسلام اور اس کے اصولوں کی پیروی کی ہوتی تو مشرقی پاکستان میں رہنے والے کسی ذیادتی کا شکار ہی نہ ہوتے۔ وہ تو ہم سے جدا اس لیے ہوئے کیوں کہ ہم نے دین کو ایک طرف رکھ کر زبان اور رنگ و نسل کو زیادہ اہمیت دی۔موجودہ پاکستان میں بھی ہمارے اختلافات کی اصل وجہ اسلام کو پیچھے دھکیل کر نسل پرستی، صوبائیت، رنگ و نسل اور عصبیت کو اجاگر کرنا ہے۔اگر اسلام کو ہم بیچ میں سے نکال دیں تو پھر پنجابیوں ،بلوچوں ، سندھیوں، پٹھانوں وغیرہ کے درمیان فرق، اس فرق سے بہت بڑا ہے جو ہم میں اور ہندوستان میں رہنے والوں کا ہے۔ مگر اسلام کو نکالیں تو نکالیں کیسے۔ان کے لیے مغرب کی سیکولر سوچ اور نظام اہم ہے۔ میرے لیے اسلامی تعلیمات سب سے مقدم ہیں جن کے مطابق اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ہم اس اسلام کو کسی بھی ملک، علاقہ اور قبیلہ کی قومیت پر کیوں ترجیح نہ دیں جب ہمارے اللہ اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں اور سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مغرب پسند طبقہ ہمیں طعنہ دیتا ہے کہ ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہم افغانستان، کشمیر، فلسطین، عراق یا کسی بھی دوسرے حصہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ اسلام تو مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے جس کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ میںان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت ’’سب سے پہلے مسلمان‘‘ کے نظریہ پر یقین کرتی ہے۔ قرآن پڑھنے والا اور نبی کریم ﷺ کی زندگی کو مشعل راہ ماننے والا کوئی بھی مسلمان اس بات سے دوسری بات نہیں کر سکتا جو چوہدری نثار علی خان نے کہی۔ میں ذاتی طور پر چوہدری صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں اور اس کی بنیادی وجہ ہی ان کی اسلامی سوچ اور اسلام پسندی ہے۔ بے شک ہم مسلمانوں کو مختلف قومیتوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہوئی مگر ایک بات یاد رکھیں کہ چاہے جتنی سازشیں مرضی کر لیں، چاہے جو سبق مرضی میں آئے پڑھا لیں، چاہے کیسے ہی حکمران مسلمانوں پر مسلط کر لیں مگر کوئی سازش، کوئی پلاننگ نہ تو ہمارے قرآن کو بدل سکتی ہے اور نہ ہی ہمارے پیارے نبیﷺ کی تعلیمات کو۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ ایران کو کیسا مغرب زدہ کیا گیا مگر اسلام وہاں واپس آیا۔ افغانستان کو جتنا اسلام سے دور لے کر جانے کی کوشش ہوئی اتنا ہی وہ اسلام کے قریب آیا۔ سیکولرز کی تمنا کے مطابق مصر خوب آزاد خیال اور سیکولر ملک بنایا گیا مگر وہاں بھی اسلام پسندہی واپس آئے۔ کمال اتاترک نے تو ترکی کو مغرب زدہ کرنے کی حد کر دی مگر اُسی ترکی میں آج ایک اسلامی سوچ رکھنے والی پارٹی کی حکومت قائم ہے اور سیکولرازم کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔کالم نگار کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے مگر میری رائے میں پاکستان کو اسلام سے جدا کرنے کا مطلب پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے جو یقینا ان کی بھی خواہش نہ ہو گی۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=158210
ایک کالم ’’قومی شناخت بمقابلہ مذہبی شناخت‘‘ پڑھا تو فرض سمجھا کہ اپنا نقطہ نظر پیش کروں۔ کالم نگار کو بُرا لگا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ وہ پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ انہوں نے چوہدری صاحب کی اس سوچ کو پاکستان میں ہونے والی تاریخی غلطیوں سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق اس سوچ (کہ ہم پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں) کی جڑیں در اصل تقسیمِ ہند اور اس سے پہلے چلنے والی تحریک پاکستان کے نظریات سے گڑی ہوئی ہیں۔ کالم نگار کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے اُن رہمنائوں میں شامل تھے جنہوں نے جان بوجھ کر اسلامی جذبات کو ابھارا۔ کالم نگار کے لیے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی اس کی اسلامی شناخت کو برقرار کھا گیا۔ان کو یہ دکھ ہے کہ سیکولر جمہوری اقدار کی بجائے یہاں اسلامی نظرئیے کی آبیاری کی گئی۔ ان کے مطابق 1971 میں پاکستان کی تقسیم اور ہمارے موجودہ اختلافات کی وجہ بھی یہی اسلامی نظریہ اور اسلام کے نام پر اس ملک کا قیام ہے۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ لکھا مگر میں یہاں پہلے اُن سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ اگر وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کے اتنا ہی خلاف ہیں اور اسے اس ملک کے لیے اتنا ہی خطرناک جانتے ہیں تو پھر انہوں نے پنجاب کا عبوری وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہوے اس نظریہ کے تحفظ کی قسم کیوں اُٹھائی تھی۔ کیا وہ جھوٹ تھا یا اُسے اپنے ذاتی مفاد کے حصول لیے منافقت سمجھا جائے؟؟یا اُس دن اور اُس لمحہ کے لیے وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کے واقعی داعی بن گئے تھے؟؟ قارئین کرام کی یاد دہانی کے لیے یہ بتاتا چلوں کہ وہعبوری وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بھی اسلامی نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتے رہے اور اب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ میموگیٹ جیسا کھیل کھیلنے والے کی طرح انہوں نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح پر اسلام کے نام پر پاکستان بنانے پر اعتراض کیا۔اللہ خیر کرے۔ کیا میں ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ پاکستان اگر اسلام کے نام پر نہ بنتا تو پھر پاکستان کو بنانے کی کوئی دوسری وجہ کیا ہو سکتی تھی جب کہ ان جیسی سوچ رکھنے والے تو آج بھی کہتے ہیں کہ ہم اور ہندوستان میں رہنے والے تو ایک جیسے ہیں۔ یہاں تو ایک طبقہ کا بس نہیں چلتا،ورنہ وہ اسلام کو ایک طرف چھوڑ کر کسی طرح پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کو ختم کر دیں تا کہ دونوں ’’بھائی بھائی‘‘ بن جائیں۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جس انداز میں ’’بھائی بھائی‘‘ کا سلوک اس وقت بھی کیا جا رہا ہے، اُس کے متعلق اگر کسی کو بھی کوئی غلط فہمی ہو تو شاہ رخ خان اور شبانہ اعظمی سے ہی بات کر لے۔ جہاں تک پاکستان کے ٹوٹنے اور ہماری نسلی بنیادوں پر موجودہ تقسیم کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو اسلام کے نام پر تو بنا لیا،اسے ایک اسلامی آئین بھی دے دیا اور اسلامی نظریہ پاکستان کے تحفظ کی قسمیں بھی کھالیں مگر عملاً پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی کوشش نہ کی گئی بلکہ اس کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ اسلام تو وہ واحد پہچان ہے جو پنجابیوں، بلوچوں، سندھیوں، بنگالیوں، پٹھانوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ ورنہ اگر ہم زبان اور نسل کی بات کریں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے اسلام اور اس کے اصولوں کی پیروی کی ہوتی تو مشرقی پاکستان میں رہنے والے کسی ذیادتی کا شکار ہی نہ ہوتے۔ وہ تو ہم سے جدا اس لیے ہوئے کیوں کہ ہم نے دین کو ایک طرف رکھ کر زبان اور رنگ و نسل کو زیادہ اہمیت دی۔موجودہ پاکستان میں بھی ہمارے اختلافات کی اصل وجہ اسلام کو پیچھے دھکیل کر نسل پرستی، صوبائیت، رنگ و نسل اور عصبیت کو اجاگر کرنا ہے۔اگر اسلام کو ہم بیچ میں سے نکال دیں تو پھر پنجابیوں ،بلوچوں ، سندھیوں، پٹھانوں وغیرہ کے درمیان فرق، اس فرق سے بہت بڑا ہے جو ہم میں اور ہندوستان میں رہنے والوں کا ہے۔ مگر اسلام کو نکالیں تو نکالیں کیسے۔ان کے لیے مغرب کی سیکولر سوچ اور نظام اہم ہے۔ میرے لیے اسلامی تعلیمات سب سے مقدم ہیں جن کے مطابق اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ہم اس اسلام کو کسی بھی ملک، علاقہ اور قبیلہ کی قومیت پر کیوں ترجیح نہ دیں جب ہمارے اللہ اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں اور سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مغرب پسند طبقہ ہمیں طعنہ دیتا ہے کہ ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہم افغانستان، کشمیر، فلسطین، عراق یا کسی بھی دوسرے حصہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ اسلام تو مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے جس کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ میںان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت ’’سب سے پہلے مسلمان‘‘ کے نظریہ پر یقین کرتی ہے۔ قرآن پڑھنے والا اور نبی کریم ﷺ کی زندگی کو مشعل راہ ماننے والا کوئی بھی مسلمان اس بات سے دوسری بات نہیں کر سکتا جو چوہدری نثار علی خان نے کہی۔ میں ذاتی طور پر چوہدری صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں اور اس کی بنیادی وجہ ہی ان کی اسلامی سوچ اور اسلام پسندی ہے۔ بے شک ہم مسلمانوں کو مختلف قومیتوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہوئی مگر ایک بات یاد رکھیں کہ چاہے جتنی سازشیں مرضی کر لیں، چاہے جو سبق مرضی میں آئے پڑھا لیں، چاہے کیسے ہی حکمران مسلمانوں پر مسلط کر لیں مگر کوئی سازش، کوئی پلاننگ نہ تو ہمارے قرآن کو بدل سکتی ہے اور نہ ہی ہمارے پیارے نبیﷺ کی تعلیمات کو۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ ایران کو کیسا مغرب زدہ کیا گیا مگر اسلام وہاں واپس آیا۔ افغانستان کو جتنا اسلام سے دور لے کر جانے کی کوشش ہوئی اتنا ہی وہ اسلام کے قریب آیا۔ سیکولرز کی تمنا کے مطابق مصر خوب آزاد خیال اور سیکولر ملک بنایا گیا مگر وہاں بھی اسلام پسندہی واپس آئے۔ کمال اتاترک نے تو ترکی کو مغرب زدہ کرنے کی حد کر دی مگر اُسی ترکی میں آج ایک اسلامی سوچ رکھنے والی پارٹی کی حکومت قائم ہے اور سیکولرازم کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔کالم نگار کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے مگر میری رائے میں پاکستان کو اسلام سے جدا کرنے کا مطلب پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے جو یقینا ان کی بھی خواہش نہ ہو گی۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=158210