مسلمان آخر کیوں مکہ کے مقدس مقامات کی تخریب کاری کے خلاف کچھ نہیں کہتے؟ - جیروم ٹیلر

یہ ٹیکسی والا کہہ کیا رہا ہے؟عربی بول رہا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی
حسیب بھائی، یہ ٹیکسی ڈرائیور ایک بنگالی ہے جو سعودیہ میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ اسکی شومئی قسمت سے ایک سعودی اسکی ٹیکسی میں سوار ہوا، اور یہ سادہ لوح انسان اسے اپنا ایک مسلمان بھائی سمجھ کر دنیا میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر گفتگو کرنے لگا، اور بات کرتے کرتے یہ بھی کہہ بیٹھا کہ سعودی حکومت اچھی نہیں ہے جو امریکیوں کی سپورٹ کرتی ہے ، امریکیوں سے اتنا ڈرتی ہے۔۔۔بس پھر کیا تھا، اس بدبخت سعودی نے اسکو تھپڑ بھی مارے، اسے ہراساں بھی کیا، اسے اپنے ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مجبور بھی کیا، اسے یہ کہنے پر مجبور بھی کیا کہ "میں کتا ہوں، سعودی امریکیوں سے زیادہ بہادر ہیں، اور سعودی دنیا کی بیترین قوم ہیں"۔۔۔اس غریب کے خوف کا آپ اندازہ لگائیے کہ کسطرح محض ایک سعودی کے دھمکانے سے فر فر یہ باتیں کر رہا ہے۔۔کیا اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان سعودیوں نے اپنے ملک میں کیا فضا قائم کر رکھی ہے؟ ذرا اس سعودی کا لب و لہجہ سنئیے، اور اس حقارت کو محسوس کیجئے جو یہ عام غریب مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، عورت اور پیسہ انکا قبلہ ہے اور گورے انکے خدا ہیں۔ اور درس یہ دنیا کو دینے چلے ہیں توحید و سنت کا
 
حسیب بھائی، یہ ٹیکسی ڈرائیور ایک بنگالی ہے جو سعودیہ میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ اسکی شومئی قسمت سے ایک سعودی اسکی ٹیکسی میں سوار ہوا، اور یہ سادہ لوح انسان اسے اپنا ایک مسلمان بھائی سمجھ کر دنیا میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر گفتگو کرنے لگا، اور بات کرتے کرتے یہ بھی کہہ بیٹھا کہ سعودی حکومت اچھی نہیں ہے جو امریکیوں کی سپورٹ کرتی ہے ، امریکیوں سے اتنا ڈرتی ہے۔۔۔ بس پھر کیا تھا، اس بدبخت سعودی نے اسکو تھپڑ بھی مارے، اسے ہراساں بھی کیا، اسے اپنے ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مجبور بھی کیا، اسے یہ کہنے پر مجبور بھی کیا کہ "میں کتا ہوں، سعودی امریکیوں سے زیادہ بہادر ہیں، اور سعودی دنیا کی بیترین قوم ہیں"۔۔۔ اس غریب کے خوف کا آپ اندازہ لگائیے کہ کسطرح محض ایک سعودی کے دھمکانے سے فر فر یہ باتیں کر رہا ہے۔۔کیا اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان سعودیوں نے اپنے ملک میں کیا فضا قائم کر رکھی ہے؟ ذرا اس سعودی کا لب و لہجہ سنئیے، اور اس حقارت کو محسوس کیجئے جو یہ عام غریب مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، عورت اور پیسہ انکا قبلہ ہے اور گورے انکے خدا ہیں۔ اور درس یہ دنیا کو دینے چلے ہیں توحید و سنت کا
بالکل ویڈیو میں امریکہ اور سعود کے لفظ کئی بار آرہے تھے۔اور یہ آدمی بار بار ہاتھ چوم رہا تھا اس کمینے کا۔
تبھی تو کہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان نام نہاد سعودی مسلمانوں کے شر سے بچائے جو کسی بھی لحاظ سے مسلمان دکھائی نہیں دیتے۔
بقول شخصے
ارادے جن کے لعنتی ہوں نظر جن کی امریکہ پر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بالکل ویڈیو میں امریکہ اور سعود کے لفظ کئی بار آرہے تھے۔اور یہ آدمی بار بار ہاتھ چوم رہا تھا اس کمینے کا۔
تبھی تو کہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان نام نہاد سعودی مسلمانوں کے شر سے بچائے جو کسی بھی لحاظ سے مسلمان دکھائی نہیں دیتے۔
بقول شخصے
ارادے جن کے لعنتی ہوں نظر جن کی امریکہ پر ہو
صرف ہاتھ نہیں بلکہ اس نے اس کے پیر بھی چومے۔۔۔
 
صرف ہاتھ نہیں بلکہ اس نے اس کے پیر بھی چومے۔۔۔یہ لوگ جبر اور دھونس کے ذریعے دوسروں کو اپنے ہاتھ پیر چومنے پر مجبور کریں یا اپنے امیروں بادشاہوں کے ساتھ ایسا کریں تو نو پرابلم، لیکن اگر کوئی مسلمان کسی بزرگ کے ساتھ محض دینی وجہ سے تعظیم اور محبت میں ایسا کربیٹھے تو سب شرک و بدعت
 
صرف ہاتھ نہیں بلکہ اس نے اس کے پیر بھی چومے۔۔۔
بالکل جی اگر اپنے مرشد کے ہاتھ چومیں تو شرک و بدعت کی انتہا
اور اگر
]
اس کام کی بجائے اس سے کئی گنا کم پیسے کسی میلاد یا فاتحہ خوانی پر خرچ کریں تو پیسے بھی حرام اور کھانا بھی حرام۔
اب لوگ ان سے سیکھیں گے اسلام
توبہ نعوذ بااللہ
 
یار اس بدبخت سعودی نے اس ڈرائیور کے منہ پر تھوک بھی پھینکا۔۔۔ آپ پوری ویڈیو دوبارہ دیکھین
ہاں بالکل۔جب "یا اختر علی یا حیوان "کہا اسے
پھر پوچھتا ہے
السعودیہ حیوان؟
وہ بیچارہ کہتا ہے "لا لا"
ہائے اللہ ہم زرداری کو ایسے ہی اتنی گالیوں سے نوازتے ہیں۔
 
سعودی عرب ایک صحرا ہے۔ ماضی میں زندہ رہنے کے بنیادی لوازمات، کھانا ، پانی، عورت اور سخت گرمی میں کام کرنے والے غلام ایک زبردست کموڈوٹی رہے۔ اگر بھیڑ بکری کھانے کی کموڈوٹی تھیں، کنواں پینے کی کموڈوٹی تھا تو عورت نسل کو فروغ دینے کی کموڈوٹی۔ اور مرد غلام سخت گرمی میں کام کرنے کی کموڈوٹی۔ کھانے اور پانی کے ساتھ کوئی برا سلوک کیا نہیں جاسکتا لیکن غلام کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ سعودی عرب جا کر کام کرتے ہیں، ان کو سعودی غلام ہی سمجھتے ہیں۔ امارتیوں کا بھی یہی حال ہے۔ عورت کو کمووڈوٹی سمجھ کر ان معاشروں میں بیچا جاتا رہا ہے۔ یہں مہر لڑکی کا والد شادی کے موقع پر خود وصول کر کھا پی جاتا ہے۔ سعودیہ ، امارات اور دوسرے خلیجی ممالک میں لاکھ سے ملین ریال تک خطیر رقمیں لڑکی کا باپ یا ولی وصولتا ہے۔
اسکا اسلامی احکام سے بالکل کوئی تعالق نہیں لیکن پردے کے پیچھے یہ ایک ضروری وجہ ان معاشروں میں اپنی کموڈوٹی کے دام بڑھانا ہے۔ ریاض میں ایسے مقدمے کا میں چشم دید گواہ ہوں جس میں ایک لبنانی شوہر ولی بن کر اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کی شادی ایک سعودی سے کروانا چاہتا تھا اور مہر کی رقم نئے سعودی شوہر سے سابقہ لبنانی شوہر وصولنا چاہتا تھا۔

غلاموں پر کنٹرول، عورتوں پر کنٹرول اور عام آدمی پر کنٹرول کے لئے عربوں خاص طور پر صحراویوں نے مذہب کا شدید سہارا لیا اور مذہب کی آڑ میں اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے رہے ۔ جس میں عورت کی بلیک مارکیٹنگ اور غلاموں کی جدید تجارت۔ آج بھی سعودی عرب میں کام کرنے والے کو غلام سمجھا جاتا ہے۔ بغیر کفیل کی اجازت کے یہ ہسپتال تک نہیں جاسکتا۔ بڑے سے بڑا غیر ملکی غلام چاہے وہ کسی وزارت کا ایڈوائزر ہی کیوں نا ہو، اس کو اپنی وزارت سے ہسپتال جانے کا اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔ سعودیہ اور کویت میں یہی حال ٹریول کرنے، شادی کرنے ، کرائے پر مکان لینے ، حتی کہ حج یا عمرے پر جانے کے لئے کفیل سے اجازت نامہ ضروری ہے۔ کسی بھی غیر ملکی کو وہاں کہیں اور کام کرنے، تجارت کرنے یا مکان وغیرہ خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ ووٹ دے کر حکومت بدلنا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔

پاکستان کے ماحول کی بہت سے باتیں سعودی حکومت کو بہت زیادہ کھٹکتی ہیں۔ پاکستانیوں کا ووٹ دے کر اپنے حالات تبدیل کرنے کی صلاحیت، اور پاکستان میں مردوں اورعورتوں کی تعلیم ، ملازمت اور کاروبار کی جائز آزادی۔ اس کام کے لئے سعودی وزارت التخطیط (پلاننگ منسٹری) میں ایک سے زائید پراپیگنڈہ کے ماہر تعینات ہیں جو اخباری کالم نگاروں، مسجدوں کے ملا نیٹ ورک ، فوج کے ڈپیوٹڈ سپاہیوں ، پاکستانی سیاستدانوں اور القاعدہ و طالبان ظالمان مجرمان کونظریاتی مواد فراہم کرتے ہیں۔ ا جس کے بعد یہ مینڈک پاکستان میں "سعودی نظام" کے حق میں "اسلامی نظام" کے نام سے اور "عورتوں کی آزادی" کے خلاف تقریر و تحاریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ سعودی عرب ، ایران اور امارات کے ساتھ ساتھ خلیجی ریاستیں ۔۔۔ پاکستان میں اپنے برانڈ کے اسلام کے نفاذ کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کرتی ہیں۔

خلیجی ریاستوں کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ ہو تاکہ دولت چند امیر خاندانوں کے کنٹرول میں ہو تاکہ چند افراد سے معاہدہ کرکے پاکستان کی مارکیٹ کا فائیدہ اٹھایا جائے۔ ایک عوامی حکومت سے ان کو خوف آتا ہے کہ ایسی حکومت عوام کے دباؤ میں، ان خلیجی افراد کی انویسٹمنٹ پاکستان کی مارکیٹ میں مستقل طور پر غیر محفوظ رہتی ہے۔ اگر آپ بغور دیکھیں تو پاکستان میں پہلے بڑی صنعتیں پرائیویٹائز کی گئیں اور پھر چند دہائیوں کے بعد بنکوں ، صنعتوں ، کارپوریشنز کی خلیجی ممالک کو فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سب اسی خلیجی مال و دولت سے پاکستان کے عوام پر قبضہ کرنے کی کڑی ہیں

بنیادی طور پر پاکستانی معاشرے سے خلیجی ممالک خاص طور پر سعودیہ، ایران ، امارات اور کویت کو بہت خطرہ ہے۔ اگر جمہوریت ان کے ممالک میں پہنچ گئی تو پھر شیخوں اور بڑوں کا کیا ہوگا؟ کیا عام آدمی کے ووٹ سے ان کی حکومتیں بدلا کریں گی؟ کیا مرو عورت آزادنہ سفر کیا کریں گے ، آزادانہ تعلیم حاصل کریں گے، آزادانہ ہسپتال جایا کریں گے، آزادنہ ملازمت اور کاربار کریں گے اور کیا آزادانہ ملکیت کا حق ہوگا؟؟؟ اپنی برتری کی بقا کے لئے ان ممالک کی پاکستان سے مستقل نظریاتی جنگ جاری ہے۔ جس کا عین اور بھیانک مقصد پاکستان سے شخصی آزادی، ووٹ کی آزادی، ملازمت کی آزادی، تعلیم کی آزادی، ملکیت کی آزادی اور بغیر سسر کو دیے ہوئے شادی کرنے کی آزادی جیسے حقوق کو غصب کرنا شامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی کب اس دباؤ کے سامنے جھک کر تباہ ہوتے ہیں یا پھر دشمن کو پہچان کر جوابی نظریاتی جنگ شروع کرتے ہیں۔

پاکستان اپنی مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس لئے اس کے عوام کو "سعودی برانڈ کے اسلامی نظام" کے نعرے بہت اچھے لگتے ہیں۔ پھر پاکستانیوں کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہے۔ پاکستانی عورتوں میں سعودی لباس عام طور پر سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ اور پاکستانی مرد بھی سعودی حلیہ بنائے گھومتے ہیں۔ جب بھی نظریاتی جنگ ہوئی ہے ، پاکستانیوں نے فوراً شکست قبول کی ہے ، چاہے وہ بابر کا حملہ ہو یا تیمور کا، چاہے وہ محمود غزنوی کا حملہ ہو یا ایران سے احمد شاہ ابدالی کا ۔ ان غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے پاکستانیوں کے حوصلے دو ہزار سالہ تاریخ میں پست نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کی ایک قوم کا نا ہونا تھا۔ اب پاکستان ایک قوم ہے لیکن نظریاتی وحدتوں کی شدید کمی کا شکار۔

آپ ہنسنے لگیں گے کہ اگر میں کہوں کہ پاکستانی، سعودی عرب میں پاکستانی برانڈ کا اسلام پاکستانی نافذ کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ یہاں رکئے اور پاکستان اور پاکستانیوں پر تھوڑی دیر خوب ہنس لیجئے۔ جی ۔ اور اگر میری بات پر یقین نہیں تو 40 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہونے کے باوجود، کچھ کیوں نہیں کرپائے؟
پاکستان عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج، ایٹمی طاقت اور صنعتی طاقت ہونے کے باوجود کسی بھی نظریاتی وحدت سے خالی ہے ۔ سعودی عرب ، امارات اور ایران ہی نہیں بلکہ بحرین ، قطر اور کویت جیسے پاکستان کے آگے ٹٹ پونجیا ملک، جو گندم کے نام پر جو بھی نہیں اگاتے، پاکستان کے نظریات بدلنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی اپنے مالی حالات کی بیماری کی وجہ سے کچھ نہیں سوچ سکتے۔ ضرورت ہے کہ پاکستان میں دولت کو گردش دینے کے ہر گر استعمال کئے جائیں۔ پاکستان 2 ارب سالانہ کے سیل فون درآمد کرتا ہے ، سابقہ 5 سالوں میں 10 ارب ڈالر کے سیل فون پاکستان نے درآمد کئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت نے کسی اسمبلی کمپنی کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی۔ کیوں؟

پاکستان میں زراعت پر ٹیکس، زیادہ زر مبادلہ کھا جانے والی صنعتوں کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پاکستان کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس سب سے پہلے ایک نظریاتی وحدت کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان برانڈڈ اسلام یعنی قرآن حکیم کا اسلام نا کہ سعودی برانڈڈ اسلام، ہے ہمت آپ میں کہ سعودی عرب میں مارشل لاء لگادیں ؟؟ یا کم از کم اس نظام کو برا ہی کہہ دیں؟
برین واشنگ نے اتنا اچھا کام کیا ہے کہ معمولی مالی مراعات کے عوض پاکستان ، صرف سعودی نظریات کی حمایت میں بولتا ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
آج بھی سعودی عرب میں کام کرنے والے کو غلام سمجھا جاتا ہے۔
خان صاحب، یہ تو خیر سیاسی باتیں ہیں جن پر آپ دلائل دے رہے ہیں اور آپ سے ان پر اختلاف کرنا عام سی بات ہے مگر آپ وہ کمال کی ہستی ہیں جو کلمہ بھی پڑھ رہی ہو تو مجھ جیسا بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یااللہ، خان ہوری کلمہ پڑھ رئے نیں، کدھرے بدل تے نئیں گیا!
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں سعودیہ پر کسی بھی قسم کی کوئی تنقید برداشت نہیں کرسکتا;)
بھائی جان
سعودیہ پر تو میں ویسے بھی تنقید پسند نہیں کرتا، ایک تو حرم کے پاسبان ہیں دوسری پاکستان میں جتنا امداد گمنام طریقے سے دیتا شاید ہی کوئی اور ہو۔ تقریبا تین ملین پاکستانی وہاں مقیم ہیں جس کم از کم ایک کروڑ کا دانہ پانی ہوجاتا ہے، اسی طرح جی سی سی دوسرے ملکوں میں تقریبا دوملین لوگ رہتے ہیں،
آپ نے شاید دو ویڈیوں لوڈ کئے ہیں،، جس میں بنگالی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے بنگالی کو ویسے پاکستانی قوم اچھے الفاظ سے نہیں پکارتی آج کیوں ہمدردی ہورہی ہے جی ۔سی۔ سی ممالک میں سب سے زیادہ جرم بنگالی کرتے ہیں سارے غیر قانونی کام، جوا، فخاشی کے ٹھیکیدار، لوگوں کو الو بنانا، کم تولنا ، خراب چیزیں دھوکے سے بیچنا، اپنے ملک کی بچیوں کو لاکر جسم فروشی کروانا اور بہت سارے ایسے کام ، جس کی وجہ سے تمام جی ۔سی۔ سی ممالک میں ان کے کام کے سلسلے سے داخلہ ممنوع ہیں۔
دوسری ویڈیوں میں دیکھی نہیں جس کے فوٹو سے لگ رہا ہے کہ کوئی خاتون گانا گارہی ہے اور ایک شخص اس کے برابر میں اس کوسرارہا ہے
عرب میں 10 سے 20 ملین لوگ پیدائشی یہود و نصارا ہے تقریبا عربی میں زیادہ تر کے نام ایک جیسے ہی ہوتے ہیں،
جس طرح ابلس کو اس کی نفس نے بھکایا تھا اس طرح انسان کو بھی بھکاتا ہے اور پھر تیل لگانے والا انسان کا دشمن ابلس ہے ہی نا جو ہر صورت انسان کو گمراہی پر لے جاتا ہے، عرب مسلمانوں کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اللہ کا نام بھول سے بھی نہیں بھولتے، کھانا کوئی بھی کھارہا ہو، بسم اللہ ضرور انکے مونہوں سے نکلتا ہے ان شاء اللہ تو ان زبان کا تکیہ کلام ہوگیا ہے۔
ایک اور خاص بات کہ جنکوں نجدی، وہابی کہتے ہیں ان کو کبھی شرک کرتے ہیں نہیں دیکھا۔ صرف اور صرف خالصتا اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
بیابان صحرائی راستے میں اکثر نماز کے اوقات میں نماز ادا کرتے دیکھا ہے، متعدد بار شادی میں گیا ہوں اجتماعی کھانا یعنی تھال کے اندر بریانی دیگر چیزیں ہوتی ہیں تین چار جتنے بھی لوگ کھاسکتے ہیں کھائے اور کوئی اٹھ جاتا تو اس کی جگہہ اسی جگہہ جہاں سے کوئی فارغ ہوا تھا بیٹھ جاتا ہے کوئی عیب نہیں۔
خیر اللہ ہم سب پر رحم کرے ، جب غیبت کرنے پر آتے ہیں تو ساری پرانی باتیں ، احسانات بھول جاتے ہیں، اللہ ہم سب کو غیبتوں سے بچائے۔
آمین
 

شمشاد

لائبریرین
آپ سب کا ماننا ہے کہ اچھے بُرے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ تو یہی حال یہاں بھی ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ برے لوگوں کی تعداد یہاں بہت کم ہے۔
 
آپ سب کا ماننا ہے کہ اچھے بُرے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ تو یہی حال یہاں بھی ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ برے لوگوں کی تعداد یہاں بہت کم ہے۔
سولہ انے کے درست بات ہے
بہت ہی کم ہیں۔الحمدللہ
شرک سے پاک ہے یہ ملک۔ باقی اپنے گھر میں بیٹھ کر کچھ بھی کرتے رہو
 
سعودی عرب ایک صحرا ہے۔ ماضی میں زندہ رہنے کے بنیادی لوازمات، کھانا ، پانی، عورت اور سخت گرمی میں کام کرنے والے غلام ایک زبردست کموڈوٹی رہے۔ اگر بھیڑ بکری کھانے کی کموڈوٹی تھیں، کنواں پینے کی کموڈوٹی تھا تو عورت نسل کو فروغ دینے کی کموڈوٹی۔ اور مرد غلام سخت گرمی میں کام کرنے کی کموڈوٹی۔ کھانے اور پانی کے ساتھ کوئی برا سلوک کیا نہیں جاسکتا لیکن غلام کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ سعودی عرب جا کر کام کرتے ہیں، ان کو سعودی غلام ہی سمجھتے ہیں۔ امارتیوں کا بھی یہی حال ہے۔ عورت کو کمووڈوٹی سمجھ کر ان معاشروں میں بیچا جاتا رہا ہے۔ یہں مہر لڑکی کا والد شادی کے موقع پر خود وصول کر کھا پی جاتا ہے۔ سعودیہ ، امارات اور دوسرے خلیجی ممالک میں لاکھ سے ملین ریال تک خطیر رقمیں لڑکی کا باپ یا ولی وصولتا ہے۔
اسکا اسلامی احکام سے بالکل کوئی تعالق نہیں لیکن پردے کے پیچھے یہ ایک ضروری وجہ ان معاشروں میں اپنی کموڈوٹی کے دام بڑھانا ہے۔ ریاض میں ایسے مقدمے کا میں چشم دید گواہ ہوں جس میں ایک لبنانی شوہر ولی بن کر اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کی شادی ایک سعودی سے کروانا چاہتا تھا اور مہر کی رقم نئے سعودی شوہر سے سابقہ لبنانی شوہر وصولنا چاہتا تھا۔

غلاموں پر کنٹرول، عورتوں پر کنٹرول اور عام آدمی پر کنٹرول کے لئے عربوں خاص طور پر صحراویوں نے مذہب کا شدید سہارا لیا اور مذہب کی آڑ میں اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے رہے ۔ جس میں عورت کی بلیک مارکیٹنگ اور غلاموں کی جدید تجارت۔ آج بھی سعودی عرب میں کام کرنے والے کو غلام سمجھا جاتا ہے۔ بغیر کفیل کی اجازت کے یہ ہسپتال تک نہیں جاسکتا۔ بڑے سے بڑا غیر ملکی غلام چاہے وہ کسی وزارت کا ایڈوائزر ہی کیوں نا ہو، اس کو اپنی وزارت سے ہسپتال جانے کا اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔ سعودیہ اور کویت میں یہی حال ٹریول کرنے، شادی کرنے ، کرائے پر مکان لینے ، حتی کہ حج یا عمرے پر جانے کے لئے کفیل سے اجازت نامہ ضروری ہے۔ کسی بھی غیر ملکی کو وہاں کہیں اور کام کرنے، تجارت کرنے یا مکان وغیرہ خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ ووٹ دے کر حکومت بدلنا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔

پاکستان کے ماحول کی بہت سے باتیں سعودی حکومت کو بہت زیادہ کھٹکتی ہیں۔ پاکستانیوں کا ووٹ دے کر اپنے حالات تبدیل کرنے کی صلاحیت، اور پاکستان میں مردوں اورعورتوں کی تعلیم ، ملازمت اور کاروبار کی جائز آزادی۔ اس کام کے لئے سعودی وزارت التخطیط (پلاننگ منسٹری) میں ایک سے زائید پراپیگنڈہ کے ماہر تعینات ہیں جو اخباری کالم نگاروں، مسجدوں کے ملا نیٹ ورک ، فوج کے ڈپیوٹڈ سپاہیوں ، پاکستانی سیاستدانوں اور القاعدہ و طالبان ظالمان مجرمان کونظریاتی مواد فراہم کرتے ہیں۔ ا جس کے بعد یہ مینڈک پاکستان میں "سعودی نظام" کے حق میں "اسلامی نظام" کے نام سے اور "عورتوں کی آزادی" کے خلاف تقریر و تحاریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ سعودی عرب ، ایران اور امارات کے ساتھ ساتھ خلیجی ریاستیں ۔۔۔ پاکستان میں اپنے برانڈ کے اسلام کے نفاذ کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کرتی ہیں۔

خلیجی ریاستوں کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ ہو تاکہ دولت چند امیر خاندانوں کے کنٹرول میں ہو تاکہ چند افراد سے معاہدہ کرکے پاکستان کی مارکیٹ کا فائیدہ اٹھایا جائے۔ ایک عوامی حکومت سے ان کو خوف آتا ہے کہ ایسی حکومت عوام کے دباؤ میں، ان خلیجی افراد کی انویسٹمنٹ پاکستان کی مارکیٹ میں مستقل طور پر غیر محفوظ رہتی ہے۔ اگر آپ بغور دیکھیں تو پاکستان میں پہلے بڑی صنعتیں پرائیویٹائز کی گئیں اور پھر چند دہائیوں کے بعد بنکوں ، صنعتوں ، کارپوریشنز کی خلیجی ممالک کو فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سب اسی خلیجی مال و دولت سے پاکستان کے عوام پر قبضہ کرنے کی کڑی ہیں

بنیادی طور پر پاکستانی معاشرے سے خلیجی ممالک خاص طور پر سعودیہ، ایران ، امارات اور کویت کو بہت خطرہ ہے۔ اگر جمہوریت ان کے ممالک میں پہنچ گئی تو پھر شیخوں اور بڑوں کا کیا ہوگا؟ کیا عام آدمی کے ووٹ سے ان کی حکومتیں بدلا کریں گی؟ کیا مرو عورت آزادنہ سفر کیا کریں گے ، آزادانہ تعلیم حاصل کریں گے، آزادانہ ہسپتال جایا کریں گے، آزادنہ ملازمت اور کاربار کریں گے اور کیا آزادانہ ملکیت کا حق ہوگا؟؟؟ اپنی برتری کی بقا کے لئے ان ممالک کی پاکستان سے مستقل نظریاتی جنگ جاری ہے۔ جس کا عین اور بھیانک مقصد پاکستان سے شخصی آزادی، ووٹ کی آزادی، ملازمت کی آزادی، تعلیم کی آزادی، ملکیت کی آزادی اور بغیر سسر کو دیے ہوئے شادی کرنے کی آزادی جیسے حقوق کو غصب کرنا شامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی کب اس دباؤ کے سامنے جھک کر تباہ ہوتے ہیں یا پھر دشمن کو پہچان کر جوابی نظریاتی جنگ شروع کرتے ہیں۔

پاکستان اپنی مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس لئے اس کے عوام کو "سعودی برانڈ کے اسلامی نظام" کے نعرے بہت اچھے لگتے ہیں۔ پھر پاکستانیوں کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہے۔ پاکستانی عورتوں میں سعودی لباس عام طور پر سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ اور پاکستانی مرد بھی سعودی حلیہ بنائے گھومتے ہیں۔ جب بھی نظریاتی جنگ ہوئی ہے ، پاکستانیوں نے فوراً شکست قبول کی ہے ، چاہے وہ بابر کا حملہ ہو یا تیمور کا، چاہے وہ محمود غزنوی کا حملہ ہو یا ایران سے احمد شاہ ابدالی کا ۔ ان غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے پاکستانیوں کے حوصلے دو ہزار سالہ تاریخ میں پست نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کی ایک قوم کا نا ہونا تھا۔ اب پاکستان ایک قوم ہے لیکن نظریاتی وحدتوں کی شدید کمی کا شکار۔

آپ ہنسنے لگیں گے کہ اگر میں کہوں کہ پاکستانی، سعودی عرب میں پاکستانی برانڈ کا اسلام پاکستانی نافذ کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔ ۔۔ یہاں رکئے اور پاکستان اور پاکستانیوں پر تھوڑی دیر خوب ہنس لیجئے۔ جی ۔ اور اگر میری بات پر یقین نہیں تو 40 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہونے کے باوجود، کچھ کیوں نہیں کرپائے؟
پاکستان عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج، ایٹمی طاقت اور صنعتی طاقت ہونے کے باوجود کسی بھی نظریاتی وحدت سے خالی ہے ۔ سعودی عرب ، امارات اور ایران ہی نہیں بلکہ بحرین ، قطر اور کویت جیسے پاکستان کے آگے ٹٹ پونجیا ملک، جو گندم کے نام پر جو بھی نہیں اگاتے، پاکستان کے نظریات بدلنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی اپنے مالی حالات کی بیماری کی وجہ سے کچھ نہیں سوچ سکتے۔ ضرورت ہے کہ پاکستان میں دولت کو گردش دینے کے ہر گر استعمال کئے جائیں۔ پاکستان 2 ارب سالانہ کے سیل فون درآمد کرتا ہے ، سابقہ 5 سالوں میں 10 ارب ڈالر کے سیل فون پاکستان نے درآمد کئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت نے کسی اسمبلی کمپنی کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی۔ کیوں؟

پاکستان میں زراعت پر ٹیکس، زیادہ زر مبادلہ کھا جانے والی صنعتوں کی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پاکستان کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس سب سے پہلے ایک نظریاتی وحدت کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان برانڈڈ اسلام یعنی قرآن حکیم کا اسلام نا کہ سعودی برانڈڈ اسلام، ہے ہمت آپ میں کہ سعودی عرب میں مارشل لاء لگادیں ؟؟ یا کم از کم اس نظام کو برا ہی کہہ دیں؟
برین واشنگ نے اتنا اچھا کام کیا ہے کہ معمولی مالی مراعات کے عوض پاکستان ، صرف سعودی نظریات کی حمایت میں بولتا ہے۔
سوچنے پر مجبور کرنے والی باتیں لکھی ہیں آپ نے۔
 

محمد امین

لائبریرین
بھائی ایک کافر نے مسلمانوں کے لیے کچھ لکھ ڈالا تو اس پر شک کیوں؟؟؟ کیا پتا مسلمان ہونے والا ہو۔۔۔۔۔ :D
 

حسان خان

لائبریرین
بھائی ایک کافر نے مسلمانوں کے لیے کچھ لکھ ڈالا تو اس پر شک کیوں؟؟؟ کیا پتا مسلمان ہونے والا ہو۔۔۔ ۔۔ :D

مسلمانوں کو نہ اپنے اسلاف کے چھوڑے ہوئے ادب کی فکر ہے، نہ تمدن کی، نہ ہی تاریخی عمارات کی۔ فکر ہے تو اپنے فرقوں کی دقیانوسی باتوں کی، جن کی خاطر ہر شخص بحث کرنے اور مرنے مارنے کو تیار ملتا ہے۔ اب اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی توجہ ان چیزوں کی جانب مبذول کرائے تو بجائے اس کے کہ ہم شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اپنے اصلی سرمائے کی حفاظت کے لیے کچھ سوچیں اور اس کے لیے لائحہ عمل تیار کریں، الٹا اس غیر مسلم پر سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ بھئی تو کیوں ہمارے مسئلے پر بول رہا ہے؟ اور اگر کوئی مسلمان اس بارے میں کچھ کہنے کی ہمت کرے تو اس کی فرقہ واریت اور اپنے مذہبی تعصب کی آڑ میں ٹانگ کھینچتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ بھئی انگریز کیوں آپس میں ان باتوں پر نہیں لڑتے؟ تو جناب انگریزوں نے بدعت اور شرک کی بحثیں عرصہ پہلے چھوڑ دی ہیں، اور وہ یوں اپنے ہاتھوں سے اپنے صدیوں پر محیط مسیحی تمدنی ورثے کی بیخ کنی بھی نہیں کرتے۔
 

arifkarim

معطل
واؤ آج کی تاریخ میں کوئی اتنا ”معصوم اور بے خبر“ بھی ہوسکتا ہے کہ بدھ مت کو ”بے ضرر“ قرار دے۔ اسی بے ”ضرربدھ مت“ کے ماننے والوں نے میانمار برما میں مسلمانوں کو جس درندگی سے اور تواتر سے جلایا ہے اور مسلسل یہ اقدام کرتے چلے آرہے ہیں اوریہ خبریں، تصاویر اور ویڈیوزسوشیل میڈیا پر آنے کے باوجود نیشنل انٹر نیشنل میڈیا اس درندگی کی جس طرح ”پردہ پوشی“ کرتا رہا ہے، یہ کوئی بہت پرانی اور ڈھکی چھپی بات نہین۔ اس کے باوجود ہمارے باخبر محترم عارف بھائی فرماتے ہیں کہ بے ضرر بدھ مت۔ کیا طالبان نے بھی افغانستان مین بھوں کو ایسے ہی جلایا اور تہہ تیغ کیا تھا ؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ صرف برما کے رہنے والے بدھمتوں کا کارنامہ ہے۔ وگرنہ بدھمت کے ماننے والے پوری دنیا میں ہیں اور کہیں بھی انکی طرف سے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیساتھ کبھی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ مسلمان جہاں بھی ہوں، ہر جگہ مسلمین اور غیر مسلمین کیساتھ زیادتی کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ برما کے بدھمتوں نے یہ توڑ پھوڑ تب شروع کی جب کچھ مسلمانوں نے ملکر ایک برمی بدھمت عورت کا گینگ ریپ کیا!
 

حسان خان

لائبریرین
یہ صرف برما کے رہنے والے بدھمتوں کا کارنامہ ہے۔ وگرنہ بدھمت کے ماننے والے پوری دنیا میں ہیں اور کہیں بھی انکی طرف سے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیساتھ کبھی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ مسلمان جہاں بھی ہوں، ہر جگہ مسلمین اور غیر مسلمین کیساتھ زیادتی کرتے نظر آتے ہیں۔

آپ بھی اپنی خود بیزاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر انصاف کا دامن چھوڑ رہے ہیں حضور۔ اتنے سادہ طریقے سے ڈیڑھ عرب مسلمانوں کو ایک اکائی بنا کر کلیتی بات نہ کیجیے، ورنہ آپ میں اور مذہبی انتہا پسندوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ البانیہ کی مسلمان اکثریت نے کبھی عیسائی اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ جمہوریہ آذربائجان میں شیعہ اکثریت نے کبھی سنی اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ ترکی کی علوی شیعہ اقلیت نے کبھی زیادتی کی شکایت نہیں کی۔ قزاقستان سے کبھی مسلم عیسائی جھڑپ کی کوئی خبر نہیں آئی۔ نیز، میں بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں، کیا آپ مجھے بھی 'تمام مسلمانوں' کی طرح غیر مسلمین پر زیادتی کرنے والا سمجھیں گے؟ رہی بات آپ کے چہیتے بدھ متوں کی تو سری لنکا کے سنہالی بدھمتوں اور تامل ہندو اقلیت کے بیچ بیس سالہ جنگ ختم ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ بھیا جی، حمام میں سب ہی ننگے ہیں، صرف مسلمانوں کو ننگا ثابت کرنے کی کوشش مت کیجیے۔
 
Top