ذوالقرنین
لائبریرین
یہ بھی بتادیجئے کہ یہ اصول نمبر ایک اور دو،کدھر سے نکالے ہیں آپ نے؟
اور یہ بھی بتادیجئے کہ یہ دینی اور دنیاوی امور کیا ہوتے ہیں، ہم تو آج تک یہی سمجھتے رہے کہ دینِ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اور اس میں زندگی کے ہر ہر گوشے اور ہر پہلو کیلئے رہنمائی ہے اور یہ کہ قبل از اسلام جن جن باتوں کو لوگ دنیاوی سمجھتے تھے ، انکو بھی اسلام نے دین کا اور تقرب الٰہی کا ذریعہ بنادیا ، چنانچہ کھانا پینا، سونا، جاگنا، کام کرنا، شادی کرنا ور ان سے متعلقہ تمام امور جن کو دینی زندگی کے منافی سمجھا جاتا تھا ان کو بھی اسلام نے عبادت میں شمار کیا، تو یہ دینی اور دنیاوی کاموں کی تفریق آپ نے کہاں سے نکالی؟۔۔۔ ہر دینی کام بھی دنیاوی ہوسکتا ہے اور ہر دنیاوی کام بھی دینی ہوسکتا ہےت اگر سمت درست ہو، یہ حضرتِ ملا کا اعجاز ہے کہ ہ دین اور وہ دنیا، جو ہم کہیں وہ دین اور جو ہم نہ کہیں وہ دنیا۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
جناب! کیا آپ مارک زدہ ریمارکس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے۔
اور آپ کو (بلکہ سب کو) ملاؤں سے اتنا چڑ کیوں ہے؟؟؟
آپ کے نزدیک کسی عالم کی کیا تعریف ہو سکتی ہے؟
کیا آپ کسی مسجد میں نماز پڑھانے والے پیش امام کو بھی عالم سمجھتے ہیں؟