جاسم محمد
محفلین
مسلم دنیا میں سائنس کا زوال کیسے ہوا؟
12/04/2019 پروفیسر جمیل چودھری
دور جدید میں مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیق میں دوسری اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سائنس کے مورخین بتاتے ہیں کہ 16 ویں صدی عیسوی تک کرۂ ارض پر موجود 3 تہذیبوں میں سائنسی تخلیقات تقریباً ایک ہی معیارکی تھیں۔ چین، مسلم دنیا اور براعظم یورپ کی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تخلیقات میں کوئی نمایاں فرق نہ تھا۔ ہم موجودہ مضمون میں پہلے 16 ویں صدی تک مسلم علاقوں میں سائنسی صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ اور پھر یورپ میں ہونے والی اعلیٰ درجہ کی سائنسی ترقی کی صورت حال دیکھیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے کے سائنسی مورخین مسلم دنیا کے سائنسی زوال کے 2 اسباب بیان کیا کرتے تھے۔ پہلا سبب امام غزالی کی عقلی علوم کی بڑے پیمانے پر مخالفت کو سمجھا جاتا تھا۔ امام غزالی کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کی تحریروں کے اثرات پوری مسلم دنیا پر ہوئے ”تہافت الفلاسفہ“ ان کی بڑی زور دار تحریر ہے۔ یونانی فلسفہ اور سائنسی فکر جو غزالی سے پہلے ذہنوں کو متاثر کر رہا تھا۔ امام غزالی نے اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت شروع کردی۔
سائنس کے کچھ عرصہ پہلے تک کے مورخین مسلم سائنسی تحقیقات کو 2 ادوار میں تقسیم کر لیتے تھے۔ غزالی سے پہلے کا دور اور بعد کا دور۔ لیکن مورخین اس بات کی وضاحت موثر انداز سے نہیں کرتے کہ آخر غزالی کے بعد کے دور میں بھی اعلیٰ درجے کے مسلم سائنسدان کیسے پیدا ہوتے رہے۔ ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں بھی اعلیٰ معیار کی تھیں۔ فلکیات، طب، مکینکل انجیئرنگ اور بصریات میں غزالی کے بعد اونچے درجے کا کام ہوا۔
بلاشبہ فلکیات کی مختلف شاخوں میں 13 ویں صدی عیسوی کے بعد کام کرنے والے ایسے ماہرین بڑی تعداد میں تھے جو سیاری نظریات میں نئی راہیں نکال رہے تھے۔ اور متبادل فلکیات ترتیب دے رہے تھے۔ اسے ہم ہئیت جدیدہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم امام غزالی کے تقریباً 100 سال بعد آنے والے عزالدین الجزری ( 1206 ) کے کام کا مقابلہ 9 ویں صدی عیسوی کے بنو موسیٰ سے کرتے ہیں۔ تو ہمیں الجزری کا کام بہت اونچے درجے کا محسوس ہوتا ہے۔
خلیفہ متوکل ( 847 ء تا 861 ء) بنو موسی کے بنائے ہوئے آلات کو بہت ہی پسند کرتا اور ان میں محسور رہتا تھا۔ بنو موسی کے تحت کام کرنے والے انجینئرز ہر وقت طرح طرح کے آلات بناتے رہتے تھے۔ اس صورت حال کے برعکس الجزری کے مربی کی خواہش یہ تھی کہ الجزری ایک ایسی کتاب لکھے جس میں اس کے بے مثال نمونے (اشکال) اور جو چیزیں اس نے ایجاد کی تھیں اور جو مثالیں اس نے سوچی تھیں وہ سب دستاویزی شکل میں محفوظ ہو جائیں۔
الجزری کی کتاب پڑھنے والوں کو اس کی تحریر میں گہری بصیرت محسوس ہوتی ہے۔ میکانکی آلات کیسے کام کرتے ہیں؟ اور کیوں اس طریقے سے کام کرتے ہیں؟ الجزری نے بعض اوقات یہ بھی کہا تھا کہ وہ فطرت کے ایک ایک اصول کی تشریح مختلف آلات سے کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ ان اصولوں کا کائنات میں ہمہ گیر طور پر نافذ ہونا ثابت ہو سکے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنسدان الجزری جو امام غزالی کے بہت بعد آئے ان کا کام سائنسی لحاظ سے اونچے درجے کا ثابت ہوتا ہے۔
ایک اور مثال علم طب میں ابن نفیس کی ہے۔ وہ اپنے ممدوح ابن سینا سے بہت اختلاف کرتا ہے بلکہ ابن سینا کی سند اول جالینوس پر بھی شدت سے اعتراض کرتا ہے۔ ابن نفیس نے جالینوس اور ابن سینا دونوں کے مشاہدات کو رد کر دیا تھا۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غزالی کے بعد کے زمانے میں مسلم سائنسدانوں میں اتنا اعتماد آگیا تھا کہ وہ اپنے متقد مین پر بے دھٹرک اعتراض کرنے لگے تھے۔ امام غزالی کے دور کے بعد کما الدین الفارسی وفات ( 1320 ء) میں بھی اسی طرح کا رجحان نظر آتا ہے۔
الفارسی کا میدان تحقیق بصریات کا میدان تھا۔ الفارسی کے استاد قطب الدین شیرازی ( وفات 1311 ء) نے اسے ابن ہیشم کی کتابوں کے مطالعہ کی سفارش کی تھی۔ ابن ہیشم بھی امام غزالی سے پہلے دور کا سائنسدان تھا۔ بحریات کا الگ اہم موضوع قوس قزح (Rainbow) بھی تھا۔ اس کی تشریح نہ یونانی سائنسدان صحیح طرح سے کر سکے تھے اور نہ ہی ابن ہیشم جیسا بڑا بصریات دان قوس قزح کے رنگوں کی وضاحت کرسکا تھا۔ الفارسی نے اس کام کو کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
اس کام کے لئے اس نے ایسے آلات بنائے جس سے قوس قزح میں مختلف رنگوں کے ظہور کی توضیح ہوسکے۔ یوں قوس قزح کے رنگوں کی صحیح تشریح مابعد غزالی سائنسدان الفارسی نے کی۔ الفارسی نے ابن ہیشم کی معروف کتاب کی تشریح لکھی۔ اس میں یونانیوں اور ابن ہیشم کے خیالات کو غلط ثابت کیا۔ اس دور میں رواج اور روایت یہی تھی کہ سابقہ سائنسدانوں کی کتابوں پر شرح لکھی جائے۔ مصنف کے اپنے متبادل نظریات انہی شرحوں میں پیش کیے جاتے تھے۔
سائنسدان الجزری، ابن نفیس اور الفارسی نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ غزالی کے بعد کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ فلکیات، میکانکی انجینئرنگ، طب اور بصریات میں بہت سے نئے معیاری آلات بنائے گئے اور اونچے درجے کی کتابوں میں درج ہوئے۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام غزالی کے دور کے بعد بھی مسلمانوں میں سائنسی تحقیقات وتخلیقات کا کام اونچے درجے پر جاری رہا۔ یہ کام 16 ویں صدی تک ہوتا نظر آتا ہے۔
یہاں آکر کاسیکی نقطہ نظر کے اس بیانیہ کی تردید ہو جاتی ہے کہ امام غزالی کے دور کے بعد سائنسی تحقیقات پر کام نہیں ہوا۔ قدیم مورخین اس بات کو بڑی شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ بغداد کی تباہی ( 1258 ء) کے بعد مسلمانوں کی سائنسی قوت اور سوچ میں زوال آگیا۔ مرکزی ریاست منتشر ہوگئی اور سائنس کی ترقی کا کام بھی رک گیا۔ یہ نقطہ نظر ان مورخین کا ہوتا ہے جو تاریخ کو سیاسی واقعات کی عینک سے پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخ کو صرف جنگ وجدل قرار دیتے ہیں اور یہ فکری تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کے نزدیک مسلم سائنس کے زوال کی توجہ صرف منگول یلغار سے ہو جاتی ہے۔ مگر یہ وجہ اتنی اطمینان بخش نہیں جتنی عام لوگ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد بالکل تباہ ہو گیا مگر یہ اتفاق بھی قابل غور ہے کہ اسی زمانے میں ہلاکو خان کا مشیر معروف فلکیات دان نصیر الدین طوسی تھا۔ ہلاکو خان نے اسے علاقہ الموت کے اسماعیلی قلعہ کی تسخیر کے دوران گرفتار کیا تھا۔ وہ بہت جلد اپنے علم وتجربہ کی بنا پر ہلاکو خان کا مشیر بن گیا تھا۔
طوسی نے اپنی عقلمندی اور حکمت عملی سے بغداد کی تباہی سے پہلے کتابوں کے 4 لاکھ مسودات ضائع ہونے سے بچا لئے تھے۔ یہ تمام باتیں جدید دور کی ریسرچ سے معلوم ہو رہی ہیں۔ نصیر الدین طوسی نے ابن الفوطی نامی نوجوان کی زندگی بھی بچالی۔ اور اس کو اپنے ساتھ تبریز کے نزدیک اس جگہ لے گیا جو بعد میں ایلخانی قلعہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
نصیر الدین طوسی نے ہی ہلاکو خان سے مالی مدد حاصل کی اور مراغہ شہر کے قریب ایک پہاڑی پر ایسی رصدگاہ قائم کی جو بعد میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی رصدگاہ کے طور پر معروف ہوئی۔ پھر جلد ہی منگولوں نے اسلام قبول کر لینا شروع کر دیا۔ ایلخانان کا اسلام قبول کر لینا بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ طوسی نے تمام معروف فلکیات دانوں کو مراغہ شہر میں اکٹھا کیا۔ اسی رصد گاہ کی بلڈنگ میں وہ تمام مسودات اکٹھے کر لئے گئے اور محفوظ کر لئے گئے جو بغداد، دمشق اور دوسرے شہروں سے بچا کر لائے گئے تھے۔
یہاں کا کتب خانہ ابن فوطی کی نگرانی میں کام کرتا رہا۔ فلکیات پر تحقیق و تخلیق یہاں دوبارہ شروع ہوگئی۔ یہیں پر شیرازی کی 2 جلدوں پر مشتمل فلکیات کی کتاب لکھی گئی۔ اگر آج کل مغرب کی لائبریریوں میں مسلم سائنسدانوں کی کتابوں کے نمونے موجود ہیں تو یہ اسی مراغہ شہر میں قائم لائبریری کی وجہ سے ہی ہیں۔ مراغہ شہر میں رصدگاہ کی بنیاد بغداد کی تباہی کے صرف ایک سال بعد ( 1259 ء) میں رکھ دی گئی تھی۔ رصد گاہ کے آلات معروف انجینئرز عرضی نے تیار کیے تھے۔
اور عرضی نے یہ تمام تفصیلات اپنی ہی کتاب میں لکھ دی تھیں۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم سائنس میں تحقیق و تخلیق کا کام بغداد کی تباہی کے بعد بھی جاری رہا۔ صرف اس کا مرکز بغداد کی بجائے ایرانی شہر مراغہ بن گیا تھا۔ یہاں آکر کلاسیکی مورخوں کے دونوں بیانئے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ سائنس میں تحقیق کا کام غزالی کے بعد بھی جاری رہا۔ اور بغداد کی تباہی کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں اسباب سے نہ سائنسی پیداوار کی رفتار کم ہوئی اور نہ دور زوال شروع ہوا۔
یہ دور زوال ریاستی سطح پر تو نظر آتا ہے۔ فکری سطح پر نظر نہیں آتا۔ اس کی وجوہات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ 16 ویں صدی کے وسط میں مسلم تاریخ میں سیاسی طاقت بڑے پیمانے پر منقسم نظر آتی ہے۔ اس تقسیم سے 3 بڑی سلطنیں پیدا ہوئیں۔ تینوں تقریباً ایک ہی وقت میں قائم ہوئیں۔ عثمانیہ خلافت کو چھوڑکر باقی دونوں مسلم سلطنتیں 18 ویں صدی میں ختم ہو گئیں۔ عثمانی سلطنت بطور سلطنت عام ( 1453 ء) قسطنطنیہ کی فتح سے شروع ہوئی۔
عثمانیوں نے پھر بڑھنا اور پھیلنا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مصر اور شمالی افریقہ بھی ان کے کنٹرول میں آگئے۔ شام، عراق اور جزیرہ العرب کے ایک بڑے حصے پر بھی عثمانیوں نے قبضہ کر لیا۔ عباسیوں کے بعد مسلمان ایک عثمانی خلیفہ کے ماتحت نظر آتے ہیں۔ 16 وی صدی میں ایران کے بڑے حصے پر صفویوں نے اپنا اقتدار مستحکم کرلیا۔ عثمانیوں اور صفویوں میں مذہبی بنیادوں پر اختلاف اور جھگڑے ہوتے رہے۔
اس کے اثرات دور جدید تک نظر آتے ہیں۔ مغلوں نے ( 1520 ء) سے تقریباً 19 ویں صدی کے وسط تک اپنی سلطنت کو قائم رکھا۔ یوں مغلوں نے وسط ایشیاء سے مشرق کی طرف بڑھتے بڑھتے ایک طویل المدت حکومت قائم کی۔ ان تینوں سلطنتوں کے قیام سے مسلمانوں میں تہذیبی پیوستگی کمزور پڑگئی۔ مختلف مواقع پر صفویوں اور عثمانیوں میں جھگڑے چلتے رہے۔ ریاستی حکمرانوں کی توجہ سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تحقیقات و تخلیقات کی طرف بہت کم نظر آتی ہے۔
تھوڑا بہت علمی کام عثمانی سلطنت میں نظر آتا ہے۔ لیکن 16 ویں صدی میں ہی ایک اور بڑا واقعہ کرہ ارض پر پیش آیا۔ جس نے دنیا کے سارے نظم کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ نئی دنیا امریکہ کا انکشاف تھا۔ اس انکشاف کا سب سے زیادہ فائدہ یورپی سائنس کو ہوا۔ اس واقعہ سے نہ صرف زمانہ دراز سے قائم شدہ یورپ اور ایشیاء کے درمیان تجارتی شاہراہوں میں شکنیں پڑ گئیں۔ اب نیا خام مال یورپ میں براہ راست نئی دنیا سے پہنچنے لگا۔
اس واقعہ کو تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 16 ویں صدی کے آغاز سے نئی دنیا کا انکشاف ہوا۔ کولمبس اور دیگر لوگوں کی مہمات سے تمام لوگ واقف ہیں۔ یہ واقعہ چند سالوں تک پھیلا ہوا نہ تھا بلکہ پوری 2 صدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی دنیا کی دریافت سے تجارت کا رخ بدل گیا۔ یورپ کا رخ اب ایشیاء کی بجائے نئی دنیا امریکہ کی طرف ہوگیا۔ نئی دنیا کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے افریقی غلاموں کو لاکھوں کی تعداد میں پکڑ کر مفت کام لینے کے لئے لایا گیا۔
نئی زمینوں کی کھوج نئے وسائل پر قبضہ، نئی نوآبادیات کے قیام کے لئے افریقی غلاموں کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ 16 ویں اور 17 ویں صدیوں سے یورپ کے تاجروں کے راستے بدل گئے۔ یہ تاجر اسلامی دنیا کے باہر سے ہی بے شمار وسائل اور دولت یورپ لانے لگے۔ یورپ کے بادشاہ اور شہزادے بڑے بڑے تجارتی جہازوں کے بیڑوں کے مالک بن گئے۔ یورپ نے اپنی اس دولت کی بنا پر پہلے جنوب مشرق اور پھر مزید مشرق کی طرف قبضے شروع کیے۔
( 1757 ء) سے برصغیر پاک وہند پر بھی قبضہ شروع ہو گیا تھا۔ یہاں سے بھی دولت اور وسائل یورپ منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ اس طرح یورپ میں مغرب نئی دنیا اور مشرق قدیم دنیا سے بے شمار وسائل اور دولت یورپ منتقل ہوئی۔ اسی عرصہ میں یورپ میں سائنس اکیڈمیاں قائم ہوئیں۔ یہ ایک نیا رواج تھا۔ ان اکیڈمیوں کو یہ ہدایت تھی کہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو فکر معاش سے آزاد کر دیں جو دانشور ان اکیڈمیوں سے وابستہ ہوئے۔ وہ اکیڈمی علمی اور ذہنی مسابقت کا ماحول دانشوروں کے لئے پیدا کرتی تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحت مند مسابقت عام طور پر سائنسی ترقی کا سبب بنتی ہے۔ ان اکیڈمیوں کو نئی دنیا سے حاصل ہونے والی بے شمار دولت حاصل تھی۔ گلیلیو جیسے لوگ ان اکیڈمیوں سے وابستہ ہوگئے۔ ان اکیڈمیوں میں Lincie کی اکیڈمی 1603 ء میں قائم ہوئی۔ 1662 ء میں Royal Society of England قائم ہوئی۔ اور فرانسیسی علمی اکیڈمی 1666 ء میں ترتیب دی گئی۔
اس سے پہلے یورپ میں نشاة ثانیہ اور اصلاح مذہب جیسی روشن خیال کی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں۔ یورپی لوگوں نے چرچ کی ذہنی غلامی سے آزادی حاصل کر لی تھی۔ نئی دنیا سے حاصل کردہ دولت کی سرمایہ کاری سے سائنس زیادہ بارآور ہوئی۔ بے شمار یونیورسٹیوں کا قیام بھی اسی عرصہ میں شروع ہوا۔ 16 ویں صدی عیسوی کے بعد مسلم سائنس، یورپین سائنس کی نسبت بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اس وقت سے یورپی سائنس اگر بہت زیادہ ترقی یافتہ نظر آ رہی ہے۔
تو اس میں نئے وسائل سے حاصل شدہ دولت کا بڑا رول ہے۔ یورپ اب (Micro) سطح کی سائنس پر آگیا ہے۔ چاند کی تسخیر اس کے لئے اب قصہ پارینہ ہے۔ اب اس کا رخ زہرہ سیارے کی طرف ہے۔ مسلم دنیا اور یورپ امریکہ کے درمیان جو فرق ہے اب ایسا لگتا ہے کہ آئندہ صدیوں تک قائم رہے گا۔ چینی تہذیب نے یہ فرق یورپین ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے کم کر لیا ہے۔ لیکن مسلم دنیا بکھرے ہوئے قطعات کی وجہ سے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی بڑی جست نہیں لگا سکی۔
مسلم دنیا کا رول صرف صارف کا رول ہے۔ یورپ اور امریکہ کے برابر آنے کے لئے مسلم دنیا کو اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ تحقیق وتخلیق کے لئے مختص کرنا پڑے گا۔ ابھی تک ہم کتنا خرچ سائنسی تحقیق و تخلیق پر کر رہے ہیں۔ صرف پاکستان کی مثال سے بات واضح ہو جائے گی۔ پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کی تحقیق پر اپنی جی ڈی پی کا صرف اور صرف 2 فیصد خرچ کرتا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے بڑے حصے کو مختص کر کے ہی ہم سائنسی دور زوال سے نکل سکتے ہیں۔
12/04/2019 پروفیسر جمیل چودھری
دور جدید میں مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیق میں دوسری اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سائنس کے مورخین بتاتے ہیں کہ 16 ویں صدی عیسوی تک کرۂ ارض پر موجود 3 تہذیبوں میں سائنسی تخلیقات تقریباً ایک ہی معیارکی تھیں۔ چین، مسلم دنیا اور براعظم یورپ کی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تخلیقات میں کوئی نمایاں فرق نہ تھا۔ ہم موجودہ مضمون میں پہلے 16 ویں صدی تک مسلم علاقوں میں سائنسی صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ اور پھر یورپ میں ہونے والی اعلیٰ درجہ کی سائنسی ترقی کی صورت حال دیکھیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے کے سائنسی مورخین مسلم دنیا کے سائنسی زوال کے 2 اسباب بیان کیا کرتے تھے۔ پہلا سبب امام غزالی کی عقلی علوم کی بڑے پیمانے پر مخالفت کو سمجھا جاتا تھا۔ امام غزالی کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کی تحریروں کے اثرات پوری مسلم دنیا پر ہوئے ”تہافت الفلاسفہ“ ان کی بڑی زور دار تحریر ہے۔ یونانی فلسفہ اور سائنسی فکر جو غزالی سے پہلے ذہنوں کو متاثر کر رہا تھا۔ امام غزالی نے اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت شروع کردی۔
سائنس کے کچھ عرصہ پہلے تک کے مورخین مسلم سائنسی تحقیقات کو 2 ادوار میں تقسیم کر لیتے تھے۔ غزالی سے پہلے کا دور اور بعد کا دور۔ لیکن مورخین اس بات کی وضاحت موثر انداز سے نہیں کرتے کہ آخر غزالی کے بعد کے دور میں بھی اعلیٰ درجے کے مسلم سائنسدان کیسے پیدا ہوتے رہے۔ ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں بھی اعلیٰ معیار کی تھیں۔ فلکیات، طب، مکینکل انجیئرنگ اور بصریات میں غزالی کے بعد اونچے درجے کا کام ہوا۔
بلاشبہ فلکیات کی مختلف شاخوں میں 13 ویں صدی عیسوی کے بعد کام کرنے والے ایسے ماہرین بڑی تعداد میں تھے جو سیاری نظریات میں نئی راہیں نکال رہے تھے۔ اور متبادل فلکیات ترتیب دے رہے تھے۔ اسے ہم ہئیت جدیدہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم امام غزالی کے تقریباً 100 سال بعد آنے والے عزالدین الجزری ( 1206 ) کے کام کا مقابلہ 9 ویں صدی عیسوی کے بنو موسیٰ سے کرتے ہیں۔ تو ہمیں الجزری کا کام بہت اونچے درجے کا محسوس ہوتا ہے۔
خلیفہ متوکل ( 847 ء تا 861 ء) بنو موسی کے بنائے ہوئے آلات کو بہت ہی پسند کرتا اور ان میں محسور رہتا تھا۔ بنو موسی کے تحت کام کرنے والے انجینئرز ہر وقت طرح طرح کے آلات بناتے رہتے تھے۔ اس صورت حال کے برعکس الجزری کے مربی کی خواہش یہ تھی کہ الجزری ایک ایسی کتاب لکھے جس میں اس کے بے مثال نمونے (اشکال) اور جو چیزیں اس نے ایجاد کی تھیں اور جو مثالیں اس نے سوچی تھیں وہ سب دستاویزی شکل میں محفوظ ہو جائیں۔
الجزری کی کتاب پڑھنے والوں کو اس کی تحریر میں گہری بصیرت محسوس ہوتی ہے۔ میکانکی آلات کیسے کام کرتے ہیں؟ اور کیوں اس طریقے سے کام کرتے ہیں؟ الجزری نے بعض اوقات یہ بھی کہا تھا کہ وہ فطرت کے ایک ایک اصول کی تشریح مختلف آلات سے کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ ان اصولوں کا کائنات میں ہمہ گیر طور پر نافذ ہونا ثابت ہو سکے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنسدان الجزری جو امام غزالی کے بہت بعد آئے ان کا کام سائنسی لحاظ سے اونچے درجے کا ثابت ہوتا ہے۔
ایک اور مثال علم طب میں ابن نفیس کی ہے۔ وہ اپنے ممدوح ابن سینا سے بہت اختلاف کرتا ہے بلکہ ابن سینا کی سند اول جالینوس پر بھی شدت سے اعتراض کرتا ہے۔ ابن نفیس نے جالینوس اور ابن سینا دونوں کے مشاہدات کو رد کر دیا تھا۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غزالی کے بعد کے زمانے میں مسلم سائنسدانوں میں اتنا اعتماد آگیا تھا کہ وہ اپنے متقد مین پر بے دھٹرک اعتراض کرنے لگے تھے۔ امام غزالی کے دور کے بعد کما الدین الفارسی وفات ( 1320 ء) میں بھی اسی طرح کا رجحان نظر آتا ہے۔
الفارسی کا میدان تحقیق بصریات کا میدان تھا۔ الفارسی کے استاد قطب الدین شیرازی ( وفات 1311 ء) نے اسے ابن ہیشم کی کتابوں کے مطالعہ کی سفارش کی تھی۔ ابن ہیشم بھی امام غزالی سے پہلے دور کا سائنسدان تھا۔ بحریات کا الگ اہم موضوع قوس قزح (Rainbow) بھی تھا۔ اس کی تشریح نہ یونانی سائنسدان صحیح طرح سے کر سکے تھے اور نہ ہی ابن ہیشم جیسا بڑا بصریات دان قوس قزح کے رنگوں کی وضاحت کرسکا تھا۔ الفارسی نے اس کام کو کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
اس کام کے لئے اس نے ایسے آلات بنائے جس سے قوس قزح میں مختلف رنگوں کے ظہور کی توضیح ہوسکے۔ یوں قوس قزح کے رنگوں کی صحیح تشریح مابعد غزالی سائنسدان الفارسی نے کی۔ الفارسی نے ابن ہیشم کی معروف کتاب کی تشریح لکھی۔ اس میں یونانیوں اور ابن ہیشم کے خیالات کو غلط ثابت کیا۔ اس دور میں رواج اور روایت یہی تھی کہ سابقہ سائنسدانوں کی کتابوں پر شرح لکھی جائے۔ مصنف کے اپنے متبادل نظریات انہی شرحوں میں پیش کیے جاتے تھے۔
سائنسدان الجزری، ابن نفیس اور الفارسی نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ غزالی کے بعد کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ فلکیات، میکانکی انجینئرنگ، طب اور بصریات میں بہت سے نئے معیاری آلات بنائے گئے اور اونچے درجے کی کتابوں میں درج ہوئے۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام غزالی کے دور کے بعد بھی مسلمانوں میں سائنسی تحقیقات وتخلیقات کا کام اونچے درجے پر جاری رہا۔ یہ کام 16 ویں صدی تک ہوتا نظر آتا ہے۔
یہاں آکر کاسیکی نقطہ نظر کے اس بیانیہ کی تردید ہو جاتی ہے کہ امام غزالی کے دور کے بعد سائنسی تحقیقات پر کام نہیں ہوا۔ قدیم مورخین اس بات کو بڑی شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ بغداد کی تباہی ( 1258 ء) کے بعد مسلمانوں کی سائنسی قوت اور سوچ میں زوال آگیا۔ مرکزی ریاست منتشر ہوگئی اور سائنس کی ترقی کا کام بھی رک گیا۔ یہ نقطہ نظر ان مورخین کا ہوتا ہے جو تاریخ کو سیاسی واقعات کی عینک سے پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخ کو صرف جنگ وجدل قرار دیتے ہیں اور یہ فکری تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کے نزدیک مسلم سائنس کے زوال کی توجہ صرف منگول یلغار سے ہو جاتی ہے۔ مگر یہ وجہ اتنی اطمینان بخش نہیں جتنی عام لوگ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد بالکل تباہ ہو گیا مگر یہ اتفاق بھی قابل غور ہے کہ اسی زمانے میں ہلاکو خان کا مشیر معروف فلکیات دان نصیر الدین طوسی تھا۔ ہلاکو خان نے اسے علاقہ الموت کے اسماعیلی قلعہ کی تسخیر کے دوران گرفتار کیا تھا۔ وہ بہت جلد اپنے علم وتجربہ کی بنا پر ہلاکو خان کا مشیر بن گیا تھا۔
طوسی نے اپنی عقلمندی اور حکمت عملی سے بغداد کی تباہی سے پہلے کتابوں کے 4 لاکھ مسودات ضائع ہونے سے بچا لئے تھے۔ یہ تمام باتیں جدید دور کی ریسرچ سے معلوم ہو رہی ہیں۔ نصیر الدین طوسی نے ابن الفوطی نامی نوجوان کی زندگی بھی بچالی۔ اور اس کو اپنے ساتھ تبریز کے نزدیک اس جگہ لے گیا جو بعد میں ایلخانی قلعہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
نصیر الدین طوسی نے ہی ہلاکو خان سے مالی مدد حاصل کی اور مراغہ شہر کے قریب ایک پہاڑی پر ایسی رصدگاہ قائم کی جو بعد میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی رصدگاہ کے طور پر معروف ہوئی۔ پھر جلد ہی منگولوں نے اسلام قبول کر لینا شروع کر دیا۔ ایلخانان کا اسلام قبول کر لینا بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ طوسی نے تمام معروف فلکیات دانوں کو مراغہ شہر میں اکٹھا کیا۔ اسی رصد گاہ کی بلڈنگ میں وہ تمام مسودات اکٹھے کر لئے گئے اور محفوظ کر لئے گئے جو بغداد، دمشق اور دوسرے شہروں سے بچا کر لائے گئے تھے۔
یہاں کا کتب خانہ ابن فوطی کی نگرانی میں کام کرتا رہا۔ فلکیات پر تحقیق و تخلیق یہاں دوبارہ شروع ہوگئی۔ یہیں پر شیرازی کی 2 جلدوں پر مشتمل فلکیات کی کتاب لکھی گئی۔ اگر آج کل مغرب کی لائبریریوں میں مسلم سائنسدانوں کی کتابوں کے نمونے موجود ہیں تو یہ اسی مراغہ شہر میں قائم لائبریری کی وجہ سے ہی ہیں۔ مراغہ شہر میں رصدگاہ کی بنیاد بغداد کی تباہی کے صرف ایک سال بعد ( 1259 ء) میں رکھ دی گئی تھی۔ رصد گاہ کے آلات معروف انجینئرز عرضی نے تیار کیے تھے۔
اور عرضی نے یہ تمام تفصیلات اپنی ہی کتاب میں لکھ دی تھیں۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم سائنس میں تحقیق و تخلیق کا کام بغداد کی تباہی کے بعد بھی جاری رہا۔ صرف اس کا مرکز بغداد کی بجائے ایرانی شہر مراغہ بن گیا تھا۔ یہاں آکر کلاسیکی مورخوں کے دونوں بیانئے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ سائنس میں تحقیق کا کام غزالی کے بعد بھی جاری رہا۔ اور بغداد کی تباہی کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں اسباب سے نہ سائنسی پیداوار کی رفتار کم ہوئی اور نہ دور زوال شروع ہوا۔
یہ دور زوال ریاستی سطح پر تو نظر آتا ہے۔ فکری سطح پر نظر نہیں آتا۔ اس کی وجوہات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ 16 ویں صدی کے وسط میں مسلم تاریخ میں سیاسی طاقت بڑے پیمانے پر منقسم نظر آتی ہے۔ اس تقسیم سے 3 بڑی سلطنیں پیدا ہوئیں۔ تینوں تقریباً ایک ہی وقت میں قائم ہوئیں۔ عثمانیہ خلافت کو چھوڑکر باقی دونوں مسلم سلطنتیں 18 ویں صدی میں ختم ہو گئیں۔ عثمانی سلطنت بطور سلطنت عام ( 1453 ء) قسطنطنیہ کی فتح سے شروع ہوئی۔
عثمانیوں نے پھر بڑھنا اور پھیلنا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مصر اور شمالی افریقہ بھی ان کے کنٹرول میں آگئے۔ شام، عراق اور جزیرہ العرب کے ایک بڑے حصے پر بھی عثمانیوں نے قبضہ کر لیا۔ عباسیوں کے بعد مسلمان ایک عثمانی خلیفہ کے ماتحت نظر آتے ہیں۔ 16 وی صدی میں ایران کے بڑے حصے پر صفویوں نے اپنا اقتدار مستحکم کرلیا۔ عثمانیوں اور صفویوں میں مذہبی بنیادوں پر اختلاف اور جھگڑے ہوتے رہے۔
اس کے اثرات دور جدید تک نظر آتے ہیں۔ مغلوں نے ( 1520 ء) سے تقریباً 19 ویں صدی کے وسط تک اپنی سلطنت کو قائم رکھا۔ یوں مغلوں نے وسط ایشیاء سے مشرق کی طرف بڑھتے بڑھتے ایک طویل المدت حکومت قائم کی۔ ان تینوں سلطنتوں کے قیام سے مسلمانوں میں تہذیبی پیوستگی کمزور پڑگئی۔ مختلف مواقع پر صفویوں اور عثمانیوں میں جھگڑے چلتے رہے۔ ریاستی حکمرانوں کی توجہ سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تحقیقات و تخلیقات کی طرف بہت کم نظر آتی ہے۔
تھوڑا بہت علمی کام عثمانی سلطنت میں نظر آتا ہے۔ لیکن 16 ویں صدی میں ہی ایک اور بڑا واقعہ کرہ ارض پر پیش آیا۔ جس نے دنیا کے سارے نظم کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ نئی دنیا امریکہ کا انکشاف تھا۔ اس انکشاف کا سب سے زیادہ فائدہ یورپی سائنس کو ہوا۔ اس واقعہ سے نہ صرف زمانہ دراز سے قائم شدہ یورپ اور ایشیاء کے درمیان تجارتی شاہراہوں میں شکنیں پڑ گئیں۔ اب نیا خام مال یورپ میں براہ راست نئی دنیا سے پہنچنے لگا۔
اس واقعہ کو تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 16 ویں صدی کے آغاز سے نئی دنیا کا انکشاف ہوا۔ کولمبس اور دیگر لوگوں کی مہمات سے تمام لوگ واقف ہیں۔ یہ واقعہ چند سالوں تک پھیلا ہوا نہ تھا بلکہ پوری 2 صدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی دنیا کی دریافت سے تجارت کا رخ بدل گیا۔ یورپ کا رخ اب ایشیاء کی بجائے نئی دنیا امریکہ کی طرف ہوگیا۔ نئی دنیا کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے افریقی غلاموں کو لاکھوں کی تعداد میں پکڑ کر مفت کام لینے کے لئے لایا گیا۔
نئی زمینوں کی کھوج نئے وسائل پر قبضہ، نئی نوآبادیات کے قیام کے لئے افریقی غلاموں کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ 16 ویں اور 17 ویں صدیوں سے یورپ کے تاجروں کے راستے بدل گئے۔ یہ تاجر اسلامی دنیا کے باہر سے ہی بے شمار وسائل اور دولت یورپ لانے لگے۔ یورپ کے بادشاہ اور شہزادے بڑے بڑے تجارتی جہازوں کے بیڑوں کے مالک بن گئے۔ یورپ نے اپنی اس دولت کی بنا پر پہلے جنوب مشرق اور پھر مزید مشرق کی طرف قبضے شروع کیے۔
( 1757 ء) سے برصغیر پاک وہند پر بھی قبضہ شروع ہو گیا تھا۔ یہاں سے بھی دولت اور وسائل یورپ منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ اس طرح یورپ میں مغرب نئی دنیا اور مشرق قدیم دنیا سے بے شمار وسائل اور دولت یورپ منتقل ہوئی۔ اسی عرصہ میں یورپ میں سائنس اکیڈمیاں قائم ہوئیں۔ یہ ایک نیا رواج تھا۔ ان اکیڈمیوں کو یہ ہدایت تھی کہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو فکر معاش سے آزاد کر دیں جو دانشور ان اکیڈمیوں سے وابستہ ہوئے۔ وہ اکیڈمی علمی اور ذہنی مسابقت کا ماحول دانشوروں کے لئے پیدا کرتی تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحت مند مسابقت عام طور پر سائنسی ترقی کا سبب بنتی ہے۔ ان اکیڈمیوں کو نئی دنیا سے حاصل ہونے والی بے شمار دولت حاصل تھی۔ گلیلیو جیسے لوگ ان اکیڈمیوں سے وابستہ ہوگئے۔ ان اکیڈمیوں میں Lincie کی اکیڈمی 1603 ء میں قائم ہوئی۔ 1662 ء میں Royal Society of England قائم ہوئی۔ اور فرانسیسی علمی اکیڈمی 1666 ء میں ترتیب دی گئی۔
اس سے پہلے یورپ میں نشاة ثانیہ اور اصلاح مذہب جیسی روشن خیال کی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں۔ یورپی لوگوں نے چرچ کی ذہنی غلامی سے آزادی حاصل کر لی تھی۔ نئی دنیا سے حاصل کردہ دولت کی سرمایہ کاری سے سائنس زیادہ بارآور ہوئی۔ بے شمار یونیورسٹیوں کا قیام بھی اسی عرصہ میں شروع ہوا۔ 16 ویں صدی عیسوی کے بعد مسلم سائنس، یورپین سائنس کی نسبت بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اس وقت سے یورپی سائنس اگر بہت زیادہ ترقی یافتہ نظر آ رہی ہے۔
تو اس میں نئے وسائل سے حاصل شدہ دولت کا بڑا رول ہے۔ یورپ اب (Micro) سطح کی سائنس پر آگیا ہے۔ چاند کی تسخیر اس کے لئے اب قصہ پارینہ ہے۔ اب اس کا رخ زہرہ سیارے کی طرف ہے۔ مسلم دنیا اور یورپ امریکہ کے درمیان جو فرق ہے اب ایسا لگتا ہے کہ آئندہ صدیوں تک قائم رہے گا۔ چینی تہذیب نے یہ فرق یورپین ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے کم کر لیا ہے۔ لیکن مسلم دنیا بکھرے ہوئے قطعات کی وجہ سے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی بڑی جست نہیں لگا سکی۔
مسلم دنیا کا رول صرف صارف کا رول ہے۔ یورپ اور امریکہ کے برابر آنے کے لئے مسلم دنیا کو اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ تحقیق وتخلیق کے لئے مختص کرنا پڑے گا۔ ابھی تک ہم کتنا خرچ سائنسی تحقیق و تخلیق پر کر رہے ہیں۔ صرف پاکستان کی مثال سے بات واضح ہو جائے گی۔ پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کی تحقیق پر اپنی جی ڈی پی کا صرف اور صرف 2 فیصد خرچ کرتا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے بڑے حصے کو مختص کر کے ہی ہم سائنسی دور زوال سے نکل سکتے ہیں۔