سید شہزاد ناصر
محفلین
ایک مسلمان بننے کے لیے رسومات کی پابندی کے علاوہ اور بہت کچھ ضروری ہوتا ہے۔ حالانکہ رسومات بہرحال ناگزیر ہیں، مگر محض رسومات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ایک نومسلم کا پورا ذہنی، اخلاقی اور روحانی نقطہ نظر تبدیل نہ ہوجائے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے اہم تبدیلی جو میرے اندر آئی وہ میرے ذہن کا، ایک کافر ذہن سے ایک مسلمان ذہن میں پلٹ جانا تھا۔ میں کوشش کروں گی کہ اپنے ذاتی تجربے سے یہ بیان کرنے کی کوشش کروں کہ ایک مسلمان دنیا کو کس طرح دیکھتا ہے، زندگی کو کس طرح لیتا ہے اور اس کے رویّے، مزاج اور خواہشات پر ایمان کس طرح اثرانداز ہوتا ہے تاکہ ایک اجنبی کو گہری تفہیم حاصل ہوسکے۔ بہت کچھ ایک اجنبی کو حیران کردے گا جب تک کہ وہ حقیقی اسلامی اقدار کے بنیادی جوہر اور اندرونی معنوں کی بصیرت نہ حاصل کرلے۔
اسلام کا سب سے اہم عقیدہ انسان کا تصور ایک اللہ کے بندے کے طور پر ہے۔ عربی میں اللہ کے غلام کے لیے لفظ ’’عبداللہ‘‘ ہے جو کہ مسلمان ممالک میں عام نام ہے۔ ’’اسلام‘‘ کے لغوی معنی بذاتِ خود ’’اللہ کی رضا کے آگے ہتھیار ڈال دینا ہے‘‘، اور جو کوئی بھی ایسا کرتا ہے وہ مسلمان ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ ہی پوری کائنات کا واحد مالک ہے۔ گرجے اور ریاست کی تقسیم کا مسیحی تصور ایک مسلمان کے ذہن کے لیے انتہائی غیر منطقی ظاہر ہوتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کو قرآن و سنت کے مطابق نافذ کرنا ہے۔ مسلمان حکمران خود آمر نہیں بن سکتا، نہ ہی خود سے کوئی قانون بنانے کا مجاز ہے۔ شریعت اور مقدس قانون کبھی بھی بدلے نہیں جاسکتے، بلکہ صرف سخت حدود کے اندر ان کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ہر شے اللہ کی ہے، انسان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان مکمل طور پر اپنے رب کے اوپر منحصر ہے۔ سب کچھ جس پر انسان قابض ہے، یہاں تک کہ اس کا جسم بھی محض اللہ کی طرف سے اس پر ادھار ہے تاکہ اسے صحیح مصرف میں لائے۔ اگر انسان اس ذمہ داری سے جان چھڑائے گا تو سخت سزا کا مستحق ہوگا۔ اللہ کے لیے بطور ایک غلام کے کام کرنے کے لیے اس کو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنی ذاتی خوشی، مسرتیں، اپنی خواہشات، آسائشیں اور دولت، جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں ہے۔ ایک حقیقی مسلمان اپنی ذاتی خوشیاں کسی بڑے فائدے کے لیے لگانے میں دقت محسوس نہیں کرے گا۔ ایسا کرنے سے وہ ابدی خوشی اور دماغی سکون محسوس کرے گا۔ اللہ کا بندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان انسانوں کے پیدا کردہ مظالم سے آزادی حاصل کرلے۔ ایک سچا مسلمان کسی آدمی سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔
مسلمان دنیا کو دو متضاد خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ دارالسلام یا اسلام کا گھر، اور دارالحرب یعنی غیر مسلمانوں کا گھر۔ انسانیت کا سب سے بڑا المیہ غربت، بیماری اور جہالت نہیں، بلکہ اصل المیہ کفر ہے۔ غیر شادی شدہ مائیں، کچی عمر کی حاملہ دلہنیں، جنسی زیادتی، زنا سے پیدا شدہ اولادیں، جنسی بیماریاں، اسقاطِ حمل، آوارہ شرابی اور غیر معقول قوم پرستی… یہ سب کفر کے نتائج کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے خیر کثیر رکھتا ہے، جب کہ کفر اللہ کی کھلی نافرمانی ہے جو قابلِ برداشت نہیں۔ ایک مسلمان اپنے ساتھی کو محض اس کے عقیدے کی درستی اور اس عقیدے کو اس کی روزمرہ کی زندگی میں عملی نمونے کے طور پر دیکھ کر جانچتا ہے۔ آدمی کی نسل، قومیت، دولت، سماجی درجات اور اس کے ذاتی وصف کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتے، اگر آدمی جو کچھ کہتا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ ایک منافق سے زیادہ کچھ نہیں، اور ایسے شخص میں کوئی ایمان نہیں۔ مسلمان اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ آدمی کے اعمال مکمل طور پر اس کے عقیدے پر منحصر ہوتے ہیں، چونکہ وہ خود سے بھلائی اور اخلاقیات کا تصور نہیں گھڑ سکتا سوائے یہ کہ وہ ماورائے عقل الٰہیاتی بنیادیں ہوں۔
سچے مسلمان کو موت سے خوف نہیں آتا کیونکہ موت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے گزر کر وہ رب کے ساتھ ابدی زندگی کو پاسکتا ہے۔ اگر ایک مسلمان کو کوئی عارضہ لاحق ہو جاتا ہے تو وہ ہر ممکن طبی راستے کو اپناتا ہے، مگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی اگر طبی ذرائع اس کی یا اسی طرح متاثرہ اس کے پیاروں کی صحت کو ٹھیک کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہیں تو وہ موت کو پُرسکون سپردگی کے ساتھ قبول کرلے گا۔ مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیشگی موت کا وقت متعین کر رکھا ہے، لہٰذا کوئی اپنے متعین کردہ وقت سے پہلے نہیں مر سکتا، نہ ہی دنیا کے تمام معالج اور ادویات اس کی موت کو ایک لمحے کے لیے ٹال سکتے ہیں۔
سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآن پاک تجسس اور غیبت سے روکتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے وہ غلط ہو، باضابطہ طور پر کسی دوسرے مسلمان کے ذریعے سے خارج نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ عوامی سطح پر اپنے عقیدے سے انکار نہ کرے۔ مسلمان دوسرے مذاہب کو اذیت نہیں پہنچاتا، نہ ہی لوگوں کو طاقت کے زور پر مسلمان بناتا ہے۔ مسلمان ریاست میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور آزاد مشترکہ ملکیت میں اس بات کی مجاز ہوتی ہیں کہ اپنے مذہبی قوانین پر عمل کریں، اپنے بچوں کو جیسی مناسب سمجھیں تعلیم دیں اور جانوں اور املاک کی مکمل حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو برقرار رکھیں۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام افراد انسان ہونے کی حیثیت سے یکساں انصاف اور منصفانہ سلوک کے حقدار ہوتے ہیں، تاہم شریعت کی طرف سے اقلیتوں کو دیئے گئے ان تمام حقوق کی ضمانت کے باوجود، ایک غیر مسلم کبھی بھی ایک مسلمان کے مساوی نہیں ہوتا۔ مسلم اقتدار کے تحت ایک غیر مسلم عسکری ملازمت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اسلام کے لیے صرف وہی لڑ سکتے ہیں جو اسلام کے مقصد پر یقین رکھتے ہوں۔ اسی وجہ سے غیر مسلم، حکومت کے اہم منصب پر فائز ہونے کا اہل نہیں۔ ایک مسلمان دوسرے تمام مسلمانوں کے ساتھ نسلی اور قومی نسب سے قطع نظر، قربت کا اٹوٹ رشتہ محسوس کرتا ہے۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ کبھی بھی اپنائیت محسوس نہیں کرسکتا۔
وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی اخلاقیات انسانیت کے لیے ایک بھاری بوجھ ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اس کے عمل کو روک سکیں، یہ لوگ یہ بات ایک انفرادی مسلمان کے بارے میں کہتے ہیں جو کہ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جو اسلام کے زیر سایہ نہیں، مشکلات اور فتنوں سے گزرتا ہے۔
’’ایسی کسی صورت حال میں اسلامی اخلاقیات واقعی ایک بھاری بوجھ ہے، ایسے میں وہ افراد کچلے جاتے ہیں جو جہالت سے آلودہ ایک معاشرے میں خالص اسلام کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس طرز کی زندگی کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول ناگزیر ہے۔ ایسا ماحول جو اپنی خاص اقدار رکھتا ہو۔ اسلام ایک حقیقت پسندانہ نظام ہے، لہٰذا یہ باور کرتا ہے کہ جو لوگ اسلام کے راستے پر چلتے ہیں وہ اسلامی حکومت کے زیر نگران معاشرے میں رہیں۔ ایسے ماحول کے بغیر فرد کی زندگی ناممکن یا کم از کم انتہائی دشوار ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جو مسلمان ہونا چاہے اسے جاننا چاہیے کہ وہ خود کو اسلامی غلبے اور مسلمان ماحول کے بغیر دینی ہیئت کے لیے وقف نہیں کرسکتا۔ اگر وہ ایسا سوچے کہ وہ الہامی رہنمائی سے مبّرا معاشرے میں اسلام کو تکمیل تک پہنچا سکتا ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔‘‘
ماخذ: (The Religion of Islam) بقلم سید قطب شہیدؒ، المنار پریس، پالوآلتے، کیلی فورنیا، 1967ئ، صفحہ32 تا 34
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو سر گرمی کے ساتھ پیروکار ڈھونڈ رہا ہے۔ ایسے عیسائیوں کے برعکس ہمیں پیشہ وارانہ پادریوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہر مسلمان ایک مبلغ ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے اسلام کی تبلیغ کرنا اس کا مقدس فریضہ ہے۔ یہ جان کر غیر مسلموں کو حیرت ہوگی کہ دنیا کے بیشتر حصوں (خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ) میں لوگ، عام عرب اور ہندوستانی مسلم تاجروں اور بیو پاریوں کی سرگرمیوں سے مسلمان ہوئے۔ کوئی طاقت اور تشدد استعمال نہیں کیا گیا۔ نہ ہی یہ ممالک سیاسی طور پر ان کے زیراثر تھے۔ ایسا اس طرح ممکن ہوا کہ وہ تاجر حضرات اسلام کو اوّلین اہمیت دیتے تھے اور کاروبار کو ثانوی۔
قدامت پسند یہودیوں کی طرح، مسلمان یقین رکھتا ہے کہ آدمی اللہ کی فرمانبرداری کرنے اور اس کے مقدس قوانین کی اطاعت کرنے سے اللہ کے قریب ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ رسوم اور اخلاقیات کے درمیان کوئی امتیازی فرق نہیں رکھتا جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ جزوِ لاینفک کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان روح کو، اس کی بیرونی وضع سے علیحدہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ مانتا ہے کہ کوئی عقیدہ اپنے ٹھوس اظہار کے بغیر مؤثر نہیں ہوتا۔ وضو اور نماز، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر مسلمان جیسے اسے نماز ادا کرنی چاہیے، ادا کرتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک متحرک احساس اور اعلیٰ کردار پیدا کرلیتا ہے، کیونکہ اگر وہ صحیح طریقے پر ادائیگی کرے تو اسے اللہ کے عالاو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ کوئی دوسرا مذہب ذاتی صحت و صفائی کی ضرورت پر اتنا زور نہیں دیتا، جتنا اسلام دیتا ہے۔ جسمانی طہارت روحانی طہارت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بیرونی انسان اندرونی انسان کا اظہار ہوتا ہے۔ قرآن و سنت کے تعزیری قوانین کے حوالے سے غیر مسلم انتہائی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ اسلام جن جرائم کو بدترین جرائم شمار کرتا ہے وہ جرائم مغربی ممالک میں بمشکل جرائم سمجھے جاتے ہیں۔ چوری کے علاوہ قانونی سزائیں شاذ و نادر نافذ ہوتی ہیں۔ مسلمان نہیں مانتا کہ ایک قانون کی افادیت اس کے نرم ہونے پر ہے، نہ ہی مجرم افراد معاشرہ سے زیادہ قابلِ رحم ہوتے ہیں۔ مسلمان کے نزدیک قرآن و سنت کی تعزیری سزائیں آج کے لیے غیر مناسب اور ساتویں صدی کے وحشیانہ اور جابرانہ قدیم عرب کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ مانتا ہے کہ یہ قوانین جدید قید خانوں کی نفسیاتی درماندگی اور اخلاقی بدکاریوں سے کہیں زیادہ انسانی ہیں، اور حقیقی اسلامی تناظر میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں لامحدود حد تک جرائم کے خلاف جنگ میں مؤثر ہیں۔
مسلمان یہ مانتا ہے کہ ایک تندرست معاشرے کے لیے مرد اور عورت کی علیحدگی انتہائی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت آزادانہ میل جول رکھنے سے روکے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمان مخلوط سماجی تقریبات، مخلوط تعلیمی نظام، شادی سے پہلے اظہارِ محبت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ مرد غیر عورتوں پر نظر نہ رکھیں، نہ ہی عورتیں غیر مردوں پر۔ ہمیشہ باحیا لباس اپنایا جائے، عورتوں کو جب باہر نکلنا ضروری ہو تو اپنا پورا جسم ڈھانپنا چاہیے، اور عورت کی خوبصورتی صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ اس کے جسم کی کسی بھی حالت میں اجنبیوں کی گندی نظروں کے سامنے عوامی نمائش نہ کی جائے۔ مرد اور عورت کی محبت کا عوامی مظاہرہ قابلِ سزا ہے۔ اسلام میں مرد گھر سے باہر کے سماجی فرائض کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت گھر کے اندر کے ہر معاملے کی ذمہ دار ہے۔ لہٰذا عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ مردوں کے ساتھ کاروبار یا سیاست میں مقابلہ کرے۔ ایک سچا مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب عورت ایک دفعہ گھر سے نکلتی ہے تو پھر گھر، گھر نہیں رہتا۔
رہبانیت کی قرآن و سنت میں مذمت کی گئی ہے، اور ہر مرد اور عورت سے شادی شدہ زندگی گزارنے کی توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے مگر ایک سے زائد شادی کو فرض قرار نہیں دیا گیا، نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، بلکہ اس عمل کی محض اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہمیشہ ایک زوجیت پر اکتفا کرنے والی ہی رہی ہے۔ کثرتِ ازدواج غیر قانونی جنسی تعلقات سے روکتی ہے، کیونکہ اگر ایک آدمی کسی دوسری عورت سے تعلق رکھنا چاہتا ہے تو اس کو اس عورت کے ساتھ شادی کرنی پڑے گی، اس کی پوری ذمہ داری اور باپ بننے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔
اسلام دوسرے مذاہب کے برعکس فنونِ لطیفہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ مائیکل انجیلو، رمبرانڈ، بیتھ یون یا موزارٹ، مسلم برادری میں کوئی خراج تحسین وصول نہیں کریں گے۔ نتیجتاً اسی وجہ سے مسلمان شہروں میں موسیقی ہالوں، سنیما گھر، تھیٹر اور فن کے عجائب گھروں کی مخصوص غیر موجودگی پائی جاتی ہے۔ اسلامی فن کی تخلیق نے فنِ تعمیر میں اپنا مکمل اظہار کیا ہے اور عربی خطاطی میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
آلاتِ موسیقی مسجد کے اندر مکمل ممنوع ہیں اور دوسری جگہوں پر ان کی موجودگی کی مذمت کی گئی ہے۔ مسلم دنیا میں پیشہ وارانہ موسیقار کی سماجی حیثیت بہت کم ہے۔ موسیقی باطن کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہے اور آخرکار بے راہ روی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے جذبات کے اظہار پر مجبور ہو تو وہ خود کو خوش کرنے کے لیے گنگنا سکتا ہے، مگر بہتر ہے کہ وہ اس سے بھی اجتناب کرے۔ کوئی قابلِ احترام مرد یا عورت عوام میں نہیں گائے گا۔ اگر کوئی قابلِ ستائش موسیقی کی قسم ہے بھی تو وہ صرف قرآن کی تلاوت، اذان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں گائے ہوئے بول ہیں۔
کیونکہ رقص کو سب سے طاقتور جنسی محرک جانا جاتا ہے، یہ مکمل طور پر ممنوع ہے، سوائے دو عیدوں کے موقع پر، یا جہاد اور شادیوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے۔ ایسی تقاریب مخلوط ہرگزنہ ہوں۔ مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں صرف عورتوں کے ساتھ رقص کریں۔
ڈراموں میں اداکاری کی، چاہے وہ اسٹیج پر ہو یا سنیما اور ٹیلی ویژن کے پردوں پر، اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اسلام ڈراموں کی مذمت کرتا ہے چاہے اس میں ایک اداکار کے طور پر حصہ لیا جائے یا اسے تماش بین کے طور پر دیکھا جائے، کیونکہ یہ لوگوں کو نجی تصورات میں الجھائے رکھتا ہے اور حقیقی زندگی سے دور کردیتا ہے۔ اسلامی ثقافت اس چیز کو انسانی شخصیت کے طور پر ایک اداکار کے لیے حقیر سمجھتی ہے کہ وہ خود کو اس طرح بناوٹی طور پر پیش کرے جو کہ وہ حقیقت میں نہیں ہے۔ ایک قابلِ احترام مسلمان عورت کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ تصور ہے کہ وہ ایک اداکارہ کے طور پر عوام کے سامنے کام کرے۔
ادبی افسانہ چاہے وہ ایک ڈرامے کی شکل میں ہو یا ناول کی شکل میں، مسلم ملک سے لاتعلق ہے، سوائے فنِ خطابت کے۔ شاعری اور فصیح بیاں گفتگو کی ہر جگہ کے مسلمانوں کی جانب سے انتہائی قدر کی جاتی ہے، خاص طور پر عربی بولنے والی دنیا میں۔
خالص اسلامی ثقافت میں مغربی طرز کے کھیلوں اور مشغلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جو کہ انہیں قدیم یونان سے ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ جسمانی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے اسلامی ریاست فوجی تربیت کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس طرح جنگی وصف کے ہر کھیل کو اسکول اور کالجوں میں جسمانی تربیت کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ گھڑ سواری، تیراکی، باڑ باندھنا، تیراندازی، وزن اٹھانا، کشتی اور کوہ پیمائی وغیرہ اختیار کی جائے گی۔ کرکٹ، بیس بال، ٹینس، گالف اور اسکواش وغیرہ جو کہ اس مقصد کے لیے بے فائدہ ہیں، ان کی وقت کا ضیاع ہونے کے سبب، حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ایسی سرگرمیاں سختی کے ساتھ غیر پیشہ وارانہ ہوں گی۔ اسلامی ثقافت پیشہ وارانہ کھلاڑیوں کو احترام نہیں دیتی۔ اسلامی اقدار میں اس سے زیادہ گھنائونا عمل نہیں ہوسکتا کہ پوری آبادی ایک کرکٹ میچ یا بیس بال میچ کے لیے گھنٹوں یا دنوں کے لیے کام کو روک دے تاکہ وہ اس میں شرکت کرسکے یا ٹی وی پر اسے دیکھ سکے یا ریڈیو پر سن سکے۔ اور دولت کا بڑا حصہ وسیع اسٹیڈیم تعمیر کرنے کے بجائے کہیں بہتر فائدہ مند جگہوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی طرزِ زندگی روحانی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اخلاقیات اور سچائی مطلق دائمی اور عالمگیر ہیں۔ یہ اللہ کی جانب سے قائم کردہ ہیں، انسان کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا انسان کو اس میں سازباز کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان کے لیے قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب ہے۔ وہ مانتا ہے کہ قرآن کا ہر لفظ مستند اور سچ ہے اور اس کی اطاعت ضروری ہے۔ قرآن تمام علوم کا ذریعہ ہے اور اس کے کسی بھی حصے کے بارے میں سوال اٹھانا اللہ کی ہدایت کو رد کرنے کے مترادف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور سنت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ، قرآن کی صحیح تشریح کرنے کے لیے بنیاد ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں۔ کیونکہ قرآن غلطی سے پاک مکمل اور آخری وحی ہے۔ اسلام نہ بدلا جاسکتا ہے نہ اس کی تجدید کی جاسکتی ہے۔ اس کو کبھی بھی ’’بہتر‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام مکمل اور خودکفیل ہے۔ اس کے اندر خیالات کے چنائو کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمان سمجھتا ہے کہ ’’ترقی‘‘ اسی میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآن کی اصل اور اس کی روح کی مطابقت میں لائے۔ اس کا دنیاوی مقصد دنیاوی ترقی نہیں بلکہ آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی تیاری ہے۔
اسلام مسلمان سے کلی اطاعت مانگتا ہے۔ ایک مسلمان دن کے ہر لمحہ مسلمان ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی عقیدہ رکھنے والے شخص کے ساتھ اسلام ناقابلِ تصور حد تک سخت ہے۔ اسلام کے قوانین مسلمان کی زندگی سے متعلق ہر پہلو کو قابو کرتے ہیں۔ سوتے جاگتے اسلام ہمیشہ مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلمان کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ یہ بھول جائے کہ وہ کون ہے۔
تحریر: محترمہ مریم جمیلہ
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/55038
اسلام کا سب سے اہم عقیدہ انسان کا تصور ایک اللہ کے بندے کے طور پر ہے۔ عربی میں اللہ کے غلام کے لیے لفظ ’’عبداللہ‘‘ ہے جو کہ مسلمان ممالک میں عام نام ہے۔ ’’اسلام‘‘ کے لغوی معنی بذاتِ خود ’’اللہ کی رضا کے آگے ہتھیار ڈال دینا ہے‘‘، اور جو کوئی بھی ایسا کرتا ہے وہ مسلمان ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ ہی پوری کائنات کا واحد مالک ہے۔ گرجے اور ریاست کی تقسیم کا مسیحی تصور ایک مسلمان کے ذہن کے لیے انتہائی غیر منطقی ظاہر ہوتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کو قرآن و سنت کے مطابق نافذ کرنا ہے۔ مسلمان حکمران خود آمر نہیں بن سکتا، نہ ہی خود سے کوئی قانون بنانے کا مجاز ہے۔ شریعت اور مقدس قانون کبھی بھی بدلے نہیں جاسکتے، بلکہ صرف سخت حدود کے اندر ان کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ ہر شے اللہ کی ہے، انسان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان مکمل طور پر اپنے رب کے اوپر منحصر ہے۔ سب کچھ جس پر انسان قابض ہے، یہاں تک کہ اس کا جسم بھی محض اللہ کی طرف سے اس پر ادھار ہے تاکہ اسے صحیح مصرف میں لائے۔ اگر انسان اس ذمہ داری سے جان چھڑائے گا تو سخت سزا کا مستحق ہوگا۔ اللہ کے لیے بطور ایک غلام کے کام کرنے کے لیے اس کو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنی ذاتی خوشی، مسرتیں، اپنی خواہشات، آسائشیں اور دولت، جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں ہے۔ ایک حقیقی مسلمان اپنی ذاتی خوشیاں کسی بڑے فائدے کے لیے لگانے میں دقت محسوس نہیں کرے گا۔ ایسا کرنے سے وہ ابدی خوشی اور دماغی سکون محسوس کرے گا۔ اللہ کا بندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان انسانوں کے پیدا کردہ مظالم سے آزادی حاصل کرلے۔ ایک سچا مسلمان کسی آدمی سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔
مسلمان دنیا کو دو متضاد خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ دارالسلام یا اسلام کا گھر، اور دارالحرب یعنی غیر مسلمانوں کا گھر۔ انسانیت کا سب سے بڑا المیہ غربت، بیماری اور جہالت نہیں، بلکہ اصل المیہ کفر ہے۔ غیر شادی شدہ مائیں، کچی عمر کی حاملہ دلہنیں، جنسی زیادتی، زنا سے پیدا شدہ اولادیں، جنسی بیماریاں، اسقاطِ حمل، آوارہ شرابی اور غیر معقول قوم پرستی… یہ سب کفر کے نتائج کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے خیر کثیر رکھتا ہے، جب کہ کفر اللہ کی کھلی نافرمانی ہے جو قابلِ برداشت نہیں۔ ایک مسلمان اپنے ساتھی کو محض اس کے عقیدے کی درستی اور اس عقیدے کو اس کی روزمرہ کی زندگی میں عملی نمونے کے طور پر دیکھ کر جانچتا ہے۔ آدمی کی نسل، قومیت، دولت، سماجی درجات اور اس کے ذاتی وصف کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتے، اگر آدمی جو کچھ کہتا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ ایک منافق سے زیادہ کچھ نہیں، اور ایسے شخص میں کوئی ایمان نہیں۔ مسلمان اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ آدمی کے اعمال مکمل طور پر اس کے عقیدے پر منحصر ہوتے ہیں، چونکہ وہ خود سے بھلائی اور اخلاقیات کا تصور نہیں گھڑ سکتا سوائے یہ کہ وہ ماورائے عقل الٰہیاتی بنیادیں ہوں۔
سچے مسلمان کو موت سے خوف نہیں آتا کیونکہ موت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے گزر کر وہ رب کے ساتھ ابدی زندگی کو پاسکتا ہے۔ اگر ایک مسلمان کو کوئی عارضہ لاحق ہو جاتا ہے تو وہ ہر ممکن طبی راستے کو اپناتا ہے، مگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی اگر طبی ذرائع اس کی یا اسی طرح متاثرہ اس کے پیاروں کی صحت کو ٹھیک کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہیں تو وہ موت کو پُرسکون سپردگی کے ساتھ قبول کرلے گا۔ مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیشگی موت کا وقت متعین کر رکھا ہے، لہٰذا کوئی اپنے متعین کردہ وقت سے پہلے نہیں مر سکتا، نہ ہی دنیا کے تمام معالج اور ادویات اس کی موت کو ایک لمحے کے لیے ٹال سکتے ہیں۔
سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآن پاک تجسس اور غیبت سے روکتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے وہ غلط ہو، باضابطہ طور پر کسی دوسرے مسلمان کے ذریعے سے خارج نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ عوامی سطح پر اپنے عقیدے سے انکار نہ کرے۔ مسلمان دوسرے مذاہب کو اذیت نہیں پہنچاتا، نہ ہی لوگوں کو طاقت کے زور پر مسلمان بناتا ہے۔ مسلمان ریاست میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور آزاد مشترکہ ملکیت میں اس بات کی مجاز ہوتی ہیں کہ اپنے مذہبی قوانین پر عمل کریں، اپنے بچوں کو جیسی مناسب سمجھیں تعلیم دیں اور جانوں اور املاک کی مکمل حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو برقرار رکھیں۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام افراد انسان ہونے کی حیثیت سے یکساں انصاف اور منصفانہ سلوک کے حقدار ہوتے ہیں، تاہم شریعت کی طرف سے اقلیتوں کو دیئے گئے ان تمام حقوق کی ضمانت کے باوجود، ایک غیر مسلم کبھی بھی ایک مسلمان کے مساوی نہیں ہوتا۔ مسلم اقتدار کے تحت ایک غیر مسلم عسکری ملازمت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اسلام کے لیے صرف وہی لڑ سکتے ہیں جو اسلام کے مقصد پر یقین رکھتے ہوں۔ اسی وجہ سے غیر مسلم، حکومت کے اہم منصب پر فائز ہونے کا اہل نہیں۔ ایک مسلمان دوسرے تمام مسلمانوں کے ساتھ نسلی اور قومی نسب سے قطع نظر، قربت کا اٹوٹ رشتہ محسوس کرتا ہے۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ کبھی بھی اپنائیت محسوس نہیں کرسکتا۔
وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی اخلاقیات انسانیت کے لیے ایک بھاری بوجھ ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اس کے عمل کو روک سکیں، یہ لوگ یہ بات ایک انفرادی مسلمان کے بارے میں کہتے ہیں جو کہ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جو اسلام کے زیر سایہ نہیں، مشکلات اور فتنوں سے گزرتا ہے۔
’’ایسی کسی صورت حال میں اسلامی اخلاقیات واقعی ایک بھاری بوجھ ہے، ایسے میں وہ افراد کچلے جاتے ہیں جو جہالت سے آلودہ ایک معاشرے میں خالص اسلام کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس طرز کی زندگی کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول ناگزیر ہے۔ ایسا ماحول جو اپنی خاص اقدار رکھتا ہو۔ اسلام ایک حقیقت پسندانہ نظام ہے، لہٰذا یہ باور کرتا ہے کہ جو لوگ اسلام کے راستے پر چلتے ہیں وہ اسلامی حکومت کے زیر نگران معاشرے میں رہیں۔ ایسے ماحول کے بغیر فرد کی زندگی ناممکن یا کم از کم انتہائی دشوار ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جو مسلمان ہونا چاہے اسے جاننا چاہیے کہ وہ خود کو اسلامی غلبے اور مسلمان ماحول کے بغیر دینی ہیئت کے لیے وقف نہیں کرسکتا۔ اگر وہ ایسا سوچے کہ وہ الہامی رہنمائی سے مبّرا معاشرے میں اسلام کو تکمیل تک پہنچا سکتا ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔‘‘
ماخذ: (The Religion of Islam) بقلم سید قطب شہیدؒ، المنار پریس، پالوآلتے، کیلی فورنیا، 1967ئ، صفحہ32 تا 34
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو سر گرمی کے ساتھ پیروکار ڈھونڈ رہا ہے۔ ایسے عیسائیوں کے برعکس ہمیں پیشہ وارانہ پادریوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہر مسلمان ایک مبلغ ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے اسلام کی تبلیغ کرنا اس کا مقدس فریضہ ہے۔ یہ جان کر غیر مسلموں کو حیرت ہوگی کہ دنیا کے بیشتر حصوں (خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ) میں لوگ، عام عرب اور ہندوستانی مسلم تاجروں اور بیو پاریوں کی سرگرمیوں سے مسلمان ہوئے۔ کوئی طاقت اور تشدد استعمال نہیں کیا گیا۔ نہ ہی یہ ممالک سیاسی طور پر ان کے زیراثر تھے۔ ایسا اس طرح ممکن ہوا کہ وہ تاجر حضرات اسلام کو اوّلین اہمیت دیتے تھے اور کاروبار کو ثانوی۔
قدامت پسند یہودیوں کی طرح، مسلمان یقین رکھتا ہے کہ آدمی اللہ کی فرمانبرداری کرنے اور اس کے مقدس قوانین کی اطاعت کرنے سے اللہ کے قریب ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ رسوم اور اخلاقیات کے درمیان کوئی امتیازی فرق نہیں رکھتا جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ جزوِ لاینفک کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان روح کو، اس کی بیرونی وضع سے علیحدہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ مانتا ہے کہ کوئی عقیدہ اپنے ٹھوس اظہار کے بغیر مؤثر نہیں ہوتا۔ وضو اور نماز، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر مسلمان جیسے اسے نماز ادا کرنی چاہیے، ادا کرتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک متحرک احساس اور اعلیٰ کردار پیدا کرلیتا ہے، کیونکہ اگر وہ صحیح طریقے پر ادائیگی کرے تو اسے اللہ کے عالاو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ کوئی دوسرا مذہب ذاتی صحت و صفائی کی ضرورت پر اتنا زور نہیں دیتا، جتنا اسلام دیتا ہے۔ جسمانی طہارت روحانی طہارت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بیرونی انسان اندرونی انسان کا اظہار ہوتا ہے۔ قرآن و سنت کے تعزیری قوانین کے حوالے سے غیر مسلم انتہائی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ اسلام جن جرائم کو بدترین جرائم شمار کرتا ہے وہ جرائم مغربی ممالک میں بمشکل جرائم سمجھے جاتے ہیں۔ چوری کے علاوہ قانونی سزائیں شاذ و نادر نافذ ہوتی ہیں۔ مسلمان نہیں مانتا کہ ایک قانون کی افادیت اس کے نرم ہونے پر ہے، نہ ہی مجرم افراد معاشرہ سے زیادہ قابلِ رحم ہوتے ہیں۔ مسلمان کے نزدیک قرآن و سنت کی تعزیری سزائیں آج کے لیے غیر مناسب اور ساتویں صدی کے وحشیانہ اور جابرانہ قدیم عرب کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ مانتا ہے کہ یہ قوانین جدید قید خانوں کی نفسیاتی درماندگی اور اخلاقی بدکاریوں سے کہیں زیادہ انسانی ہیں، اور حقیقی اسلامی تناظر میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں لامحدود حد تک جرائم کے خلاف جنگ میں مؤثر ہیں۔
مسلمان یہ مانتا ہے کہ ایک تندرست معاشرے کے لیے مرد اور عورت کی علیحدگی انتہائی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت آزادانہ میل جول رکھنے سے روکے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمان مخلوط سماجی تقریبات، مخلوط تعلیمی نظام، شادی سے پہلے اظہارِ محبت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ مرد غیر عورتوں پر نظر نہ رکھیں، نہ ہی عورتیں غیر مردوں پر۔ ہمیشہ باحیا لباس اپنایا جائے، عورتوں کو جب باہر نکلنا ضروری ہو تو اپنا پورا جسم ڈھانپنا چاہیے، اور عورت کی خوبصورتی صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ اس کے جسم کی کسی بھی حالت میں اجنبیوں کی گندی نظروں کے سامنے عوامی نمائش نہ کی جائے۔ مرد اور عورت کی محبت کا عوامی مظاہرہ قابلِ سزا ہے۔ اسلام میں مرد گھر سے باہر کے سماجی فرائض کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت گھر کے اندر کے ہر معاملے کی ذمہ دار ہے۔ لہٰذا عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ مردوں کے ساتھ کاروبار یا سیاست میں مقابلہ کرے۔ ایک سچا مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب عورت ایک دفعہ گھر سے نکلتی ہے تو پھر گھر، گھر نہیں رہتا۔
رہبانیت کی قرآن و سنت میں مذمت کی گئی ہے، اور ہر مرد اور عورت سے شادی شدہ زندگی گزارنے کی توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے مگر ایک سے زائد شادی کو فرض قرار نہیں دیا گیا، نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، بلکہ اس عمل کی محض اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہمیشہ ایک زوجیت پر اکتفا کرنے والی ہی رہی ہے۔ کثرتِ ازدواج غیر قانونی جنسی تعلقات سے روکتی ہے، کیونکہ اگر ایک آدمی کسی دوسری عورت سے تعلق رکھنا چاہتا ہے تو اس کو اس عورت کے ساتھ شادی کرنی پڑے گی، اس کی پوری ذمہ داری اور باپ بننے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔
اسلام دوسرے مذاہب کے برعکس فنونِ لطیفہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ مائیکل انجیلو، رمبرانڈ، بیتھ یون یا موزارٹ، مسلم برادری میں کوئی خراج تحسین وصول نہیں کریں گے۔ نتیجتاً اسی وجہ سے مسلمان شہروں میں موسیقی ہالوں، سنیما گھر، تھیٹر اور فن کے عجائب گھروں کی مخصوص غیر موجودگی پائی جاتی ہے۔ اسلامی فن کی تخلیق نے فنِ تعمیر میں اپنا مکمل اظہار کیا ہے اور عربی خطاطی میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
آلاتِ موسیقی مسجد کے اندر مکمل ممنوع ہیں اور دوسری جگہوں پر ان کی موجودگی کی مذمت کی گئی ہے۔ مسلم دنیا میں پیشہ وارانہ موسیقار کی سماجی حیثیت بہت کم ہے۔ موسیقی باطن کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہے اور آخرکار بے راہ روی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے جذبات کے اظہار پر مجبور ہو تو وہ خود کو خوش کرنے کے لیے گنگنا سکتا ہے، مگر بہتر ہے کہ وہ اس سے بھی اجتناب کرے۔ کوئی قابلِ احترام مرد یا عورت عوام میں نہیں گائے گا۔ اگر کوئی قابلِ ستائش موسیقی کی قسم ہے بھی تو وہ صرف قرآن کی تلاوت، اذان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں گائے ہوئے بول ہیں۔
کیونکہ رقص کو سب سے طاقتور جنسی محرک جانا جاتا ہے، یہ مکمل طور پر ممنوع ہے، سوائے دو عیدوں کے موقع پر، یا جہاد اور شادیوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے۔ ایسی تقاریب مخلوط ہرگزنہ ہوں۔ مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں صرف عورتوں کے ساتھ رقص کریں۔
ڈراموں میں اداکاری کی، چاہے وہ اسٹیج پر ہو یا سنیما اور ٹیلی ویژن کے پردوں پر، اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اسلام ڈراموں کی مذمت کرتا ہے چاہے اس میں ایک اداکار کے طور پر حصہ لیا جائے یا اسے تماش بین کے طور پر دیکھا جائے، کیونکہ یہ لوگوں کو نجی تصورات میں الجھائے رکھتا ہے اور حقیقی زندگی سے دور کردیتا ہے۔ اسلامی ثقافت اس چیز کو انسانی شخصیت کے طور پر ایک اداکار کے لیے حقیر سمجھتی ہے کہ وہ خود کو اس طرح بناوٹی طور پر پیش کرے جو کہ وہ حقیقت میں نہیں ہے۔ ایک قابلِ احترام مسلمان عورت کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ تصور ہے کہ وہ ایک اداکارہ کے طور پر عوام کے سامنے کام کرے۔
ادبی افسانہ چاہے وہ ایک ڈرامے کی شکل میں ہو یا ناول کی شکل میں، مسلم ملک سے لاتعلق ہے، سوائے فنِ خطابت کے۔ شاعری اور فصیح بیاں گفتگو کی ہر جگہ کے مسلمانوں کی جانب سے انتہائی قدر کی جاتی ہے، خاص طور پر عربی بولنے والی دنیا میں۔
خالص اسلامی ثقافت میں مغربی طرز کے کھیلوں اور مشغلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جو کہ انہیں قدیم یونان سے ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ جسمانی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے اسلامی ریاست فوجی تربیت کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس طرح جنگی وصف کے ہر کھیل کو اسکول اور کالجوں میں جسمانی تربیت کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ گھڑ سواری، تیراکی، باڑ باندھنا، تیراندازی، وزن اٹھانا، کشتی اور کوہ پیمائی وغیرہ اختیار کی جائے گی۔ کرکٹ، بیس بال، ٹینس، گالف اور اسکواش وغیرہ جو کہ اس مقصد کے لیے بے فائدہ ہیں، ان کی وقت کا ضیاع ہونے کے سبب، حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ایسی سرگرمیاں سختی کے ساتھ غیر پیشہ وارانہ ہوں گی۔ اسلامی ثقافت پیشہ وارانہ کھلاڑیوں کو احترام نہیں دیتی۔ اسلامی اقدار میں اس سے زیادہ گھنائونا عمل نہیں ہوسکتا کہ پوری آبادی ایک کرکٹ میچ یا بیس بال میچ کے لیے گھنٹوں یا دنوں کے لیے کام کو روک دے تاکہ وہ اس میں شرکت کرسکے یا ٹی وی پر اسے دیکھ سکے یا ریڈیو پر سن سکے۔ اور دولت کا بڑا حصہ وسیع اسٹیڈیم تعمیر کرنے کے بجائے کہیں بہتر فائدہ مند جگہوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی طرزِ زندگی روحانی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اخلاقیات اور سچائی مطلق دائمی اور عالمگیر ہیں۔ یہ اللہ کی جانب سے قائم کردہ ہیں، انسان کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا انسان کو اس میں سازباز کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان کے لیے قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب ہے۔ وہ مانتا ہے کہ قرآن کا ہر لفظ مستند اور سچ ہے اور اس کی اطاعت ضروری ہے۔ قرآن تمام علوم کا ذریعہ ہے اور اس کے کسی بھی حصے کے بارے میں سوال اٹھانا اللہ کی ہدایت کو رد کرنے کے مترادف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور سنت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ، قرآن کی صحیح تشریح کرنے کے لیے بنیاد ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں۔ کیونکہ قرآن غلطی سے پاک مکمل اور آخری وحی ہے۔ اسلام نہ بدلا جاسکتا ہے نہ اس کی تجدید کی جاسکتی ہے۔ اس کو کبھی بھی ’’بہتر‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام مکمل اور خودکفیل ہے۔ اس کے اندر خیالات کے چنائو کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمان سمجھتا ہے کہ ’’ترقی‘‘ اسی میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآن کی اصل اور اس کی روح کی مطابقت میں لائے۔ اس کا دنیاوی مقصد دنیاوی ترقی نہیں بلکہ آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی تیاری ہے۔
اسلام مسلمان سے کلی اطاعت مانگتا ہے۔ ایک مسلمان دن کے ہر لمحہ مسلمان ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی عقیدہ رکھنے والے شخص کے ساتھ اسلام ناقابلِ تصور حد تک سخت ہے۔ اسلام کے قوانین مسلمان کی زندگی سے متعلق ہر پہلو کو قابو کرتے ہیں۔ سوتے جاگتے اسلام ہمیشہ مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلمان کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ یہ بھول جائے کہ وہ کون ہے۔
تحریر: محترمہ مریم جمیلہ
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/55038