جاسم محمد
محفلین
مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل؟
عباس مہکری
08 دسمبر ، 2019
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف کے بعد اس پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف بھی مبینہ کرپشن کے مقدمات میں پھنستے جا رہے ہیں۔ شریف برادران کے بچوں کے خلاف بھی مقدمات ہیں، جن میں سے کسی کو بعد ازاں پارٹی کی قیادت سنبھالنا تھی۔ گزشتہ چار عشروں سے اس ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی اور کئی مرتبہ اقتدار میں رہنے والی اس سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج کا ایک اہم سوال ہے۔
چند روز قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے منی لانڈرنگ کیس میں میاں شہباز شریف، ان کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز اور ان کی دونوں بیگمات کے تمام اثاثے منجمد کر دیے۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرکے کہا کہ سپریم کورٹ سے ناکامی کے بعد نیب نیازی گٹھ جوڑ نے ان کی جائیدادیں منجمد کیں۔
میاں شہباز شریف نے، جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں، اِن ہائوس تبدیلی کو ملک کے لیے ضروری قرار دیا۔ اس پریس کانفرنس کے اگلے روز وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے میاں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے نئے الزامات عائد کر دیے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں پر نیب مزید ریفرنسز دائر کر سکتا ہے۔
میاں نواز شریف پہلے ہی سیاست کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز بیرونِ ملک ہیں۔ ان کے خلاف بھی نہ صرف پاکستان میں مقدمات ہیں بلکہ وہ سیاست میں دلچسپی بھی نہیں رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میاں شہباز شریف اور ان کے بچوں کے پاس چلی جائے گی۔ کچھ حلقے یہ بھی تاثر دے رہے تھے کہ میاں شہباز شریف کے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور وہ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتے ہیں لیکن نیب شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جس طرح ثبوت اور شواہد جمع کر رہا ہے اور وہ جس طرح مقدمات میں جکڑ رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ میاں شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔
یہ صورت حال اگر کچھ عرصہ برقرار رہی تو شریف پولیٹکل ڈائے نیسٹی (DYNASTY) کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اس طرح کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بچوں کی طرح مقدمات نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے اہم رہنما لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ ان میں خواجہ آصف، سینیٹر پرویز رشید، مریم اورنگزیب، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر شامل ہیں۔ یہ رہنما لندن میں اپنی پارٹی کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف اور صدر میاں شہباز شریف سے مشاورت کریں گے اور ان کی رہنمائی حاصل کریں گے۔ خصوصاً پارلیمانی امور سے متعلق ان کی ’’گائیڈ لائن‘‘ حاصل کریں گے۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسے سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے رابطے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ باور کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس حوالے سے اپنی حکمت عملی طے کرے گی لیکن اس معاملے پر حکومت سے تعاون کی صورت میں نہ تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو کسی قسم کا بڑا ریلیف ملنے کی توقع ہے اور نہ حکومت کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ’’لندن پلان‘‘ کیا بنتا ہے۔ یہ پلان کچھ بھی ہو، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پاکستان آکر ہی اپنی سیاست کرنا پڑے گی اور ان پر جو الزامات عائد ہوئے ہیں، ان کا عدالتوں میں سامنا کرنا ہوگا۔ ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ مقدمات بھی قائم ہیں۔ قانون کے مطابق جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہو، وہ بے گناہ ہے لیکن سیاست میں یہ اصول نہیں چلتا۔ سیاسی رہنمائوں کو لوگ اس وقت تک بے گناہ تصور نہیں کرتے، جب تک وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت نہ کر دیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میاں نواز شریف کے علاج کے لئے میاں شہباز شریف کو بھی لندن جانا پڑا اور ان دونوں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین بھی لندن گئے ہیں مگر انہیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وطن آنا ہوگا۔ نہ صرف ایک پولیٹکل ڈائے نیسٹی کیلئے مشکل صورت حال ہے بلکہ پاکستان کی سیاست کیلئے بھی آزمائش کا دور ہے۔
سیاست دانوں کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا بہرحال جواب دینا ہوگا۔ ایک طرف ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سیاستدانوں پر اربوں ڈالرز کے اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں، وہ ملک میں موجودہ سیاسی توازن کو بگاڑ سکتے ہیں۔
عباس مہکری
08 دسمبر ، 2019
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف کے بعد اس پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف بھی مبینہ کرپشن کے مقدمات میں پھنستے جا رہے ہیں۔ شریف برادران کے بچوں کے خلاف بھی مقدمات ہیں، جن میں سے کسی کو بعد ازاں پارٹی کی قیادت سنبھالنا تھی۔ گزشتہ چار عشروں سے اس ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی اور کئی مرتبہ اقتدار میں رہنے والی اس سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج کا ایک اہم سوال ہے۔
چند روز قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے منی لانڈرنگ کیس میں میاں شہباز شریف، ان کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز اور ان کی دونوں بیگمات کے تمام اثاثے منجمد کر دیے۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرکے کہا کہ سپریم کورٹ سے ناکامی کے بعد نیب نیازی گٹھ جوڑ نے ان کی جائیدادیں منجمد کیں۔
میاں شہباز شریف نے، جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں، اِن ہائوس تبدیلی کو ملک کے لیے ضروری قرار دیا۔ اس پریس کانفرنس کے اگلے روز وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے میاں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے نئے الزامات عائد کر دیے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں پر نیب مزید ریفرنسز دائر کر سکتا ہے۔
میاں نواز شریف پہلے ہی سیاست کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز بیرونِ ملک ہیں۔ ان کے خلاف بھی نہ صرف پاکستان میں مقدمات ہیں بلکہ وہ سیاست میں دلچسپی بھی نہیں رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میاں شہباز شریف اور ان کے بچوں کے پاس چلی جائے گی۔ کچھ حلقے یہ بھی تاثر دے رہے تھے کہ میاں شہباز شریف کے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور وہ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتے ہیں لیکن نیب شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جس طرح ثبوت اور شواہد جمع کر رہا ہے اور وہ جس طرح مقدمات میں جکڑ رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ میاں شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔
یہ صورت حال اگر کچھ عرصہ برقرار رہی تو شریف پولیٹکل ڈائے نیسٹی (DYNASTY) کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اس طرح کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بچوں کی طرح مقدمات نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے اہم رہنما لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ ان میں خواجہ آصف، سینیٹر پرویز رشید، مریم اورنگزیب، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر شامل ہیں۔ یہ رہنما لندن میں اپنی پارٹی کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف اور صدر میاں شہباز شریف سے مشاورت کریں گے اور ان کی رہنمائی حاصل کریں گے۔ خصوصاً پارلیمانی امور سے متعلق ان کی ’’گائیڈ لائن‘‘ حاصل کریں گے۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسے سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے رابطے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ باور کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس حوالے سے اپنی حکمت عملی طے کرے گی لیکن اس معاملے پر حکومت سے تعاون کی صورت میں نہ تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو کسی قسم کا بڑا ریلیف ملنے کی توقع ہے اور نہ حکومت کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ’’لندن پلان‘‘ کیا بنتا ہے۔ یہ پلان کچھ بھی ہو، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پاکستان آکر ہی اپنی سیاست کرنا پڑے گی اور ان پر جو الزامات عائد ہوئے ہیں، ان کا عدالتوں میں سامنا کرنا ہوگا۔ ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ مقدمات بھی قائم ہیں۔ قانون کے مطابق جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہو، وہ بے گناہ ہے لیکن سیاست میں یہ اصول نہیں چلتا۔ سیاسی رہنمائوں کو لوگ اس وقت تک بے گناہ تصور نہیں کرتے، جب تک وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت نہ کر دیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میاں نواز شریف کے علاج کے لئے میاں شہباز شریف کو بھی لندن جانا پڑا اور ان دونوں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین بھی لندن گئے ہیں مگر انہیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وطن آنا ہوگا۔ نہ صرف ایک پولیٹکل ڈائے نیسٹی کیلئے مشکل صورت حال ہے بلکہ پاکستان کی سیاست کیلئے بھی آزمائش کا دور ہے۔
سیاست دانوں کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا بہرحال جواب دینا ہوگا۔ ایک طرف ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سیاستدانوں پر اربوں ڈالرز کے اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں، وہ ملک میں موجودہ سیاسی توازن کو بگاڑ سکتے ہیں۔