حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل
مسند نشیں ہے شہر میں دربار کا فقیہ
ڈھونڈوں کہاں پہ جاکے میں کردار کا فقیہ
سچ بولنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے اب
ہے آج کا فقیہ تو گفتار کا فقیہ
فتویٰ میں اس سے لوں جو مسیحا صفت تو ہو
مطلوب ہے مجھے دل بیمار کا فقیہ
شاہوں کی دسترس میں ہیں کتنے ہی آجکل
مجھ کو تو چاہیے شہ ابرار کا فقیہ
ایسا فقیہ جس کا قلم بولتا ہو سچ
قرطاس کا فقیہ ہو ، تلوار کا فقیہ
ہم کو سلف کی طرز کا بندہ ملے کوئی
یہ آج کا فقیہ ہے دو چار کا فقیہ
اس آئینے کے شہر میں ملتے ہیں بے شمار
یہ ہے کتاب رخ کی ہی دیوار کا فقیہ
اک وہ تھے جن کے سر تھے قلم سچ کے جرم میں
اک یہ ہے بدنصیب جو دستار کا فقیہ
تقلید ان کی فرض ہے جو حق کے تھے امین
مغرب زدہ ہے آج یہ بے کار کا فقیہ
وہ لوگ جن کی زندگی دیں کے لیے تھی وقف
اور آج کا فقیہ ہے تہوار کا فقیہ
آؤ حسیب! ڈھونڈ لیں ایسے فقیہ کو
جس کو یہ کہ سکیں کہ ہے سرکار کا فقیہ
حسیب احمد حسیب
مسند نشیں ہے شہر میں دربار کا فقیہ
ڈھونڈوں کہاں پہ جاکے میں کردار کا فقیہ
سچ بولنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے اب
ہے آج کا فقیہ تو گفتار کا فقیہ
فتویٰ میں اس سے لوں جو مسیحا صفت تو ہو
مطلوب ہے مجھے دل بیمار کا فقیہ
شاہوں کی دسترس میں ہیں کتنے ہی آجکل
مجھ کو تو چاہیے شہ ابرار کا فقیہ
ایسا فقیہ جس کا قلم بولتا ہو سچ
قرطاس کا فقیہ ہو ، تلوار کا فقیہ
ہم کو سلف کی طرز کا بندہ ملے کوئی
یہ آج کا فقیہ ہے دو چار کا فقیہ
اس آئینے کے شہر میں ملتے ہیں بے شمار
یہ ہے کتاب رخ کی ہی دیوار کا فقیہ
اک وہ تھے جن کے سر تھے قلم سچ کے جرم میں
اک یہ ہے بدنصیب جو دستار کا فقیہ
تقلید ان کی فرض ہے جو حق کے تھے امین
مغرب زدہ ہے آج یہ بے کار کا فقیہ
وہ لوگ جن کی زندگی دیں کے لیے تھی وقف
اور آج کا فقیہ ہے تہوار کا فقیہ
آؤ حسیب! ڈھونڈ لیں ایسے فقیہ کو
جس کو یہ کہ سکیں کہ ہے سرکار کا فقیہ
حسیب احمد حسیب