انسان کی زندگی کا شاید ایک ہی محرک ہے۔ اپنی شناخت قائم کرنا۔ جو کلام کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ پہچانا جائے۔ جو چپ رہتا ہے اس لیے رہتا ہے کہ بولنے والوں سے ممتاز رہے۔ جو عمارت اٹھاتا ہے اس لیے اٹھاتا ہے کہ یاد کیا جائے۔ جو گراتا ہے اس لیے گراتا ہے کہ اس کی فوقیت ثابت ہو جائے۔ جو کاروبار کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ نمایاں ہو جائے۔ جو عشق کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ اپنی ذات کی تکمیلِ اصلی میں اس سے مدد لے۔ اور تو اور صدیقِ اکبرؓ جیسا شخص بھی گھر کا تمام سامان اسی غرض سے پھونک ڈالنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ حیاتِ ابدی میں سب سے سرفراز رہے!
اپنی ذات کے ادعا (assertion) کی یہ کاوشیں تب تک بےثمر ہیں جب تک خارج سے ان کا ردِ عمل پیدا نہ ہو۔ یعنی کرنے والے کو یہ نہ بتا دیا جائے کہ وہ کامیاب ہو گیا ہے۔ اپنی شناخت قائم ہونے کی اطلاع بدقسمتی سے انسان کو اپنے اندر سے نہیں مل سکتی۔ یہ خبر باہر والے ہی دیتے ہیں خواہ وہ اس جہان سے ہوں یا اس جہان سے۔ اور جب تک یہ خبر نہ ملے انسان اور اس کے کمالات اس مور اور اس کے ناچ کی طرح ہیں جو جنگل میں رقصاں ہو۔
فنکار اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے عام لوگوں سے زیادہ لطیف ذرائع سے کام لیتا ہے اور زیادہ منفرد کارنامے سرانجام دینے پر قادر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی توقعات بھی عوام الناس کی بہ نسبت بلند تر ہوتی ہیں۔ مگر یہ توقعات پوری کرنے کے لیے معاشرے نے ایک استثنائی مثال کے سوا کبھی توجہ دینی مناسب نہیں سمجھی۔ کبھی کوئی ایسا باقاعدہ نظام یا ادارہ تشکیل نہیں دیا گیا جس کی مدد سے فنکار کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اس کی ایک جداگانہ شناخت ہے جس پر صرف اسی کا حق ہے۔
میرا ایمان ہے کہ اہلِ مشرق نے اور بالخصوص مللِ اسلامیہ نے دنیا کو بہت کچھ ایسا دیا ہے جس کی کماحقہ قدرشناسی کا وقت شاید ابھی نہیں آیا۔ انھی میں سے ایک مشاعرہ بھی ہے۔ یہ وہ استثنائی مثال ہے جس میں ہمارے معاشرے نے شاعروں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی مساعی دوسروں کے سامنے پیش کرنے اور داد و تحسین وصول کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مصوری کی نمائشیں اس کو نہیں پہنچتیں کیونکہ ان میں لازمی تعریف ایک قدر کے طور پر موجود نہیں۔ موسیقی کی محافل سے اس کا مقابلہ نہیں کیونکہ ان میں بڑے اور چھوٹے فنکار ایک ہی مسند پر بیٹھ کر اظہارِ فن کا شرف نہیں پاتے۔ فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی نمائشیں اس درجے کے ارتقا کو شاید مستقبل میں بھی نہ پہنچ سکیں۔
میں مشاعرے کو ہمارے معاشرے کے ایک ادارے کی حیثیت دیتا ہوں۔ یہ ایک پورا نظام ہے، کوئی الل ٹپ اجتماع نہیں۔ اس کی اپنی اقدار ہیں جن سے انحراف کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اپنا لائحۂِ عمل ہے جس سے وابستگی شرکا میں ایک طرح کے ثقافتی، معاشرتی، ملی اور نفسیاتی شعور کو بیدار کرتی ہے۔ اپنے مقاصد ہیں جنھیں یہ بہرصورت کچھ نہ کچھ پورا کرتا رہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں فنکار کی قدرشناسی اور حوصلہ افزائی کا ایسا بہترین بندوبست نہ صرف یہ کہ کیا نہیں گیا بلکہ کیا جائے گا بھی تو اس پر ہمارے مشاعروں کی چھاپ یقیناً نظر آئے گی۔ اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ مشاعروں نے ہمارے فنکار کی شناخت قائم کرنے اور اس کی تسکین و تالیفِ قلب میں جو کردار ادا کیا ہے وہ اتنا بھرپور ہے کہ اس سے بڑھ کر کیا معاشرتی کیا انفرادی کسی بھی سطح پر ممکن نہیں۔ یعنی شاعر کی تحسین اکثر اتنی زیادہ کی گئی ہے کہ اس کا حق نہیں تھا۔ اس سے زیادہ کوئی اور نظام کرے گا تو کیا کرے گا؟
لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ مشاعروں اور محافلِ شعر خوانی میں کی جانے والی تعریف و توصیف سطحی اور منافقانہ ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے۔ مگر میں اسے اپنے سماج کی خوبی خیال کرتا ہوں کہ اس نے فنکار کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر صورت میں کچھ نہ کچھ داد کو لازم کردیا ہے۔ داد ہمارے مشاعروں میں ایک قدر کی حیثیت رکھتی ہے اور جو لوگ اس سے احتراز کرتے ہیں ان پر آنکھیں اٹھتی ہیں۔ وہ مشاعرے کے ماحول سے ہم آہنگ معلوم نہیں ہوتے اور شاید خود بھی اپنے آپ کو کسی قدر اجنبی محسوس کرتے ہوں۔ اس اصول سے استثنا صرف بزرگ اور استاد شعرا کو حاصل ہے جن کی خاموشی پر لوگوں کے دل دھڑکتے ہیں اور سر کی معمولی سی جنبش پر پہلو سے نکل جاتے ہیں۔ کہنہ مشق فنکاروں کی بھی اس سے اچھی قدر کیا ہو سکتی ہے؟
پھر لوگ کہتے ہیں کہ اچھے اور برے شاعر میں داد کی بنیاد پر امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ میں بھی اسے اس نظام کی خامی خیال کرتا ہوں۔ اقبالؒ نے کہا تھا کہ اردو شاعری کو مشاعروں نے برباد کر دیا گو زبان کو فائدہ پہنچایا۔ اچھے اور برے شعرا کی تقریباً ایک ہی طرح سے ستائش کی وجہ دو باتوں میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ ایک تو عوام کی ادبی معیارات سے جہالت اور دوسرا مشاعرے کا نظام اخلاق۔ مشاعرے میں چونکہ عوام کی شمولیت ناگزیر ہوتی ہے اور ان کا ذوق پست ہوتا ہے اس لیے شعرا کی درست قدرفہمی کی امید ان سے نہیں کی جا سکتی۔ البتہ خود عوام کو اور معاشرے کو ضرور اس صورت میں فائدہ پہنچ جاتا ہے کہ وہ مشاعرے سے زبان کے خوب صورت، رنگین اور احساس سے بھرپور استعمال کے نئے نئے رنگ سیکھتے ہیں۔ اس لیے شعرا پر یہ لازم ہے کہ وہ کم از کم زبان کے معاملے میں ضرور احتیاط سے کام لیں۔ معاشرے اور مشاعرے دونوں نے انھیں حرف و صوت کے امین کی گدی دے رکھی ہے جس کا پاس ان پر فرض ہے۔ جہاں تک معاشرے کے نظامِ اخلاق کے اثر کا تعلق ہے تو اس پر ہم بات کر چکے ہیں۔ مشاعرے میں کوئی شاعر داد لیے بغیر اٹھ جائے تو وہ شرمندہ ہو یا نہ ہو، شرکائے مشاعرہ کا دل ضرور برا ہو جاتا ہے۔ اسی اخلاقی قدر کا پاس بعض اوقات اس انتہا پر جا کر کیا جاتا ہے کہ اچھے اور برے شاعر کا فرق اٹھ جاتا ہے۔
مشاعرے کی دیگر اقدار اور روایات کا ذکر شاید کچھ ایسا ضروری نہیں۔ مگر اتنا کہنا لازم ہے کہ جس طرح شاعری میں اصناف کی اپنی شرائط طے کر لی جاتی ہیں اسی محبت اور لطافت کے ساتھ ہمارے مشاعرے بھی شمعِ محفل سے لے کر پاسِ مراتب تک کچھ معیارات کی پاسداری کرتے چلے آئے ہیں۔ ان معیارات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی وقت کا اقتضا ہے مگر اچھی بات ہو گی کہ اس تبدیلی کا رخ مثبت ہی رہے۔ ہمیں چاہیے کہ مشاعروں کی خامیوں کو دور کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں مگر انھیں تنقیدی مجالس کا بدل ہرگز نہ سمجھیں۔ نیز اپنے معاشرے کی اس فن پروری پر نازاں ہوں نہ کہ شرمندہ!
 

جاسمن

لائبریرین
زبردست!!!
اس قدر اعلی مضمون۔۔۔مشاعرہ کے حوالے سے آپ نے ہر پہلو کو احاطہ تحریر میں سمولیا ہے اور وہ بھی بہت شاندار انداز سے۔
راحیل!آپ میں ایک نفسیات دان چھپا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا بات ہے راحیل بھائی۔ گو کہ میں شاعر نہیں۔ مشاعروں میں شامل ہونے کا بھی ایسا کچھ تجربہ نہیں۔ لیکن خود کو علمی ثابت کرنے کو کلام بزبان شعرا سن کو ناخن کٹواتا رہتا ہوں۔ سو آپ کی تحریر سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا۔
باقی آپ کی تحریر پر تبصرہ کرنا اور اس کا اچھا کہنا۔۔۔ ہماری خوش ذوقی سمجھی جا سکتی ہے۔ آپ کی تحاریر ہماری داد سے بلند ہیں۔
 
زبردست!!!
اس قدر اعلی مضمون۔۔۔مشاعرہ کے حوالے سے آپ نے ہر پہلو کو احاطہ تحریر میں سمولیا ہے اور وہ بھی بہت شاندار انداز سے۔
راحیل!آپ میں ایک نفسیات دان چھپا ہے۔
بہت بہت شکریہ۔ آپ کے آخری جملے کا جواب ادھار ہے! :):):)
کیا بات ہے راحیل بھائی۔ گو کہ میں شاعر نہیں۔ مشاعروں میں شامل ہونے کا بھی ایسا کچھ تجربہ نہیں۔ لیکن خود کو علمی ثابت کرنے کو کلام بزبان شعرا سن کو ناخن کٹواتا رہتا ہوں۔ سو آپ کی تحریر سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا۔
باقی آپ کی تحریر پر تبصرہ کرنا اور اس کا اچھا کہنا۔۔۔ ہماری خوش ذوقی سمجھی جا سکتی ہے۔ آپ کی تحاریر ہماری داد سے بلند ہیں۔
پیر و مرشد، جہاں تک تجربے کا سوال ہے تو میں اپنی چوتھائی صدی سے کافی اوپر عمر میں کوئی دو چار مشاعروں ہی میں شریک ہو سکا ہوں گا۔ اور وہ بھی یوں کہ
مشاعرہ تو دلِ ناتوں نے خوب کیا​
اور پھر تاب رہی نہ خواہش۔ :LOL::LOL::LOL:
مگر میرے مزاج سے ناموافقت کو اس کی خوبی یا خامی سے علاقہ نہیں۔ بلکہ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ روایت نہایت اچھی ہے جس کی قدر ہمارے زوال کے باعث ٹھیک ٹھیک نہیں ہو سکی۔ الٹا ہمارے اپنے لوگ بھی اسے تصنع اور تضیعِ اوقات سمجھنے لگے ہیں اور مشاعروں کا رواج کم پڑنے لگا ہے۔ یا ہوتے بھی ہیں تو نئے پڑھے لکھوں کی روایت بیزاری کے سبب رنگ نہیں جمتا۔ گزشتہ روز ایک ملاقات میں کچھ احباب نے اسی قسم کے خیالات ظاہر کیے جن کا دفاع حتی المقدور موقع پر اور اس مضمون میں کیا گیا ہے۔ :):):)
 
آخری تدوین:
مشاعرہ کی دم توڑتی روایت پر ایک اچھا تجزیہ ہے.
اس میں کچھ قصور میڈیا اور ادبی تنظیموں کا بھی ہے.
پی ٹی وی پر کسی زمانے تک ہر سال اہم مواقع پر مشاعرہ کا اہتمام ہوتا تھا. اب اکثر پرانی ویڈیوز ہی چلا دی جاتی ہیں.
ادبی تنظیمیں بیٹھکوں اور ہوٹلوں میں مشاعروں تک محدود رہ گئی ہیں اور صرف خاص شعراء کو نوازتی ہیں.
بہت کم دیکھا ہے کہ کسی مشاعرہ کی دعوتِ عام دی گئی ہو. پبلک مقامات پر بینر لگے ہوں.

2000 کی دہائی کے اوائل میں کراچی جانا ہوتا تھا تو خاص طور پر مشاعروں کی سی ڈیز کے لیے ریمبو سنٹر کا چکر لگتا تھا.

اس بات سے متفق نہیں کہ اچھے اور برے شعراء کو ایک جیسی داد ملتی ہے.
ایک عمومی داد ہوتی ہے جو ہر شاعر کو ہر شعر پر ملتی ہے. لیکن اچھے اشعار پر داد کی بے ساختگی اور جوشیلا پن اسے عام داد سے مختلف کرتا ہے.
بسا اوقات داد کے لیے مختص مخصوص افراد الجھن کا باعث بنتے ہیں.
 

آصف اثر

معطل
ماشاء اللہ۔ کمال کا تجزیاتی مضمون ہے۔
اردو مشاعروں میں کبھی براہِ راست شرکت تو نہیں ہوئی لیکن پشتو مشاعرے دیکھ چکا ہوں۔ پشتون روایات میں اب بھی مشاعرہ زندہ ہے۔ جس میں افغانستان زیادہ زرخیز ہے۔
یہاں خیبرپختون میں جمہوریت اور پارٹی بازی نے پشتونوں کی بہت سی ممتاز روایات کو منہدم کردیا ہے یا کررہی ہے۔
افغانی، قبائلی اور بولانی پشتون اس نحوست سے البتہ کچھ بچے رہے لیکن افغانیوں کے علاوہ باقی دو کی باری بھی آچکی ہے۔ جس کے اثرات آئندہ نسلوں میں نظر آئیں گے۔ ہمارے ایک شاعر دوست کے بقول شاعری اگر ہمہ جہت ہو تو اثر ڈالتی ہے وگرنہ لوگ تصنع، اور شہوت بھرے الفاظ سے بیزار ہوچکے ہیں۔
جو شعر اپنے سامعین کے سوچ کو نیا جہت نہ دے سکے اور زبان کے خالص الفاظ کو نہ سموسکے وہ بحر تو ہوسکتے ہیں شعر نہیں۔
 

نوید ناظم

محفلین
اور تو اور صدیقِ اکبرؓ جیسا شخص بھی گھر کا تمام سامان اسی غرض سے پھونک ڈالنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ حیاتِ ابدی میں سب سے سرفراز رہے!
یہاں پر غلط فہمی ہوئی راحیل بھائی۔۔۔ صدیق اکبر کا مدعا حیات ابدی میں سب سے سرفراز رہنا نہ تھا بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرفرازی تھی' وہ ایک موقع تھا کہ عاشق' معشوق پر سب لٹا دے' سو لٹا دیا۔۔۔ محبت کے باب میں محبوب کے علاوہ سب شرک ہوتا ہے بھلے جنت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اور صدیق اکبر کی محبت حیات و ممات کے فلسفے سے بلند ہے۔۔۔۔ یہاں پر حیات ابدی کی غرض کو درمیان میں لانا "غیر" ہے۔۔۔ امید ہے آپ بات کو پا جائیں گے۔۔
 
ما شاءاللہ مشاعرے پے ایک زبردست تحریر ہے ۔۔بہت سی داد
گو خود نہ تو شاعر ہیں نہ مشاعرے میں کبھی شرکت کا موقع ملا مگر آپ کے اس مضون سے بہت کچھ سیکھنےکو ملا۔۔۔اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے آمین۔۔
انسان کی زندگی کا شاید ایک ہی محرک ہے
میں اس بات سے ایک رخ سے متفق ہوں اور ایک رخ سے متفق نہیں ہوں بحرحال آپ کے موضوع کے حوالہ سے یہ ایک رخ بہت ہی جاندار اور درست معلوم ہوتا ہے ۔۔۔
اپنی شناخت قائم کرنا۔ جو کلام کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ پہچانا جائے۔ جو چپ رہتا ہے اس لیے رہتا ہے کہ بولنے والوں سے ممتاز رہے۔ جو عمارت اٹھاتا ہے اس لیے اٹھاتا ہے کہ یاد کیا جائے۔ جو گراتا ہے اس لیے گراتا ہے کہ اس کی فوقیت ثابت ہو جائے۔ جو کاروبار کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ نمایاں ہو جائے۔ جو عشق کرتا ہے اس لیے کرتا ہے کہ اپنی ذات کی تکمیلِ اصلی میں اس سے مدد لے۔ ا
ان ساری باتوں سے متفق ہوں۔۔۔انسانی فطرت ہے اسکی چاہتیں یہی ہوتی ہے ۔۔ان سے الگ بھی تو کوئی ایسی چاہت ہونی چاہیے ۔۔۔دنیوی نہیں اخروی لحاظ سے ۔۔۔اور میرا خیال وہی پہچان وہی شناخت وہی ممتازیت وہی فوقیت وہی نمایاں پن اور وہی تکمیل اعلی و برتر ہے جو اس(آخرت) دنیا میں ملے ۔۔۔
اور تو اور صدیقِ اکبرؓ جیسا شخص بھی گھر کا تمام سامان اسی غرض سے پھونک ڈالنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ حیاتِ ابدی میں سب سے سرفراز رہے!
بلکل ایسا ہی تھا۔۔۔اور ان کے نقش قدم پے چلنا ۔۔۔؟؟ کوئی ہے جو انکی روایات کو زندہ کرے ۔۔۔واللہ فی قلبی حب رسول اللہ ﷺ وحب من یحب رسول اللہ واللہ اصحاب رسول اللہ اکثر محبۃ مع رسول اللہﷺ
مللِ اسلامیہ نے دنیا کو بہت کچھ ایسا دیا ہے
بالکل یہ بات درست ہے ملل اسلامیہ نے پے پایاں اور بے مول سرمایہ دنیاکو دیا ہے اور صرف ایک دو شعبوں میں نہیں بلکہ حیات انسانی کے ہر پہلو کے حوالہ سے ۔۔۔۔
میرا ایمان ہے کہ اہلِ مشرق نے اور بالخصوص مللِ اسلامیہ نے دنیا کو بہت کچھ ایسا دیا ہے جس کی کماحقہ قدرشناسی کا وقت شاید ابھی نہیں آیا۔
کوئی کام ہوتو جاتا ہے مگر اسکی حکمت سمجھ نہیں آتی ۔۔۔۔اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کام کی حکمت ہمیں سمجھ آتی ہے اور ہم بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں اللہ تیرا کوئی بھی کام خالی از علت و حکمت نہیں ہے ۔امید ہے وہ وقت بھی ان شاء اللہ آجائے گا۔۔۔تب قدر شناس بھی ہونگے اور قدرشناسی و قدردانی بھی ہو گی ۔۔۔
 
مشاعرہ کی دم توڑتی روایت پر ایک اچھا تجزیہ ہے.
اس میں کچھ قصور میڈیا اور ادبی تنظیموں کا بھی ہے.
پی ٹی وی پر کسی زمانے تک ہر سال اہم مواقع پر مشاعرہ کا اہتمام ہوتا تھا. اب اکثر پرانی ویڈیوز ہی چلا دی جاتی ہیں.
ادبی تنظیمیں بیٹھکوں اور ہوٹلوں میں مشاعروں تک محدود رہ گئی ہیں اور صرف خاص شعراء کو نوازتی ہیں.
بہت کم دیکھا ہے کہ کسی مشاعرہ کی دعوتِ عام دی گئی ہو. پبلک مقامات پر بینر لگے ہوں.

2000 کی دہائی کے اوائل میں کراچی جانا ہوتا تھا تو خاص طور پر مشاعروں کی سی ڈیز کے لیے ریمبو سنٹر کا چکر لگتا تھا.

اس بات سے متفق نہیں کہ اچھے اور برے شعراء کو ایک جیسی داد ملتی ہے.
ایک عمومی داد ہوتی ہے جو ہر شاعر کو ہر شعر پر ملتی ہے. لیکن اچھے اشعار پر داد کی بے ساختگی اور جوشیلا پن اسے عام داد سے مختلف کرتا ہے.
بسا اوقات داد کے لیے مختص مخصوص افراد الجھن کا باعث بنتے ہیں.
متفق اور شکرگزار! :):):)
ماشاء اللہ۔ کمال کا تجزیاتی مضمون ہے۔
اردو مشاعروں میں کبھی براہِ راست شرکت تو نہیں ہوئی لیکن پشتو مشاعرے دیکھ چکا ہوں۔ پشتون روایات میں اب بھی مشاعرہ زندہ ہے۔ جس میں افغانستان زیادہ زرخیز ہے۔
یہاں خیبرپختون میں جمہوریت اور پارٹی بازی نے پشتونوں کی بہت سی ممتاز روایات کو منہدم کردیا ہے یا کررہی ہے۔
افغانی، قبائلی اور بولانی پشتون اس نحوست سے البتہ کچھ بچے رہے لیکن افغانیوں کے علاوہ باقی دو کی باری بھی آچکی ہے۔ جس کے اثرات آئندہ نسلوں میں نظر آئیں گے۔ ہمارے ایک شاعر دوست کے بقول شاعری اگر ہمہ جہت ہو تو اثر ڈالتی ہے وگرنہ لوگ تصنع، اور شہوت بھرے الفاظ سے بیزار ہوچکے ہیں۔
جو شعر اپنے سامعین کے سوچ کو نیا جہت نہ دے سکے اور زبان کے خالص الفاظ کو نہ سموسکے وہ بحر تو ہوسکتے ہیں شعر نہیں۔
شکریہ۔
شہوت بھرے الفاظ کی ترکیب نہایت پسند آئی۔ شرمندگی اور لطف دونوں اٹھائے! :):):)
یہاں پر غلط فہمی ہوئی راحیل بھائی۔۔۔ صدیق اکبر کا مدعا حیات ابدی میں سب سے سرفراز رہنا نہ تھا بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرفرازی تھی' وہ ایک موقع تھا کہ عاشق' معشوق پر سب لٹا دے' سو لٹا دیا۔۔۔ محبت کے باب میں محبوب کے علاوہ سب شرک ہوتا ہے بھلے جنت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اور صدیق اکبر کی محبت حیات و ممات کے فلسفے سے بلند ہے۔۔۔۔ یہاں پر حیات ابدی کی غرض کو درمیان میں لانا "غیر" ہے۔۔۔ امید ہے آپ بات کو پا جائیں گے۔۔
میں آپ کا نکتہ اچھی طرح سمجھتا ہوں مگر اس غلط فہمی کی جڑی بہت گہری ہیں، نوید بھائی۔ قرآن کہیں اس عشق کی نہ صرف یہ کہ ترغیب نہیں دلاتا جو آپ کے تصور میں ہے بلکہ اس کا ذکر تک گوارا نہیں کرتا۔ وہ بشر کو مافوق البشر کے طور پر نہیں دیکھتا لہٰذا فنا کے کسی بھی فلسفے سے محترز رہتا ہے۔ اقبال علیہ الرحمۃ کا سب سے بڑا کارنامہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ انھوں نے قرآن کے اس حقیقی مدعا کو سمجھا اور سمجھایا اور عجمی تصوف کی فناپرستی کے بالمقابل قرآن کے ادعائے وجود، خود شناسی اور غیرتِ نفس کے نظریے کا احیا فرمایا۔
قرآن متصوفین کی طرح بشر کی حریصانہ اور ذات پرستانہ فطرت کو کچلنے کے حق میں نہیں بلکہ اس طلب کے اہداف بلند کرنے کا قائل ہے۔ لہٰذا عشق اور اس کی خود فراموشی کی تعلیم سب کی ہو سکتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کی نہیں۔
آپ کی توجہ اور رائے کا شکرگزار میں بہرحال ہوں۔ میرے خیالات کو آپ بغیر دلیل کے رد کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں!
 

نوید ناظم

محفلین
میں آپ کا نکتہ اچھی طرح سمجھتا ہوں مگر اس غلط فہمی کی جڑی بہت گہری ہیں، نوید بھائی۔ قرآن کہیں اس عشق کی نہ صرف یہ کہ ترغیب نہیں دلاتا جو آپ کے تصور میں ہے بلکہ اس کا ذکر تک گوارا نہیں کرتا۔ وہ بشر کو مافوق البشر کے طور پر نہیں دیکھتا لہٰذا فنا کے کسی بھی فلسفے سے محترز رہتا ہے۔ اقبال علیہ الرحمۃ کا سب سے بڑا کارنامہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ انھوں نے قرآن کے اس حقیقی مدعا کو سمجھا اور سمجھایا اور عجمی تصوف کی فناپرستی کے بالمقابل قرآن کے ادعائے وجود، خود شناسی اور غیرتِ نفس کے نظریے کا احیا فرمایا۔
قرآن متصوفین کی طرح بشر کی حریصانہ اور ذات پرستانہ فطرت کو کچلنے کے حق میں نہیں بلکہ اس طلب کے اہداف بلند کرنے کا قائل ہے۔ لہٰذا عشق اور اس کی خود فراموشی کی تعلیم سب کی ہو سکتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کی نہیں۔
آپ کی توجہ اور رائے کا شکرگزار میں بہرحال ہوں۔ میرے خیالات کو آپ بغیر دلیل کے رد کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں!
جی راحیل بھائی' ظاہر ہے زندگی آپ کی ہے تو خیال بھی آپ ہی کا ہو گا' سفر بھی آپ کا اپنا ہے۔ ہمارے گُرو نے بتایا تھا کہ " ہر انسان کو رائے رکھنے کا حق ہے' رائے دینے کا حق ہے' زندگی گزارنے کا حق ہے" باقی آپ کی اس وضاحت سے ہمیں صد فیصد اختلاف ہے مگر اعتراض بالکل نہیں ہے۔ ہر علم کے برعکس ایک علم موجود رہتا ہے، سُو دلیلیں بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔ مگر ہم نے مناظرہ تھوڑا ہی کرنا ہے' ہم نے تو دوستی کرنی ہے۔۔۔۔۔ آپ کو دعا دینی ہے اور آپ سے دعا وصول کرنی ہے' اور بس :)
 
ہم نے تو دوستی کرنی ہے۔۔۔۔۔ آپ کو دعا دینی ہے اور آپ سے دعا وصول کرنی ہے'
نوید ناظم
آپکی یہ باتیں بہت پسند آئیں۔۔۔اللہ آپکو سلامت رکھے اور خوش رکھے ۔۔سچی بات ہے اختلافات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔یہ دل میں بغض کینہ اور نفرت کے زہریلے جراثیم پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔۔امن و آشتی سے رہنا اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوئے معاشرے میں بسنے والے تمام افراد سے دل جوئی نرم خوئی دردمندی کرنا یہی تو کام ہیں جن سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
بہت دعائیں آپ کے لیے۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
یہاں پر غلط فہمی ہوئی راحیل بھائی۔۔۔ صدیق اکبر کا مدعا حیات ابدی میں سب سے سرفراز رہنا نہ تھا بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرفرازی تھی' وہ ایک موقع تھا کہ عاشق' معشوق پر سب لٹا دے' سو لٹا دیا۔۔۔ محبت کے باب میں محبوب کے علاوہ سب شرک ہوتا ہے بھلے جنت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اور صدیق اکبر کی محبت حیات و ممات کے فلسفے سے بلند ہے۔۔۔۔ یہاں پر حیات ابدی کی غرض کو درمیان میں لانا "غیر" ہے۔۔۔ امید ہے آپ بات کو پا جائیں گے۔۔

میں آپ کا نکتہ اچھی طرح سمجھتا ہوں مگر اس غلط فہمی کی جڑی بہت گہری ہیں، نوید بھائی۔ قرآن کہیں اس عشق کی نہ صرف یہ کہ ترغیب نہیں دلاتا جو آپ کے تصور میں ہے بلکہ اس کا ذکر تک گوارا نہیں کرتا۔ وہ بشر کو مافوق البشر کے طور پر نہیں دیکھتا لہٰذا فنا کے کسی بھی فلسفے سے محترز رہتا ہے۔ اقبال علیہ الرحمۃ کا سب سے بڑا کارنامہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ انھوں نے قرآن کے اس حقیقی مدعا کو سمجھا اور سمجھایا اور عجمی تصوف کی فناپرستی کے بالمقابل قرآن کے ادعائے وجود، خود شناسی اور غیرتِ نفس کے نظریے کا احیا فرمایا۔
قرآن متصوفین کی طرح بشر کی حریصانہ اور ذات پرستانہ فطرت کو کچلنے کے حق میں نہیں بلکہ اس طلب کے اہداف بلند کرنے کا قائل ہے۔ لہٰذا عشق اور اس کی خود فراموشی کی تعلیم سب کی ہو سکتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کی نہیں۔

اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
 
ماشاء اللہ۔ کمال کا تجزیاتی مضمون ہے۔
اردو مشاعروں میں کبھی براہِ راست شرکت تو نہیں ہوئی لیکن پشتو مشاعرے دیکھ چکا ہوں۔ پشتون روایات میں اب بھی مشاعرہ زندہ ہے۔ جس میں افغانستان زیادہ زرخیز ہے۔
یہاں خیبرپختون میں جمہوریت اور پارٹی بازی نے پشتونوں کی بہت سی ممتاز روایات کو منہدم کردیا ہے یا کررہی ہے۔
افغانی، قبائلی اور بولانی پشتون اس نحوست سے البتہ کچھ بچے رہے لیکن افغانیوں کے علاوہ باقی دو کی باری بھی آچکی ہے۔ جس کے اثرات آئندہ نسلوں میں نظر آئیں گے۔ ہمارے ایک شاعر دوست کے بقول شاعری اگر ہمہ جہت ہو تو اثر ڈالتی ہے وگرنہ لوگ تصنع، اور شہوت بھرے الفاظ سے بیزار ہوچکے ہیں۔
جو شعر اپنے سامعین کے سوچ کو نیا جہت نہ دے سکے اور زبان کے خالص الفاظ کو نہ سموسکے وہ بحر تو ہوسکتے ہیں شعر نہیں۔
خیبر پختونخوا میں تو ہر دن کوئی نہ کوئی مشاعرہ ہوتا ہے غیر سرکاری سطح پر
 
Top