مشتاق عاجز :: زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے

صائمہ شاہ

محفلین
زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے
یہ کائنات پرائی تھی، ہم کہاں رہتے؟

ہم ایسے بے سروساماں جہانِ امکاں میں
ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے

جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے
جو بدگماں تھے بہ ہر حال بدگماں رہتے

کوئی فریبِ وفا ہی میں مبتلا رکھتا
تو اُس کے جور و جفا پر بھی شادماں رہتے

پکارتا جو کوئی سُوئے دار بھی دل سے
تو نقدِ جان لیے سر بہ کف رواں رہتے

کسی کے ایک اشارے پہ جل بجھے ہوتے
بلا سے بعد کے منظر دھواں دھواں رہتے

مگر یہ سود و زیاں کا جہان تھا عاجزؔ
یہاں خلوص کے سجدے بھی رائیگاں رہتے
 

طارق شاہ

محفلین
کوئی فریبِ وفا ہی میں مبتلا رکھتا
تو اُس کے جور وجفا پربھی شادماں رہتے

کسی کے ایک اشارے پہ جل بُجھے ہوتے
بلا سے بعد کے منظر دُھواں دُھواں رہتے
کیا کہنے !
صائمہ شاہ صاحبہ !
بلا کی مربوط ، اس خُوب غزل کی عنایت پر تشکّر اور بہت سی داد قبول کیجیے
آپ کی اس پیش کردہ غزل نے، بہت لطف دیا

بہت شاد رہیں
 

سید زبیر

محفلین
بہت عمدہ کلام
زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے​
یہ کائنات پرائی تھی، ہم کہاں رہتے؟​
واہ​
 
Top