مشرف کو سنگین غداری کیس سے بری کیا جائے، فروغ نسیم
اسلام آباد...... سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو سنگین غداری کیس سے بری کر کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کی پوری کابینہ کو مرکزی ملزم بنایا جائے، وزیراعظم نواز شریف نے متعدد مرتبہ کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر پرویز مشرف کو معاف کر دیا ہے مگر حقیقت میں معاف نہیں کیا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ 3نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے اعلامیے میں فوجی اور سول اہلکاروں کا ذکر ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ پرویز مشرف نے یہ اقدام بطور جنرل کیا تھا تو پھر یہ فوج کا اقدام ہوا،ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے جن فوجی اور سول اہلکاروں سے مشورہ ہوا، وہ معاون اور مدد گار ہیں، جنرلز سے بیان لیا جاتا کہ ان سے مشاورت ہوئی یا نہیں ، شکایت کنندہ کو جی ایچ کیو سےمعلومات حاصل کرنے میں دشواری تھی توعدالت سے رجوع کیوں نہ کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جنرل کیانی نے3نومبر کی ایمرجنسی کیوں ختم نہ کی؟ استغاثہ کو چاہئے تھا کہ جنرل کیانی اور سابق گورنرپنجاب جنرل خالد مقبول کو بھی کٹہرےمیں کھڑا کرتا، 3 نومبر کی ایمرجنسی کی توثیق کرنے والے ججز کو بھی یہاں لانا چاہئے تھا، سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا بھی ویڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرایا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا،6 نومبر کو وزیراعظم شوکت عزیز کی سربراہی میں کابینہ نے ایمرجنسی کی توثیق کی،پرویز مشرف نہ تو کابینہ کے رکن تھے، نہ ہی اس اجلاس میں شامل تھے،کابینہ ارکان نے توثیق کی تھی تو وہ مرکزی ملزم بنتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ استغاثہ نے 3 نومبر کے اقدام میں ساتھ دینے والے من پسند گواہوں کے بیانات لیے،7 نومبر 2007 کو وزیرپارلیمانی امور شیر افگن نیازی نےقرارداد پیش کی جسے اسمبلی نے منظور کیا، اس کا مطلب ہے کہ یہ ایمرجنسی قومی اسمبلی کا اقدام ہے۔بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 1956 کا مارشل لاء لگوانے والوں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کرایا گیا؟تمام جنرلز ،ججز ، بیورو کریٹس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی حمایت کی، پھر معافی مانگ لی،وہ بھی تو پرویز مشرف جیسا جرم تھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت پرویز مشرف کے خلاف امتیازی کارروائی پر مبنی درخواست مسترد کرےیا شریک ملزمان کو شامل تفتیش کر کے نئی درخواست دائر کرنے کا کہا جائے ۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نے اعتراف کیا کہ دیگر حکومتی وعسکری حکام سے تحقیقات نہیں کی گئیں،سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ٹی وی پر مشاورت کا اعتراف کیا، ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی نے بھی ایمر جنسی کے نفاذ کی توثیق کی مگر ان ارکان کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی،آرٹیکل 6 کے تحت معاونت کرنے والا بھی جرم میں برابر کا شریک ہے۔کیس کی مزید سماعت کل کی جائے گی ۔
اسلام آباد...... سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو سنگین غداری کیس سے بری کر کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کی پوری کابینہ کو مرکزی ملزم بنایا جائے، وزیراعظم نواز شریف نے متعدد مرتبہ کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر پرویز مشرف کو معاف کر دیا ہے مگر حقیقت میں معاف نہیں کیا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ 3نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے اعلامیے میں فوجی اور سول اہلکاروں کا ذکر ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ پرویز مشرف نے یہ اقدام بطور جنرل کیا تھا تو پھر یہ فوج کا اقدام ہوا،ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے جن فوجی اور سول اہلکاروں سے مشورہ ہوا، وہ معاون اور مدد گار ہیں، جنرلز سے بیان لیا جاتا کہ ان سے مشاورت ہوئی یا نہیں ، شکایت کنندہ کو جی ایچ کیو سےمعلومات حاصل کرنے میں دشواری تھی توعدالت سے رجوع کیوں نہ کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جنرل کیانی نے3نومبر کی ایمرجنسی کیوں ختم نہ کی؟ استغاثہ کو چاہئے تھا کہ جنرل کیانی اور سابق گورنرپنجاب جنرل خالد مقبول کو بھی کٹہرےمیں کھڑا کرتا، 3 نومبر کی ایمرجنسی کی توثیق کرنے والے ججز کو بھی یہاں لانا چاہئے تھا، سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا بھی ویڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرایا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا،6 نومبر کو وزیراعظم شوکت عزیز کی سربراہی میں کابینہ نے ایمرجنسی کی توثیق کی،پرویز مشرف نہ تو کابینہ کے رکن تھے، نہ ہی اس اجلاس میں شامل تھے،کابینہ ارکان نے توثیق کی تھی تو وہ مرکزی ملزم بنتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ استغاثہ نے 3 نومبر کے اقدام میں ساتھ دینے والے من پسند گواہوں کے بیانات لیے،7 نومبر 2007 کو وزیرپارلیمانی امور شیر افگن نیازی نےقرارداد پیش کی جسے اسمبلی نے منظور کیا، اس کا مطلب ہے کہ یہ ایمرجنسی قومی اسمبلی کا اقدام ہے۔بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 1956 کا مارشل لاء لگوانے والوں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کرایا گیا؟تمام جنرلز ،ججز ، بیورو کریٹس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی حمایت کی، پھر معافی مانگ لی،وہ بھی تو پرویز مشرف جیسا جرم تھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت پرویز مشرف کے خلاف امتیازی کارروائی پر مبنی درخواست مسترد کرےیا شریک ملزمان کو شامل تفتیش کر کے نئی درخواست دائر کرنے کا کہا جائے ۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نے اعتراف کیا کہ دیگر حکومتی وعسکری حکام سے تحقیقات نہیں کی گئیں،سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ٹی وی پر مشاورت کا اعتراف کیا، ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی نے بھی ایمر جنسی کے نفاذ کی توثیق کی مگر ان ارکان کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی،آرٹیکل 6 کے تحت معاونت کرنے والا بھی جرم میں برابر کا شریک ہے۔کیس کی مزید سماعت کل کی جائے گی ۔