مشعلِ حرف لئے نور بکف ہوجائیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ گرامی قدر! ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اس کے کچھ اشعار شاید مبہم سے محسوس ہوں کہ پانچ چھ سال پہلے کے حالات اور پس منظر میں کہے گئے تھے۔ امید ہے کہ دو چار اشعار آپ کو پسند آجائیں گے۔


٭

مشعلِ حرف لئے نور بکف ہو جائیں
کاش ہم اپنے زمانے کا شرف ہوجائیں

عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں
ظرف کہتاہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں

دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں
اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہوجائیں

حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے
ہائے وہ لوگ جو خود اپنا ہدف ہو جائیں

کشتیاں اپنی جلائی ہیں عدو نے اِس بار
اب تو لازم ہے کہ ہم جان بکف ہوجائیں

معرکہ کوئی بھی مشکل تو نہیں ، اہلِ حرم
توڑ کر دائرے گر شامل ِصف ہو جائیں

ڈر رہا ہوں کہ یہ اوراقِ شب و روز مرے
یوں نہ ہو عہدِ ضرورت میں تلف ہوجائیں

کون زحمت کرے پھر شمعیں جلانے کی ظہیرؔ
جب سیہ رات کے شکوے ہی شغف ہوجائیں


٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2014



 
مشعلِ حرف لئے نور بکف ہو جائیں
کاش ہم اپنے زمانے کا شرف ہوجائیں

عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں
ظرف کہتاہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں

دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں
اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہوجائیں

حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے
ہائے وہ لوگ جو خود اپنا ہدف ہو جائیں

کشتیاں اپنی جلائی ہیں عدو نے اِس بار
اب تو لازم ہے کہ ہم جان بکف ہوجائیں

معرکہ کوئی بھی مشکل تو نہیں ، اہلِ حرم
توڑ کر دائرے گر شامل ِصف ہو جائیں

ڈر رہا ہوں کہ یہ اوراقِ شب و روز مرے
یوں نہ ہو عہدِ ضرورت میں تلف ہوجائیں

کون زحمت کرے پھر شمعیں جلانے کی ظہیرؔ
جب سیہ رات کے شکوے ہی شغف ہوجائیں
تمام اشعار لاجواب۔ بہت عمدہ ظہیر بھائی
اس کے کچھ اشعار شاید مبہم سے محسوس ہوں کہ پانچ چھ سال پہلے کے حالات اور پس منظر میں کہے گئے تھے۔
بقولِ دلاور فگار
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
پانچ چھ سال تو پھر آج ہی کی بات ہے۔ :)
 
مکرمی جناب ظہیر صاحب، آداب

ماشاء اللہ خوب غزل ہے۔
عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں
ظرف کہتاہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں

دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں
اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہوجائیں

حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے
ہائے وہ لوگ جو خود اپنا ہدف ہو جائیں

یہ تین شعر خاص طور پر بہت پسند آئے، اگرچہ میری ناچیز رائے میں اقتباس کئے گئے پہلے شعر کے مصرعہِ ثانی میں ’’ایک طرف ہو جائیں‘‘ شاید مدعا بھرپور طریقے سے بیان نہیں کر پارہا۔ غالباً آپ کا مقصود ایک الگ راہ بنانا ہے، جبکہ ’’ایک طرف ہوجانے‘‘ کا مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ بس الگ کھڑے ہوجائیں اور کریں کچھ نہیں! بہرل حال ضروری نہیں کہ دیگر قارئین کو بھی یہ الجھن محسوس ہو۔

مقطع بھی خوب ہے۔ ہماری جانب سے داد قبول فرمائیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
احبابِ گرامی قدر! ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اس کے کچھ اشعار شاید مبہم سے محسوس ہوں کہ پانچ چھ سال پہلے کے حالات اور پس منظر میں کہے گئے تھے۔ امید ہے کہ دو چار اشعار آپ کو پسند آجائیں گے۔


٭

مشعلِ حرف لئے نور بکف ہو جائیں
کاش ہم اپنے زمانے کا شرف ہوجائیں

عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں
ظرف کہتاہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں

دل یہ کہتا ہے ترا نام اُتاریں دل میں
اور کسی گہرے سمندر میں صدف ہوجائیں

حیف وہ جنگ کہ دونوں ہی طرف ہوں اپنے
ہائے وہ لوگ جو خود اپنا ہدف ہو جائیں

کشتیاں اپنی جلائی ہیں عدو نے اِس بار
اب تو لازم ہے کہ ہم جان بکف ہوجائیں

معرکہ کوئی بھی مشکل تو نہیں ، اہلِ حرم
توڑ کر دائرے گر شامل ِصف ہو جائیں

ڈر رہا ہوں کہ یہ اوراقِ شب و روز مرے
یوں نہ ہو عہدِ ضرورت میں تلف ہوجائیں

کون زحمت کرے پھر شمعیں جلانے کی ظہیرؔ
جب سیہ رات کے شکوے ہی شغف ہوجائیں


٭٭٭


ظہیرؔ احمد ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2014



بہت اعلیٰ، شاندار۔ کیا بات ہے۔ بہت بہت داد قبول فرمائیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی جناب ظہیر صاحب، آداب
ماشاء اللہ خوب غزل ہے۔
یہ تین شعر خاص طور پر بہت پسند آئے، اگرچہ میری ناچیز رائے میں اقتباس کئے گئے پہلے شعر کے مصرعہِ ثانی میں ’’ایک طرف ہو جائیں‘‘ شاید مدعا بھرپور طریقے سے بیان نہیں کر پارہا۔ غالباً آپ کا مقصود ایک الگ راہ بنانا ہے، جبکہ ’’ایک طرف ہوجانے‘‘ کا مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ بس الگ کھڑے ہوجائیں اور کریں کچھ نہیں! بہرل حال ضروری نہیں کہ دیگر قارئین کو بھی یہ الجھن محسوس ہو۔
مقطع بھی خوب ہے۔ ہماری جانب سے داد قبول فرمائیں۔
دعاگو،
راحلؔ

داد قبول کی صاحب! بہت بہت شکریہ! نوازش! :)

عقل کہتی ہے چلو ساتھ زمانے کے چلیں
ظرف کہتاہے کہ ہم ایک طرف ہوجائیں
اس شعر کے بارے میں آپ کی الجھن کچھ سمجھ میں نہیں آئی ۔ ’’ایک طرف ہونا‘‘ محاورہ ہے جس کے دو لغوی معنی ہیں ۔ (1) راستہ چھوڑکر کنارے پر ہوجانا (2) کسی مباحثے یا مقابلے میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینا ۔ ( تفصیل کے لئے کوئی بھی لغت دیکھ لیجئے) ۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ شعر کے سیاق و سباق میں اس کا پہلا مطلب لیا جائے گا ۔ یعنی زمانہ جس روش یا راستے پر چل رہا ہے بہتر ہے کہ ہم اسے چھوڑ کر کنارے ہوجائیں ۔ کنارے ہوکر کیا کرنا ہے اورکیا نہیں کرنا ہے وہ مسئلہ سرے سےاس شعر کا موضوع ہی نہیں ہے ۔ یہاں زمانے کی گھٹیا روش سے اعلیٰ ظرفی کا اختلاف دکھانا مقصود ہے اگرچہ عقل کہتی ہے کہ زمانے کی روش پر چلنا ہی سودمند ہے۔
 
Top