سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 15 اپریل، 2017
مشعل خان انسانیت کا ایک اور قتل
تحریر: سید انور محموداسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آدمی صرف خدا کا بندہ ہو۔ نفس کا بندہ نہ باپ دادا کا بندہ، نہ خاندان اور قبیلہ کا بندہ، نہ مولوی صاحب اور پیر صاحب کا بندہ، نہ زمین دار،تحصیل دار اور مجسٹریٹ کا بندہ نہ خدا کے سوا کسی اورکا بندہ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی سے مسلم امہ کی دل آزاری ہوتی ہے اور انکے دل زخمی ہوتے ہیں،اس گستاخانہ اور ناپاک جسارت کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔مسلمان جس کے پیرو کار ہیں وہ امن کے داعی، عدل و انصاف کے پیامبر، اقلیتوں کے محافظ اور انسانیت کے محسن ہیں۔ بیس کروڑ کی آبادی کے حامل پاکستان میں توہین رسالت ایک حساس موضوع ہے، جہاں غیر مصدقہ الزامات کے بعد بھی پُر تشدد واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر بےقصور یا ملزم دونوں کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ناقدین کاکہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کےلیے توہین مذہب کے قوانین کو غلط اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا توہین رسالت کا قانون بہت سے دیگر قوانین کی طرح انتہائی مبہم ہے، اس کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں ’’توہین مذہب یا رسالت‘‘ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، یہاں تک کہ ایسے الزامات کے ثابت ہونے سے قبل ہی اس ملک کے عوام ملزم کو ماورائے عدالت قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال مردان کی ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مقتول مشعل خان ہے جس کو یونیورسٹی کے اندر ہی مشتعل طلبہ کے ایک ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے کہنے کے مطابق مشتعل ہجوم کا الزام تھا کہ مشعل خان نامی اس طالب علم نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا تھا جواب تک کسی کو بھی نہیں ملا۔ جمعرات 13 اپریل کو مردان کی ولی خان یونیورسٹی کے مشتعل طلبہ نے شعبہ صحافت کے طالب علم مشعل خان پر شدید جسمانی تشدد کیا۔ شدید تشدد کی وجہ سے مشعل خان کی موت واقع ہوچکی تھی لیکن درندے اس کی لاش کو جلانا چاہتے تھے۔ پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ مشعل خان کی موت گولی لگنے سے ہوئی تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ مشعل خان نے ایسا کون سا مواد سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا جس پر اس کے خلاف توہین مذہب کا الزام لگا۔ مشعل خان کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ ’’وہ ایک پرجوش اور ناقدانہ رائے رکھنے والا طالب علم تھا، وہ بہت ذہین اورمتجسس طالب علم تھا جو ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں ہمیشہ شکایت کرتا رہتا تھا مگر میں نے کبھی اس کے منہ سے مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں سنی‘‘۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک نازک معاملہ ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے ملک پاکستان میں پیغمبر اسلام یا دیگر پیغمبروں کی توہین ایک بڑا جرم ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جب لوگوں کو توہین مذہب یا توہین رسالت کے الزام کے تحت تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 1990 کے بعد سے اب تک کم از کم 65 افراد کو توہین مذہب کے الزام کے تحت قتل کیا جا چکا ہے۔ جنوری 2011 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک باڈی گارڈ نے اسی الزام کے تحت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو گزشتہ برس ہی اس جرم کی سزا میں پھانسی دی گئی۔ پاکستانی معاشرے کی بنیادیں اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہائی کورٹ کا ایک جج انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جب ایسے ادارے، جن کا کام عوام کی حفاظت کرنا اور انہیں تحفظ پہنچانا ہے، وہ ایسے کام کریں گے تو پھر معاشرے کا کیا حال ہو گا۔
ہر تنقیدی سوچ پر مذہبی الزامات لگا کر اسے بند کرنے کی کوشش کی جاری ہے اور اس کا فائدہ فاشسٹ مذہبی جماعتیں اٹھارہی ہیں۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے، جس کا فوری سدباب ضروری ہے۔اب یہ مسئلہ صرف مذمتی بیانات سے حل نہیں ہوگا بلکہ سیاسی جماعتوں کو آگے آنا پڑے گا اور انہیں عدم رواداری کی اس لہر کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔تجزیہ نگار عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ’’فاشسٹ مذہبی جماعتیں معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ انہیں منطق کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ دلیل کی زبان نہیں سمجھتے۔ سول سوسائٹی ان کے خلاف مظاہر ے کرسکتی ہے لیکن وہ طاقت مجتمع نہیں کرسکتی، جو ان کی یلغار کو روکے۔ یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ ان فاشسٹ قوتوں کو انہی کی زبان میں جواب دیں، جو یہ سمجھتے ہیں یعنی طاقت کی زبان‘‘۔سماجی کارکن جبران ناصر نے ٹویٹ کیا کہ ’’ممتاز قادری کی تعریف کرنے اور دوسروں کو ایسے ہی اقدام کرنے پر اکسانے والے علما ایسے معاشرے کے لیے ذمہ دار ہیں جہاں ایک ہجوم یونیورسٹی میں داخل ہو کر ایک طالب علم کو ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا ہے ’’میں مردان میں طالب علم کے قتل کے حوالے سے گذشتہ رات سے کے پی کے آئی جی سے رابطے میں ہوں۔ جنگل کا قانون نہیں چل سکتا‘‘۔
مشعل خان کے قتل میں وہ ہجوم تو شامل ہے ہی جس نے مشعل خان پر بدترین تشدد کرکے اس کی جان لےلی،لیکن سوال یہ ہے کہ اس ہجوم کو اکسایا کس نے، جواب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ مشعل خان کے قتل میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ پوری طرح ملوث ہے جس نے تحقیقات مکمل ہوئے بغیر 13 اپریل کو ایک سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ طالب علم مشعل خان، عبداللہ اور زبیر کی توہین مذہب سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مشعل خان کے علاوہ دو اور طالبعلم، عبداللہ اور زبیر پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزامات تھے اس لیے تینوں طلبہ کو غیر معینہ مدت کےلیے معطل کردیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات مکمل ہوئے بغیر مشعل خان کے خلاف پوری طرح ڈھول پیٹا تھا کہ’’ مشعل خان اور اس کے دو ساتھی توہین مذہب کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں‘‘۔ بعض اوقات اس قسم کے واقعات میں افواہوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے اور اکثر اوقات افواہیں ہی اس قسم کے واقعات کی بنیاد بنتی ہیں، لگتا ہے اس کیس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے سوچی سمجھی سازش کے تحت مشعل خان اور اس کے دو ساتھی کے خلاف نوٹیفکیشن کے زریعے افوایں پھیلائی ہیں۔ امید ہے عمران خان اور کے پی کے کی حکومت اس ایک اور انسانیت کے قتل میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایں گے۔