حسیب احمد حسیب
محفلین
مشق سخن
غزل
مرے دل میں سماؤ
ذرا سا پاس آؤ
محبت ہو گئی ہے
خدارا مان جاؤ
یہ دل خالی مکاں ہے
اسے آکر سجاؤ
تمہارے پاس ہوں میں
مری جاں مسکراؤ
تمہارا ہو گیا ہوں
مجهے اپنا بناؤ
اداسی ہے یہ کیسی
مجهے کچه تو بتاؤ
چلو گهر کو چلیں اب
ہمارے ساته آؤ
مری آنکهوں میں دیکهو
اور ان میں ڈوب جاؤ
مرے دل کی زمیں پر
ذرا چاہت اگاؤ
تری چالیں ہیں مشکل
ترے قاتل ہیں داؤ
غزل
ہماری مان جاؤ
چلو سیدھے سبھاؤ
انا کا بوجه ہے یہ
اسے خود ہی اٹهاؤ
بڑا مشکل ہے ملنا
کوئی چکر چلاؤ
محبت کی مٹهائی
ہمارے ساته کهاؤ
ذرا سج کر سنور کر
مرے دل کو لبهاؤ
بیاں کیسے کروں میں
نہ کہہ پائوں تو پاؤ
نہیں روکونگا تم کو
اگر جاتے ہو جاؤ
جو سچائی ہے کہہ دو
نگاہیں مت چراؤ
روایت توڑ ڈالو
مجهے آکر مناؤ
بڑے شیریں سخن ہو
ذرا سا گنگناؤ
غزل
ہمیں نہ آزماؤ
خدا را مان جاؤ
یہ دل کا مسئلہ ہے
میری جاں دل لگاؤ
جو وعدہ کر لیا ہے
تو اب اسکو نبهاؤ
تعلق توڑتے ہو
مگر..! کیوں ..؟ یہ بتاؤ
بڑی الجهن میں ہوں میں
کوئی رستہ سجهاؤ
کبھی سچ بھی کہو تم
خدا کا خوف کھاؤ
اگر ہمت ہے تم میں
ستارے توڑ لاؤ
دِوَاروں کو گرا کر
نئے رستے بناؤ
ابھی مصروف ہوں میں
کبھی فرصت سے آؤ
وہیں دریا ہے مڑتا
جہاں پر ہے کٹاؤ
غزل
ہوا جو بھول جاؤ
نیا رشتہ بناؤ
تمہاری قدر کیا ہے
چمن کے بے نواؤ
بڑے مایوس ہوگے
مجھے نہ آزماؤ
سمندر طیش میں ہے
میری کاغذ کی ناؤ
ہمارے بیچ اب تک
عجب سا ہے تناؤ
تمہیں ہی مات ہوگی
اگر ہوگا چناؤ
محبت کی تپش سے
بھڑک اٹھے الاؤ
قیامت ہے قیامت
وہ چتون وہ بناؤ
تری آنکھوں میں شبنم
مرے سینے کے گھاؤ
یہ دولت حسن کی ہے
لٹاؤ سب لٹاؤ
غزل
چلو کھل کر بتاؤ
محبت نہ چھپاؤ
بڑی وزنی حقیقت
بڑا بھاری دباؤ
پریشانی ہے کوئی
تو ہم سے مت چھپاؤ
نہیں ممکن کہ نکلیں
ہمارے دل کے چاؤ
اگر ہمت ہے تم میں
نگاہیں تو ملاؤ
بدلتا ہے زمانہ
نئی دنیا بناؤ
غم ہستی اگر ہے
غم جاناں بھلاؤ
گل و بلبل کی باتیں
مجھے نہ اب سناؤ
میرا دل توڑ کر تم
نہ غیروں کو رجھاؤ
دلاسوں کی مٹھائی
خیالی ہے پلاؤ
نہیں ہونے کا تم سے
تو باتیں مت بناؤ
میری چغلی کسی سے
چلو جاکر لگاؤ
خدا را جان چھوڑو
نہ یوں مصرع لڑاؤ
حسیب احمد حسیب
غزل
مرے دل میں سماؤ
ذرا سا پاس آؤ
محبت ہو گئی ہے
خدارا مان جاؤ
یہ دل خالی مکاں ہے
اسے آکر سجاؤ
تمہارے پاس ہوں میں
مری جاں مسکراؤ
تمہارا ہو گیا ہوں
مجهے اپنا بناؤ
اداسی ہے یہ کیسی
مجهے کچه تو بتاؤ
چلو گهر کو چلیں اب
ہمارے ساته آؤ
مری آنکهوں میں دیکهو
اور ان میں ڈوب جاؤ
مرے دل کی زمیں پر
ذرا چاہت اگاؤ
تری چالیں ہیں مشکل
ترے قاتل ہیں داؤ
غزل
ہماری مان جاؤ
چلو سیدھے سبھاؤ
انا کا بوجه ہے یہ
اسے خود ہی اٹهاؤ
بڑا مشکل ہے ملنا
کوئی چکر چلاؤ
محبت کی مٹهائی
ہمارے ساته کهاؤ
ذرا سج کر سنور کر
مرے دل کو لبهاؤ
بیاں کیسے کروں میں
نہ کہہ پائوں تو پاؤ
نہیں روکونگا تم کو
اگر جاتے ہو جاؤ
جو سچائی ہے کہہ دو
نگاہیں مت چراؤ
روایت توڑ ڈالو
مجهے آکر مناؤ
بڑے شیریں سخن ہو
ذرا سا گنگناؤ
غزل
ہمیں نہ آزماؤ
خدا را مان جاؤ
یہ دل کا مسئلہ ہے
میری جاں دل لگاؤ
جو وعدہ کر لیا ہے
تو اب اسکو نبهاؤ
تعلق توڑتے ہو
مگر..! کیوں ..؟ یہ بتاؤ
بڑی الجهن میں ہوں میں
کوئی رستہ سجهاؤ
کبھی سچ بھی کہو تم
خدا کا خوف کھاؤ
اگر ہمت ہے تم میں
ستارے توڑ لاؤ
دِوَاروں کو گرا کر
نئے رستے بناؤ
ابھی مصروف ہوں میں
کبھی فرصت سے آؤ
وہیں دریا ہے مڑتا
جہاں پر ہے کٹاؤ
غزل
ہوا جو بھول جاؤ
نیا رشتہ بناؤ
تمہاری قدر کیا ہے
چمن کے بے نواؤ
بڑے مایوس ہوگے
مجھے نہ آزماؤ
سمندر طیش میں ہے
میری کاغذ کی ناؤ
ہمارے بیچ اب تک
عجب سا ہے تناؤ
تمہیں ہی مات ہوگی
اگر ہوگا چناؤ
محبت کی تپش سے
بھڑک اٹھے الاؤ
قیامت ہے قیامت
وہ چتون وہ بناؤ
تری آنکھوں میں شبنم
مرے سینے کے گھاؤ
یہ دولت حسن کی ہے
لٹاؤ سب لٹاؤ
غزل
چلو کھل کر بتاؤ
محبت نہ چھپاؤ
بڑی وزنی حقیقت
بڑا بھاری دباؤ
پریشانی ہے کوئی
تو ہم سے مت چھپاؤ
نہیں ممکن کہ نکلیں
ہمارے دل کے چاؤ
اگر ہمت ہے تم میں
نگاہیں تو ملاؤ
بدلتا ہے زمانہ
نئی دنیا بناؤ
غم ہستی اگر ہے
غم جاناں بھلاؤ
گل و بلبل کی باتیں
مجھے نہ اب سناؤ
میرا دل توڑ کر تم
نہ غیروں کو رجھاؤ
دلاسوں کی مٹھائی
خیالی ہے پلاؤ
نہیں ہونے کا تم سے
تو باتیں مت بناؤ
میری چغلی کسی سے
چلو جاکر لگاؤ
خدا را جان چھوڑو
نہ یوں مصرع لڑاؤ
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: