مشورہ

محمل ابراہیم

لائبریرین
استادِ محترم جناب الف عین، محمد احسن سمیع راحل، محمد خلیل ارحمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بات بگڑے بھی تو جھک کرکے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے

میرے مولیٰ کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
ہاتھ پھیلائے مرے در سے سوالی جائے

اس سے پہلے کہ ہو در پیش سفر شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے

مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے
شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے

سب کے ہونٹوں پہ ہنسی ،کھیت میں ہریالی ہو
ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے

کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو
یونہی مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے

چاک ہر روز گریبان سحر ہوتا ہے
بڑھ کے دستار اُجالوں کی سنبھالی جائے

قیمتی کپڑے پہن کر کے بھی جو ننگے ہیں
اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے

اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا دریا میں مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے

کرکے نادار غریبوں کی مدد آؤ سحر
بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے
 
طوالت کے سبب اپنی آسانی کے لئے اقتباس میں ہی کچھ نکات لکھ رہا ہوں.

بات بگڑے بھی تو جھک کرکے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے
"جھک کرکے" تو میرے خیال میں عوامی اسلوب ہے، فصاحت کے موافق نہیں. محض جھک کر کہنا چاہیے.

میرے مولیٰ کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
ہاتھ پھیلائے مرے در سے سوالی جائے
یہاں ہاتھ پھیلائے کہنا خلاف محاورہ ہے. ہاتھ پھیلائے تو سوالی در پر آتا ہے. اگر کچھ لئے بغیر لوٹ رہا ہے تو "خالی ہاتھ" جائے گا.
علاوہ ازیں یہاں مولا کا املا لام اور الف سے ہوگا، الف مقصورہ سے نہیں. اردو میں بہت کم الفاظ کھڑی زبر سے لکھے جاتے ہیں اور اور مولا جب الف مقصورہ سے لکھا جاتا ہے تو عموما غلام کے معنی میں لکھا جاتا ہے. دوسرے مصرعے کو یوں کرسکتی ہیں
کہ مرے در سے تہی دست سوالی جائے


اس سے پہلے کہ ہو در پیش سفر شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے. آپ نے سفر کا تلفظ صحیح نہیں کیا، کسرہِ اضافت کے باوجود سفر کی ف مفتوح رہے گی، ساکن نہیں.
دوسرے مصرعے میں نیکی کا واحد آنا مجھے مناسب نہیں لگ رہا، مگر ہو سکتا ہے قافیہ اور ردیف کی بندش کے سبب چل جائے. پہلے مصرعے کو یوں کہہ سکتی ہیں

اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہرِ عدم

مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے
شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے
مصرعے "پہ" تحسین مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا. تحسین تو کسی چیز یا عمل "کی" کی جاتی ہے. بہرحال، فی الحال تو یہ صرف میرا تاثر ہے، اس وقت کوئی سند نہیں میرے پاس اپنی بات کی تائید کے لیے.

سب کے ہونٹوں پہ ہنسی ،کھیت میں ہریالی ہو
ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے
بستی میں بس ایک ہی کھیت ہوگا؟؟؟ :)

کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو
یونہی مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے
یونہی کے بجائے "کیوں نہ" کر دیں تو زیادہ بہتر رہے گا.

چاک ہر روز گریبان سحر ہوتا ہے
بڑھ کے دستار اُجالوں کی سنبھالی جائے
اس کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آسکا. بیان کچھ زیادہ ہی تجریدی (abstract) ہو گیا ہے.

قیمتی کپڑے پہن کر کے بھی جو ننگے ہیں
اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے
پہلے مصرعے میں یہاں بھی وہی مطلعے میں درپیش "کرکے" والا مسئلہ ہے. دوسرے یہ کہ یہاں لفظ ننگے بہت کرخت اور عامیانہ معلوم ہوتا ہے.
خلعتِ فاخرہ پہنے بھی برہنہ ہیں جو


اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا دریا میں مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے
جب آپ دریا میں تیر رہیں تھیں تو پھر لاش کہاں سے آگئی؟؟؟

کرکے نادار غریبوں کی مدد آؤ سحر
بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے
نادار اور غریب میں یا تو فصل ہونا چاہیے یا پھر عطف. غریب تو بائی ڈیفالٹ نادار ہوتا ہی ہے، پھر نادار غریب کہنے کا کیا مطلب؟؟؟
کرکے ناداروں کی، غربا کی مدد آؤ سحر

دعاگو،
راحل.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا دریا میں مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے

درج بالا شعر میں میں نے یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ میرے حاسد کو مرنے کے بعد بھی میری کامیابی سے حسد ہے اس لئے تیرتی لاش بھی وہ نہ دیکھ سکا۔۔۔۔
 
اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا دریا میں مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے

درج بالا شعر میں میں نے یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ میرے حاسد کو مرنے کے بعد بھی میری کامیابی سے حسد ہے اس لئے تیرتی لاش بھی وہ نہ دیکھ سکا۔۔۔۔
اب یہ آپ خود ہی سوچیں کہ شعر میں موجود الفاظ سے اس مفہوم کا ابلاغ ہو پا رہا ہے یا نہیں؟
کامیابی تو تب تسلیم کی جاتی کہ دریا کو تیر کر پار کرلیا گیا ہوتا۔ جب فاعل باوجود کوشش غرقِ دریا ہوگیا تو کامیابی کیسی؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہن ایک تکنیکی طور پر ایطا کا عیب آ گیا ہے مطلع میں قافیہ "نا" جو بعد کے شعروں میں بدل گیا شاید برادرم محمّد احسن سمیع :راحل: نے اس طرف توجہ نہیں کی
رؤف بھائی، یہ ایطائے خفی ہے، اساتذہ کے یہاں بھی مل جاتا ہے، اسی لئے میں نے بھی نظر انداز کردیا. محمل بہن اگر چاہیں تو یہ عیب دور کرسکتی ہیں.
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رؤف بھائی، یہ ایطائے خفی ہے، اساتذہ کے یہاں بھی مل جاتا ہے، اسی لئے میں نے بھی نظر انداز کردیا. محمل بہن اگر چاہیں تو یہ عیب دور کرسکتی ہیں.
بہت بہتر، اس فورم کا یہ فائدہ کہ نئی بات سیکھنے کو ملتی ہے۔ میں صرف ایطا سے واقف تھا اب آپ کی بدولت ایطائے خفی کا سبق ملا، بہت شکریہ راحل بھائی
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر جہاں تک مجھے علم ہے قافیہ ہم وزن الفاظ کو کہتے ہیں تو کیا بنا لی،منا لی،سمبھالی ،کما لی۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ کا وزن ایک سا نہیں؟؟؟ سر صرف آواز اور الف کو بطور قافیہ نہیں لیا جا سکتا؟؟

ایطا اور ایطاء خفی میں کیا فرق ہے؟؟


یہ عطا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
بات گر بگڑے تو پھر جھک کے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے

میرے مولا کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
کہ تہی دست مرے در سے سوالی جائے

اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے

مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے
شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے

سب کے ہونٹوں پہ ہنسی اور تبسّم بکھرے
ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے

کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو
کیوں نہ مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے

خلعت فاخرہ پہنے بھی برہنہ ہیں جو
اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے

اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا مر کر بھی مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے

کرکے ناداروں کی ،غرباء کی مدد آؤ سحر
بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر جہاں تک مجھے علم ہے قافیہ ہم وزن الفاظ کو کہتے ہیں تو کیا بنا لی،منا لی،سمبھالی ،کما لی۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ کا وزن ایک سا نہیں؟؟؟ صرف آواز اور
 
ایطا کی دو اقسام ہیں.
1. ایطائے جلی
2. ایطائے خفی

ایطائے جلی عموما تب واقع ہوتا ہے جب مطلع میں ایسے مرکب الفاظ کو بطور قافیہ لے لیا جائے جن کا اصل مادہ ہم صوت نہ ہو.
مثلا بت گر اور ستم گر
صنم کدہ اور مے کدہ وغیرہ

ایطائے جلی کی ایک اور صورت تب واقع ہوتی ہے جب ایسے مصادر کو مطلع میں قافیہ لے آیا جائے جن کے صیغہ ہائے امر ہم صوت نہ ہوں.
مثلا بہنا، گرنا، جلنا، کھلنا... ان سب مثالوں میں بالترتیب بہہ، گر، جل اور کھل ان مصادر کے صیغہ امر ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم صوت نہیں ہیں.

ایطائے خفی کی مثال محمل کی غزل میں موجود ہے. یعنی ایسے دو الگ مستقل الفاظ کو مطلع میں بطور قافیہ لایا جائے جن کا ہم صوت جزو مشترک ہو. جیسے محمل بہن کی غزل میں منا اور بنا.
اساتذہ سے میں سے غالب کی مثال سب سے معروف ہے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر بعد کے اشعار میں بھی مطلع کی طرز پر قوافی لائے جائیں گے تو ایطائے خفی ایطائے جلی میں تبدیل ہوجائے گا.
جیسے غالب کی پہلی مثال والی غزل کے دیگر قوافی ہیں ماجرا، مدعا، برا وغیرہ ہیں. اگر دیگر اشعار کے قوافی بھی وا پر ختم ہورہے ہوتے تو یہ ایطائے جلی ہوجاتا کہ ایسی صورت میں "وا" ردیف کا حصہ شمار ہوتا، اور مطلع میں چونکہ ہُ اور دَ ہم صوت نہیں، اس لئے قافیہ قائم ہی نہیں ہوتا.

محمل کی غزل میں بھی چونکہ باقی اشعار میں متنوع قوافی آئے ہیں اس لئے یہ ایطائے خفی کہلائے گا. واللہ اعلم
 
آخری تدوین:
سر جہاں تک مجھے علم ہے قافیہ ہم وزن الفاظ کو کہتے ہیں تو کیا بنا لی،منا لی،سمبھالی ،کما لی۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ کا وزن ایک سا نہیں؟؟؟ صرف آواز اور
نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے. قافیہ کا تعلق وزن سے نہیں، آواز سے ہوتا ہے. دو ہم آواز الفاظ جن کا وزن مختلف ہو مگر بحر میں آجائیں، ان کو قافیہ لیا جاسکتا ہے.
آپ کی غزل میں بنا، منا کما، اٹھا وغیرہ قوافی ہیں، جبکہ لی جائے ردیف ہے.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر اب یہ بہتر ہے؟؟؟؟

بات گر بگڑے تو پھر جھک کے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے

میرے مولا کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
کہ تہی دست مرے در سے سوالی جائے

اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے

مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے
شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے

سب کے ہونٹوں پہ ہنسی اور تبسّم بکھرے
ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے

کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو
کیوں نہ مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے

خلعت فاخرہ پہنے بھی برہنہ ہیں جو
اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے

اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا مر کر بھی مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے

کرکے ناداروں کی ،غرباء کی مدد آؤ سحر
بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے[/QUOTE]
 
Top