محسن وقار علی
محفلین
پاکستانی مچھیرے واہگہ بارڈر کے راستے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ فائل فوٹو۔
ڈسٹرکٹ ملیر جیل کراچی کے باہری دروازوں سے گزرتے ہوئے وہاں لگے وائٹ بورڈز جس پر قیدیوں کی تعداد کے بارے میں معلومات ہیں، کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے جبکہ غیر ملکی قیدیوں کی تعداد غور طلب ہے۔
بورڈ پر دی گئی معلومات کے مطابق، اس جیل میں 469 غیر ملکی قیدی موجود ہیں جن میں 256 سزا یافتہ ہیں، 41 حراست میں ہیں جبکہ 170 ایسے قیدی ہیں جن کا مقدمہ زیر التوا ہے۔ تقریباً تمام کا تعلق ہندوستان سے ہے۔
پڑوسی ملک ہندوستان کی بھی کسی جیل میں اسی طرح کا بورڈ کسی جیل میں آویزاں ہوگا جس پر غیر ملکی قیدیوں کی تعداد درج ہوگی اور جس میں اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہوگا۔
سر کریک بحر ہند میں پاکستان کے صوبہ سندھ اور ہندوستان کی ریاست گجرات کے درمیان واقع 96 کلو میٹر طویل سمندری سرحد ہے جہاں خلاف ورزیاں پیش آتی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کو نہیں پتہ اس سمندر میں لکیر کہاں بنانی ہے۔ دونوں ممالک کے مچھیرے اکثر ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں۔ ان کا حال بھی کچھ ان کی جانب سے پکڑی جانے والی مچھلیوں جیسا ہی ہورہا ہوتا ہے جو زندگی کے لیے لڑ رہی ہوتی ہے اور جسے پانی سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ یہ غریب لوگ ہوتے ہیں جن ذریعہ معاش مچھلی پکڑنا ہے۔ ان پاس واحد یہی ہنر ہوتا ہے جبکہ اس کی وجہ سے انہیں اور انکے اہل خانہ کو طویل بدحالی سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
انکے اہل خانہ کو ان کی گمشدگی کے بارے میں مہینوں تک کو اطلاع موصول نہیں ہوتی تاہم انکی کشتی کے غائب ہونے کا مطلب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ انہیں اجنبی علاقے میں بھٹکنے کے باعث گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان غریبوں کی کشتوں کو فوری طور پر حراست میں لے لیا جاتا ہے اور کبھی واپس نہیں کیا جاتا۔
ہندوستانی مچھیروں کو تعلق ہندوستانی ریاست گجرات سے ہوتا ہے جبکہ پاکستان مچھیرے زیادہ پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مچھیرے زیادہ تر کیٹی بندر، ٹھٹہ، ابراہیم حیدری، مبارک ولج اور دیگر علاقوں کے رہائشی ہوتے ہیں۔ دونوں اطراف کے مچھیرے اپنی گرفتاری کی داستان ایک ہی جیسی سناتے ہیں۔ انہیں صرف اس وقت اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے سمندری حدود عبوری کرلی ہے جب کوسٹ گارڈز کی کشتی انکی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے تاہم تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
پاکستان میں ہندوستانی مچھیروں کو ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں نئے اور الگ قید بیرکس میں جگہ دی جاتی ہے جبکہ بچوں کو کراچی جیل کے ساتھ واقع نوجوان مجرموں کے لیے بنائے گٓئے ایک اسکول میں رکھا جاتا ہے۔ مچھروں کے مطابق، ان کے ساتھ ٹھیک ٹھاک سلوک کیا جتا ہے۔ تاہم پاکستانی مچھیرے اتنے خوش قسمت نہیں۔ زیادہ تر کو جی آئی سی کچھ پچھ جو کہ گجرات میں واقع ایک جیل کا نام ہے، میں رکھا جاتا ہے۔
بچوں کو بھی عام جیلوں مجرموں کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے جبکہ ان رات انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تشدد کے باعث ابراہیم ملاح اور نواز علی محمد جیسے مچھیرے مارے بھی جاچکے ہیں۔ ان کی موت کی خبر بھی مہینوں بعد انکے اہل خانہ کو دی جاتی ہے جبکہ انکی باقیات کو واپس ملک لانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں قید ہندوستانی مچھیروں کا کہنا ہے کہ انہیں باقاعدگی سے کھانا دیا جاتا ہے تاہم ہندوستان سے آنے والے پاکستانی مچھیرے کچھ اور ہی داستان بیان کرتے ہیں۔ ٹھٹھہ کے رہنے والے میر محمد اپنی دکھ بھری داستان کچھ یوں بیان کرتے ہیں “ہمیں پانی جیسی دال کھلائی جاتی تھی جس میں کیڑے تیر رہے ہوتے تھے لیکن ہم اسے کھانے کے لیے مجبور تھے کیوں کہ ہمارے پاس دو ہی راستے تھے، یا تو اسے کھاتے یا بھوک سے مرجاتے”۔ میر صرف 14 سال کہ ہیں اور انہوں نے ہندوستانی جیل میں ڈیڑھ سال کا عرصہ بتایا۔ حال میں ملک واپس آنے والے 16 سالہ اصغر علی بھی اسی طرح کی صورت حال بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہندوستان میں زمین پر سلایا جاتا تھا اور اس سے زمین کی صفائی کروائی جاتی تھی۔ “جیل کے عملے کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہوتا تھا جیسے ہم کوئی مجرم ہوں۔ وہ ہم پر دن اور رات چلاتے رہتے تھے”
18 سالہ عبدالکلیم، کا کہنا ہے کہ عملہ انہیں کچھ اس طرح مخاطب کرتا تھا “ابے تو اپنے باپ کی شادی میں آیا ہے؟ چل کام کر!”
حال ہی میں پاکستانی حکومت نے ایک ہندوستانی مچھیرے کا اس خوبی سے سول اسپتال میں علاج کروایا کہ جب اس کے بری ہونے کا وقت آیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ بھی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کسی ہندوستانی جیل میں جب کوئی پاکستانی مچھیرا بیمار ہوتا ہوگا تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہوگا۔
ایک پاکستانی مچھیرے کی اہلیہ زاہدہ بیگم کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر ہندوستان میں آتھ ماہ سے قید ہیں جبکہ انہیں پیٹ کی کوئی بیماری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کے منہ سے خون تک نکل آتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں اب کی حالت کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔
لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے پاکستانی جیلوں میں قید ہندوستانی قیدیوں کو سزا کے مکمل کرتے ہی رہا کر دیا جاتا ہے لیکن ہندوستانی جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا اور انہیں 13 سے 14سال تک قید میں رکھا جاتا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد جو اپنی این جی او لیگل ایڈ کے ذریعے ایک عرصے سے مچھیروں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ فارنر ایکٹ 1946 کے تحت سمندری حدود کی خلاف ورزی پر سات سال قید ہوتی ہے لیکن اس موقع پر ہم مداخلت کر کے ان کی سزا میں کی کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا کیس کورٹ پہنچتے پہنچتے ہی ایک سال کا عرصہ گزر جاتا ہے اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس عرصے کو ان کی سزا کے دورانیے میں شمار کیا جائے اور اس طرح انہیں بری ہوتے ہوتے نو سے 14 ماہ لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی یا پاکستانی مندری حدود کی نشاندہی کیلیے کسی بھی قسم کی ہری یا نارنجی رنگ کی لائن نہیں ہے۔
جب ہندوستانی قیدیوں کو رہا کیا گیا تو یہ ان کے لیے انتہائی خوشی کا لمحہ تھا، وہ جیل کے قیدیوں سے مذاق کر رہے تھے اور لیگل ایڈ نے ان کیلیے نئے کپڑوں اور جوتوں کو انتظام کیا تھا اور اس کے علاوہ دیگر این جی اوز نے بھی ان کیلیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا تھا جس کے ذریعے انہیں واہگہ بارڈر لے جا کر ہندوستانی حکام کے حوالے کرنا تھا۔
انصار برنی ٹرسٹ بھی ان این جی اوز میں سے ہے جو مچھیروں کی مدد کرتے ہیں جبکہ ایدھی ٹرسٹ مچھیروں کو جیل سے بذریعہ ٹرانسپورٹ واہگہ بارڈر تک منتقل کرنے کی ذمے داری ادا کرتی ہے جہاں انہیں ہندوستانی حکام پاکستان کے حوالے کرتے ہیں۔
پاکستان فشر فالک فورم( پی ایف ایف) اور فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی(ایف سی ایس) بھی پاکستانی جیل میں قید ہندوستانی اور ہندوستانی جیل میں قید پاکستانی مچھیروں کا خاص خیال کرتی ہیں۔
کبھی کبھار کسی مچھیرے کی شہریت جاننا بھی بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جس کے باعث اسے طویل عرصہ جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔ دوسرے ملک کے حکام سے قیدی سے متعلق معلومات ک تبادلے کے بعد اس بات کی کسی حد تک تصدیق ہو جاتی ہے کہ قیدی کا تعلق دوسری طرف سے ہی ہے۔
ابراہی حیدری میں برما سے تعلق رکھنے والے بہت سے مچھیروں کے خاندان آباد ہیں اور ان کے پاس نادرہ کے قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں، اسی طرح بہت سے ہندوستانی باشندے بھی ہیں جن کی شہریت کی ابھی تک ہندوستان کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی۔
پی ایف ایف کے کمال شاہ نے بتایا کہ کسی بھی شخص کو ملک بدر(ڈی پورٹ) کرنے کیلیے ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس شخص کا تعلق کس ملک سے ہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب این جی اوز کردار ادا کرتی ہیں، ہم برما سے تعلق رکھنے والے افراد کی ذمے داری بھی قبول کرتے ہیں جو ہمارے ہاں بنگالی سمجھے جاتے ہیں اور ہندوستانی حکومت پر انہیں جلدی رہا کرنے کیلیے زور دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب کوئی کشتی غائب ہو جاتی ہے تو ہم عام طور پر ہم آرام باغ پولیس اسٹیشن کے ذریعے ہندوستانی حکام سے رابطے میں رہتے ہیں اور پھر اس طریقے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آیا ہمارا کوئی مچھیرا سمندر سے غائب ہوا ہے یا نہیں، جن لوگوں پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا انہیں ہم کھانے کا راشن فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کی تکلیف کا کسی حد تک مداوا ہو سکے۔
فیض احمد فیض اور اقبال حیدر ایڈووکیٹ آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن ان دونوں نے بھی مچھیروں کے مقاصد کے حصول کیلیے بڑی جدوجہد کی، فیض احمد فیض فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہندوستانی جیلوں میں قید پاکستانی مچھیروں کو رہا کرانے کیلیے عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے تھے۔
فیض کے توسط سے ہی گزشتہ سال پائلر کے کرامت علی سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے 450 ہندوستانی مچھیروں کی بڑی تعداد کی رہائی کے بعد اقبال حیدر نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کی جیلوں میں پاکستانی مچھیروں کو رہائی دلا سکیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے سونیا گاندھی سے بھی ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے 25 پاکستانی مچھیروں کو رہا کرنے کی حامی بھر لی، اس موقع پر اقبال نے کمال حاضر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 450 ہندوستانی مچھیرے رہا کیے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہندوستان بھی جواب میں ہمارے اتنے ہی مچھیرے رہا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ نہیں مانے تو وہاں سے نہیں جائیں گے اور ان کے بے حد اصرار کے بعد ہندوستان نے 75 پاکستانی مچھیروں کو رہا کر دیا تھا۔
ربط