مصرع طرح "شراب ہاتھ میں ہے اور پِلا نہیں سکتے" پر ایک کاوش ( اسد اقبال)

اسد اقبال

محفلین
یہ فرض اب کہ مُسلماں نِبھا نہیں سکتے
خِلاف ظُلم کے آواز اُٹھا نہیں سکتے

یہ اور بات ہے شکوہ نہیں کِیا تُم سے
سِتم جو ہم پہ ہوئے ہیں بھُلا نہیں سکتے

کسی غریب سے پوچھو کہ زندگی کیا ہے
یہ بات شہر کے اُمرا بتا نہیں سکتے

کسی دلیل کا قائل نہیں کہ سچ سچ ہے
ہزار جھوٹ بھی سچ کو مِٹا نہیں سکتے

چلو یہ مان لِیا دل فریب ہے دنیا
مگر سراب سے ہم جی لگا نہیں سکتے

عجب سِتم ہے یہ رندوں پہ اے مرے ساقی
"شراب ہاتھ میں ہے اور پِلا نہیں سکتے"

اسد جو رُوٹھ کے تُجھ سے چلے گئے وہ لوگ
ترے خیال سے دامن بچا نہیں سکتے
اسد اقبال
 
Top