مصر: عبدالفتاح السیسی 97 فی صد ووٹ لے کر صدر منتخب

جی نہیں۔۔۔ عارف بھائی۔ اسلامی شریعت میں بہت وسعت اور پھیلاوہے۔ 1400 سال پرانی شریعت نے اتنی گنجائش رکھی ہے کہ وہ تا قیامت نافذ ہو سکتی ہے۔
مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو اسلام کو یا تو سمجھ نہیں رہے۔۔۔ یا جان بوجھ کر غلط سمجھ رہے ہیں۔ دین رحمت کو دین خشم، غضب، وحشت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
ان نام نہاد جہادیوں نے اسلام اور اس کے ارکان کو بدنام کیا ہوا ہے۔۔۔
فریضہ جہاد کی ہی مثال لیجیے۔۔۔ کتنا مقدس فرض ہے۔۔ دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہر میدان میں۔۔ علم، ایمان، تقوی، طاقت، قدرت، وسائل، ہتھیار۔۔۔ غرض ہر میدان میں۔
لیکن انہوں نے اس مقدس فریضے کے ذریعے بے کسوں اور غریبوں کو اغوا کرکے بازاروں میں بیچنا شروع کیا۔۔ زندہ انسانوں کو ذبح کر کے ان کی لاشوں کو مثلہ کرنے لگے۔
انسانی اعضا سے پولو کھیلنے لگے۔
یقینایہ سب کفار اور اسلام کے دشمنوں کے نفع میں تھا۔۔۔ لہذا اصلی جہاد کے مقابلہ میں اس دو نمبر کے جہاد کی ہر حوالے سے حمایت کی گئی۔
کل طالبان بنایا۔۔۔ جو آستین کے سانپ ثابت ہوئے۔۔۔ اور آج القاعدہ کو شام میں آپ کے مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔۔ یا مغربی ممالک کے قریبی دوست سپورٹ کر رہے ہیں۔
جہاں سے واپس آنے والے "جہادی" ابھی سے وہاں امن کے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔
آپ کی بات بجا، لیکن کیا آپ نے پنجابی کی کہاوت سن رکھی ہے کہ ستا ہویا تے اٹھ جاندا اے، لیکن جاگدے نوں کون جگائے ؟
 

حسینی

محفلین
اگر یہ تمام سنی فرقہ سے ہوں گے تو ظاہر ہے ایک دوسرے کو برداشت بھی کریں گے۔ ٹکراؤ تو شیعہ اور سنی فرقہ کے درمیان ہے۔
۔

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ساری دنیا میں شیعہ اور سنی (جن میں معتدل سنی بریلوی برادران اور صوفی ازم کی طرف سنی برادران جن کی پوری دنیا میں اکثریت ہے) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
پاکستان میں ہی دیکھ لیں شیعہ علماء اور سنی علماء ہمیشہ اکھٹے نظر آئیں گے۔۔۔ موقف بھی ہمیشہ ایک ہے۔ سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، منہاج القرآن اور شیعوں میں مجلس وحدت، شیعہ علماء کونسل، ایکشن کمیٹی وغیرہ کے علماء آپ کو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اور مشترکہ احتجاج وکانفرنسز کرتے نظر آئیں گے۔
اختلاف صرف ان مٹھی بھر لوگوں سے ہیں جن کو ہر بات میں شرک کی رال نظر آتی ہے۔۔ ہر کسی کو کافر ومشرک کہتے ہیں۔ یہی لوگ آپ کو ہر خودکش حملے میں نظر آئیں گے۔ یہی لوگ آپ کو طالبان وغیرہ کی پشت پناہی کرتے نظر آئیں گے۔
لہذا شیعہ سنی اختلاف کا نام ہی شاید درست نہ ہو۔۔۔ البتہ آپ شیعہ اور تکفیری کے مابین اختلاف کا نام دے سکتے ہیں۔
 
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ساری دنیا میں شیعہ اور سنی (جن میں معتدل سنی بریلوی برادران اور صوفی ازم کی طرف سنی برادران جن کی پوری دنیا میں اکثریت ہے) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
پاکستان میں ہی دیکھ لیں شیعہ علماء اور سنی علماء ہمیشہ اکھٹے نظر آئیں گے۔۔۔ موقف بھی ہمیشہ ایک ہے۔ سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، منہاج القرآن اور شیعوں میں مجلس وحدت، شیعہ علماء کونسل، ایکشن کمیٹی وغیرہ کے علماء آپ کو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اور مشترکہ احتجاج وکانفرنسز کرتے نظر آئیں گے۔
اختلاف صرف ان مٹھی بھر لوگوں سے ہیں جن کو ہر بات میں شرک کی رال نظر آتی ہے۔۔ ہر کسی کو کافر ومشرک کہتے ہیں۔ یہی لوگ آپ کو ہر خودکش حملے میں نظر آئیں گے۔ یہی لوگ آپ کو طالبان وغیرہ کی پشت پناہی کرتے نظر آئیں گے۔
لہذا شیعہ سنی اختلاف کا نام ہی شاید درست نہ ہو۔۔۔ البتہ آپ شیعہ اور تکفیری کے مابین اختلاف کا نام دے سکتے ہیں۔
آپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔
 

حسینی

محفلین
آپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔

لئیق بھائی آپ پاکستان کے کسی بھی بزرگ سے پوچھ لیں۔۔۔۔ وہ آپ کو بتائیں گے 80 کی دھائی سے پہلے یہ شیعہ سنی اختلاف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
محرم کے جلوسوں کے روٹس میں اہل سنت برادران پانی اور شربت کی سبیلیں لگاتے تھے۔۔۔ اور اسی طرح سے عید میلاد النبی کے جلوسوں کے روٹس میں شیعہ سبیلیں لگاتے۔
ابھی اسی سال محرم کی بات ہے۔۔ پنڈی میں جب مرکزی امام بارگاہ کو شرپسندوں نے آگ لگائی تو وہاں کے مقامی اہل سنت برادران نے کہا ہم اپنے پیسوں سےاس امام بارگاہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔
اس کی ویڈیوز ابھی بھی نیٹ پر ہے آپ دیکھ سکتے ہیں۔
مصر کی مثال لیجیے۔۔۔ وہاں مقام سیدہ زینب علیہا السلام ہے۔۔ مصریوں کے مطابق وہ زینب بنت علی علیہما السلام کا روضہ ہے۔۔ وہاں دن رات لوگوں کا رش نظر آئے گا۔ شیعہ بھی جاتے ہیں سنی بھی۔
شام میں سیدہ زینب علیہا السلام کا مقام ہے جہاں شیعہ جوق در جوق جاتے ہیں۔۔ اب کہاں ہے اختلاف؟
اسی طرح عراق میں مولا امام حسین علیہ السلام کے روضے پر سنی برادران کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ہوسکتی ہے، طریقہ آنا چاہیے۔ :) :)
آپکے ان دعووں سے پہلے بھی بہت بڑے بڑے عالم دین اس قسم کے بیانات جاری کر چکے ہیں، لیکن عملی طور پر سب کے سب ناکام ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو آجکل کے جدید دور میں 1400 سال پرانی شریعت چاہئے تو اسکو وہ حالات و واقعات پیدا کرنے ہوں گے جو کہ اسوقت کی خلافت راشدین کے وقت تھے۔ یعنی پہلے دنیا کے 1،6 ارب مسلمانوں کیلئے ایک ایسے فرشتہ صفت امیرالمؤمنین کا انتخاب جسکے ہاتھ پر تمام مسلمان خلیفہ کے طور پر بیت کر سکیں۔ جسکے بعد اس اسلامی ریاست میں خلفائے راشدین کے دور کی طرح امن، انصاف، رواداری، انسانی حقوق، مساوات، معاشی استحکام وغیرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد شرعی سزائیں نافذ کی جائیں۔
اب یقیناً آپکو یہ تحریر پُر مزاح لگے گی لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ اور جو جعلی نام نہاد منافق شریعتیں کچھ اسلامی ممالک میں نافظ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ان میں متواتر کیساتھ دوغلہ پن موجود ہے۔ جیسے سعودی شریعت۔ وہاں سعودی شاہی خاندان کی حکمران غیر شرعی ہے۔ اسلام میں بادشاہت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر آجائیں ایرانی شریعت پر۔ وہاں شیعہ علماء کرام کی ایرانی قوم پر مسلسل حکمرانی غیر شرعی ہے۔ اسلام میں نہ تو کسی شاہی خاندان کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی مولویانہ قسم کے سیاسی نظام کی۔ دوسرا یہ کہ خلفائے راشدین والی شریعت میں ایک بدو بھی اٹھ کر امیرالمؤمنین کیخلاف مقدمہ کر سکتا تھا۔ ایران اور سعودیہ میں اگر نامور عالم دین بھی وہاں نافذ منافقانہ شرعی نظام کی مخالفت کریں تو انکی گردنیں اتار دی جاتی ہیں۔
اور ضیاءالحق کی پاکستان شریعت پر تو لاحول پڑھنے کو دل کر تا ہے :)

یہ تو ابھی آپ کو لڑتے نظر نہیں آرہے، ورنہ تاریخ میں ان مسالک کے اختلافات کی بنیاد پر کافی لڑائیوں کے ریکارڈز موجود ہیں۔ :) :)
فکر نہ کریں وہ دن جلد آئیں گے۔

یقینایہ سب کفار اور اسلام کے دشمنوں کے نفع میں تھا۔۔۔ لہذا اصلی جہاد کے مقابلہ میں اس دو نمبر کے جہاد کی ہر حوالے سے حمایت کی گئی۔
اہل مغرب تو ہر قسم کے اسلامی جہاد کے خلاف ہے کیونکہ اسکا مقصد محض دنگا فساد اور دہشتگردی کے ذریعہ سیاسی اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ طالبان نے یہی کام کابل میں حکومت کیلئے کیا۔ اخوان المسلمین یہی کام قاہرہ میں کر چکے ہیں۔ اور حزب اللہ لبنان میں اور حماس غزہ کی پٹی میں انہی ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے وہاں کی سیاست پر قابض ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک کے اسلامی جہادی محض دنیاوی اقتدار کو اسلام کے نام پر حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ جیسے اب پاکستانی طالبان جو آئین پاکستان کو نہیں مانتے اور اپنی شریعت یہاں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انکو یہ اختیار کسنے دیا؟ کیا قرآن نے یا انکو برین واش کرنے والے جہادی مولوی نے؟

آپ کی بات بجا، لیکن کیا آپ نے پنجابی کی کہاوت سن رکھی ہے کہ ستا ہویا تے اٹھ جاندا اے، لیکن جاگدے نوں کون جگائے ؟
حضرت، میں سویا ہوا نہیں ہوں۔ آپ بھی اٹھ جائیں اب۔

لہذا شیعہ سنی اختلاف کا نام ہی شاید درست نہ ہو۔۔۔ البتہ آپ شیعہ اور تکفیری کے مابین اختلاف کا نام دے سکتے ہیں۔
عراق اور شام کی خانہ جنگی میں شیعہ اسلامی مسلح تنظیمیں جیسے حزب اللہ کا مقابلہ سنی مسلح تنظیمیں جیسے النصرہ اور اسلامک اسٹیٹ عراق و شام سے ہو رہا ہے۔ یہاں تکفیری کہاں سے آگئے؟ دونوں طرف نہتے مسلمان شہری ہی مارے جارہے ہیں اور وہ بھی محض مذہب، فرقہ یا مسلک کے نام پر۔ ایسے میں یہود قہقہے نہ لگائیں تو اور کیا ماتم کریں: یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔

آپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔
جی بالکل۔ یہاں بھی سارا قصور کسی غیر قوم پر ڈال کر فراغت اختیار کر لی۔ اگر ہم میں اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو ہم امریکہ کو یہاں حیلے بہانوں سے گھسنے ہی نہ دیتے۔ ہم ہی نے مشرق وسطیٰ میں سعودیہ اور کویت کی اسلامی برادر ملک عراق سے عسکری حفاظت کیلئے امریکہ کو مدعو کیا تھا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ امریکہ اسوقت سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی واحد عالمی طاقت بن چکا تھا۔ سو اسنے وہی کیا جو ہر دور کی عالمی طاقتیں کرتی آئی ہیں۔ اسنے وہاں پہنچتے ہی سنی شیعہ تفرقہ کو ہوا دی جیسا کہ انگریز نے ہندوستان میں مسلم ہندو تفرقہ کو ہوا دے کر یہاں 100 سال تک حکمرانی کی تھی۔ اور ہم مسلمان تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کیلئے سو ہمنے وہی کیا جو پچھلے 1400 سال سے کرتے آئے ہیں :)

شام میں سیدہ زینب علیہا السلام کا مقام ہے جہاں شیعہ جوق در جوق جاتے ہیں۔۔ اب کہاں ہے اختلاف؟
اسی طرح عراق میں مولا امام حسین علیہ السلام کے روضے پر سنی برادران کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔۔۔ ۔
یہی تو اختلاف ہے۔ سنی وہابی شدت پسند مزاروں میں جاکر عبادت کرنے کو گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں اور اسی لئے بہت سے نامور اور مشہور اسلامی ہستیوں کے مزاروں میں بم رکھ کرانہیں اڑانے کی کوشش بھی کر چکے ہیں۔
 

حسینی

محفلین
اہل مغرب تو ہر قسم کے اسلامی جہاد کے خلاف ہے کیونکہ اسکا مقصد محض دنگا فساد اور دہشتگردی کے ذریعہ سیاسی اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ طالبان نے یہی کام کابل میں حکومت کیلئے کیا۔ اخوان المسلمین یہی کام قاہرہ میں کر چکے ہیں۔ اور حزب اللہ لبنان میں اور حماس غزہ کی پٹی میں انہی ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے وہاں کی سیاست پر قابض ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک کے اسلامی جہادی محض دنیاوی اقتدار کو اسلام کے نام پر حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ جیسے اب پاکستانی طالبان جو آئین پاکستان کو نہیں مانتے اور اپنی شریعت یہاں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انکو یہ اختیار کسنے دیا؟ کیا قرآن نے یا انکو برین واش کرنے والے جہادی مولوی نے؟

جی جی۔۔ اہل مغرب ہر قسم کے جہاد کے خلاف ہیں۔۔۔
مغرب والے کہتے ہیں صرف ایک یا دو ایٹم بم چلا دو۔۔۔ سب اک ساتھ مر جائیں گے۔۔ جیسے جاپان پر مارا تھا۔
مغرب والے کہتے ہیں۔۔ عراق پر فوج چڑھا دو۔۔۔ افغانستان پر فوج چڑھا دو۔۔ ڈرون حملے کرو۔۔ ہزاروں بے گناہوں کو لقمہ اجل بنا دو۔۔ لیکن جہاد کے ہم خلاف ہیں۔
یہ کیا دوغلی پالیسی ہے؟ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
طالبان کو کس نے بنایا؟؟ آپ کے امریکہ نے۔۔۔ ہیری کلنٹن کا ویڈیو بیان اب بھی ریکارڈ پر ہے کہ طالبان کو بنا کر ہم نے غلطی کی۔۔۔
جب تک امریکہ کے مفاد ہے اس وقت تک جہاد مقدس بھی ہے۔۔ اور یہ لوگ مجاہدین بھی۔۔ اور جب ان کے مفادات ختم تو جہاد دہشت گردی اور یہ لوگ دہشت گرد۔
البتہ چاہے مصر کی اخوان المسلمین ہو، یا لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس۔۔۔سب عوام کا ووٹ لیکر پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔۔ کہاں ہے آپ کا وہ جمہوریت کا احترام؟ عوامی رائے کی عزت؟
آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف لادین اور بد اخلاق لوگوں کا کام ہے؟
دین اور سیاست کبھی بھی جدا نہیں ہیں۔۔۔۔

عراق اور شام کی خانہ جنگی میں شیعہ اسلامی مسلح تنظیمیں جیسے حزب اللہ کا مقابلہ سنی مسلح تنظیمیں جیسے النصرہ اور اسلامک اسٹیٹ عراق و شام سے ہو رہا ہے۔ یہاں تکفیری کہاں سے آگئے؟ دونوں طرف نہتے مسلمان شہری ہی مارے جارہے ہیں اور وہ بھی محض مذہب، فرقہ یا مسلک کے نام پر۔ ایسے میں یہود قہقہے نہ لگائیں تو اور کیا ماتم کریں: یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔
میں صدقے جاوں آپ کی معصومیت پر۔
النصرہ فرنٹ اور داعش کو آپ تکفیری نہیں سمجھ رہے؟؟ یہ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ یہ وہی ہندہ کی نسل ہے جو مردوں کا کلیجہ تک نکال کے چباتے ہیں۔۔۔ قبروں کو مسمار کرنا اور لاشیں نکالنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔
صرف اک سوال کا جواب دیں۔۔۔ اگر آپ کے مغربی ممالک اس "جہاد" اور ان دہشت گردوں کے خلاف ہی ہیں تو بلین ڈالرز کی امداد اور اسلحہ ان کو کیوں فراہم کیا جا رہا ہے؟
کیا کسی دہشت گرد کے ہاتھ میں اسلحہ دینا کبھی بھی مصلحت میں ہے؟؟؟؟؟

http://www.washingtonpost.com/world...cf2ed8-1b0c-11e3-a628-7e6dde8f889d_story.html

http://www.globalresearch.ca/nato-and-cia-support-al-qaeda-terrorists-in-syria/5356391
 

arifkarim

معطل
جی جی۔۔ اہل مغرب ہر قسم کے جہاد کے خلاف ہیں۔۔۔
مغرب والے کہتے ہیں صرف ایک یا دو ایٹم بم چلا دو۔۔۔ سب اک ساتھ مر جائیں گے۔۔ جیسے جاپان پر مارا تھا۔

جب تک امریکہ کے مفاد ہے اس وقت تک جہاد مقدس بھی ہے۔۔ اور یہ لوگ مجاہدین بھی۔۔ اور جب ان کے مفادات ختم تو جہاد دہشت گردی اور یہ لوگ دہشت گرد۔
البتہ چاہے مصر کی اخوان المسلمین ہو، یا لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس۔۔۔ سب عوام کا ووٹ لیکر پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔۔ کہاں ہے آپ کا وہ جمہوریت کا احترام؟ عوامی رائے کی عزت؟
آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف لادین اور بد اخلاق لوگوں کا کام ہے؟
دین اور سیاست کبھی بھی جدا نہیں ہیں۔۔۔ ۔
مغرب میں دین اور سیاست جداجدا ہیں اسی لئے وہاں اکثر ممالک میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں امن، استحکام، خوشحالی، معاشی و سماجی ترقی زیادہ ہے۔ اہل مغرب مذہبی بنیادوں پر جنگ و دجل کیخلاف ہیں لیکن قومی بنیادوں پر نہیں۔ مجاہدین کی مدد انہوں نے افغان قومی بنیادوں پر کی تھی۔ اسمیں اسلامی ٹچ دینا یقیناً امریکی غلط فیصلہ تھا جسکی انہوں نے بعد میں مذمت بھی کی۔ جیسے کردیوں کو قوم پرستی کی بنیاد پر عراقی سرزمین عنایت کی گئی۔ اگر یہی چیز وہ مذہبی بنیادوں پر مانگتے تو فلسطینی اسلامی جہادیوں کی طرح آج تک دھکے کھا رہے ہوتے!
حزب اللہ اور حماس سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ یہ اسلامی دہشت گرد جماعتیں ہیں۔ نہتے اسرائیلیوں کا خون انکے ہاتھوں سے رنگا ہے۔ سیاسی جماعت اور عسکری قیادت ایک نہیں ہو سکتی۔ آپ اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آپکی سوچ خود اس جہادی فتنے کی شکار ہے۔

میں صدقے جاوں آپ کی معصومیت پر۔
النصرہ فرنٹ اور داعش کو آپ تکفیری نہیں سمجھ رہے؟؟ یہ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ یہ وہی ہندہ کی نسل ہے جو مردوں کا کلیجہ تک نکال کے چباتے ہیں۔۔۔ قبروں کو مسمار کرنا اور لاشیں نکالنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔
صرف اک سوال کا جواب دیں۔۔۔ اگر آپ کے مغربی ممالک اس "جہاد" اور ان دہشت گردوں کے خلاف ہی ہیں تو بلین ڈالرز کی امداد اور اسلحہ ان کو کیوں فراہم کیا جا رہا ہے؟
کیا کسی دہشت گرد کے ہاتھ میں اسلحہ دینا کبھی بھی مصلحت میں ہے؟؟؟؟؟
جی وہ کلیجہ چبانے والی ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں۔ لیکن اس سے وہ تکفیری کیسے ثابت ہوں گے؟ انکے مقبوضہ علاقوں میں عیسائی وغیرہ بھی ہیں جنکا ابھی تک قتل عام نہیں ہوا۔ امریکہ شاید انکی مدد اسلئے کر رہا ہے کہ ایران کے مقابلہ میں انکو تقویت بخشی تاکہ یہ مذہبی اقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک کریں۔
 

حسینی

محفلین
حزب اللہ اور حماس سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ یہ اسلامی دہشت گرد جماعتیں ہیں۔ نہتے اسرائیلیوں کا خون انکے ہاتھوں سے رنگا ہے۔ سیاسی جماعت اور عسکری قیادت ایک نہیں ہو سکتی۔ آپ اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آپکی سوچ خود اس جہادی فتنے کی شکار ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اسرائیلی نہتے ہوگئے۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ۔ غاصب اسرائیلی خونخوار درندوں کو" نہتے" کہنا سب سے بڑا مذاق ہے۔
آپ بھی ہماری باتیں نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔ چونکہ آپ مغرب زدہ ہیں۔۔۔ اور مغرب کی چکاچوند مادی ترقی نے آپ کی آنکھوں کے سامنے پٹی باندھ دی ہے۔ صرف مادی ترقی کچھ بھی نہیں ہوتی۔۔ انسان روح اور جسم دو چیزوں کا مرکب ہے۔
اگر آپ حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد کہتے ہیں۔۔ تو یقینا ان تمام لوگوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہوں گے جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔۔ ان کوووٹ دیکر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔۔ کیا ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟؟
کہاں گیا آپ کی وہ آزادی اظہار رائے۔۔۔؟؟

جی وہ کلیجہ چبانے والی ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں۔ لیکن اس سے وہ تکفیری کیسے ثابت ہوں گے؟ انکے مقبوضہ علاقوں میں عیسائی وغیرہ بھی ہیں جنکا ابھی تک قتل عام نہیں ہوا۔ امریکہ شاید انکی مدد اسلئے کر رہا ہے کہ ایران کے مقابلہ میں انکو تقویت بخشی تاکہ یہ مذہبی اقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک کریں۔
چلیں اتنا تو آپ نے مان لیا وہ کلیجہ بھی چباتے ہیں۔۔۔ تو ان خونخوار انسانوں کی بھی حمایت کن بنیادوں پر کی جار رہی ہے؟؟ کہاں گئی آپ کی ثقافتی ترقی۔۔ انسانی حقوق کی باتیں؟
شاید آپ شام کے حالات سے بالکل بھی آگاہ نہیں۔۔۔ ورنہ یہ بات نہ کرتے۔۔ وہاں کے عیسائی راہبوں کو ان دہشت گردوں نے اغوا کرنے کے بعد طویل مذاکرات کے بعد بڑی مشکل سے چھوڑ دیا تھا۔
یہ دہشت گرد حدا قل شیعہ اور علویوں کو تو "کافر" سمجھتے ہیں۔۔ نہیں سمجھ آئی تو "عرعور" اور "عریفی" کی نیٹ پر ویڈیوز دیکھیں۔۔
شام کی عیسائی کمیونٹی آج بھی بشار الاسد کے ساتھ ہے۔۔۔ کہیں سے بھی تحقیق کر لیں۔
 

arifkarim

معطل
اسرائیلی نہتے ہوگئے۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ۔ غاصب اسرائیلی خونخوار درندوں کو" نہتے" کہنا سب سے بڑا مذاق ہے۔
اسرائیلی شہری غاصب کب سے ہوگئے؟ کیا انکی آل اولاد نہیں ہے؟ کیا وہاں عرب اور دیگر اقلیتیں نہیں بستی؟ اگر وہاں کی فوج غاصب ہے تو نہتے شہریوں کیخلاف دہشت گرد خودکش حملوں کا کیا جواز جس میں کئی بار عرب اسرائیلی شہری بھی نشانہ بن چکے ہیں؟ کیا انہیں جینے کا حق نہیں بقول حسن نصراللہ۔ ہاہاہا!
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Palestinian_suicide_attacks

اگر آپ حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد کہتے ہیں۔۔ تو یقینا ان تمام لوگوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہوں گے جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔۔ ان کوووٹ دیکر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔۔ کیا ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟؟
کہاں گیا آپ کی وہ آزادی اظہار رائے۔۔۔ ؟؟
ہاہاہا۔ اگر آج طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی آئین الیکشن میں کھڑے ہونے کا موقع دیتا اور پاکستانی عوام اتنی شدت پسند ہوتی کہ انہیں اکثریتی ووٹ دے کر ملکی ایوانوں میں بھجوا دے تو یقیناً یہ عوام دہشت گرد ہی کہلائے گی جو ان دہشت گرد جماعتوں کا ساتھ دے۔ جیسا کہ فلسطین اور لبنان کی اسلامی عوام ہے۔

حدا قل شیعہ اور علویوں کو تو "کافر" سمجھتے ہیں۔۔ نہیں سمجھ آئی تو "عرعور" اور "عریفی" کی نیٹ پر ویڈیوز دیکھیں۔۔
شام کی عیسائی کمیونٹی آج بھی بشار الاسد کے ساتھ ہے۔۔۔ کہیں سے بھی تحقیق کر لیں۔
جی میں ان سب کا مطالعہ کر چکا ہوں۔ اور اکثر آپکے محبوب نصراللہ کا یہ لبنانی چینل دیکھتا رہتا ہوں:
http://www.almanar.com.lb/english/adetails.php?eid=136959&cid=23&fromval=1&frid=23&seccatid=14&s1=1

یقیناً ان وہابی جہادیوں کے سامنے تو بشارالاسد کی قاتلانہ فوج ایک فرشتہ صفت ہی لگے گی۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام والا معاملہ ہے۔ ڈکیت اور چور کے درمیان فیصلہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے :)
 

حسینی

محفلین
ہاہاہا۔ اگر آج طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی آئین الیکشن میں کھڑے ہونے کا موقع دیتا اور پاکستانی عوام اتنی شدت پسند ہوتی کہ انہیں اکثریتی ووٹ دے کر ملکی ایوانوں میں بھجوا دے تو یقیناً یہ عوام دہشت گرد ہی کہلائے گی جو ان دہشت گرد جماعتوں کا ساتھ دے۔ جیسا کہ فلسطین اور لبنان کی اسلامی عوام ہے۔
تو سب سے بڑی دہشت گرد عوام تو امریکہ کی ہوئی۔۔۔ جو صدر بش جیسے ظالم کو دو بار منتخب کر چکی ہے۔۔ اور اب ابامہ کو۔
سب سے دہشت گرد حکومت بھی امریکہ کہ ہوئی۔۔۔ جس نے تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال کیا۔ جس کے اثرات اب تک جاپان میں دکھائی دیتے ہیں۔
جس نے عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو بے گناہ مارا۔
ابوغریب جیل سے نکلنے والی امریکی مظالم کی تصویرں اور ویڈیوز شاید آپ نے بھی دیکھی ہوں۔ انسانیت شرما گئی تھی۔
عارف بھائی۔۔۔ کچھ تو انصاف سے بات کیا کریں۔ اتنا متعصب ہونا بھی اچھی بات نہیں۔

اگر عوام کی رائے کو ہی آپ نے نہیں ماننا تو معیار کیا ہے آپ کے پاس؟؟
یقینا اگر یہ تنظیمیں بشمول طالبان ہتھیار چھوڑ کر الیکشن میں آجائیں۔۔ تو پاکستان کی عوام دل وجان سے ان کو قبول کرے گی۔ بے شک اکثریت حاصل کرکے آئین میں ترمیم کرلیں۔۔ اسلامی خلافت قائم کرلیں۔ جو چاہیں کر لیں۔
عوام کی رائے محترم ہونا چاہیے۔
مسئلہ صرف ہتھیار کے زور پر یہ کام کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔۔۔ ورنہ ہمارا کیا اختلاف ہے ان سے؟؟

آج کی یہ خبر بھی پڑھ لیں:
http://www.dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2014-05-31/373283#.U4mfJyj7GTQ
 

arifkarim

معطل
تو سب سے بڑی دہشت گرد عوام تو امریکہ کی ہوئی۔۔۔ جو صدر بش جیسے ظالم کو دو بار منتخب کر چکی ہے۔۔ اور اب ابامہ کو۔
امریکی ملکی معاملات چلانے کیلئے جمہوری طور پر اپنے صدور کا انتخاب کرتے ہیں۔ اب آگے سے صدر ہی تیلی، کرپٹ، بزنس مین نکل آئے تو اسمیں امریکی عوام کی معصومیت یا احمق ہونے کا اثبوت ملتا ہے۔ امریکی میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر بش نے اپنے تیل کے بزنس چلانے کیلئے عراق پر بمباری کی تھی اور صدام کو بذریعہ عسکری طاقت عراقی سیاست سے ہٹایا تھا۔ یہی کام اسکا باپ بھی 1990 کی دہائی میں کر چکا تھا۔ یہ خبر خود سی این این نے پچھلے سال چھاپی ہے۔ پڑھ لیں اور سر دھنئے:
http://edition.cnn.com/2013/03/19/opinion/iraq-war-oil-juhasz/

یاد رہے کہ امریکی عوام نے صدر بش یا اوبامہ کو دو بار اسلئے نہیں چنا کہ وہ مسلمان ممالک پر بمباری کریں۔ لیکن چونکہ امریکہ میں بین الاقوامی بڑے بزنس سے وابستہ بین الاقوامی عالمی کمپنیوں کا اسر رسوخ بہت زیادہ ہے یوں ان عام امریکیوں کی حکومت کے مینڈیٹ کو وہ مینڈک کی طرح نگل لیتی ہیں اور پوری حکومت ان چنداں اقتصادی، معاشی اور مالی عناصر کی غلام بن جاتی ہے۔ اس بارہ میں ایک اور مشہور امریکی جریدے کی یہ رپورٹ دیکھیں:
http://www.economist.com/blogs/democracyinamerica/2014/04/money-politics-0
 

نایاب

لائبریرین
اور اس پوسٹ میں معلوماتی؟

نایاب
میرے محترم بھائی
میں ٹھہرا پکا دنیا دار ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے جنید حفیظ یا راشد رحمان بن کر کیا ملے گا ۔۔۔۔۔۔ ؟
" عرب سپرنگ " کا پہلا اچھال آج کل زنداں میں ہے ۔
یہ دوسرا اچھال جانے کہاں پہنچے ۔۔۔
میں ہنسوں بھی نہ ؟ ۔۔۔۔کیا یہ " زبردست " خبر پڑھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

arifkarim

معطل
میرے محترم بھائی
میں ٹھہرا پکا دنیا دار ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مجھے جنید حفیظ یا راشد رحمان بن کر کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
" عرب سپرنگ " کا پہلا اچھال آج کل زنداں میں ہے ۔
یہ دوسرا اچھال جانے کہاں پہنچے ۔۔۔
میں ہنسوں بھی نہ ؟ ۔۔۔ ۔کیا یہ " زبردست " خبر پڑھ کر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟

اوہ اچھا تو یہ بات تھی۔ :D
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے بالکل وضاحت نہیں کی آپ نے شاید خود ہی کچھ اخذ کر لیا ہے :)
یہ چاروں الگ الگ مسلک ہیں، علمی اختلاف رکھتے ہیں مگر آخر کیوں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں؟ سارے سنے کیوں کہلاتے ہیں؟ ان کا اختلاف ان کو آپس میں لڑنے پر کیوں نہیں اکساتا؟
جہاں آپ نے بات برداشت کی کی ہے تو لفظ برداشت واضح کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جا رہا ہے، قبول نہیں۔ تاہم جیسا کہ شعیب بھائی نے کہا کہ
یہ تو ابھی آپ کو لڑتے نظر نہیں آرہے، ورنہ تاریخ میں ان مسالک کے اختلافات کی بنیاد پر کافی لڑائیوں کے ریکارڈز موجود ہیں۔ :) :)
مسلمانوں کی تاریخ بہت خونریز ہے :(
 
جہاں آپ نے بات برداشت کی کی ہے تو لفظ برداشت واضح کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جا رہا ہے، قبول نہیں۔ تاہم جیسا کہ شعیب بھائی نے کہا کہ

مسلمانوں کی تاریخ بہت خونریز ہے :(
جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں ہمیشہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوئیں ، مذہبی بنیاد پر نہیں۔ نئے نئے فرقے بھی سیاسی مفادات کی خاطر بنائے گئے۔ بلکہ سیاسی مفادات کے لئے مذہبی وجوہات تراشی گئیں۔
اسلامی تعلیمات ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو برداشت کرنے کی تعلیم دیتی ہیں ، علمی اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت کی نہیں۔
علمی اختلاف کو برداشت اور دوسرے کا رائے کا احترام کرنا ہی جمہوریت کی اساس ہے۔
 
Top