ویسے لفظی جنگ تو آج بھی جاری ہے۔لیکن ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
ویسے لفظی جنگ تو آج بھی جاری ہے۔لیکن ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
آپ کی بات بجا، لیکن کیا آپ نے پنجابی کی کہاوت سن رکھی ہے کہ ستا ہویا تے اٹھ جاندا اے، لیکن جاگدے نوں کون جگائے ؟جی نہیں۔۔۔ عارف بھائی۔ اسلامی شریعت میں بہت وسعت اور پھیلاوہے۔ 1400 سال پرانی شریعت نے اتنی گنجائش رکھی ہے کہ وہ تا قیامت نافذ ہو سکتی ہے۔
مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو اسلام کو یا تو سمجھ نہیں رہے۔۔۔ یا جان بوجھ کر غلط سمجھ رہے ہیں۔ دین رحمت کو دین خشم، غضب، وحشت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
ان نام نہاد جہادیوں نے اسلام اور اس کے ارکان کو بدنام کیا ہوا ہے۔۔۔
فریضہ جہاد کی ہی مثال لیجیے۔۔۔ کتنا مقدس فرض ہے۔۔ دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہر میدان میں۔۔ علم، ایمان، تقوی، طاقت، قدرت، وسائل، ہتھیار۔۔۔ غرض ہر میدان میں۔
لیکن انہوں نے اس مقدس فریضے کے ذریعے بے کسوں اور غریبوں کو اغوا کرکے بازاروں میں بیچنا شروع کیا۔۔ زندہ انسانوں کو ذبح کر کے ان کی لاشوں کو مثلہ کرنے لگے۔
انسانی اعضا سے پولو کھیلنے لگے۔
یقینایہ سب کفار اور اسلام کے دشمنوں کے نفع میں تھا۔۔۔ لہذا اصلی جہاد کے مقابلہ میں اس دو نمبر کے جہاد کی ہر حوالے سے حمایت کی گئی۔
کل طالبان بنایا۔۔۔ جو آستین کے سانپ ثابت ہوئے۔۔۔ اور آج القاعدہ کو شام میں آپ کے مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔۔ یا مغربی ممالک کے قریبی دوست سپورٹ کر رہے ہیں۔
جہاں سے واپس آنے والے "جہادی" ابھی سے وہاں امن کے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔
نہیں حضور لفظی جنگ نہیں علمی بحث، جو تعمیری ہوتی ہے۔ویسے لفظی جنگ تو آج بھی جاری ہے۔
تعمیری؟؟ ہمیں تو نہیں لگتا۔ ویسے اب عالمی طور پر علماء نے تلفیق بین المذاہب کو تسلیم کرلیا ہے۔نہیں حضور لفظی جنگ نہیں علمی بحث، جو تعمیری ہوتی ہے۔
اگر یہ تمام سنی فرقہ سے ہوں گے تو ظاہر ہے ایک دوسرے کو برداشت بھی کریں گے۔ ٹکراؤ تو شیعہ اور سنی فرقہ کے درمیان ہے۔
۔
آپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ساری دنیا میں شیعہ اور سنی (جن میں معتدل سنی بریلوی برادران اور صوفی ازم کی طرف سنی برادران جن کی پوری دنیا میں اکثریت ہے) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
پاکستان میں ہی دیکھ لیں شیعہ علماء اور سنی علماء ہمیشہ اکھٹے نظر آئیں گے۔۔۔ موقف بھی ہمیشہ ایک ہے۔ سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، منہاج القرآن اور شیعوں میں مجلس وحدت، شیعہ علماء کونسل، ایکشن کمیٹی وغیرہ کے علماء آپ کو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اور مشترکہ احتجاج وکانفرنسز کرتے نظر آئیں گے۔
اختلاف صرف ان مٹھی بھر لوگوں سے ہیں جن کو ہر بات میں شرک کی رال نظر آتی ہے۔۔ ہر کسی کو کافر ومشرک کہتے ہیں۔ یہی لوگ آپ کو ہر خودکش حملے میں نظر آئیں گے۔ یہی لوگ آپ کو طالبان وغیرہ کی پشت پناہی کرتے نظر آئیں گے۔
لہذا شیعہ سنی اختلاف کا نام ہی شاید درست نہ ہو۔۔۔ البتہ آپ شیعہ اور تکفیری کے مابین اختلاف کا نام دے سکتے ہیں۔
آپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔
آپکے ان دعووں سے پہلے بھی بہت بڑے بڑے عالم دین اس قسم کے بیانات جاری کر چکے ہیں، لیکن عملی طور پر سب کے سب ناکام ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو آجکل کے جدید دور میں 1400 سال پرانی شریعت چاہئے تو اسکو وہ حالات و واقعات پیدا کرنے ہوں گے جو کہ اسوقت کی خلافت راشدین کے وقت تھے۔ یعنی پہلے دنیا کے 1،6 ارب مسلمانوں کیلئے ایک ایسے فرشتہ صفت امیرالمؤمنین کا انتخاب جسکے ہاتھ پر تمام مسلمان خلیفہ کے طور پر بیت کر سکیں۔ جسکے بعد اس اسلامی ریاست میں خلفائے راشدین کے دور کی طرح امن، انصاف، رواداری، انسانی حقوق، مساوات، معاشی استحکام وغیرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد شرعی سزائیں نافذ کی جائیں۔ہوسکتی ہے، طریقہ آنا چاہیے۔
فکر نہ کریں وہ دن جلد آئیں گے۔یہ تو ابھی آپ کو لڑتے نظر نہیں آرہے، ورنہ تاریخ میں ان مسالک کے اختلافات کی بنیاد پر کافی لڑائیوں کے ریکارڈز موجود ہیں۔
اہل مغرب تو ہر قسم کے اسلامی جہاد کے خلاف ہے کیونکہ اسکا مقصد محض دنگا فساد اور دہشتگردی کے ذریعہ سیاسی اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ طالبان نے یہی کام کابل میں حکومت کیلئے کیا۔ اخوان المسلمین یہی کام قاہرہ میں کر چکے ہیں۔ اور حزب اللہ لبنان میں اور حماس غزہ کی پٹی میں انہی ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے وہاں کی سیاست پر قابض ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک کے اسلامی جہادی محض دنیاوی اقتدار کو اسلام کے نام پر حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ جیسے اب پاکستانی طالبان جو آئین پاکستان کو نہیں مانتے اور اپنی شریعت یہاں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انکو یہ اختیار کسنے دیا؟ کیا قرآن نے یا انکو برین واش کرنے والے جہادی مولوی نے؟یقینایہ سب کفار اور اسلام کے دشمنوں کے نفع میں تھا۔۔۔ لہذا اصلی جہاد کے مقابلہ میں اس دو نمبر کے جہاد کی ہر حوالے سے حمایت کی گئی۔
حضرت، میں سویا ہوا نہیں ہوں۔ آپ بھی اٹھ جائیں اب۔آپ کی بات بجا، لیکن کیا آپ نے پنجابی کی کہاوت سن رکھی ہے کہ ستا ہویا تے اٹھ جاندا اے، لیکن جاگدے نوں کون جگائے ؟
عراق اور شام کی خانہ جنگی میں شیعہ اسلامی مسلح تنظیمیں جیسے حزب اللہ کا مقابلہ سنی مسلح تنظیمیں جیسے النصرہ اور اسلامک اسٹیٹ عراق و شام سے ہو رہا ہے۔ یہاں تکفیری کہاں سے آگئے؟ دونوں طرف نہتے مسلمان شہری ہی مارے جارہے ہیں اور وہ بھی محض مذہب، فرقہ یا مسلک کے نام پر۔ ایسے میں یہود قہقہے نہ لگائیں تو اور کیا ماتم کریں: یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔لہذا شیعہ سنی اختلاف کا نام ہی شاید درست نہ ہو۔۔۔ البتہ آپ شیعہ اور تکفیری کے مابین اختلاف کا نام دے سکتے ہیں۔
جی بالکل۔ یہاں بھی سارا قصور کسی غیر قوم پر ڈال کر فراغت اختیار کر لی۔ اگر ہم میں اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو ہم امریکہ کو یہاں حیلے بہانوں سے گھسنے ہی نہ دیتے۔ ہم ہی نے مشرق وسطیٰ میں سعودیہ اور کویت کی اسلامی برادر ملک عراق سے عسکری حفاظت کیلئے امریکہ کو مدعو کیا تھا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ امریکہ اسوقت سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی واحد عالمی طاقت بن چکا تھا۔ سو اسنے وہی کیا جو ہر دور کی عالمی طاقتیں کرتی آئی ہیں۔ اسنے وہاں پہنچتے ہی سنی شیعہ تفرقہ کو ہوا دی جیسا کہ انگریز نے ہندوستان میں مسلم ہندو تفرقہ کو ہوا دے کر یہاں 100 سال تک حکمرانی کی تھی۔ اور ہم مسلمان تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کیلئے سو ہمنے وہی کیا جو پچھلے 1400 سال سے کرتے آئے ہیںآپ کی بات سے مجھے ایک عراق نژاد امریکی یاد آگیا۔ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے عراق میں گھسنے سے پہلے سنیوں اور شیعوں میں کوئی جنگ و جدل کی کیفیت نہیں تھی۔ امریکہ کے گھسنے کے بعد ہی یہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ امریکی شیعہ تھا۔
یہی تو اختلاف ہے۔ سنی وہابی شدت پسند مزاروں میں جاکر عبادت کرنے کو گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں اور اسی لئے بہت سے نامور اور مشہور اسلامی ہستیوں کے مزاروں میں بم رکھ کرانہیں اڑانے کی کوشش بھی کر چکے ہیں۔شام میں سیدہ زینب علیہا السلام کا مقام ہے جہاں شیعہ جوق در جوق جاتے ہیں۔۔ اب کہاں ہے اختلاف؟
اسی طرح عراق میں مولا امام حسین علیہ السلام کے روضے پر سنی برادران کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔۔۔ ۔
اہل مغرب تو ہر قسم کے اسلامی جہاد کے خلاف ہے کیونکہ اسکا مقصد محض دنگا فساد اور دہشتگردی کے ذریعہ سیاسی اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ طالبان نے یہی کام کابل میں حکومت کیلئے کیا۔ اخوان المسلمین یہی کام قاہرہ میں کر چکے ہیں۔ اور حزب اللہ لبنان میں اور حماس غزہ کی پٹی میں انہی ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے وہاں کی سیاست پر قابض ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک کے اسلامی جہادی محض دنیاوی اقتدار کو اسلام کے نام پر حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ جیسے اب پاکستانی طالبان جو آئین پاکستان کو نہیں مانتے اور اپنی شریعت یہاں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انکو یہ اختیار کسنے دیا؟ کیا قرآن نے یا انکو برین واش کرنے والے جہادی مولوی نے؟
میں صدقے جاوں آپ کی معصومیت پر۔عراق اور شام کی خانہ جنگی میں شیعہ اسلامی مسلح تنظیمیں جیسے حزب اللہ کا مقابلہ سنی مسلح تنظیمیں جیسے النصرہ اور اسلامک اسٹیٹ عراق و شام سے ہو رہا ہے۔ یہاں تکفیری کہاں سے آگئے؟ دونوں طرف نہتے مسلمان شہری ہی مارے جارہے ہیں اور وہ بھی محض مذہب، فرقہ یا مسلک کے نام پر۔ ایسے میں یہود قہقہے نہ لگائیں تو اور کیا ماتم کریں: یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔
مغرب میں دین اور سیاست جداجدا ہیں اسی لئے وہاں اکثر ممالک میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں امن، استحکام، خوشحالی، معاشی و سماجی ترقی زیادہ ہے۔ اہل مغرب مذہبی بنیادوں پر جنگ و دجل کیخلاف ہیں لیکن قومی بنیادوں پر نہیں۔ مجاہدین کی مدد انہوں نے افغان قومی بنیادوں پر کی تھی۔ اسمیں اسلامی ٹچ دینا یقیناً امریکی غلط فیصلہ تھا جسکی انہوں نے بعد میں مذمت بھی کی۔ جیسے کردیوں کو قوم پرستی کی بنیاد پر عراقی سرزمین عنایت کی گئی۔ اگر یہی چیز وہ مذہبی بنیادوں پر مانگتے تو فلسطینی اسلامی جہادیوں کی طرح آج تک دھکے کھا رہے ہوتے!جی جی۔۔ اہل مغرب ہر قسم کے جہاد کے خلاف ہیں۔۔۔
مغرب والے کہتے ہیں صرف ایک یا دو ایٹم بم چلا دو۔۔۔ سب اک ساتھ مر جائیں گے۔۔ جیسے جاپان پر مارا تھا۔
جب تک امریکہ کے مفاد ہے اس وقت تک جہاد مقدس بھی ہے۔۔ اور یہ لوگ مجاہدین بھی۔۔ اور جب ان کے مفادات ختم تو جہاد دہشت گردی اور یہ لوگ دہشت گرد۔
البتہ چاہے مصر کی اخوان المسلمین ہو، یا لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس۔۔۔ سب عوام کا ووٹ لیکر پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔۔ کہاں ہے آپ کا وہ جمہوریت کا احترام؟ عوامی رائے کی عزت؟
آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف لادین اور بد اخلاق لوگوں کا کام ہے؟
دین اور سیاست کبھی بھی جدا نہیں ہیں۔۔۔ ۔
جی وہ کلیجہ چبانے والی ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں۔ لیکن اس سے وہ تکفیری کیسے ثابت ہوں گے؟ انکے مقبوضہ علاقوں میں عیسائی وغیرہ بھی ہیں جنکا ابھی تک قتل عام نہیں ہوا۔ امریکہ شاید انکی مدد اسلئے کر رہا ہے کہ ایران کے مقابلہ میں انکو تقویت بخشی تاکہ یہ مذہبی اقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک کریں۔میں صدقے جاوں آپ کی معصومیت پر۔
النصرہ فرنٹ اور داعش کو آپ تکفیری نہیں سمجھ رہے؟؟ یہ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ یہ وہی ہندہ کی نسل ہے جو مردوں کا کلیجہ تک نکال کے چباتے ہیں۔۔۔ قبروں کو مسمار کرنا اور لاشیں نکالنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔
صرف اک سوال کا جواب دیں۔۔۔ اگر آپ کے مغربی ممالک اس "جہاد" اور ان دہشت گردوں کے خلاف ہی ہیں تو بلین ڈالرز کی امداد اور اسلحہ ان کو کیوں فراہم کیا جا رہا ہے؟
کیا کسی دہشت گرد کے ہاتھ میں اسلحہ دینا کبھی بھی مصلحت میں ہے؟؟؟؟؟
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خردحزب اللہ اور حماس سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ یہ اسلامی دہشت گرد جماعتیں ہیں۔ نہتے اسرائیلیوں کا خون انکے ہاتھوں سے رنگا ہے۔ سیاسی جماعت اور عسکری قیادت ایک نہیں ہو سکتی۔ آپ اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آپکی سوچ خود اس جہادی فتنے کی شکار ہے۔
چلیں اتنا تو آپ نے مان لیا وہ کلیجہ بھی چباتے ہیں۔۔۔ تو ان خونخوار انسانوں کی بھی حمایت کن بنیادوں پر کی جار رہی ہے؟؟ کہاں گئی آپ کی ثقافتی ترقی۔۔ انسانی حقوق کی باتیں؟جی وہ کلیجہ چبانے والی ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں۔ لیکن اس سے وہ تکفیری کیسے ثابت ہوں گے؟ انکے مقبوضہ علاقوں میں عیسائی وغیرہ بھی ہیں جنکا ابھی تک قتل عام نہیں ہوا۔ امریکہ شاید انکی مدد اسلئے کر رہا ہے کہ ایران کے مقابلہ میں انکو تقویت بخشی تاکہ یہ مذہبی اقلیتوں کیساتھ اچھا سلوک کریں۔
اسرائیلی شہری غاصب کب سے ہوگئے؟ کیا انکی آل اولاد نہیں ہے؟ کیا وہاں عرب اور دیگر اقلیتیں نہیں بستی؟ اگر وہاں کی فوج غاصب ہے تو نہتے شہریوں کیخلاف دہشت گرد خودکش حملوں کا کیا جواز جس میں کئی بار عرب اسرائیلی شہری بھی نشانہ بن چکے ہیں؟ کیا انہیں جینے کا حق نہیں بقول حسن نصراللہ۔ ہاہاہا!اسرائیلی نہتے ہوگئے۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ۔ غاصب اسرائیلی خونخوار درندوں کو" نہتے" کہنا سب سے بڑا مذاق ہے۔
ہاہاہا۔ اگر آج طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی آئین الیکشن میں کھڑے ہونے کا موقع دیتا اور پاکستانی عوام اتنی شدت پسند ہوتی کہ انہیں اکثریتی ووٹ دے کر ملکی ایوانوں میں بھجوا دے تو یقیناً یہ عوام دہشت گرد ہی کہلائے گی جو ان دہشت گرد جماعتوں کا ساتھ دے۔ جیسا کہ فلسطین اور لبنان کی اسلامی عوام ہے۔اگر آپ حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد کہتے ہیں۔۔ تو یقینا ان تمام لوگوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہوں گے جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔۔ ان کوووٹ دیکر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔۔ کیا ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟؟
کہاں گیا آپ کی وہ آزادی اظہار رائے۔۔۔ ؟؟
جی میں ان سب کا مطالعہ کر چکا ہوں۔ اور اکثر آپکے محبوب نصراللہ کا یہ لبنانی چینل دیکھتا رہتا ہوں:حدا قل شیعہ اور علویوں کو تو "کافر" سمجھتے ہیں۔۔ نہیں سمجھ آئی تو "عرعور" اور "عریفی" کی نیٹ پر ویڈیوز دیکھیں۔۔
شام کی عیسائی کمیونٹی آج بھی بشار الاسد کے ساتھ ہے۔۔۔ کہیں سے بھی تحقیق کر لیں۔
تو سب سے بڑی دہشت گرد عوام تو امریکہ کی ہوئی۔۔۔ جو صدر بش جیسے ظالم کو دو بار منتخب کر چکی ہے۔۔ اور اب ابامہ کو۔ہاہاہا۔ اگر آج طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی آئین الیکشن میں کھڑے ہونے کا موقع دیتا اور پاکستانی عوام اتنی شدت پسند ہوتی کہ انہیں اکثریتی ووٹ دے کر ملکی ایوانوں میں بھجوا دے تو یقیناً یہ عوام دہشت گرد ہی کہلائے گی جو ان دہشت گرد جماعتوں کا ساتھ دے۔ جیسا کہ فلسطین اور لبنان کی اسلامی عوام ہے۔
امریکی ملکی معاملات چلانے کیلئے جمہوری طور پر اپنے صدور کا انتخاب کرتے ہیں۔ اب آگے سے صدر ہی تیلی، کرپٹ، بزنس مین نکل آئے تو اسمیں امریکی عوام کی معصومیت یا احمق ہونے کا اثبوت ملتا ہے۔ امریکی میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر بش نے اپنے تیل کے بزنس چلانے کیلئے عراق پر بمباری کی تھی اور صدام کو بذریعہ عسکری طاقت عراقی سیاست سے ہٹایا تھا۔ یہی کام اسکا باپ بھی 1990 کی دہائی میں کر چکا تھا۔ یہ خبر خود سی این این نے پچھلے سال چھاپی ہے۔ پڑھ لیں اور سر دھنئے:تو سب سے بڑی دہشت گرد عوام تو امریکہ کی ہوئی۔۔۔ جو صدر بش جیسے ظالم کو دو بار منتخب کر چکی ہے۔۔ اور اب ابامہ کو۔
میرے محترم بھائی
میرے محترم بھائی
میں ٹھہرا پکا دنیا دار ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مجھے جنید حفیظ یا راشد رحمان بن کر کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
" عرب سپرنگ " کا پہلا اچھال آج کل زنداں میں ہے ۔
یہ دوسرا اچھال جانے کہاں پہنچے ۔۔۔
میں ہنسوں بھی نہ ؟ ۔۔۔ ۔کیا یہ " زبردست " خبر پڑھ کر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
جہاں آپ نے بات برداشت کی کی ہے تو لفظ برداشت واضح کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جا رہا ہے، قبول نہیں۔ تاہم جیسا کہ شعیب بھائی نے کہا کہمیں نے بالکل وضاحت نہیں کی آپ نے شاید خود ہی کچھ اخذ کر لیا ہے
یہ چاروں الگ الگ مسلک ہیں، علمی اختلاف رکھتے ہیں مگر آخر کیوں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں؟ سارے سنے کیوں کہلاتے ہیں؟ ان کا اختلاف ان کو آپس میں لڑنے پر کیوں نہیں اکساتا؟
مسلمانوں کی تاریخ بہت خونریز ہےیہ تو ابھی آپ کو لڑتے نظر نہیں آرہے، ورنہ تاریخ میں ان مسالک کے اختلافات کی بنیاد پر کافی لڑائیوں کے ریکارڈز موجود ہیں۔
جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں ہمیشہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوئیں ، مذہبی بنیاد پر نہیں۔ نئے نئے فرقے بھی سیاسی مفادات کی خاطر بنائے گئے۔ بلکہ سیاسی مفادات کے لئے مذہبی وجوہات تراشی گئیں۔جہاں آپ نے بات برداشت کی کی ہے تو لفظ برداشت واضح کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جا رہا ہے، قبول نہیں۔ تاہم جیسا کہ شعیب بھائی نے کہا کہ
مسلمانوں کی تاریخ بہت خونریز ہے