مضطرب تھا دل مرا بس نیند کیا آتی مجھے

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

میرا پہلا عشق تھا بس نیند کیا آتی مجھے
رات بھر جلتا رہا بس نیند کیا آتی مجھے


اک طرف گھنگرو کی چھن چھن اک طرف حمدوثنا
تھا عجب یہ مسئلہ بس نیند کیا آتی مجھے

تلخیاں منسوب ساری ہیں غریبوں سے ہی کیوں؟
میں اسی الجھن میں تھا بس نیند کیا آتی مجھے

انتظار یار میں تھیں میری آنکھیں نیم وا
مضطرب تھا دل مرا بس نیند کیا آتی مجھے

میرے خوابوں کی عروسہ کے سجیلے ہاتھ سے
اڑ گیا رنگ حنا بس نیند کیا آتی مجھے


میرے لفظوں کے چناؤ میں ترا حسن و جمال
شاعری بنتا گیا بس نیند کیا آتی مجھے

لگ رہا تھا مضطرب کوئی تو چلمن سے پرے
تھا وہ شاید جاگتا بس نیند کیا آتی مجھے

کس طرح سجاد سب کچھ مجھ سے تھا چھینا گیا
یاد پھر سے آگیا بس نیند کیا آتی مجھے
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو قبول کی جا سکتی ہے غزل، البتہ ردیف میں 'بس' کی معنویت اکثر ظاہر نہیں ہوتی۔ میرا مشورہ ہے کہ اسے 'اب' سے بدل کر دیکھیں۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ معنویت میں واضح اضافہ ہوتا ہے۔
دو اشعار روانی کے اعتبار سے کمزور ہیں
میرے لفظوں کے چناؤ میں ترا حسن و جمال
لفظ چناؤ بلکہ امریہ( آؤ، جاؤ) کے علاوہ '' ؤ" کا دو حرفی استعمال مجھے لگتا ہے کہ روانی مخدوش کر دیتا ہے، چناؤ، بناؤ بطور اسم( بناو سنگھار)، گھاؤ وغیرہ بطور فعول ہی رواں محسوس ہوتے ہیں

کس طرح سجاد سب کچھ مجھ سے تھا چھینا گیا
میں بھی 'تھا چھینا گیا' رواں نہیں، کس طرح چھینا گیا تھا.... سے شروع کر کے الفاظ بدلیں
 
ویسے تو قبول کی جا سکتی ہے غزل، البتہ ردیف میں 'بس' کی معنویت اکثر ظاہر نہیں ہوتی۔ میرا مشورہ ہے کہ اسے 'اب' سے بدل کر دیکھیں۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ معنویت میں واضح اضافہ ہوتا ہے۔
دو اشعار روانی کے اعتبار سے کمزور ہیں
میرے لفظوں کے چناؤ میں ترا حسن و جمال
لفظ چناؤ بلکہ امریہ( آؤ، جاؤ) کے علاوہ '' ؤ" کا دو حرفی استعمال مجھے لگتا ہے کہ روانی مخدوش کر دیتا ہے، چناؤ، بناؤ بطور اسم( بناو سنگھار)، گھاؤ وغیرہ بطور فعول ہی رواں محسوس ہوتے ہیں

کس طرح سجاد سب کچھ مجھ سے تھا چھینا گیا
میں بھی 'تھا چھینا گیا' رواں نہیں، کس طرح چھینا گیا تھا.... سے شروع کر کے الفاظ بدلیں
شکریہ سر کوشش کرتا ہوں
 
ویسے تو قبول کی جا سکتی ہے غزل، البتہ ردیف میں 'بس' کی معنویت اکثر ظاہر نہیں ہوتی۔ میرا مشورہ ہے کہ اسے 'اب' سے بدل کر دیکھیں۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ معنویت میں واضح اضافہ ہوتا ہے۔
دو اشعار روانی کے اعتبار سے کمزور ہیں
میرے لفظوں کے چناؤ میں ترا حسن و جمال
لفظ چناؤ بلکہ امریہ( آؤ، جاؤ) کے علاوہ '' ؤ" کا دو حرفی استعمال مجھے لگتا ہے کہ روانی مخدوش کر دیتا ہے، چناؤ، بناؤ بطور اسم( بناو سنگھار)، گھاؤ وغیرہ بطور فعول ہی رواں محسوس ہوتے ہیں

کس طرح سجاد سب کچھ مجھ سے تھا چھینا گیا
میں بھی 'تھا چھینا گیا' رواں نہیں، کس طرح چھینا گیا تھا.... سے شروع کر کے الفاظ بدلیں
سر غزل دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے نظر ثانی فرما دیجئیے

کہہ گیا وہ الودع پھر نیند کیا آتی مجھے
رتجگے سے دے گیا پھرنیند کیا آتی مجھے

اک طرف گھنگرو کی چھن چھن اک طرف حمدوثنا
تھا عجب یہ مسئلہ پھرنیند کیا آتی مجھے

تلخیاں منسوب ساری ہیں غریبوں سے ہی کیوں؟
یہ خلل سوچوں میں تھا پھر نیند کیا آتی مجھے

انتظار یار میں تھیں میری آنکھیں نیم وا
دل بھی تھا بے چین سا پھر نیند کیا آتی مجھے

میرے خوابوں کی عروسہ کے سجیلے ہاتھ سے
اڑ گیا رنگ حنا پھر نیند کیا آتی مجھے


کیا مرے شعروں میں ڈھلتا وہ ترا حسن و جمال
سوچ سے تھا ماورا پھرنیند کیا آتی مجھے

لگ رہا تھا مضطرب کوئی تو چلمن سے پرے
تھا وہ شاید جاگتا پھر نیند کیا آتی مجھے

بے بصر تھیں میری آنکھیں پھر بھی ان میں رات بھر
عکس رقصاں تھا ترا پھر نیند کیا آتی مجھے

جب ہوا سجاد مجھ پر مہرباں وہ نازنیں
زادِ ہستی چھن گیا پھر نیند کیا آتی مجھے
 

الف عین

لائبریرین
'پھر' ردیف میں بہتر ہے یقیناً، لیکن اسی غزل میں بس کی جگہ پھر کر دینا کافی تھا۔
پرانے مطلع میں ضرور 'پھر' سے کر دینے سے معنویت برقرار نہیں رہتی۔ لیکن موجودہ مطلع میں الوداع تو درست قافیہ ہی نہیں۔ صوتی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یونی مطلع پھر کہو۔
تیسرے شعر کا ثانی مصرع بھی پچھلا بہتر تھا۔ اسی کو رکھو۔
باقی اشعار درست ہیں
 
'پھر' ردیف میں بہتر ہے یقیناً، لیکن اسی غزل میں بس کی جگہ پھر کر دینا کافی تھا۔
پرانے مطلع میں ضرور 'پھر' سے کر دینے سے معنویت برقرار نہیں رہتی۔ لیکن موجودہ مطلع میں الوداع تو درست قافیہ ہی نہیں۔ صوتی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یونی مطلع پھر کہو۔
تیسرے شعر کا ثانی مصرع بھی پچھلا بہتر تھا۔ اسی کو رکھو۔
باقی اشعار درست ہیں
سر دوبارہ مطلع کہنے کی کوشش کی ہے ایک مزید شعر کی اضافت کے ساتھ

چل دیا ہو کر جدا پھر نیند کیا آتی مجھے
ہو گیا وہ جب خفا پھر نیند کیا آتی مجھے

کرب سے اب رات بھر میں کروٹیں بدلا کروں
رتجگے وہ دے گیا پھرنیند کیا آتی مجھے

اک طرف گھنگرو کی چھن چھن اک طرف حمدوثنا
تھا عجب یہ مسئلہ پھرنیند کیا آتی مجھے

تلخیاں منسوب ساری ہیں غریبوں سے ہی کیوں؟
میں اسی الجھن میں تھاپھر نیند کیا آتی مجھے

انتظار یار میں تھیں میری آنکھیں نیم وا
دل بھی تھا بے چین سا پھر نیند کیا آتی مجھے

میرے خوابوں کی عروسہ کے سجیلے ہاتھ سے
اڑ گیا رنگ حنا پھر نیند کیا آتی مجھے


کیا مرے شعروں میں ڈھلتا وہ ترا حسن و جمال
سوچ سے تھا ماورا پھرنیند کیا آتی مجھے

لگ رہا تھا مضطرب کوئی تو چلمن سے پرے
تھا وہ شاید جاگتا پھر نیند کیا آتی مجھے

بے بصر تھیں میری آنکھیں پھر بھی ان میں رات بھر
عکس رقصاں تھا ترا پھر نیند کیا آتی مجھے

جب ہوا سجاد مجھ پر مہرباں وہ نازنیں
زادِ ہستی چھن گیا پھر نیند کیا آتی مجھے
 
Top