میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ابھی آپ ذرا اور تیاری کریں۔۔۔
تبلیغ دین ہر شخص کے ذمہ واجب نہیں۔۔۔
ابھی تو مقام ادب پر ہی قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔۔۔
آپ کے قول کے برعکس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔۔۔
اللہ کے عذاب کی صورت چنگیز خان تو ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔۔۔
عذاب تو جب ہوتا جب آپ مشرکین کو تہس نہس فرمادیتے۔۔۔
حالاں کہ مشرکین میں سے صرف وہی قتل ہوا جو تلوار اٹھا کر مسلمانوں کو قتل کرنے آیا!!!
ہم نے جنگ بدر کو اس لیے عذاب الٰہی قرار دیا ہے کہ خود قرآن مجید نے سورۂ انفال میں قریش کے اس انجام کو آل فرعون کے انجام سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے اعیان و اکابر موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے غرق دریا ہو گئے تھے۔ اسی طرح قریش کے نمایاں سردار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے ہوئے بدر میں مارے گئے۔ فرمایا:
کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَفَرُوْا بِاٰیَاتِ اللّٰہِ فَأَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِہِمْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الانفال۸: ۵۲)
’’اُن کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون کے ساتھ ہوا اور جو ان سے پہلے تھے۔ انھوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو ان کے جرائم کے بدلے میں پکڑ لیا۔ اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَذَّبُوْا باٰیَاتِ رَبِّہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَأَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظَالِمِیْنَ.(الانفال۸: ۵۴)
’’ان کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا تو ہم نے انھیں ان کے جرائم کے بدلے میں ہلاک کر دیا اور آل فرعون کو (دریا میں) غرق کر دیا۔ اور یہ سب کے سب ظالم تھے۔‘‘
سورہ توبہ کی تیسری آیت
پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیا جائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔
آیت کی تفسیر
اِس سے مراد حج ہی ہے۔ اہل عرب عمرے کو حج اصغر اور اِس کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہتے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ چارماہ کی جو مہلت اوپر دی گئی ہے، اُس کے گزر جانے کے بعد اُن لوگوں کی داروگیر شروع کر دی جائے جن تک اعلان براء ت کی اطلاع پہنچانا ممکن ہو۔ اِس کے بعد حج کے دن کا انتظار کیا جائے۔ اِس میں ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوں گے جن کی وساطت سے یہ اطلاع سرزمین عرب کے باقی سب لوگوں تک بھی پہنچا دی جائے کہ اللہ و رسول نے مشرکین سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے۔ خدا کی طرف سے جو مہلت اُنھیں ملی ہوئی تھی، اُس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔وہ اب عذاب کی زد میں ہیں۔ چنانچہ تمام معاہدات ختم کر دیے گئے ہیں اور آیندہ بھی اُن کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان باقی نہیں رہا۔ اِس میں ضمناً یہ بشارت بھی ہے کہ عنقریب وہ موقع آنے والا ہے، جب مسلمان حج بھی کریں گے اور منکرین پر ایسا غلبہ بھی حاصل کر لیں گے کہ حج کے موقع پر اِس طرح کا اعلان کر سکیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ۹ ہجری میں اِس حج سے سعادت اندوز ہوئے۔ یہ حج سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائیں جس سے پورے عرب کے مشرکین تک اطلاع پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا۔*
_____
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۲/ ۴۳۶۔