امن وسیم

محفلین
آپ کی زندگی کا ہر پہلو اسوۂ حسنہ ہے۔۔۔
اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے ہر پہلو کی اتباع کا حکم ہے!!!
آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی شادیاں قابل اتباع نہیں ہیں البتہ بیویوں کے حقوق کے معاملے میں آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے۔

آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے قیصر و کسری کو خطوط کے ذریعے دعوت دی، نہ ماننے پر انہیں اپنے زیر نگیں کرنے کا ارادہ فرمایا۔ یہ خالص پیغمبرانہ عمل تھا جس کی اجازت ہمیں نہیں ہے۔ البتہ ایک حکمران کے طور پر آپ نے جو اسوہ قائم کیا وہ قابل تقلید ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
کس نے کہا کم جاتی ہے؟؟؟
تزکیہ نفس، اصلاح قلب اور اخلاق حمیدہ ۔۔۔اہل اللہ اور ان کے متبعین ان ہی احکامات کی اتباع سے پاتے ہیں!!!
ہمارے معاشرے میں بد امنی، کرپشن، دہشت گردی، چور بازاری، اخلاقی پستی اور اس طرح کی ہزار ہا برائیاں عام ہیں جو کہ ثبوت ہیں کہ ہم اپنے رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے قابل تقلید اسوہ سے بہت دور ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
معجزات اور وحی کا تعلق صرف انبیاء کرام کے ساتھ ہے۔۔۔
لیکن کل بھی اور آج بھی اہل اللہ سے کرامات کا صد ور ہوتا رہا ہے۔۔۔
قرآن اور حدیث اس کا انکار نہیں کرتے۔۔۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام سے خوارق عادات سرزد ہوئی ہیں!!!
لیکن یہ کرامات صرف اہل ٱللَّه کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اس طرح کی کرامات عیسائی، ہندو، سکھ، ہر طرح کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آج بھی یو ٹیوب پہ بے شمار کرامات دیکھی جا سکتی ہیں۔ لہذا ان میں وقت ضائع کرنے کے بجائے قرآن پر غور وفکر کریں جو آپ کو جنت کی طرف لے جائے گا۔
 

امن وسیم

محفلین
پھر اس کے بعد کیا ہوا؟؟؟
افواج محض تیار ہی رہیں یا آگے بھی نکل گئیں؟؟؟
نبی کے بعد تو ان کا آگے نکلنا بنتا نہیں تھا۔۔۔
کیوں کہ یہ الٰہی منصوبہ تو بقول آپ کے محض نبی کی حیات سے مخصوص تھا!!!
جب آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے قیصر و کسری کو خطوط لکھے اور ان کے جواب میں انکار آیا تو ٱللَّهَ کا فیصلہ ہو چکا تھا انہیں عذاب میں مبتلا کرنے کا۔ لہذا آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری آپ کے صحابہ نے ادا کی۔ ( چونکہ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی ایران و روم پر چڑہائی کا فیصلہ فرما چکے تھے اور افواج بھی تیار کر چکے تھے لہذا صحابہ کو معلوم تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے )
 

امن وسیم

محفلین
یہاں جنگ میں آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کے کردار کی بات آگئی جو آپ جناب قابل اتباع احکامات کے تحت لائے ہیں، جبکہ پچھلا مراسلہ اس کے خلاف ہے!!!
کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جنگ نہیں ہو سکتی۔ جنگیں تو ہوئی ہیں۔ کوئی ایک صدی بھی ایسی نہیں گزری کہ مسلمانوں نے جنگیں نہ کی ہوں۔ لہذا جنگوں کے دوران بھی آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھا جائے گا۔

باقی جو چیزیں قابل تقلید نہیں ہیں ان کی مثالیں اوپر آ چکی ہیں
 

سید عمران

محفلین
ناقابل تقلید خصوصیات پیدا ہو ہی نہیں سکتیں۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ وحی کا نزول نبیوں پر ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے انسان پر نہیں چاہے وہ جتنی مرضی ریاضت کر لے۔

قابل تقلید خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں۔ مثلا رحم دلی، وعدہ کی پابندی، امانت داری وغیرہ۔ البتہ یہ خصوصیات اس درجے تک نہیں پہنچ سکتیں جس درجے پر رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم فائز ہیں۔
ہم نے بھی تقریباً یہی بات کہنے کی کوشش کی تھی!!!
 

سید عمران

محفلین
فتح مکہ کے موقع پر مشرکین کیلیے صرف دو ہی آپشنز تھیں۔ یا تو اسلام قبول کریں یا قتل کر دیے جائیں۔ یہ صورت اب قیامت تک نہیں ہو سکتی۔
غلط۔۔۔
اس موقع پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے منہ سے بھی جوش کی وجہ سے یہی نکل گیا تھا۔۔۔
الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الحرمۃ۔۔۔
آج خوں ریزی اور قتل و غارت گری کا دن ہے۔ آج مکہ کی حرمت حلال کردی جائے گی۔۔۔
حضرت ابو سفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کردی کہ سعد کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔
آپ نے فرمایا۔۔۔
نہیں، بلکہ آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی مشرکین کو امن و سلامتی کے متعدد مواقع فراہم کیے۔۔۔
مثلاً جس نے مسجد الحرام میں پناہ لی ا س کو امان ہے، جس نے ابو سفیان کے گھر میں پناہ لی اس کو امان ہے، جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کرلیے اس کو امان ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
پہلی صورت جس میں مشرکین کو مغلوب کیا گیا وہ دراصل ٱللَّه کے عذاب کی ایک صورت تھی مشرکین کیلیے۔ یہ عذاب ٱللَّه نے اپنے رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا۔

دوسری صورت معجزات کی ہے جو کہ رسولوں، نبیوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ابھی آپ ذرا اور تیاری کریں۔۔۔
تبلیغ دین ہر شخص کے ذمہ واجب نہیں۔۔۔
ابھی تو مقام ادب پر ہی قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔۔۔
آپ کے قول کے برعکس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔۔۔
اللہ کے عذاب کی صورت چنگیز خان تو ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔۔۔
عذاب تو جب ہوتا جب آپ مشرکین کو تہس نہس فرمادیتے۔۔۔
حالاں کہ مشرکین میں سے صرف وہی قتل ہوا جو تلوار اٹھا کر مسلمانوں کو قتل کرنے آیا!!!
 

سید عمران

محفلین
جو لوگ تلوار کے ذریعے انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے حق میں رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی زندگی سے مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ کیونکہ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم رسول تھے اور آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے جو کچھ کیا ٱللَّه کی ہدایات کے مطابق کیا۔
پہلے آپ خود سیرت کا بار بار مطالعہ کریں۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھی تلوار کے زور پر اسلام قبول نہیں کروایا۔۔۔
نہ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی کوئی ہدایت کی!!!
 

سید عمران

محفلین
بالعموم کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی قابل تقلید سیرت کا ذکر باقی دو پہلوؤں کی نسبت کم ہوتا ہے۔
آپ اہل اللہ کی مجالس میں بیٹھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان مجالس میں دین کی کیا باتیں ہوتی ہیں۔۔۔
ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر تخیلاتی طور پر علماء اور صلحاء سے ایسی باتیں منسوب نہ کریں!!!
 

م حمزہ

محفلین
جی بالکل تینوں پہلوؤں کا ذکر قرآن میں ہے۔ البتہ ہمیں اسوہ حسنہ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
باقی سب مسلمانوں کیلیے ایسا کوئی طریقہ نہیں دیا گیا انقلاب لانے کا۔ صرف دعوت ہی کا حکم ہے بس۔
سورۃ احزاب میں اسوۃ حسنۃ والی آیت نازل ہوئی ہے ۔ آپ کو چاہئے کہ پہلے اس سورۃ کی تفسیر پڑھ لیں۔ سورۃ کا موضوع اور شانِ نزول پڑھ لیں۔ اسوۃ حسنۃ والی آیت جس رکوع میں ہے اس رکوع کو غور سے پڑھیں۔ آپ کو سمجھ آئے گا کہ اسلام بس زبان سے دعوت دینے کا ہی نام نہیں ہے۔ وہاں قتال کا بھی ذکر ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ میں نہیں کہتا کہ بس قتال ہی قتال کرنا ہے۔ سب سے اولیٰ تو زبان سے دعوت ہی دینا ہے۔ لیکں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ "صرف دعوت ہی کا حکم ہے بس"۔
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی شادیاں قابل اتباع نہیں ہیں البتہ بیویوں کے حقوق کے معاملے میں آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں قابلِ اتباع کیوں نہیں؟ چار شادیاں کرنے کی اجازت مسلمانوں کو ہے۔ اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟
 

م حمزہ

محفلین
آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے قیصر و کسری کو خطوط کے ذریعے دعوت دی، نہ ماننے پر انہیں اپنے زیر نگیں کرنے کا ارادہ فرمایا۔ یہ خالص پیغمبرانہ عمل تھا جس کی اجازت ہمیں نہیں ہے۔ البتہ ایک حکمران کے طور پر آپ نے جو اسوہ قائم کیا وہ قابل تقلید ہے۔
بالکل ۔ یہ پیغمبرانہ عمل تھا، جو نہ صرف قابل عمل اور قابلِ اتباع ہے بلکہ واجبِ تقلید ہے مسلمانوں اور مسلمان حکمران کیلئے۔ پیغمبر تو آتے ہی ہیں اس غرض کیلئے کہ ان کی اتباع اور اور اطاعت کی جائے۔
 

سید عمران

محفلین
جب آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے قیصر و کسری کو خطوط لکھے اور ان کے جواب میں انکار آیا تو ٱللَّهَ کا فیصلہ ہو چکا تھا انہیں عذاب میں مبتلا کرنے کا۔ لہذا آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری آپ کے صحابہ نے ادا کی۔ ( چونکہ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی ایران و روم پر چڑہائی کا فیصلہ فرما چکے تھے اور افواج بھی تیار کر چکے تھے لہذا صحابہ کو معلوم تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے )
یعنی ایران اور روم کے علاوہ صحابہ کرام نے جو فتوحات حاصل کیں وہ سب غلط تھیں؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
یہ بات یاد رہے کہ میں نہیں کہتا کہ بس قتال ہی قتال کرنا ہے۔ سب سے اولیٰ تو زبان سے دعوت ہی دینا ہے۔ لیکں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ "صرف دعوت ہی کا حکم ہے بس"۔
چوں کہ زمین و آسمان سب اللہ کی مخلوق ہیں لہٰذا ان پر حکم بھی ان ہی کا چلنا چاہیے۔۔۔
باقی مخلوقات تو بلا چوں و چرا حکم خداوندی پر عمل پیرا رہتی ہیں۔۔۔
البتہ حضرت انسان کا معاملہ مختلف ہے۔۔۔
اس میں خدا نے امتحاناً اپنے حکم سے سرکشی کا مادہ رکھ دیا تو وہ اسے بلاخوف استعمال بھی کرنے لگا۔۔۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد کرو یہاں تک کہ سارے عالم میں حکم صرف خدا ہی کا نافذ ہوجائے۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تمام مسلمان اس حکم پر عمل کرتے ہیں۔۔۔
قتل و غارت گری کرنا یا ملک پر قبضہ کرنا ان کا مقصود ہی نہیں۔۔۔
بقول اقبال۔۔۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یہاں شہادت درجہ ثانوی میں ہے، اصل مقصود صرف اللہ کے حکم کی بالا دستی ہے۔۔۔
اسی لیے پہلے اللہ کے دین کی تبلیغ کی جاتی ہے کہ اسلام لے آؤ، اپنی سلطنت پر اللہ کا حکم نافذ کردو، ہم تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے۔۔۔
اگر خدا کے احکامات کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے تم نے تلوار اٹھائی تب مجبورا ً ہمیں اٹھانی پڑے گی!!!
 

سید عمران

محفلین
لیکن یہ کرامات صرف اہل ٱللَّه کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اس طرح کی کرامات عیسائی، ہندو، سکھ، ہر طرح کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آج بھی یو ٹیوب پہ بے شمار کرامات دیکھی جا سکتی ہیں۔ لہذا ان میں وقت ضائع کرنے کے بجائے قرآن پر غور وفکر کریں جو آپ کو جنت کی طرف لے جائے گا۔
یا تو آپ اہل اللہ کی کرامات کے قائل نہیں تھے یا غیر مسلموں کے بھی ہوگئے۔۔۔
ویسے کرامات اور کسب کے ذریعہ انسان میں موجود طاقت کا اظہار بالکل مختلف صورتیں ہیں۔۔۔
اور کرامت کا اظہار اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس میں بندے کی طاقت کا کچھ حصہ نہیں، لہٰذا کوئی اللہ والا اس کے لیے وقت صرف نہیں کرتا۔۔۔
ان کی توجہ اللہ ہی کی طرف ہوتی ہے!!!
 
آخری تدوین:
Top